HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

نشوز اور اس کا علاج

مردوں کی سربراہی کے تقاضے بیان ہوچکنے کے بعداب اُن عورتوں کامعاملہ زیربحث آیا ہے جوسربراہی کے اِن تقاضوں کوپورانہ کرتی ہوں اوران کے رویوں میں اس قدربگاڑآچکاہوکہ خاندان کی اس چھوٹی سی ریاست میں بغاوت پھوٹ پڑنے کااندیشہ واضح طورپرمحسوس ہوتا ہو۔ فرمایا ہے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا. (النساء ۴: ۳۴)
’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کااندیشہ ہو، انھیں نصیحت کرواوران کے بستروں پرانھیں تنہا چھوڑ دو اور انھیں سزا دو۔ پھراگروہ تمھاری اطاعت کارویہ اختیار کر لیں توان پرالزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔بے شک،اللہ بہت بلند ہے، وہ بہت بڑا ہے۔‘‘

یہاں شروع کلام میں، یعنی ’وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ‘ میں دوالفاظ خصوصاًقابل غور ہیں: پہلا لفظ ’نُشُوْز‘ کا اور دوسرا ’تَخَافُوْنَ‘ کا۔ ’نُشُوْز‘ کے بارے میں معلوم ہے کہ اس سے عورت کی ہرطبعی وذوقی حکم عدولی مرادنہیں ہوتی، بلکہ اس سے مرادوہ نافرمانیاں ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجے میں مردکی سربراہی بذات خودزیربحث آجاتی ، حتیٰ کہ اس کے ختم ہونے کا امکان بھی پیداہوجاتا ہے۔۱؂ لہٰذا، بات بات پر جھگڑا اُٹھانے اورپھر اسی بنیادپرعورت کااستحصال کرنے والوں سے یہ آیت متعلق ہے اورنہ اس میں ان کی موافقت کے لیے کچھ سامان ہی موجودہے۔ دوسرا لفظ ’تَخَافُوْنَ‘ کا ہے۔ یہ بتاتاہے کہ عورت کی اس سرکشی کے عملاً واقع ہوجانے اوراس کے نتیجے میں سب کچھ تلپٹ ہو جانے کامرد انتظار نہ کرے ، بلکہ جب عورت کے رویے میں سرکشی کی علامتیں اور بغاوت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوں، اسی وقت سے وہ توجہ دے اور اس سے نمٹنے کے لیے آیت زیربحث میں بیان کردہ تدابیرکواختیار کرے۔ یہ تدابیر جوتین کی تعداد میں بتائی گئی ہیں، ذیل میں ہم ان کابیان ذرا تفصیل سے کرتے ہیں:

پہلی تدبیر

ہراُلجھے ہوئے معاملے کوسلجھانے کی ابتداچونکہ افہام وتفہیم سے ہوتی ہے ،اس لیے نشوزکے حل کے لیے بھی پہلی اصلاح یہی تجویز ہوئی۔ ارشاد ہوا ہے: ’وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ‘ (جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں نصیحت کرو)۔ نصیحت کے لیے یہاں ’وَعْظ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ عربی زبان میں ایسی نصیحت کے لیے آتا ہے جس میں محض سمجھا دینا ہی نہیں، بلکہ اس میں معاملے کی سنگینی اور اس کے برے انجام کی آگہی دے دینا بھی پیش نظر ہوتا ہے۔۲؂ اس اعتبارسے دیکھا جائے تواس لفظ کے مفہوم میں ایک طرح کی تنبیہ اورزجرکاعنصربھی شامل ہے۔ سو ’فَعِظُوْہُنَّ‘ کے الفاظ مردکو تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عورت کی سرکشی پر اس کوتنبیہ کرے، اسے معاملے کی نوعیت اور اس کے نتائج سے خبردارکرے اوراگر کچھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرنی پڑ جائے تووہ بھی ضرور کرے کہ ایساکرنا دراصل، ’فَعِظُوْہُنَّ‘ کی ہدایت ہی پرعمل کرناہوگا۔

