HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یونس ۱۰: ۲۸- ۳۶ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْ فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَکَآؤُھُمْ مَّا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ{۲۸} فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنَناَ وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ{۲۹} ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْا یَفْتَرُوْنَ{۳۰}
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ{۳۱} فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ{۳۲}کَذٰلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوْٓا اَنَّھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۳۳}
قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ{۳۴} قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَھِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّھْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ{۳۵} وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَفْعَلُوْنَ{۳۶}
(یہ )اُس دن کو یاد رکھیں، جب ہم اِن سب کو اکٹھا کریں گے،۴۴؎ پھر جنھوں نے شرک کیا ہے، اُن سے کہیں گے کہ تم اپنی جگہ ٹھیرو۴۵؎ اور تمھارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر اُن کے درمیان جدائی ڈال دیں گے۴۶؎ اور اُن کے شریک کہیں گے: تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ اللہ ہمارے اور تمھارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم تمھاری عبادت سے بالکل بے خبر تھے۴۷؎۔ اُس وقت ہر شخص اپنے اُس عمل سے دوچار ہو گا۴۸؎ جو اُس نے کیا تھا اور لوگ اللہ، اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے اور (دوسروں کو معبود بنا کر) جو جھوٹ اُنھوں نے گھڑے تھے، سب اُن سے جاتے رہیں گے۔ ۲۸-۳۰
(اِن سے ) پوچھو، زمین و آسمان سے کون تمھیں روزی دیتا ہے؟ یا سمع و بصر کس کے اختیار میں ہیں؟کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ،۴۹؎ تو کہو، پھر (اُس سے) ڈرتے نہیں ہو۵۰؎؟ سو یہی اللہ تمھارا پروردگار حقیقی ہے۵۱؎، تو حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے۵۲؎؟ آخر تم کدھر پھرے جاتے ہو۵۳؎۔ اِسی طرح تیرے پروردگار کی بات اِن سرکشی کرنے والوں کے حق میں پوری ہو چکی ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۵۴؎۔ ۳۱-۳۳
(اِن سے) پوچھو، تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہو، پھر اُس کا اعادہ بھی کرے؟ کہہ دو، اللہ ہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرے گا۔ سو کہاں بھٹکے جاتے ہو۵۵؎۔ پوچھو، تمھارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟ کہہ دو، اللہ ہی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پھر (بتاؤ)، جو حق کی طرف رہنمائی کرتاہے، وہ اِس کا مستحق ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ جو رہنمائی کے بغیر خود راہ نہیں پاتے؟ آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو۵۶؎؟حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان ذرا بھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۵۷؎۔۳۴-۳۶

۴۴؎ یعنی اِن کو بھی اور اِن کے معبودوں کو بھی۔ آیت میں ’جَمِیْعًا‘کی تاکید اِسی مدعا کے لیے ہے۔

۴۵؎ اصل میں ’مَکَانَکُمْ‘ کا لفظ ہے۔ اِس سے پہلے ’امکثوا‘ یا ’قفوا‘ یا اِن کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ عربی زبان میں یہی اسلوب ہے۔ اِس طرح کے موقعوں پر ہماری زبان میں ظرف یا مفعول کو حذف کر دیتے ہیں۔

۴۶؎ مطلب یہ ہے کہ معبود اپنے عابدوں سے اظہار براء ت کر دیں گے اور بالکل الگ ہو کر کھڑے ہو جائیں گے۔ آگے اِس کی وضاحت کر دی ہے۔

۴۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ‘۔اِن میں ’اِنْ‘ درحقیقت ’اِنَّ‘ ہے جس پر ’لَغٰفِلِیْنَ‘ کا لام دلالت کر رہا ہے۔

۴۸؎ اصل میں ’تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ‘ کے الفاظ ہیں۔ ’بلا یبلوا‘کے معنی جانچنے اور تجربہ کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنے عمل کا تجربہ کرے گا اور اُس کے نتائج بھگتے گا۔

۴۹؎ اِس سے واضح ہے کہ خدا کی جو صفات یہاں بیان ہوئی ہیں، اہل عرب اُن میں سے کسی کو بھی اپنے معبودوں سے متعلق نہیں سمجھتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ وہ جن دیویوں دیوتاؤں کو پوجتے تھے ،اُن کے متعلق اُن کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ یہ آسمان و زمین کے خالق ہیں یا ابر و ہوا اور سورج اور چاند کے موجد ہیں یا زندگی اور موت پر متصرف ہیں یا نظام کائنات کا سررشتہ اِن کے ہاتھ میں ہے، بلکہ صرف یہ مانتے تھے کہ یہ خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا اِن کی سنتا ہے، جو کام خدا سے کرانا چاہیں، کرا سکتے ہیں، اِن کو اگر راضی رکھا جائے تو یہ خدا سے سفارش کر کے دنیا کی نعمتیں بھی دلواتے ہیں اور اگر بالفرض مرنے کے بعد اٹھنا ہی ہوا اور حساب کتاب کی نوبت آئی تو اُس وقت بھی یہ دست گیری کریں گے اور اپنی بندگی کرنے والوں کو نہ صرف بخشوا لیں گے، بلکہ اونچے اونچے درجے دلوائیں گے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۴۷)

