HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

بخار میں پانی سے غسل کے بارے میں

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(اَلْغُسْلُ بِالْمَاءِ مِنَ الْحُمّٰی)


حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ اَنَّ اَسْمَاءَ بِنْتَ اَبِیْ بَکْرٍ کَانَتْ اِذَا اُتِیَتْ بِالْمَرْأَۃِ وَقَدْ حُمَّتْ تَدْعُوْ لَھَا اَخَذَتِ الْمَاءَ فَصَبَّتْہُ بَیْنَھَا وَ بَیْنَ جَیْبِھَا وَ قَالَتْ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا اَنْ نُبْرِدَھَا بِالْمَاءِ.
ہشام بن عروہ فاطمہ بنت منذر سے روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جب کوئی بخار زدہ عورت دعا کے لیے لائی جاتی تو وہ پانی لیتیں اور اس کے اور اس کے گریبان کے درمیان چھڑکتیں اور وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا کرو۔
وضاحت

اس عمل کا حکیم لوگوں نے بڑا مذاق اڑایا ہے کہ اس علاج سے تو مریض مر جائے گا۔ لیکن واقعہ یہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب لو لگتی ہے، اور عرب میں تو اکثر لو چلتی ہے، تو پانی سے اس کا اثر دور کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی اگر بخار میں شدت آجائے تو ڈاکٹر برف کے پانی سے علاج کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ البتہ ایسی روایتوں کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کو صاف ہو جانا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ایسی ہدایت فرمائی تو ضروری نہیں کہ آپ کی یہ بات وحی پر مبنی اور شریعت کا کوئی جز ہو، بلکہ عام تجربے کی بنا پر آپ نے ایک بات بتا دی۔ گرم ملک میں لو لگنے کا عارضہ عام تھا تو اس میں یہ علاج مفید ہے۔ لوگ سمجھنے میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ ایک خاص معاملے کو عام کر دیتے ہیں، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص بخار کے لیے علاج بتایا، لوگوں نے سمجھا کہ جس قسم کا بھی بخار ہو مریض کو خوب نہلا دو۔ پھر روایت میں پانی چھڑکنے کا کہا ہے تو لوگ اس پر قناعت نہیں کریں گے، بلکہ جا کر ندی میں نہا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ آدمی مر جائے گا، اس لیے کہ کچھ بخار ایسے ہیں کہ پانی ان کے لیے زہر قاتل ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ لوگ اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جتنی باتیں بتاتے، وہ سب کی سب وحی پر مبنی نہیں ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر تابیر نخل کے بارے میں آپ نے لوگوں سے کہا کہ درخت کا بور کھجور کے درختوں پر جو چھڑکتے ہو، اگر تم ایسا نہ کرو تو کیا حرج ہے۔ لوگوں نے بور چھڑکنا چھوڑ دیا تو پھل کم آیا۔ لوگوں نے پھل کی کمی کی شکایت آپ کے پاس کی کہ حضور، ہم نے آپ کے حکم سے ایسا کیا تھا، لیکن پھل بہت کم آیا، تو آپ نے فرمایا کہ ’أنتم أعلم بأمور دنیاکم‘ تم دنیا کے معاملات میں بہتر جانتے ہو۔ کھیتی باڑی کے معاملات تم جانو۔ مجھے تو ایک ذوق کی بات لگی تھی تو میں نے کہہ دیا، یہ کوئی شریعت کا حکم تو نہیں تھا۔ علیٰ ہٰذالقیاس بیماریوں کے علاج کی روایتوں کو جمع کر کے لوگوں نے طب نبوی کو باقاعدہ مرتب کر کے پیش کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک متقی آدمی دوسرا علاج کیوں کرائے گا۔ وہ اسے تقویٰ کے خلاف سمجھے گا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایسی روایات کو بھی تابیر نخل کے واقعہ پر قیاس کرنا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی بیماریوں کے نہیں، بلکہ روحانی بیماریوں کے معالج ہو کر آئے تھے۔ آپ کی طرف طب روحانی کے سوا اور کسی طب کے منسوب کرنے کی گنجایش نہیں۔ لہٰذا اس طرح کے معاملات میں موقع و محل کا لحاظ ہونا چاہیے۔ یہ واقعہ ہے کہ بعض بخاروں میں پانی بہت مفید ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض میں یہ انتہائی نقصان دہ ہے، اس لیے بخار کی نوعیت کا لحاظ رکھنا ہو گا۔

میرے نزدیک یہ بات قرآن مجید کی اس آیت میں بھی ملحوظ ہونی چاہیے جس میں فرمایا ہے کہ شہد میں شفا بھی ہے۔ یہ قرآن مجید پر ظلم ہو گا اگر آپ اس کے معنی یہ لیں کہ شہد ہر مرض کی دوا ہے۔ یقیناًوہ بہت سے امراض میں مفید ہے، لیکن اس میں ہر مرض کا تو علاج نہیں کہ آپ ہر مرض میں مریض کو شہد ہی پلانے کی کوشش کریں۔ خود قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی کہ وہ شہد کو بطور علاج تجویز کر رہا ہے۔ اس نے اس نعمت کا اسی طرح ذکر کیا ہے، جس طرح دوسری نعمتوں کا جن کو انسان اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّ الْحُمّٰی مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ فَابْرُدُوْھَا بِالْمَاءِ. عَنْ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْحُمّٰی مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ فَأَطْفِءُوْھَا بِالْمَاءِ.
ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخار جہنم کی پھونک میں سے ہے، اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ نافع ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخار جہنم کی پھونک میں سے ہے، اسے پانی سے بجھاؤ۔
وضاحت

یہ واقعہ ہے کہ جتنا خیر ہے، اس کا منبع جنت ہے اور جتنا شر ہے، اس کا منبع دوزخ ہے۔ خیر اور شر کے ذخیرے یہی ہیں۔ حدیث میں بخار کی بیماری کا خاندان و نسب بتا دیا ہے کہ یہ کس خاندان سے چلی ہے۔ گویا یہ بیماری بھی اس طرح کی ہے کہ تمام شر کا منبع ہے، لہٰذا اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس موقع پر فرمائی۔ ہو سکتا ہے، بخار کی کوئی خاص قسم مراد ہو یا کسی کے بخار کا ذکر آیا ہو اور آپ کو معلوم ہو کہ اس کو لو لگی ہے تو اس موقع پر آپ نے فرمایا ہو۔ بہت سی روایات کو سمجھنے میں لوگوں کو مشکل اس لیے پیش آئی کہ راوی حضرات روایت کا موقع و محل متعین نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے فتنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

____________

B