دوسری تدبیر

فَعِظُوْہُنَّ‘ کی تدبیرپرمردنے خوب عمل کیااورعورت کواچھی خاصی نصیحت کی،مگرحاصل اس سے کچھ بھی نہ ہوا اور عورت کاسابقہ رویہ اسی طرح برقراررہا تواب یہ ہدایت ہوئی کہ وہ دوسری تدبیرپر عمل کرے۔ ’وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ‘، یعنی اسے اس کے بستر پر تنہا چھوڑ دے۔ بستر پرتنہائی اصل میں ہم بستری نہ کرنے سے کنایہ ہے، اس لیے کہ محض بسترپرتنہاچھوڑ دینا،حکم کا منشاہے اورنہ اس کا کچھ فائدہ ہے۔تاہم یہ بات واضح رہے کہ مردکوجنسی لاتعلقی کی یہ ہدایت اس لیے نہیں دی گئی کہ وہ عورت کوزچ کرے یااسے کسی اذیت میں مبتلاکردے،بلکہ اس سے مقصود درحقیقت یہ ہے کہ عورت سے ناراضی کااظہارکیاجائے اوراس کی سرکشی کوسہارادینے میں جواس کی سب سے زیادہ قابل اعتماد شے ہوسکتی ہے،اس کوایک طرح سے زک پہنچائی جائے۔یہ معلوم سچائی ہے کہ مردکے مقابل میں عورت کاسب سے مجرب نسخہ اورسب سے کارگرہتھیار،ہم بستری کی یہ حالت ہی ہے۔یہ اسی کے برتے پرمرد کو تگنی کاناچ نچادے سکتی ،اسے آغوش سے اٹھاکر اپنے قدموں میں گرادے سکتی اور حدیث کے الفاظ میں اچھے خاصے داناوبیناکی عقل کوبھی ماؤف کرکے رکھ دے سکتی ہے۔ ۳؂ ’وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ‘ کی ہدایت اس کے اسی غرورپرایک طرح کی چوٹ ہے جواسے یہ بات بھی باور کرادیتی ہے کہ اس کامرداس معاملے میں کس قدرسنجیدہ ہے اور اس کی ہر عشوہ گری کی پروا کیے بغیر کس آخری حدتک وہ جاسکتاہے۔

تیسری تدبیر

اگرکسی کی عورت ہٹ کی پکّی ہے اوراُس کی طبیعت ایسی ہے کہ سمجھانے کاکچھ اثرلیتی ہے اور نہ خلوتوں میں تنہارہ جانے پرکسی طرح پسیجتی ہے توایسی صورت حال میں بھی خاندان کے ادارے کو قائم رکھنا اس قدرپیش نظرہے کہ قرآن نے تیسری تدبیرکے طورپراسے سزاتک دینے کی ہدایت کردی ہے۔فرمایاہے: ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘، یعنی مرد اپنی عورت کو سزا دے ۔ سزاکی تعیین میں اصل حیثیت معلوم ہی ہے کہ سزاکے حکم کے مخاطب اوراس کے مقصد کوحاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر باپ اورتھانیدارکوجب حق ضرب دیاجائے گاتویہ آپ سے آپ متعین ہوجائے گاکہ باپ نے محض گوشمالی کرنی ہے اورتھانیدارنے خوب پٹائی کرنی ہے۔ چنانچہ ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ میں جس سزا کا ذکر ہے، وہ کسی قسم کا تشدد نہیں، اس لیے کہ سزاکی یہ ہدایت شوہرکو ہورہی ہے نہ کہ کسی ظالم جلادکو، اور عورت کے نشوزکی علامتیں ختم کرنے کے لیے ہورہی ہے نہ کہ خوداسے ختم کردینے کو۔

مردکوبحیثیت سربراہ کیاسزادینے کاحق ہے بھی؟ اس بات پرکچھ عرصہ پہلے تک علما اور غیر علما، دونوں کوکوئی خاص اعتراض نہ تھا،مگرآج بہت سے حضرات اس سے انتہائی متوحش ہیں اوراس کو کسی بھی طرح مان کر دینے کوتیارنہیں ہیں۔ چنانچہ وہ اس حکم میں طرح طرح کی تاویلات پیدا کرتے اوراس پرنت نئے اعتراضات اٹھاتے رہتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان کی تاویلات اوران کے اعتراضات اوران کی اصل حقیقت کا مختصراًجائزہ لیتے ہیں:

۱۔ کچھ صاحبان کاخیال ہے کہ ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ اصل میں کسی سزااورمارکابیان ہے ہی نہیں۔یہ تو عربی زبان کے ایک محاورے ،یعنی ضرب مثل کابیان ہے کہ جس کامطلب کسی بات کومثالوں کے ذریعے سے سمجھاناہوتاہے۔لہٰذا جو علمااس لفظ سے عورت کوسزادینے کاجوازثابت کرتے ہیں، وہ درحقیقت عربی زبان سے اپنی ناواقفیت کاثبوت فراہم کرتے اورقرآن کی منشاکے بالکل خلاف ایک عمل کرتے ہیں۔

