شوہر بیویوں کے سربراہ ہیں اوران کی سربراہی کی وجہ ان کی خدادادصلاحیت اوران پرعائد کردہ بیویوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری ہے،یہ سب بیان کردینے کے بعداب یہ بتایاہے کہ وہ کون سی دو باتیں ہیں جواس سربراہی کے لازمی تقاضوں کی حیثیت سے بیویوں پرلازم آتی ہیں۔ فرمایا ہے: ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ‘۱ (پھر جو نیک عورتیں ہیں ، وہ فرماں بردار ہوتی ہیں،رازوں کی حفاظت کرتی ہیں،اس بناپرکہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے)۔ سربراہی کے ان تقاضوں کواس طرح بھی بیان کیاجاسکتاتھا: مرد چونکہ سربراہ ہیں، اس لیے عورتیں اُن کی اطاعت اوران کے رازوں کی حفاظت کریں۔لیکن اس سادہ اسلوب کے بجاے ان تقاضوں کو اس طرح بیان کیاگیاہے:مردچونکہ سربراہ ہیں ،اس لیے جو نیک عورتیں ہیں وہ اُن کی اطاعت گزار ہوتیں اوران کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ یعنی اس اسلوب میں محض حکم ہی نہیں ، اس حکم کے لیے ایک طرح کی ترغیب بھی بیان ہوئی اوراس کے ساتھ ساتھ یہ مدعابھی بیان ہوگیا کہ مردکی اطاعت اوراس کے رازوں کی حفاطت بہرحال نیک عورتیں ہی کیا کرتی ہیں ۔
اب ذیل میں قوامیت کے ان دونوں تقاضوں اوران پراٹھنے والے سوالات کوہم ذراتفصیل سے بیان کرتے ہیں:
’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘: اس جملے میں ایک لفظ قنوت استعمال ہواہے کہ جس کالغوی معنی اطاعت کرنا اور فرماں بردار ہونا ہے ۔یہاں یہ لفظ چونکہ عورتوں کے لیے آیااورخاص مردوں کی سربراہی کے ایک تقاضے کے طورپرآیاہے،اس لیے اس کامعنی ان عورتوں کااپنے مردوں کی اطاعت کرنااورانھی کی فرماں بردارہونا ہے۔مزیدیہ کہ اس اطاعت کاذکرمردوں کی اُس سربراہی کے ذیل میں آیاہے جوبطورشوہرانھیں حاصل ہوئی ہے،اس لیے اس سے مراد لازمی طور پر مردوں کے ہرحکم کی نہیں،بلکہ شوہروں کے ہرحکم کی اطاعت ہے۔یعنی مردوں کی ہرطبعی وذوقی خواہش اور ان کے نفس کی ہر اُکساہٹ کوپوراکرناعورتوں پرلازم نہیں ہے،بلکہ ان کے لیے صرف ان امور میں مردوں کی اطاعت لازم ہے جوخاندان کے ادارے سے براہ راست متعلق اوراس کو چلانے کے لیے ازحد ضروری ہیں۔
’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘ کا یہ مفہوم کہ جونیک عورتیں ہیں، وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردارہوتی ہیں ،بعض حضرات کو اس سے اتفاق نہیں ہے ۔ان کے نزدیک یہاں ’قنت‘ کامعنی تواطاعت ہی ہے ، مگراس سے مرادکسی انسان کی نہیں، بلکہ خداکی اطاعت کرنا ہے،یعنی اس جملے کاصحیح ترجمہ ان کے ہاں یہ ہے :نیک عورتیں وہ ہیں جواللہ کی فرماں بردارہوتی ہیں۔ ’قٰنِتٰتٌ‘ کے بارے میںیہ راے قدیم اورجدید،دونوں ادوارمیں بعض حضرات نے اختیار کی ہے۔ تاہم راے میں اس اشتراک کے باوجودان دونوں گروہوں کا طریق استدلال چونکہ باہم مختلف ہے،اس لیے ہم بھی ذیل میں ان پرالگ الگ تبصرہ کریں گے۔
