بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْھِمْ اَجَلُھُمْ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ{۱۱} وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّدَعَا نَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّمَّسَّہٗ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۲}
وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَاکَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ{۱۳} ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ م بَعْدِ ھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ{۱۴}
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ{۱۵} قُلْ لَّوْشَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ{۱۶} فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ{۱۷}
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَاللّٰہِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لَایَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْن{۱۸} وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ{۱۹}
(یہ عذاب مانگتے ہیں۱۶؎)اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں بھی اُسی طرح جلدی کرتا، جس طرح وہ اُن کے ساتھ رحمت میں جلدی کرتا ہے۱۷؎ تو اُن کی مدت پوری کر دی گئی ہوتی۔سو ہم اُن لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۱۸؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ اِنھیں کوئی عذاب دکھا بھی دیا جائے تو ایمان نہ لائیں گے۔ اِس لیے کہ) انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے وہ ہم کو پکارتا ہے۔ پھر جب اُس کی تکلیف ہم ٹال دیتے ہیں تو اِس طرح چل دیتا ہے گویا جو تکلیف اُسے پہنچی، اُس میں کبھی اُس نے ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ حد سے گزرنے والوں کے لیے اُن کے اعمال اِسی طرح خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔۱۱-۱۲
تم سے پہلے کی قوموں کو ہم نے (اِسی طرح) ہلاک کر دیا، جب اُنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۱۹؎۔ اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور اُنھوں نے ایمان لا کر نہیں دیا۔ ہم مجرموں کو اِسی طرح (اُن کے جرائم کا) بدلہ دیتے ہیں۔ اب اُن کے بعد ہم نے زمین میں اُن کی جگہ تمھیں دی ہے تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ ۱۳-۱۴
(لیکن اِن کا حال بھی وہی ہے، اے پیغمبر۔ چنانچہ) جب ہماری کھلی ہوئی آیتیں اِنھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہماری ملاقات کا کھٹکا نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اِس کے بجاے کوئی اور قرآن لائو یا اِس میں ترمیم کر دو۲۰؎۔ کہہ دو، (یہ خدا کا کلام ہے)، مجھے کیا حق ہے کہ میں اِس میں اپنی طرف سے کوئی ترمیم کروں۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ کہہ دو، اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا، نہ اللہ اِس کی خبر تمھیں دیتا۔ (یہ اُسی کا فیصلہ ہے)، میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں۔ ( میں نے کب اِس طرح کی کوئی بات کبھی کی ہے)؟ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۲۱؎؟ سو اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے۲۲؎۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے مجرم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔۲۳؎ ۱۵-۱۷
(یہ اِس وقت بھی جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ چنانچہ) اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو اِن کو نہ نقصان پہنچا سکیں ، نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ (اِن سے ) کہو، کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے، نہ زمین میں۲۴؎۔ وہ پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۲۵؎۔ (اپنے اِس شرک کے لیے یہ باپ دادوں کا حوالہ نہ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) لوگ ایک ہی امت تھے۲۶؎، اُنھوں نے بعد میں اختلاف کیا ہے اور اگر تیرے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ کر لی گئی ہوتی۲۷؎ تو اُس چیز کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔۱۸-۱۹