اس تاویل پرذیل کے چندسوالات پیداہوتے ہیں:

پہلا یہ کہ ضرب مثل توواقعتاعربی زبان کامحاورہ ہے اوراس کامعنی بھی مثال بیان کرناہی ہے ، مگر ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ میں بھی ’ضَرْب‘ کا لفظ اسی معنی میں آیاہے ،اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟اس لیے کہ عربی زبان میں اورخودقرآن مجید میں بھی اس محاورے کااستعمال بتاتاہے کہ جب یہ مثالیں بیان کرنے کے معنی میں آئے توہمیشہ اپنے فعل کے لیے ایک مفعول اوراپنے متعلق کے لیے ایک صلے کاتقاضاکرتاہے۔مثال کے طور پر سورۂ کہف میں یہ اس طرح آیا ہے: ’وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً‘،۴؂ یعنی آپ ان کے لیے ایک مثال بیان کیجیے۔ ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ میں بھی جوحضرات اس کو اسی معنی میں لیناچاہیں، انھیں دوسوالوں کاجواب ضرور دینا ہوگا:ایک اس سوال کا کہ ’اِضْرِبُوْا‘ کا مفعول، یعنی ’مَثَلاً‘ یا پھر ’الأمثال‘، وہ کہاں ہے ؟ دوسرایہ کہ ’اِضْرِبُوْا‘ کے متعلق، یعنی ’ھُنَّ‘ کے ساتھ ’ل‘ کا صلہ کیوں نہیں ہے؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر معنی یہی ہے کہ ان عورتوں کومثالوں سے سمجھاؤ تو پھر ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ کے بجاے یہاں ’واضربوا لھن الامثال‘ کے الفاظ کیوں نہیں ہیں؟

ہو سکتاہے کہ ’اِضْرِبُوْا‘ کے مفعول کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ اس کامفعول یہاں ہے تو سہی، مگر وہ لکھنے میں حذف ہو گیا ہے، تو اس پر دوسرا سوال یہ ہوگاکہ وہ کون ساقرینہ ہے جو اس حذف پر آپ کی رہنمائی کررہاہے؟کیونکہ یہاں تومعاملہ یہ ہے کہ اس طرح کاکوئی قرینہ موجودہوناتودور کی بات،الٹا یہاں دوعدد قرینے اس بات کے پائے جاتے ہیں کہ یہاں امثال جیساکوئی مفعول ، کسی بھی صورت میں محذوف نہیں ہے: پہلا یہ کہ نصیحت کے عمل میں مثالوں سے بات کوسمجھانا شامل ہے،اس لیے ’فَعِظُوْہُنَّ‘ کے بعدپھراس کابیان کر دینا بہرحال ایک حشوہے اور قرآن کی شان سے یہ انتہائی فروتر ہے۔دوسرایہ کہ نشوزکے حل کے لیے تجویزکردہ ان تینوں تدابیرمیں ایک ترتیب ہے جو اگر غور کیا جائے تو نرمی سے سختی کی طرف ہے، اس لیے نصیحت کرنے اور ہم بستری تک سے علیحدہ ہوجانے کے بعداب اس سے سخت ترکسی عمل کی ہدایت توہوسکتی ہے ،مگرپھرواپس نصیحت پرلوٹ آنے کا یہاں کوئی موقع نہیں ہے۔

۲۔کچھ حضرات کے ہاں ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ کا معنی توسزادیناہی ہے ،مگراس کاحق مردکونہیں ،بلکہ جماعت کو یا دوسرے لفظوں میں،ملک کی عدالتوں کوحاصل ہے۔اس کی پہلی دلیل ان کے پاس یہ ہے کہ ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ میں مردوزن ،دونوں کاذکرغیب کے اسلوب میں ہوا ،مگر اس کے بعد ’وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ‘ میں براہ راست معاشرے کوخطاب کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ کی ہدایت بھی اصل میں معاشرے ہی سے متعلق ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں ’وَاِنْ خِفْتُمْ‘ کے جوالفاظ ہیں ،کم وبیش سب علماکے ہاں ان کے ذریعے سے میاں بیوی کونہیں ، بلکہ معاشرے کی اجتماعیت ہی کوخطاب کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس بنیادپربھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سزا دینے کایہ حکم معاشرے ہی سے متعلق ہے۔۵؂

