شوہراوربیوی کی حیثیت میں مردوزن کاآپس کاتعلق کس نوعیت کاہے ،یہ محض باہمی رفاقت کا ایک معاہدہ ہے یا پھر جبلی تقاضوں کوپوراکرنے کا کوئی انتظام ہے ؟اس تعلق میں فریقین کی حیثیت کیا ہوتی ہے،کیابائع اورمشتری کی طرح یہ بالکل برابرکی سطح پر ہوتے ہیںیاپھران میں سے ایک حاکم اور دوسرااس کی مفتوح ومغلوب رعایا ہوتا ہے؟ اس تعلق میں بندھ جانے کے بعد دونوں کے درمیان میں تقسیم کارکس طرح ہوتی ہے،کیاایک کی قسمت میں صرف حقوق اور دوسرے کے نصیب میں محض ذمہ داریاں آتی ہیں یاپھرترازوکی تول ان دونوں میں تقسیم کارہوتی ہے؟اس تعلق میں دراڑ پڑتی ہو تو کیا کرناچاہیے، اسے بے دھڑک توڑتاڑ کردل پھینک بھنورے کی طرح فوراً کسی اور پھول کی تلاش میں نکل جانا چاہیے یاپھراسے پاؤں کی بیڑی قرار دے کرزندگی کوایک زنداں بنا لینا چاہیے؟ یہ سب اوراسی طرح کے کچھ دوسرے سوالات ہیں جوسماجی اورمذہبی علوم میں ہمیشہ سے بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ سماجیات کے ماہرین ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، مذہبی علما اور وہ بھی مسلمان علما کی طرف سے اس ضمن میں جوکچھ کہا گیا ہے، وہ بھی اپنے اندر اتناتنوع ،اورصحیح تر الفاظ میں،اس قدر اختلاف رکھتاہے کہ ایک طالب علم کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ حقائق کا پتا چلائے ،اور معلوم کرے کہ اس معاملے میں اسلام کی اپنی تعلیمات ، درحقیقت ہیں کیا؟ زیر نظر ہمارا یہ مقالہ، اصل میں اسی سلسلے کی ایک کڑی اورخالص دلیل کی بنیاد پر اس نوع کے سوالات حل کرنے کی ایک طالب علمانہ کوشش ہے۔
مذکورہ سوالات کے علماے اسلام کی طرف سے، جیساکہ ہم نے عرض کیا،بہت سے جوابات دیے گئے ہیں،مگر ان سب میں قرآن مجید سے استدلال کاطریق اوراس سے تفہیم مدعاکاطرز ، بالعموم تین ہی طرح کارہا ہے:
۱۔مردوزن کے بارے میں معاشرے کی موجودہ روایات اوراس کے عرف کواس طرزمیں پہلے اصل قرار دے لیاگیا اورپھر اسی کی روشنی میں قرآنی ہدایات کوپڑھنے اوران سے احکام کو اخذ کرنے کا کام شروع کردیاگیا۔اس سلسلے میں،البتہ اس بات کالحاظ رہاکہ جوعالم مشرق یا مغرب ، جس معاشرے سے تعلق رکھتاتھا، اسے صرف اُسی کی روایات کاپاس اورقرآن میں انھی کی تلاش سے مطلب رہا۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتارہاکہ جب دوسروں سے مرعوبیت کاذہن بنا یا پھرمروّجہ قدروں کے ردّعمل میں کچھ نئی قدریں پیدا ہوگئیں تو انھی کوحق اورسچ جان کر ان کے لیے مذہبی بنیادیں فراہم کرنے کا بیڑابھی اٹھا لیا گیا۔
۲۔ایک طرزیہ رہاکہ مذکورہ بالاطریق جن دو انتہاؤں کوجنم دیتاتھا،بعض حضرات کے ہاں ان میں موافقت پیدا کرنے اوران کے مقابلے میں ایک معتدل راے پیش کرنے کاجذبہ پروان چڑھا۔انھوں نے خارج میں ایک ’’معتدل ‘‘اورنہایت ’’متوازن ‘‘راے قائم کی،اسے بیان کرنا دینی واخلاقی فرض جانااورآخرکاراسی کے رنگ میں سب قرآنی ہدایات کورنگ کررکھ دیا۔
۳۔اس موضوع پرکلام کرنے کایہ اندازبھی ہردورمیں متداول رہاکہ ہرچیز سے بالاترہوکر قرآن کو پڑھا گیا۔ اس کامفہوم طے کرنے میں کسی ماحول کو دخل ہوااورنہ کسی مقصد کو ۔ بس یہ ہوا کہ قرآن کی اپنی بات کوسمجھ لیاگیا اورپھر اسے ہی خداکی ہدایت کی حیثیت سے بیان کر دیا گیا ۔