اول الذکرحضرات نے اپنی راے کے حق میں پہلااستدلال لغت کی کتابوں سے اور دوسرا قرآن مجیدمیں اس لفظ کے استعمالات سے کیاہے۔ان کاکہناہے کہ اس لفظ کے جومعانی اہل لغت نے نقل کیے ہیں، وہ سب کے سب خدااوردین سے متعلق ہیں،جیسے خداکی اطاعت، دعا اور عبادت،نماز وقیام اور طول قیام وغیرہ۔اسی طرح یہ لفظ زیربحث مقام کے علاوہ قرآن مجید میں جہاں بھی آیاہے ،صرف اورصرف خداہی کی ذات کے حوالے سے آیا ہے۔ چنانچہ اس لفظ کے معانی اور قرآن میں اس کے مواقع استعمال،یہ دونوں مل کراس بات کی کافی دلیل ہوجاتے ہیں کہ ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘ میں بھی یہ خداہی کی اطاعت اوراسی کی فرماں برداری کے لیے آیا ہے۔
ان لوگوں کی راے کے پس منظرمیں جوبنیادی غلطیاں ہیں، ان کی اصلاح کے لیے ذیل کی کچھ باتیں مدّنظررہنی چاہییں:
پہلی یہ کہ ’قنت‘ کے وہ سب استعمالات جودینی امورسے متعلق ہیں،عربی زبان میں واقعتا موجودہیں،مگرسوال یہ ہے کہ ان کی بنیادپراس کے دوسرے استعمالات، حتیٰ کہ اس کے عمومی معنی کی بھی نفی کردینا،یہ کس اصول پر جائز ہے؟ اور اگریہ جائزہے توپھرایسا کرناہرلفظ کے ساتھ جائز کیوں نہیں ہے؟مثال کے طور پر ’عبد‘کا لفظ بھی اپنے دینی استعمالات کی بنیادپرانھی سے خاص ہو نا چاہیے اوریہ بالکل ناجائز ہوکہ اسے غیردینی معاملات،جیسے غلامی وغیرہ میں ہم استعمال کرسکیں۔
دوسری بات یہ کہ جس شخص کو عربی زبان کی شدبدہے ،وہ جانتاہے کہ ’قنت‘ کااصل معنی اطاعت کرنا ہے،۲ قطع نظر اس سے کہ وہ اطاعت اللہ کی ہے یاپھرغیر اللہ کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اس لفظ کے دونوں استعمالات موجود ہیں، حتیٰ کہ خاص میاں بیوی کے تعلق سے بھی اس لفظ کے استعمال کی اہل لغت نے باقاعدہ مثالیں دی ہیں۳ ۔ لہٰذا ’قنت‘ کو صرف خداکے ساتھ مخصوص قراردے کرغیرخداکے لیے اسے ممنوع ٹھیرادینا،ایک طرح کا تحکم اور پھر اسی کی روشنی میں ’قٰنِتٰتٌ‘ کوخاص کرڈالنا، ایسی جسارت ہے کہ جس کی کوئی قابل قبول توجیہ نہ علمی دنیا پیش کرسکتی ہے اور نہ عربی لغت کی کتابیں ہی۔
تیسرے یہ کہ قرآن جب کسی لفظ کواس کے لغوی معنی سے اوپراٹھاکر مخصوص دینی مفہوم میں استعمال کرتاہے تو اس سے یہ قطعی طورپر لازم نہیں آتاکہ وہ لفظ اب اس نئے مفہوم سے خاص ہوکراپنااصل لغوی معنی کھوبیٹھاہے یا پھر اس معنی کاقرآن میں برت لینااب شرعاًممنوع ہوگیا ہے، اس لیے کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے جوزبان کومحض ابلاغ کے ایک ذریعے کے طورپر استعمال کرتی ہے۔زبان کی تخلیق اوراس میں بیان کی ندرتیں پیداکرنا،اس کااصل کام نہیں ہے۔چنانچہ جہاں ضرورت داعی ہوگی، یہ لفظ کواس کے لغوی معنی میں برتے گی اورجب موقع ہوگا، اس کواپنے ہی دیے ہوئے مخصوص مفہوم میں استعمال کرلے گی۔