ان حضرات کی پہلی بات کے جواب میں عرض ہے کہ ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ میں مردوزن کا ذکر غیب کے اسلوب میں کرنے کے بعد ’وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ‘ میں مردوں سے جوبراہ راست خطاب ہوگیاہے تواس کے دو وجوہ ہیں :ایک یہ کہ اگرایسانہ ہوتاتوعبارت یوں ہوتی: ’والٰتی یخافون نشوزھن فلیعظوھن ولیھجروھن فی المضاجع ولیضربوھن‘۔ اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی سلاست اس قدرثقل اورسکتوں کی متحمل ہونہیں سکتی تھی، اس لیے اس متوقع اسلوب کولازماًبدلناہی تھا۔دوسرایہ کہ ’وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ‘ سے پہلے تک مردکی قوامیت ،اس کے دلائل اور اس کے تقاضوں کابیان ہورہاتھااوراپنے اندرتعلیم کاپہلورکھنے کی وجہ سے ان کاغیب کے اسلوب میں آناہی زیادہ موزوں تھا، اس کے بعدجب بات تعلیم سے آگے بڑھ کر کچھ کچھ نزاعی ہوگئی کہ جس میں مردکوکچھ تدبیریں تجویزہونی ہیں توضروری تھا کہ اب اسلوب کوبدل دیاجاتا۔

ان کی دوسری بات کے جواب میں عرض ہے کہ قرآن مجیدکاہرطالب علم جانتاہے کہ یہ اپنے انداز بیان میں خطبے کی صنف سے زیادہ مشابہ ہے، اس لیے اس میں جس طرح خطاب کی نوعیت بدلتی ہے،اسی طرح مخاطب بھی باربار بدلتا ہے۔مزیدیہ کہ کس جگہ کس سے خطاب کیاگیاہے ،اس کی واحددلیل اس کلام کاسیاق اورخود خطاب کی نوعیت ہی ہوتی ہے۔مثال کے طورپراس آیت میں: ’وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْْتُمُوْہُنَّ شَیْْءًا اِلاّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ‘۔۶؂ اس میں ہرکسی کے لیے یہ واضح ہے کہ ’وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ‘ اور اس کے بعد ’فَاِنْ خِفْتُمْ‘ کے الفاظ، اپنی ظاہری مشابہت کے باوجود،بالترتیب شوہر اور معاشرے ہی سے خطاب کررہے ہیں۔ ’فَاِنْ خِفْتُمْ‘ میں معاشرے سے خطاب ہے ، اس لیے کہ یہاں سے قانونی اور عدالتی کارروائی کابیان ہورہا ہے اور ’وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ‘ میں شوہروں سے خطاب ہے، اس لیے کہ مال بیویوں کو وہی دیاکرتے ہیں۔بالکل اسی طرح زیر بحث آیت میں بھی اگرسیاق اور نوعیت خطاب، دونوں پر نظر رہے تو بآسانی معلوم ہوجاتاہے کہ ’وَاِنْ خِفْتُمْ‘ کے الفاظ میں جب یہ حکم دیاگیا کہ میاں بیوی کے خاندان میں سے ایک ایک حَکم مقررکیاجائے تو اس حکم کی نوعیت ہی نے واضح کردیاکہ یہ الفاظ معاشرے ہی کو خطاب کررہے ہیں۔ لیکن ’فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ کی ایک ہی تسلسل میں بیان ہوئی ہدایات میں جب ہم بستری نہ کرنے کی ہدایت بھی ہوئی تواس کی بھی نوعیت ہی نے واضح کردیاکہ یہ تینوں ہدایات بہرحال شوہروں ہی سے متعلق ہیں ۔خطاب کی نوعیت کایہ وضوح ہی ہے کہ بعض لوگوں کومذکورہ راے میں تغیرکرتے ہوئے یہ موقف اپناناپڑاہے کہ نصیحت کرنے اور ہم بستری نہ کرنے کی ہدایات شوہرہی کو دی گئی ہیں ،البتہ سزادینے کی ہدایت صرف اورصرف اولی الامر کو ہے، دراں حالیکہ ایک ہی سیاق اور ایک ہی رو میں کہی ہوئی باتوں میں اس طرح کی تفریق کرنااس وقت ہی ممکن ہوسکتاہے، جب قرآن مجیدکو ایک فصیح اوربلیغ کلام کے بجاے چیستاں قسم کی کوئی چیزسمجھ لیاجائے ۔