صاف واضح ہے کہ اول الذکر دوطریق توایسے ہیں کہ ان میں کچھ اہداف پہلے سے مقرر کرلیے گئے اورپھرانھی کوقرآن کانام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اس لحاظ سے یہ خارج کوقرآن میں داخل کردینے کاعمل ہے، اوراسی وجہ سے غیرعلمی اورحق سے ہٹاہواایک عمل ہے۔ان کے مقابلے میں جو تیسراطریق ہے، تواس میں قرآن مجیدکوویسا ہی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے، جیساکہ وہ حقیقت میں ہے۔ اگرچہ اس میں بھی ایک مسئلہ ضرور درپیش رہا ہے کہ نقص علم جب آڑے آیایاکج فہمی اورتدبر کی کمی نے جوکبھی آفت ڈھادی تو نتیجہ اس کابھی یہی ہواکہ سارے کاساراقرآن خارجی نظریات کی بازگشت بن کررہ گیا،تاہم کسی شے کوپڑھنے کاعلمی طرزچونکہ صرف یہی ہے ،اس لیے ہمیں بھی اس تحریر میں اسے ہی اختیار کرناہے۔مردوزن کے بارے میں کون کیاکہتاہے ،اس بات سے قطعی طور پر بے نیاز ہو کر قرآن ہی کودیکھنا اوراسی سے اس کی ہدایت کوپانے کی کوشش کرناہے۔
قرآن مجیدکی دو آیات ایسی ہیں جوہمارے خیال میں اس مقصدکے لیے حددرجہ کفایت کر تی ہیں۔ انھیں اگر ٹھیک طریقے سے پڑھ لیاجائے توجس طرح مذکورہ بالا تمام سوالوں کاتسلی بخش جواب ہوجاتاہے ،اسی طرح ان معاملات میں اسلامی نقطۂ نظراصلاًہے کیا ،وہ بھی واضح ہوکر سامنے آ جاتا ہے۔ مزیدیہ کہ اُن آرا پر بھی ایک طرح کاتبصرہ ہوجاتا ہے جن میں خارج کے نظریات قرآن میں ڈھونڈنے کاعمل ہوتا،ملّی روایات کوعین اسلامی قرار دیاجاتایا پھر قرآن ہی کے نام سے غیرقرآنی نظریات کو پیش کردیا جاتا ہے۔آیندہ کے صفحات میں ہم ان آیات کا مطالعہ کریں گے اوراس ضمن میں پیداہونے والے عمومی شبہات کاذکراورقرآن ہی کی روشنی میں ان کا حل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ عظیم الشان دوآیات یہ ہیں:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا، وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا.(النساء۴: ۳۴۔۳۵)
’’مردعورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں،اس لیے کہ اللہ نے ایک کودوسرے پرفضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں ،وہ فرماں بردار ہوتی ہیں،رازوں کی حفاظت کرتی ہیں،اس بناپرکہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں نصیحت کرو اور ان کے بستروں پر انھیں تنہا چھوڑ دو اور انھیں سزا دو۔پھراگروہ تمھاری اطاعت کا رویہ اختیارکرلیں توان پرالزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک،اللہ بہت بلند ہے،وہ بہت بڑا ہے۔ اور اگر تم میاں اوربیوی کے درمیان افتراق کااندیشہ محسوس کروتوایک حَکم مردکے لوگوں میں سے اورایک عورت کے لوگوں میں سے مقررکردو۔اگر دونوں اصلاح چاہیں گے تواللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک، اللہ علیم و خبیر ہے۔‘‘