اس بات کی وضاحت کے لیے، مثال کے طور پرلفظ تقویٰ کودیکھ لیاجاسکتاہے جوبحیثیت دینی اصطلاح قرآن میں بکثرت آیاہے ، مگر اس کے باوجودعام بول چال میں بھی اور خود قرآن میں بھی اپنے لغوی معنی میں عام طورپر مستعمل رہا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ قرآن میں جب ایک ہی لفظ متعددجگہوں پرآئے تواس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ہرمقام پر اس کو ایک ہی مفہوم میں سمجھیں، وہ اس لیے کہ ہردوسری کتاب کی طرح قرآن مجیدبھی ایک ہی لفظ کوبہ تقاضاے کلام اس کے کئی پہلوؤں سے استعمال کرتا ہے ۔کبھی لغوی معنی میں توکبھی اصطلاحی معنی میں،کبھی عموم میں تو کبھی تخصیص میں یا پھر کبھی تجرید میں۔ اب وہ شخص خداکی اس کتاب پر نہایت ظلم کرے گاجولفظ کے ان متنوع استعمالات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہرمقام پرایک ہی معنی کا اطلاق کردے گااوراس کے پاس اپنے اس غیرعلمی رویے کی دلیل ہوگی توبس یہ کہ اکثر مقامات پریہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔
اوپرکی ان سب باتوں سے ہماری غرض یہ ہے کہ ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘ میں آنے والا ’قنوت‘ کالفظ نہ توعربی زبان میں خداکی اطاعت کے ساتھ خاص ہے اورنہ قرآن کے دیگرمقامات کی بنا پریہاں بھی اس کوخداہی کے ساتھ خاص قراردینے کاکوئی جوازہے۔ یہ جملہ اصل میں شوہروں کی قوامیت کاتقاضاہے،اس لیے اس کاصحیح ترجمہ یہی بنتاہے کہ جونیک عورتیں ہیں، وہ شوہروں کی فرماں بردارہوتی ہیں۔
قدیم دور کے چند علمانے بھی ’قٰنِتٰتٌ‘ کا ترجمہ اللہ کی فرماں بردارعورتیں کیاہے ،جیساکہ ہم نے اوپربیان کیا، مگر ان کے ہاں ’قنوت‘ کی لفظی بحث سے زیادہ ’قٰنِتٰتٌ‘ کے متعلق کی تعیین اصل مسئلہ ہے کہ وہ ’اَلرِّجَالُ‘ ہے یا پھر لفظ ’اللّٰہُ‘ ۔ کیونکہ اس کو ’اَلرِّجَالُ‘ سے متعلق کریں توترجمہ یہ ہوتا ہے: جونیک عورتیں ہیں، وہ اپنے شوہروں کی اطاعت گزار ہوتی ہیں۔ اور اگر اسے لفظ ’اللّٰہ‘ سے متعلق کردیں تومطلب یہ ہو جاتا ہے: جونیک عورتیں ہیں،وہ اللہ کی اطاعت گزار ہوتی ہیں۔متعلق کی اس تعیین میں ،جیساکہ ہم جانتے ہیں ،فیصلہ کن چیزاس کلام کے الفاظ اوراس کا سیاق ہی ہوتا ہے، اس لیے زیربحث آیت اور اس کے سیاق میں جوممکن وجوہ اس تعیین کے ہوسکتے ہیں،ان کا ذکرہم ذیل میں کیے دیتے ہیں:
