ترتیب و تدوین: خالد مسعود ۔ سعید احمد
وَحَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ اَنَّہُ کَانَ اِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ تَرَکَ الْحَدِیْثَ وَقَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْْدِہِ وَالْمَلَاءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: اِنَّ ھٰذَا لَوَعِیْدٌ لِاَھْلِ الْاَرْضِ شَدِیْدٌ.
امام مالک عامر بن عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جب وہ کڑکا سنتے تو بات کرنا چھوڑ دیتے اور یہ دعا پڑھتے: ’سُبْحَانَ الَّذِیْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْْدِہِ وَالْمَلَاءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہِ‘ (پاک ہے وہ ذات کہ بجلی بھی اس کی تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ اور ملائکہ بھی اس کی تسبیح کرتے ہیں اس کے ڈر کے ساتھ)، پھر کہا کرتے تھے کہ یہ اہل زمین کے لیے بڑی سخت وعید ہے۔
یہ دعا قرآن مجید کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس کی وضاحت تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں سورۃ الرعد کی آیت ۱۳ کے ذیل میں کر دی گئی ہے۔
_______
حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَاءِشَۃَ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَرَدْنَ اَنْ یَّبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ اِلٰی اَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ فَیَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَھُنَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَھُنَّ عَاءِشَۃُ: اَلَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا فَھُوَ صَدَقَۃٌ؟
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ازواج مطہرات نے یہ ارادہ کیا کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو میراث ملنی چاہیے، وہ دیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ کیا یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم انبیا کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے؟
اس حدیث کے سلسلۂ روایت میں ابن شہاب زہری موجود ہیں۔ یہ اہل سنت کے بہت بڑے امام ہیں۔ وہ تمام امور جن میں اہل سنت اور شیعہ کے درمیان اختلاف ہے کسی نہ کسی طور پر ابن شہاب سے مروی ہیں۔ مگر اس کے باوجود امام بخاری اور امام مالک نے ان کو سر پر اٹھایا ہے۔ یہ امت کے لیے بہت بڑا حادثہ ہے۔
’لَا نُوْرَثُ‘: ہمارے وارث نہیں بنتے، کوئی ہماری وراثت نہیں پاتا، جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس روایت کی رو سے وراثت کی کوئی شکل نہیں رہتی، لیکن شیعہ اس کی قراء ت میں اختلاف کرتے ہیں۔ وہ اس کو ’لا نُوْرَثُ مَا تَرَکنَا صَدَقَۃٌ‘ پڑھتے ہیں اور اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ جو چیز ہم نے صدقے کے طور پر چھوڑی، اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا، حالاں کہ یہ بالکل ہی بے تکی سی بات ہے۔ اگلی روایت میں حدیث کے مفہوم کی اور بھی وضاحت ہو گئی ہے۔ بہرحال یہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان ایک بنیادی جھگڑا ہے۔ اس روایت کے حوالہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انھوں نے اختراع کر کے گویا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات کو وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ یہ بات صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خاص نہیں، بلکہ سب انبیا کے لیے ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی وراثت کا ذکر سورۂ مریم میں آیا ہے تو وہ دین، نیکی، تقویٰ اور نبوت کی وراثت کے متعلق ہے، اس لیے کہ ان کو اس بات سے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ خاندان کی روایت کو بگاڑ دیں گے تب انھوں نے بیٹے کے لیے دعا کی تھی۔
حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ اَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْاَعْرَجِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَقْسِمُ وَرَثَتِیْ دَنَانِیْرَ مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ نِسَاءِیْ وَمَؤُنَۃِ عَامِلِیْ فَھُوَ صَدَقَۃٌ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے وارث درہم و دینار کی وراثت تقسیم نہیں کریں گے۔ میں نے جو کچھ چھوڑا ہے، اس میں سے میری بیویوں کے خرچ اور گھر کے کارکن کے مصارف کے بعد جو بچے، وہ صدقہ ہے۔
’مؤنۃ‘ کے معنی کفالت ہے اور ’عامل‘ سے مراد گھر کے کارکن ہیں۔ غلام ہوں یا خادم یا نوکر۔ اس سے جن لوگوں نے اور لوگ مراد لیے ہیں، وہ غلط ہیں۔ فرمایا کہ ازواج مطہرات کے اخراجات اور گھر کے کارکنوں کے مصارف اٹھانے کے بعد جو مال بچے گا، وہ سب صدقہ ہے، یعنی وہ قوم کی ملکیت یا جدید لفظوں میں سٹیٹ کی ملکیت ہو گا۔ اموال فے شروع ہی سے حقیقت میں سٹیٹ کی ملکیت تھے، اس لیے کہ وہ حکومت کے مجموعی دبدبے سے حاصل ہوئے تھے اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضرورت کے مطابق بحیثیت صاحب امر اسی طرح لیتے تھے، جس طریقہ سے ہر حکومت کا خلیفہ یا صدر ہوتا ہے تو اس کے مصارف کی کفالت حکومت کرتی ہے۔ یہ بات بحیثیت صاحب امر، یعنی حکومت کے ذمہ دار کی حیثیت سے تھی نہ کہ نبی کی حیثیت سے تھی۔ اس لیے کہ جہاں تک نبوت کا معاملہ تھا، اس کے متعلق تو قرآن مجید میں آیا ہے کہ ’لَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا‘ (میں تم سے اجر کا طالب نہیں)۔ چونکہ نبوت کے علاوہ آپ پر حکومت کی ذمہ داری بھی تھی تو ضروری تھا کہ حکومت ان کے مصارف پورے کرتی۔ کسی شخص کے مصارف پورے کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے اہل و عیال اور اس کے متعلقین کی ضروریات بھی پوری کی جائیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی ازواج نبی ہونے کے علاوہ کچھ خصوصیات اور بھی تھیں۔ وہ خصوصیات تقدس کی بنا پر نہیں تھیں، تقدس تو بے شک ان کو حاصل تھا، لیکن یہ خصوصیات اس بنیاد پر تھیں کہ ملت اور دین کی مصلحت کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حکم دیا تھا: ’مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا. اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا‘، ’’اور تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے کبھی اس کے بعد نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین باتیں ہیں‘‘ (الاحزاب۳۳: ۵۳)۔ قطع نظر اس سے کہ نکاح ثانی ان کے شرف کے منافی تھا، اس میں خطرے بھی بہت تھے۔ کوئی شخص ان میں سے کسی سے نکاح کر کے معلوم نہیں کیا کیا پراپیگنڈہ کر سکتا تھا۔ اس طرح کی تمام باتوں کے سدباب کے لیے دین کی مصلحت یہی تھی کہ ان کو آیندہ نکاح سے روک دیا جائے۔ لہٰذا ان کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر تھی جو خلفاے راشدین اور بعد والے خلفا نے بھی ادا کی۔
اس روایت میں ’ما ترکت بعد نفقۃ نسائی‘ میں ’نساء‘ کا لفظ جو آیا ہے، وہ بیویوں کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خاندان بنی ہاشم یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے کہ وہ ’نساء‘ میں شامل نہیں۔ البتہ ازواج مطہرات کا کوئی کارکن، غلام یا خادم ہے تو ظاہر ہے کہ اس کو شامل ہونا چاہیے۔
____________