_______
’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘(مرد عورتوں کے قوّام ہیں)۔ یہ جملہ خداکی شریعت کابیان ہے۔اس میں مردسے مراد شوہراورعورتوں سے مراداصل میں انھی کی عورتیں ،یعنی بیویاں ہیں۔ اور قوّام سے مراد ان شوہروں کا منتظم اورسربراہ ہوناہے۔یہ آیت کاسادہ مفہوم ہے جوبناکسی رکاوٹ کے سمجھ میں آتااوربادی النظرمیں قرآن کے ہراُس طالب علم پرواضح ہوجاتاہے جواِس کی زبان سے آشنائی ،اس کے اسالیب کی پرکھ اوراس کے اندازِبیان سے کماحقہٗ واقفیت رکھتا ہے۔البتہ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جن کے لیے اس جملے سے مذکورہ مفہوم کواخذ کرلینا،ممکن نہیں رہا۔اس کی وجہ دراصل ان کے کچھ علمی شبہات ہیں۔ہم ذیل میں انھی شبہات اوران کی اصل حقیقت کوبیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔آیت میں چونکہ ’اَلرِّجَال‘ اور ’النِّسَآء‘ کے الفاظ آئے ہیں کہ جن کا اصل معنی شوہراوربیوی نہیں،بلکہ مرد اورعورت ہے،اس لیے بعض حضرات کویہ خیال ہواکہ اسلام میں ہرمرد کوہرعورت پر قوّام بنایا گیا ہے۔یعنی جس طرح شوہربیوی کاقوام ہے ،اسی طرح باپ بیٹی کا،بھائی بہن کا اور بیٹا ماں کا قوام ہے، حتیٰ کہ مرد بحیثیت مجموعی اپنے معاشرے کی ہر عورت کاقوام ہے۔یہ خیال اس لیے پیداہواکہ یہ حضرات زبان کے ایک عمومی اسلوب کالحاظ نہیں کرپائے کہ جس سے اہل علم عام طور پر واقف ہی ہیں۔وہ یہ کہ بعض اوقات گفتگومیں الفاظ توعام بولے جاتے ہیں، مگران کاموقع استعمال ان میں ایک طرح کی تخصیص پیداکردیتاہے۔ عام لفظ کااس طرح تخصیص میں چلے جانے کایہ اسلوب، کم وبیش ہرزبان میں ایک مسلّم قاعدے کی حیثیت رکھتااوراہل زبان کی بول چال اور ان کی تحریر و تقریر میں ،بالعموم شائع وذائع ہوتا ہے۔مثال کے طورپر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ’’مرد نان ونفقہ کا بار اٹھاکربچوں سے بے پروا ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے اصل قربانی تو عورت دیتی ہے‘‘توبناکسی اُلجھن اورتکلف میں پڑے سبھی یہ جان لیتے ہیں کہ اس جملے میں عورت اورمرد سے ان دونوں کی پوری جنس نہیں،بلکہ صرف اور صرف ماں اورباپ مراد ہیں۔ یہی اسلوب ہے جومذکورہ آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں ’اَلرِّجَال‘ اور ’النِّسَآء ‘ کے الفاظ اگرچہ عام ہیں، مگر ان کے بارے میں آنے والی وضاحتیں اورمختلف نوع کی ہدایات آخری درجے میں واضح کردیتی ہیں کہ ان سے مراد سب مردوعورت نہیں ،بلکہ صرف میاں اور بیوی ہیں ۔
یہاں ایک سوال پیداہوتاہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس طرح کے اسالیب کوبرتنے میں محض زبان کی خوب صورتی کا لحاظ نہیں ہوتا،بلکہ کوئی نہ کوئی معنویت بھی اس کاباعث ہواکرتی ہے کہ جس کا اِبلاغ متکلم کے پیش نظر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ کیامدعاہے کہ جس کے لیے قرآن نے عربی زبان میں زن وشو کے لیے مستعمل خاص لفظوں کے بجاے ان عام لفظوں کواستعمال کیاہے؟یہ مدعا،اس آیت کے سیاق پرنظرہوتوبآسانی سمجھ میں آسکتاہے۔اس آیت کی تمہید آیت ۳۲ پر اٹھائی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں آیت۳۲کی اصل ہے کہ جس پر یہ متفرع ہوئی ہیں۔ اُس میں ارشاد ہوا ہے :
وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ.