اول،بڑی سادہ سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہرکوسربراہی دی توپہلے اِس کے دلائل دیے اور پھراس کے لازمی تقاضے،یعنی بیوی کی اطاعت گزاری کو بیان کردیااور بس۔اس لحاظ سے دیکھاجائے توشوہرجوکہ سربراہ ہے، اسی کی اطاعت کے ذکرکو اس مقام سے واضح مناسبت ہے۔ اس کے بجاے اللہ کی اطاعت گزاری کابیان کرنا،اس کایہاں کوئی موقع ہے اورنہ کوئی محل۔یہ بات ایک اورطرح سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘ کے شروع میں ایک ’ف‘ ہے جو بہرحال زائد نہیں ہے۔اس کاحق اگرصحیح طورپراداکیاجائے تویہ جملہ اصل میں مردکی سربراہی کے لازمی تقاضے کابیان ہے اوریہ تقاضا،ظاہرہے اس کی اطاعت توہوسکتاہے خداکی اطاعت نہیں۔سو اس طرح بھی واضح ہوجاتاہے کہ یہاں ’اَلرِّجَالُ‘ کالفظ ہی ’قٰنِتٰتٌ‘ کامفعول ہے۔
دوم، ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ‘ کے بعد ’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ‘ کے الفاظ بھی قابل غورہیں۔ان کا ترجمہ یہ نہیں کیا جاتا کہ وہ عورتیں اللہ کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں،بلکہ سب کے نزدیک اس کا مفہوم یہی ہے کہ وہ شوہروں کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں اورایک دوسری تاویل کے مطابق ، وہ شوہروں کی غیرموجودگی میں ان کے مال و ناموس کی حفاظت کرتی ہیں۔یعنی ہردوصورت میں ’حٰفِظٰتٌ‘ کامتعلق ’اَلرِّجَالُ‘ ہی قرارپاتاہے۔ چنانچہ ’قٰنِتٰتٌ‘ جو ’حٰفِظٰتٌ‘ ہی کی طرح ’فَالصّٰلِحٰتُ‘ کی خبرہے اوربغیرحرف عطف کے آئی ہے، اس کامتعلق بھی وہی ہونا چاہیے جو ’حٰفِظٰتٌ‘ کا ہے۔ تالیف کلام یہ ہو گی: ’قانتات للرجال وحافظات لغیبھم‘۔
سوم ،ہماری علمی تربیت کے لیے قرآن مجیدنے بہت سے مقامات پریہ طریقہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ ایک مشفق استادکی طرح پہلے توکچھ چیزوں کو اجمال میں ذکرکرتا ،پھران کی طرف کچھ اشارے کرتاچلاجاتااورآخرکارانھیں بالکل کھول کربیان کردیتاہے۔زیربحث آیت میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اس نے پہلے تو ’قٰنِتٰتٌ‘ کے مفعول کو حذف کیا ہے، پھر ’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ‘ میں اس کی طرف کچھ اشارہ کردیاہے ،اوراس کے بعد ’فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ‘ (اگر وہ عورتیں تم مردوں کی اطاعت کر لیں) کے الفاظ سے جس طرح ’قٰنِتٰتٌ‘ کامعنی کھول دیاہے کہ وہ اطاعت کرناہے،اسی طرح اس کے مفعول کوبھی بالکل ہی واضح کردیاہے کہ یہ کوئی اورنہیں، بلکہ ’اَلرِّجَالُ‘ ہی ہے۔
چہارم، اس تعیین کی تائیدمیں ضمنی طورپرایک اوربات بھی پیش کی جاسکتی ہے،وہ یہ کہ قرآن مجیدکے پیش نظر اگر یہی بیان کرناہوتاکہ بیویاں اللہ کی فرماں بردار ہیں تو وہ ’قٰنِتٰتٌ‘ کو ’فَالصّٰلِحٰتُ‘ کی خبر نہ بناتا،بلکہ اس صورت میں ’فالصالحات القانتات حافظات‘ کا اسلوب زیادہ موزوں ہوتا، یعنی ’’جو نیک عورتیں ہیں ،وہ فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘، اس کے بجاے یہ کہاجاتاکہ جونیک اورخداکی فرماں بردار عورتیں ہوتی ہیں ، وہ رازوں کی حفاظت کرتی ہیں۔