۳۔تیسرااعتراض یہ ہے کہ عورت ذات کومارنا،دراصل اس پرظلم توڑنے کی ایک قدیم مردانہ روایت تھی جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ماضی کاحصہ بن چکی ہے اور کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور کرلینابھی اب محال ہے۔ اورپھریہ کہ عورت نکاح میں باقاعدہ فریق معاملہ ہے ، اس لیے دوسرے فریق کایہ حق توہے کہ وہ گفت و شنید سے بگڑے ہوئے مسائل کوحل کرے،مگر اسے یہ حق بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ مارپیٹ کرنے اور تشدد کرنے پر اتر آئے۔

اس کے جواب میں دوباتیں ملحوظ رہنی چاہییں:پہلی یہ کہ مردکوحق ضرب دینا،یہ عورت پرکسی قسم کاظلم ہے اورنہ قرآن مجیدہی کایہ منشاہے کہ کسی ذی روح پر،بالخصوص عورت کی ذات پر،ظلم روارکھا جائے۔دوسرے یہ کہ سزادینے کی اس تدبیرپرعمل کرنے میں جن دشواریوں کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ سب آیت کامدعاصحیح طورپرنہ سمجھنے سے پیداہوئی ہیں۔ہماری ان باتوں کی تفصیل یہ ہے:

اولاً،جیساکہ ہم نے اوپربیان کیاکہ خاندان کاادارہ اپنی حقیقت میں ایک ریاست سے مشابہ ہے اورریاست کے بارے میں ہم سب مانتے ہیں کہ اگراس میں بغاوت ہوجائے تواس کو فرو کرنے کے لیے وہ اپنے شہریوں کوسزا دینے کاپوراپوراحق رکھتی ہے اوراس حق کو، ظاہر ہے وہ اپنے سربراہ کے ذریعے ہی سے استعمال کرتی ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ اگر خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بھی نشوزوبغاوت کی حالت پیداہوجائے اورشوہرکوبحیثیت سربراہ تادیب کایہ حق دے دیاجائے تواس میں آخرظلم کیاہے؟

ثانیاً،عورت جب اپنے آپ کوایک مسلمان مردکے عقد میں دیتی ہے تووہ یہ فیصلہ اس شعورکے ساتھ کرتی ہے کہ اس کے شوہرکوبصورت نشوزاس کوسزادینے کا حق حاصل ہے۔چنانچہ بعداز نکاح اس پراعتراض کرنا یاکسی دوسرے کااس پرچیں بجبیں ہونا،اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ثالثاً،یہ ماربھی، جیساکہ اوپرگزرا،ایک ہلکی مار ہے اوراسی سزاکی مثل ہے جواستاد اپنے شاگردکو اورایک باپ اپنی اولاد کو دیا کرتا ہے، اس لیے اس پر اتنا متوحش ہوجاناکہ اس کوظلم کی صورت قرار دے دینا،ویسے بھی بہت عجیب ہے۔

رابعاً،مردکودیاجانے والایہ حق ضرب ،بیان کردہ تدابیرمیں ترتیب کے لحاظ سے آخری جگہ پر ہے، اس لیے بہت سی صورتوں میں تواس مارکی نوبت ہی نہ آئے گی اور نصیحت کرنے اور خلاملاکے ترک کردینے ہی سے بگڑی ہوئی بات بن جائے گی۔چنانچہ اسی سزاکی بات کولے اڑنا ،اس پر واویلا کرنا اوراسے ظلم کی داستان تک کہہ ڈالنابہرحال ایک طرح کاتجاوزیاپھرتجاہل ہی ہے۔

خامساً، ’وَاضْرِبُوْہُنَّ‘ کی ہدایت سے اصل مقصودسزادیناہے ہی نہیں ،بلکہ عورت کے نشوز کی اصلاح کرنا ہے۔ سو کسی عورت کے احوال اگریہ بتادیں کہ اس کی اصلاح اس کے پٹنے ہی پر موقوف ہے کہ ہرانسان ایک سی طبیعت رکھتاہے اورنہ کسی بات کااثر قبول کرنے میں ایک جیسے رویوں کااظہار کرتاہے، تو حصول مقصدکے لیے اس تدبیر پر عمل کرلینے میں آخرکون سی رکاوٹ ہے؟بالخصوص اس وقت کہ جب بہت سے معاشرے آج بھی اس بات کے گواہ ہوں کہ وہاں یہ تدبیربڑی حدتک کارگر رہتی اور مطلوبہ نتائج کو بحسن وخوبی فراہم کرتی ہے۔