۱۶؎ یعنی جب آیات الہٰی کو جھٹلانے کے انجام سے اِن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے تو فوراً مطالبہ کرتے ہیں کہ تم سچے رسول ہو تو جس عذاب کی دھمکیاں سناتے ہو، اُس کی کوئی جھلک دکھا کیوں نہیں دیتے؟ آگے اِسی مطالبے کا جواب ہے۔
۱۷؎ اصل میں ’اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’اِسْتِعْجَال‘ ’تعجیل‘ کے معنی میں اور اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے۔ اِس کی وجہ وہی ہے جو زمخشری نے’’الکشاف‘‘ (۲/ ۳۱۶) میں بیان کر دی ہے کہ ’تعجیلہ لھم الخیر‘کی جگہ یہ الفاظ سرعت اجابت پر دلالت کے لیے آگئے ہیں۔
۱۸؎ اِس لیے کہ عذاب سے پہلے اِنھیں زیادہ سے زیادہ مہلت مل جائے اور جب گرفت کی جائے تو یہ کوئی عذر نہ پیش کر سکیں۔
۱۹؎ یعنی پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اُسے ماننے سے انکار کر دیا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہی ظلم ہے جس کے نتیجے میں قوموں پر اللہ کا عذاب آتا رہا ہے۔ قرآن نے آگے اِس کی وضاحت کر دی ہے۔
۲۰؎ یعنی قرآن کو آپ کی تصنیف سمجھتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اُس میں ایسی ترمیم کر دی جائے جس کے بعد وہ اُن کے دینی تصورات کے مطابق ہو جائے۔ اِس وقت جو قرآن پیش کیا جا رہا ہے، وہ اُنھیں گوارا نہیں ہے، اِس لیے کہ وہ نہ اُن کے مشرکانہ عقائد کے ساتھ کسی مصالحت کے لیے تیار ہے اور نہ دین داری کے اُن رسوم کو کوئی اہمیت دیتا ہے جنھیں وہ اپنا سرمایۂ فخر بنائے ہوئے ہیں۔
۲۱؎ اوپر جو کچھ فرمایا ہے، یہ اُس کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی سلیم الطبع انسان اِس کو جھٹلانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے کب دیکھا ہے کہ میں اُن مباحث میں دل چسپی لے رہا ہوں یا اُن کے بارے میں کچھ خیالات و افکار کا اظہار کر رہا ہوں یا اُن کی ترتیب و تدوین کے لیے مشق و مزاولت میں مصروف ہوں یا اُن سے متعلق کسی علم و فن کا اکتساب کر رہا ہوں جو اِس وقت قرآن کی سورتوں میں پے در پے زیر بحث آ رہے ہیں؟ پورے چالیس سال میں نے تمھارے درمیان گزارے ہیں۔ میری باتوں اور میری حرکات و سکنات میں تم نے کب ایسی کوئی چیز محسوس کی ہے جسے اُس دعوت کی تمہید کہا جا سکے جو میں اِس وقت پیش کر رہا ہوں؟ جو کچھ میں آج کہہ رہا ہوں، اُس کے نشووارتقا کے کوئی نشانات تم نے کبھی میری زندگی میں پائے ہیں؟ تم جانتے ہو کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشوو ارتقا کے نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں؟ تم کہتے ہو کہ میں خدا پر جھوٹ باندھ رہا ہوں۔ اِس سے پہلے کسی جھوٹ، فریب، جعل یا مکاری و عیاری کا کوئی ادنیٰ شائبہ تم نے کبھی میری سیرت و کردار میں دیکھا ہے؟ آج تک تم مجھے صادق اور امین سمجھتے رہے ہو۔ اب کس طرح کہہ رہے ہو کہ وہی صادق اور امین راتوں رات برخود غلط، لپاٹیا اور مفتری بن گیا ہے۔ خدا کے بندو، تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟
۲۲؎ یعنی اگر یہ خدا کی آیات نہیں ہیں اور میں اِنھیں خود تصنیف کرکے آیات الٰہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا کوئی ظالم نہیں ہے، اور اگر میں سچا ہوں اور تم خدا کی آیات کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا کوئی ظالم نہیں ہے۔
۲۳؎ یعنی دنیا میں تو ہو سکتا ہے کہ اُن کی یہ باتیں چل جائیں، لیکن خدا کے حضور میں کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔
۲۴؎ یہ نفی الشیٔ بنفی لازمہ کا اسلوب ہے، جس طرح امرؤ القیس ایک صحرائی راستے کی تعریف میں کہتا ہے کہ ’لا یھتدٰی بمنارہ‘۔مطلب یہ ہے کہ تمھارے اِن شریکوں کا کوئی وجود ہوتا تو سب سے زیادہ اُس کو پتا ہوتا جس کی خدائی میں اِنھیں شریک کر رہے ہو۔ پھر جب اُس کو پتا نہیں تو خود اندازہ کر سکتے ہو کہ خدا پر کتنا بڑا جھوٹ باندھ رہے ہو۔
۲۵؎ اِس لیے کہ نہ اُس کی صفات سے اِن چیزوں کو کوئی مناسبت ہے اور نہ اُس کی صفات میں کوئی تضاد مانا جاسکتا ہے۔
۲۶؎ یعنی خدا نے انسانیت کی ابتدا دین فطرت سے کی تھی۔ اُس وقت تمام انسان توحید کے ماننے والے تھے۔ انسانیت کی ابتدا شرک سے نہیں ہوئی۔ یہ نجاست تو انسان کے عقائد کو بہت بعد میں لاحق ہوئی ہے۔
۲۷؎ یعنی یہ بات کہ اختلافات کا حتمی فیصلہ قیامت کے دن سنایا جائے گا۔ اُس سے پہلے اُنھیں گوارا کیا جائے گا تاکہ لوگوں کے عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمایش میں ڈال کر اُنھیں جنت کے لیے منتخب کیا جائے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