۵۰؎ یعنی جب یہ ساری باتیں مانتے ہو تو اُس خدا کے قہر و جلال سے ڈرتے نہیں کہ اُس پر افترا کرکے دوسروں کو اُس کی خدائی میں شریک بنا دیتے ہو؟

۵۱؎ مطلب یہ ہے کہ جس کو خدا مانتے ہو، تمھارا رب حقیقی بھی وہی ہے۔ اُس کے سوا جنھیں رب بنائے بیٹھے ہو، اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

۵۲؎ یعنی خدا سے متعلق جن باتوں کو مانتے ہو، اُن کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ اپنا رب بھی تنہا اُسی کو تسلیم کرو۔ اِس کے معنی یہ ہوئے کہ یہی حق ہے تو اِس حق کے خلاف جو کچھ بھی مانتے ہو، اُسے صریح ضلالت کے سوا اور کیا کہاجا سکتا ہے؟

۵۳؎ اصل میں ’تُصْرَفُوْنَ‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی پھرائے جانے کے ہیں۔ اِس میں یہ اشارہ ہے کہ عقل و منطق تو کسی اور طرف لے جا رہی ہے، لیکن تم نے اپنی باگ کس کے ہاتھ میں دے دی ہے جو تمھیں اِس طرح ہرزہ گردی کرا رہا ہے۔

۵۴؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے آپ کی طرف التفات ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اِن کے تضادات فکر و عمل کو دیکھ کر آپ پریشان نہ ہوں۔ سنت الہٰی یہی ہے کہ ایمان و ہدایت کی راہ اُنھی لوگوں پر کھلتی ہے جو اُس کے سچے طالب ہوں اور اپنے اِس مطلوب تک پہنچنے کے لیے عقل ودل کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس کے برخلاف جو لوگ عقل و فطرت کو ٹھکرا کر اپنی باگ خواہشوں کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے لیے ہدایت کی راہ کبھی نہیں کھولتا، بلکہ اُن کی اختیار کردہ ضلالت ہی کو اُن پر مسلط کر دیتا ہے۔ آیت میں ’کَلِمَتُ رَبِّکَ‘ سے یہی سنت الہٰی مراد ہے اور ’کَذٰلِکَ‘کا اشارہ مشرکین کے اُس رویے کی طرف ہے جو پیچھے مذکور ہوا ہے۔

۵۵؎ یعنی جب یہ مانتے ہو کہ خلق کا ابدا اور اعادہ صرف خدا ہی کی شان ہے تو اُس کی جزا و سزا میں دوسروں کو کس طرح شریک ٹھیراتے ہو؟ یہ اِس لیے پوچھا ہے کہ مشرکین یہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی بھی تو اُن کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، اُن کے شرکا و شفعا اُنھیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔

۵۶؎ مطلب یہ ہے کہ جو دنیا اور آخرت، دونوں کے لحاظ سے بے کار ہیں، اُنھیں کس طرح معبود بنا کر پوجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہو؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ مخلوق کی ایک بہت بڑی ضرورت خالق سے یہ وابستہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے معاملات میں رہنمائی فرماتا ہے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل، کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تمھارے اِن معبودوں سے تمھیں اِس طرح کی کوئی رہنمائی حاصل ہوتی ہے؟ کیا عقل جو تمھارے اندر رہنمائی کا چراغ ہے، یہ اُن کی بخشی ہوئی تمھیں ملی ہے؟ کیا یہ تمھاری ہدایت کے لیے کوئی وحی بھیجتے ہیں؟ کیا اِنھوں نے تمھاری تربیت و تزکیہ کے لیے کوئی کتاب اتاری، کوئی رسول بھیجا، کوئی شریعت نازل کی، کوئی قانون اتارا؟ اگر اِن کاموں میں کوئی کام بھی اِنھوں نے نہیں کیا، نہ کرتے ہیں، نہ کریں گے تو آخر کس غرض کے لیے اِن کے پیچھے لگے ہو؟ پیروی کا سزاوار وہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اُس کی توفیق بخشتا ہے یا وہ جو خود رہنمائی اور دست گیری کے محتاج ہیں؟ تمھاری عقل کو کیا ہو گیا ہے، تم کیسے الٹے فیصلے کرتے ہو؟‘‘(تدبرقرآن۴/ ۵۰)   


۵۷؎ یہ مخاطبین کے لیے دھمکی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ اللہ اِن کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے، اِس لیے وہ وقت عنقریب آجائے گا جب وہ یہ سب کچھ اِن کے سامنے رکھ دے گا اور اِن میں سے کوئی اپنے جرائم کا انکار نہ کر سکے گا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B