غرض یہ کہ آیت کے الفاظ اوراس کے سیاق سے واضح طورپر ثابت ہوجاتاہے کہ ’قٰنِتٰتٌ‘ کا متعلق ’اَلرِّجَالُ‘ ہی ہے۔ چنانچہ مذکورہ حضرات کی راے کے برعکس آیت کاصحیح ترجمہ یہی ہے کہ جونیک عورتیں ہیں، وہ مردوں کی فرماں بردار ہوتی ہیں۔
’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ‘: یہ الفاظ قوامیت کادوسراتقاضابیان کرتے ہیں۔اس میں ’الْغَیْب‘ کا لفظ آیاہے جس سے مرادشوہروں کے رازہیں۔ شوہروں کے رازاس لیے کہ اس کاذکر انھی کی قوامیت کے ذیل میں اور انھی کی قوامیت کے تقاضے کے طور پر یہاں آیا ہے۔۴ اس کے بعد ’بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ‘ کے الفاظ ہیں جو بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی ترغیب دینے اوراس عمل کی تحریک پیداکرنے کے لیے آئے ہیں،بالکل اسی طرح جیسے قرآن میں اس مقصدکے لیے جابجا خداکی صفات آیا کرتی ہیں۔۵ اور اس اعتبارسے یہ محرک مزیدہیں کہ ’فَالصّٰلِحٰتُ‘ میں ایک طرح کی ترغیب پہلے ہی سے پائی جاتی ہے ،جیساکہ اوپرہم نے بیان کیا۔ غرض یہ کہ اس پورے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ جو نیک عورتیں ہیں، وہ جس طرح مردوں کی فرماں بردارہوتی ہیں ،اسی طرح ان کے رازوں کی بھی حفاظت کرتی ہیں، اس بنا پرکہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔
بعض حضرات ’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ‘ کامفہوم اس سے مختلف بیان کرتے ہیں،جو کچھ اس طرح ہے : جو نیک عورتیں ہیں، وہ شوہروں کی غیرموجودگی میں ان کے حقوق ،یعنی ان کے مال اوراپنی عزت وغیرہ کی حفاظت کرتی ہیں،جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے یا اس لیے کہ اللہ نے بھی ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔ان کابیان کردہ یہ مفہوم کیا آیت قرآنی کے الفاظ سے مطابقت اوراس کے سیاق سے کچھ مناسبت رکھتاہے ،اس سلسلے میں ذیل کی کچھ چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں:
پہلی یہ کہ اس راے کومان لینااسی صورت میں درست ہوسکتاہے جب ’الْغَیْب‘ سے راز نہیں ، بلکہ شوہروں کی غَیبت،یعنی ان کی غیرحاضری کی حالت کومرادلیا جائے،حالاں کہ عربی زبان میں یہ لفظ کسی مخفی اورپوشیدہ بات ہی کے لیے زیادہ مشہورہے اور قرآن میں بھی بالعموم یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ،اورجس مقام پر یہ ظرف کے معنوں میں آیا بھی ہے تووہاں ظرفیت کی ’ب‘ کے ساتھ ہی آیا ہے۔ مثال کے طور پر ’ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ‘ اور ’مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنُ بِالْغَیْبِ‘ کی آیات میں۔۶ لہٰذا زبان وبیان کی شہادت اورقرآن مجید میں اس کے طریق استعمال کی بناپرضروری ہے کہ یہاں بھی راز اورمخفی بات کے معنی ہی کوترجیح دی جائے۔