سادساً،جوحضرات عورت کوسزادینے پراس لیے معترض ہیں کہ کئی عورتیں اس سے مزید بگڑ جاتی اورکئی معاشروں میں ریاستی قوانین کی وجہ سے اس پرعمل کرناہی ناممکن ہوتاہے، توان اہل علم کے سامنے ایک بات ضرورواضح رہنی چاہیے، وہ یہ کہ زیربحث آیات میں صرف مردوں کی قوامیت کا بیان ،درحقیقت شریعت کابیان ہے۔اس کے بعد جوتدبیریں تجویزکی گئی ہیں، وہ بذات خودکوئی شرعی قانون نہیں،بلکہ اس پرعمل کرنے کا طریقہ ،یعنی پروسیجرل لا (Procedural Law) ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ مردعورتوں کے سربراہ ہیں،یہ بات شریعت ہے اور اس پر عمل کرنا انتہائی ضروری بھی ہے، مگر اس سربراہی کے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے اورخاندان کوبچانے کی سب تدبیریں،اپنی حقیقت میں شریعت نہیں ہیں،اس لیے ان کو اختیار کرنایاحسب حال اختیار کرنا، سو فیصدہماری صواب دید پر منحصر ہے۔چنانچہ جو عورت مارکھاکرمزیدخراب ہوتی ہویا پھر جن معاشروں کا رواج اس مارکی اجازت نہ دیتا ہو، وہاں یہ بالکل بھی ضروری نہیں ہے کہ سزاکی اس تدبیر پرعمل کیا جائے، بلکہ نشوز کی اصلاح کے جو طریقے عورت اور معاشرے کے مناسب حال معلوم ہوں اورشریعت کی روشنی میں صحیح قرارپاتے ہوں ،وہاں انھی پر عمل کیا جانا چاہیے۔ مزیدیہ کہ اس معاملے میں قانون سازی کرنے، حتیٰ کہ سزاکی یہ تدبیرشوہرکے ہاتھ سے لے کرعدالت کو دے دینے کی بھی اگر ضرورت محسوس ہوتی ہوتواصلاح احوال کے لیے یہ سب بھی کرلیناچاہیے۔

رشتۂ نکاح کوبچانے کی اجتماعی تدبیر

شوہراپنی عورتوں کونصیحت کریں،انھیں بستروں پر تنہا چھوڑ دیں یا پھر ان کی تادیب کریں، ان تینوں صورتوں کے دوران میں جس وقت بھی وہ آمادۂ اصلاح ہو جائیں تواب شوہروں کوحکم ہے کہ ’فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً‘، یعنی عورتیں اگرتمھاری اطاعت کا رویہ اختیارکرلیں تو اب ان پرکسی الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔اس کے بعد ’اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا‘ کے الفاظ ہیں جن میں مردوں کے لیے بڑی پرزورتنبیہ بھی ہے اورایک طرح کی ترغیب بھی۔مطلب یہ ہے کہ عورتیں اگرنشوزکوترک کردیں تومردوں کوان کے سابقہ رویے کی بناپریاپھراپنی سربراہی کے زعم میں ان پرکسی قسم کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے، وگرنہ وہ یہ بات یادرکھیں کہ ان کی محدود درجے کی اس سربراہی کی کیاحیثیت ہے،اللہ توان سمیت ،سب سے بلنداوربہت بڑی ذات ہے ۔ مزید یہ کہ وہ اس درجہ عظمت کے باوجود اپنے بندوں کی سرکشی سے درگذر کرتا اوران کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، اس لیے انھیں بھی چاہیے کہ وہ بھی عفوودرگذرکارویہ ہی اختیارکریں ۔

لیکن اگرصورت حال یہ ہوکہ زیربحث یہ تینوں تدبیریں مسئلے کونہ سلجھا سکیں اورعورت کانشوز اسی طرح برقرار رہے تواب شوہرکایہ حق نہیں کہ وہ ان سے آگے بڑھ کرکوئی اقدام کرے اورنہ عورت ہی پریہ لازم ہے کہ وہ اس کے ساتھ چمٹ کررہ جائے۔تاہم خاندان کاادارہ چونکہ انسانی معاشرے کی اساس ہے اور خدابھی یہی چاہتاہے کہ جب ایک مرتبہ اس کو قائم کرلیاجائے توحتی الامکان اسے ختم کرنے سے گریزکیا جائے، اس لیے آخری کوشش کے طور پر اب اس نے معاشرے کی اجتماعیت کو حکم دیا ہے کہ وہ آگے بڑھ کرمعاملات کو درست کریں، کیونکہ نزاعی صورتوں میں معاملہ کے براہ راست فریق بسا اوقات بے جا خودداری اور نارواقسم کی ضدمیں مبتلاہوجاتے اوراپنی بات سے ذرا بھر پیچھے ہٹ جانے کوتیارنہیں ہوتے ۔ایسے وقت میں اگر دوسرے لوگ، جو بالخصوص ان کے ہمدرد بھی ہوں،شریک معاملہ ہو جائیں تو فریقین میں مصالحت ہوجانے کاایک واضح امکان پیدا ہوجاتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے: ’وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا‘ * ، یعنی اگرتم لوگ میاں اور بیوی کے درمیان میں افتراق کا اندیشہ محسوس کرو تو ایک حَکم مرد کے لوگوں میں سے اور ایک عورت کے لوگوں میں سے مقرر کر دو۔

رشتۂ نکاح کوبچانے کی اس آخری تدبیرمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ میاں اوربیوی ، دونوں کے خاندان میں سے ایک ایک شخص کومقررکیاجائے۔یہ اس لیے کہ خاندان کے لوگ ہی ان کے حقیقی ہمدرداورخیرخواہ، ان کے گھریلو حالات سے صحیح طورپرواقف اوران دونوں پر اپنے تعلق کی بناپر ذاتی اثر ورسوخ رکھتے ہوں گے اورتجربہ بتاتاہے کہ اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں جومصالحتی عمل کو انگیزکردیتی اوربالعموم،اسے نتیجہ خیز بنا دیا کرتی ہیں۔

ان اشخاص کے لیے قرآن مجیدنے جو ’حَکَم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ،اس سے بعض حضرات کوایک اشکال پیش آ گیا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ مصالحت کایہ عمل شایدایک عدالتی کارروائی ہے اور ’حَکمین‘ کی حیثیت ہر طرح کا فیصلہ کر دینے والے ایک قاضی کی سی ہے، حتیٰ کہ وہ فریقین میں اگر علیحدگی کا فیصلہ بھی سنادیں توایساکرنے کاانھیں حق حاصل ہے، دراں حالیکہ صرف ’حَکَم‘ کے لفظ سے یہ ساری بات اخذکرلینا،کسی بھی صورت صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس لفظ سے مرادمحض فیصلہ کرنے والے ہیں،قطع نظراس سے کہ وہ فیصلہ عدالت میں ہورہاہے یامصالحتی کمیٹی میں، یا پھر کسی پنچایت میں۔ یہاں اس سے مرادعدالت اورعدالتی فیصلہ کے بجاے پنچایت اورپنچایتی قسم کافیصلہ ہی ہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ اول تو حَکمین چونکہ مردوعورت کے خاندان میں سے ہوں گے ،اس لیے ظاہرہے کہ معاشرے کے ہرمرد وعورت کا خاندان نہ عدالت ہے اورنہ عدالتی اختیارات ہی رکھتاہے۔دوم یہ کہ ’وَاِنْ خِفْتُمْ‘ میں معاشرے کی اجتماعیت سے،جو منظم ہوجائے توباقاعدہ ریاست اورپھرعدالت کی صورت میں ظاہرہوتی ہے، خطاب کیاگیاہے اورانھیں یہ ہدایت ہوئی ہے کہ وہ حَکم مقرر کر دیں۔ چنانچہ جنھیں ریاست یاپھرعدالت مقررکررہی ہو، وہ بہرحال خود عدالت نہیں ہیں۔ تاہم یہاں یہ ضرورکہاجاسکتاہے کہ اگرعدالت ہی کسی کو حَکم مقرر کردے اور اسے اپنے اختیارات بھی سونپ دے توایسا ہو جانے میں آخرکیامانع ہے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ اس اِمکان کومان لینے میں کوئی مانع نہیں ہے ،مگر ضروری ہے کہ زیربحث آیات میں اس کی کوئی دلیل بھی پائی جاتی ہو، حالاں کہ یہاں اس کے برخلاف یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے پاس اس طرح کاکوئی اختیار نہیں رکھتے اور ان کی حیثیت صرف اورصرف مصالحت کے عمل کونتیجہ خیزبنانے والے عاملین کی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں ’اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا‘ کے الفاظ آئے ہیں جن کے ذریعے سے صلح کا ذکر تو کیا گیا ہے ،مگرتفریق کایہاں اشارہ تک نہیں ہے۔ اور یہی بات قرین قیاس بھی ہے ، اس لیے کہ علیحدگی کا فیصلہ اوراس کاحق شوہر یابعض صورتوں میں عدالت کوتو حاصل ہے،ان کے سواکسی اور کواس بات کا حق بالکل بھی نہیں ہے۔