دوسرے یہ کہ ہمارے اختیارکردہ ترجمے میں ’حٰفِظٰتٌ‘ کا لفظ ’الْغَیْب‘ سے حقیقی طورپرمتعلق ہے اوراس تعلق کوواضح کرنے کے لیے کسی قرینے یادلیل کی کچھ حاجت نہیں ہے ۔اس کے برعکس، معترضین کی راے میں حقیقی کے بجاے ان دونوں میں مجازی تعلق کا دعویٰ کیاگیاہے کہ کسی شخص کی غیرحاضری کی حفاظت کرنے کے کچھ معنی نہیں ،لیکن مجازی معنی مراد لینے کے لیے جس قرینے کی ضرورت ہواکرتی ہے ،وہ بہرحال یہاں موجودنہیں ہے۔
تیسری یہ کہ ہمارے ترجمے کے لحاظ سے ’حٰفِظٰتٌ‘ کافاعل بیویاں ہیں اوراس کامفعول ’الْغَیْب‘ ،یعنی شوہروں کے راز ہیں اوراس پرآنے والا حرف ’ل‘ اصل میں اس کے مفعول ہونے ہی کو واضح کررہاہے۔لیکن مذکورہ راے میں اس کے بجاے ایک دوسرے مفعول کومحذوف مان لیا گیاہے اوراس بات کی کوئی وجہ نہیں بیان کی گئی کہ اصل مفعول کوکیوں چھوڑ دیاگیااوراسے کیوں فرض کر لیاگیاہے؟
چوتھی یہ کہ بیویوں کوشوہروں کے مال اوران کی اپنی عزت کے بارے میں ہدایات دینے کا اس سیاق میں اصلاً کوئی موقع نہیں ہے۔پہلی بات کااس لیے نہیں کہ وہ دین کی عمومی تعلیم ہے اور ہر ایک کو اپنے تصرف میں دیے ہوئے مال کی حفاظت کرناہی ہے اوردوسری کااس لیے نہیں کہ عورت بیاہی ہو یااَن بیاہی ،ہردوصورت میں اسے اپنی عزت و ناموس کے بارے میں محتاط رہنا ہی ہے۔ اس کے بجاے مردکی قوامیت اوراس کے تقاضوں کے سیاق میں بتانے کی اصل بات تویہی ہے کہ عورت خاندان کے ادارے میں چونکہ ایک اجنبی کی حیثیت سے نہیں،بلکہ ایک کامل فریق کی حیثیت سے داخل ہوتی ، اس ادارے کو اپناتی اوراس کے ہرنفع ونقصان کواپنانفع اورنقصان خیال کرتی ہے،اس لیے اشد ضروری ہے کہ وہ اس کے ہربھیدکی امین اوراس کے ہررازکی محافظ ہو۔
_______
۱ یہ دونوں چیزیں قوامیت کے تقاضے ہی ہیں، اس کی دلیل اس جملے کے شروع میں آنے والاحرف ’ف‘ ہے ۔
۲ حوالے کے لیے ابن دریدکی ’’جمہرۃ اللغۃ‘‘، جوہری کی ’’الصحاح‘‘، ابن فارس کی ’’مقاییس اللغۃ‘‘، ابن سیدہ کی ’’المحکم‘‘ اور علامہ زبیدی کی ’’تاج العروس‘‘، مثال کے طورپر دیکھ لی جاسکتی ہیں۔
۳ جیسے اہل زبان کایہ محاورہ:’قنتت المرأۃ لبعلھا أو لزوجھا‘ کہ جسے ابن سیدہ نے ’’المحکم‘‘ ، ابن منظورنے ’’لسان العرب‘‘ اور علامہ زمخشری نے ’’اساس البلاغۃ‘‘ میں نقل کیاہے۔اوراسی طرح ’إمرأۃ قنوت‘ کی ترکیب بھی کہ جو آخر الذکر کتاب میں نقل ہوئی ہے۔
۴ دوسرا احتمال اللہ کے رازوں کی حفاظت کاہوسکتاتھا،مگروہ اس لیے ممکن نہیں کہ اس بات کااس سیاق میں کوئی موقع ہے اور نہ خداکے اسرارکی حفاظت کرنا، یہ دین اسلام ہی کاکوئی مسئلہ ہے۔
۵ مثال کے طور پر، باطل طریقوں سے مال کھانے اورایک دوسرے کو قتل کرنے سے روکاگیاتواس کے بعداسی طرح کی تحریک اور ترغیب ان لفظوں میں آئی ہے: ’اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا‘،’’اس لیے کہ تمھارارب بھی تم پر بڑامہربان ہے‘‘ (النساء ۴: ۲۹)۔
۶ یوسف ۱۲: ۵۲۔ ق ۵۰: ۳۳۔
____________