اس تدبیر کو بیان کردینے کے بعد ’اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا‘ کے الفاظ میں فرمایاہے کہ اگر دونوں اصلاح چاہیں گے تواللہ ان کے درمیان موافقت پیداکردے گا۔ان ’’دونوں‘‘سے بعض لوگوں نے حَکمین کومرادلیاہے اوربعض نے خودمیاں اوربیوی کو، حالاں کہ حَکمین کااس معاملہ میں دخل دینا ہے ہی اصلاح کارکے لیے،اس لیے ان کواس مقصدکے لیے مقررکردینے کے بعدپھران کے لیے یہ الفاظ لانا،موقع سے کچھ زیادہ مناسب نہیں ہے، البتہ ان کے تقررکے بعدمیاں اوربیوی کے بارے میں یہ الفاظ لانا،عین تقاضاے کلام ہے کہ معاملے کے اصل فریق یہی دونوں ہیں اور صلح کاواقع ہوجانا،اصل میں انھی کے ارادے اورنیتوں پر منحصر ہے۔ چنانچہ ’اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا‘ کے الفاظ میں میاں اور بیوی کو ابھاراہے کہ اصلاح احوال کے اس آخری موقع کو وہ اپنے لیے غنیمت جانیں اورآپس کے اختلافات کوبھلاکرمعاملات کوسدھارنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد ’یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا‘ میں فرمایا ہے کہ اگر وہ افتراق سے بچنے کے لیے اصلاح کانیک ارادہ کرلیں گے تواللہ کی عنایت خاص بھی ان کے شامل حال ہوجائے گی اوراس وقت جو اختلاف رونماہوگیاہے ،وہ بتوفیق ایزدی پھرسے موافقت میں بدل جائے گا۔

آخر میں ’اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا‘ کے الفاظ ہیں جو ہرذات،ہربات ،حتیٰ کہ ہر خیال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علیم اورخبیرہونے کابیان کررہے ہیں۔اس لحاظ سے یہ الفاظ اصلاح کے عمل میں شریک ہونے والے ہر شخص پربڑازبردست قسم کاپہرابٹھادیتے ہیں تاکہ وہ سب اس شعور اور اس سوچ کے ساتھ اس نیک کام کوانجام دیں کہ ان کی کوئی حرکت اورکوئی نیت ،اُس علیم وخبیر خدا سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

_______

۱؂ ’نُشُوْز‘ کی اصل، اِرتفاع اوربلندی ہے اورمردکے مقابل میں عورت کی سرکشی کے لیے اس کا استعمال عربی زبان میں حد درجہ معروف ہے۔حوالے کے لیے ’’لسان العرب‘‘ اور ’’مختارالصحاح‘‘ کی مراجعت کی جاسکتی ہے۔

۲؂ یہی وجہ ہے کہ اہل لغت اس کامعنی بتاتے ہوئے ’النصح‘ کے ساتھ ،بالعموم ’التذکیر بالعواقب‘ کے الفاظ بھی لاتے ہیں۔ مثال کے طوپر ابن منظور ’’لسان العرب‘‘ میں ۔

۳؂ مسلم، رقم ۲۵۰۔

۴؂ ۱۸: ۳۲۔ سورۂ کہف ہی کی آیت ۴۵ میں اور یٰسٓ (۳۶) کی آیت ۱۳ میں بھی یہ اسی طرح آیا ہے۔

۵؂ دراں حالیکہ اس بات میں کیافرق ہے کہ نشوز کی سزا شوہر دے یا پھرکسی ملک کی عدالت۔ ہر دو صورت میں عورت کو سزا دینے کی بات تو مان ہی لیناپڑتی ہے۔

۶؂ البقرہ۲: ۲۲۹۔ ’’اور تمھارے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیا ہے، اس میں سے کچھ واپس لو، مگر اس صورت میں کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ پس اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو ان پر اس چیز کے باب میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے۔‘‘

* النساء ۴: ۳۵۔

____________

B