’’اورجوکچھ اللہ نے تم میں سے ایک کودوسرے پر ترجیح دی ہے ،اُس کی تمنانہ کرو،(اِس لیے کہ) مردوں نے جوکچھ کمایاہے ،اُس کاحصہ انھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جوکچھ کمایاہے ، اُس کاحصہ انھیں بھی لازماًمل جائے گا۔‘‘
واضح سی بات ہے کہ یہاں جس فضیلت کی تمناکرنے سے روکاگیاہے، وہ بلااختلاف مرد وعورت کی باہمی فضیلت ہے ۔مزیدیہ کہ وہ اپنی حقیقت میں کسبی نہیں ،بلکہ خِلقی ہے۔پہلی بات کی دلیل آیت میں مرداورعورت کے الفاظ کاموجودہوناہے ،اوردوسری بات کی دلیل خلقی کی تمنا چھوڑ کرکسبی کے حصول کی ترغیب دیناہے۔گویایہ بات تمہیدہی میں واضح ہوگئی کہ مردوزن کوایک دوسرے پرکچھ نہ کچھ خلقی فضیلت ضرورحاصل ہے۔اس کے بعدآیت ۳۴میں جب زن وشوکے بارے میں ہدایات دینے کاموقع آیا کہ جس میں ایک فریق کواس کی خلقی فضیلت ہی کی بنیاد پر قوامیت دی جانی ہے توظاہرہے یہاں میاں اوربیوی کے نہیں ، مرداورعورت کے الفاظ ہی موزوں ہوسکتے تھے،وہ اس لیے کہ یہ تخصیص میں جاکرمیاں اوربیوی کے رشتے کوتوبیان کرتے ہی،ایک فائدہ یہ بھی ہوتاکہ عموم میں رہتے ہوئے یہ خاندان کے دائرے میں مردکی خلقی فضیلت کی طرف ہلکاسااشارہ بھی کردیتے۔
۲۔کچھ لوگ اس بات کوتوٹھیک سمجھے ہیں کہ ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ میں مرد وعورت سے مراد میاں بیوی ہی ہیں،مگر اس میں بیان کردہ قوامیت کے صحیح مفہوم کو سمجھ لینے سے وہ قاصررہ گئے ہیں۔وہ عربی لغت کے نہایت معتبرحوالوں سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ’قوّام علی‘ کا مطلب صرف اورصرف ’مانھا‘ ہے، یعنی شوہرنے بیوی کے لیے روزی روٹی کاانتظام کیا۔چنانچہ ان کے نزدیک اس آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ شوہربیویوں کے سربراہ ہیں،بلکہ یہ ہے کہ وہ محض ان کی مالی ضرورتوں کے ذمہ دار ہیں ۔
یہ بات صحیح ہے کہ ’قام‘ جب عورت کے حوالے سے اور ’علی‘ کے صلے کے ساتھ آئے تواس کا مطلب ’مانھا‘، یعنی روزی مہیا کرنا اور عورت کے نان ونفقہ کاذمہ دارہوجاناہے،تاہم یہ بات بھی واضح رہے کہ شوہرکی یہ ذمہ داری اس طرح کی نہیں ہے کہ جس سے مقصودصرف نان ونفقہ دے دیناہو،بلکہ یہ بیوی کے تمام معاملات کامنتظم ہوتے ہوئے پھراس کی مالی ضرورتوں کاکفیل ہوجانا ہے۔۱ یہی وجہ ہے کہ اہل لغت میں سے جنھوں نے اختصارکے بجاے تفصیل کا انداز اپنایا ہے، انھوں نے اس ترکیب کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ’مانھا‘کہہ دینے پر اکتفانہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ’وقام بشانھا‘ کابھی ذکرکیاہے۲ کہ جس کامعنی بہرحال عورت کے جمیع امور کاذمہ دارہوجانا ہے۔
البتہ،اس مقام پریہ بات سامنے رہے کہ ’قوّام علی‘ کا مذکورہ مفہوم،صرف لغت کے حوالے سے ہے، وگرنہ جہاں تک زیر بحث آیت کاتعلق ہے تویہاں اس کامطلب اب مالی کفیل کا نہیں، صرف اور صرف سربراہ ہونے کا ہے۔اس کی وجہ بھی زبان کاایک معروف قاعدہ ہے۔اس میں ہوتایوں ہے کہ بعض اوقات کوئی لفظ اپنے معنی کے کسی خاص پہلوسے خالی رہ جاتا یا دوسرے لفظوں میں اس سے مجرد ہو جاتا ہے۔لفظ کااس طرح مجردہوجانا، اصطلاح میں تجریدعن المعنی کہلاتا ہے ۔کلام عرب میں یہ تجریدعام طور پر متداول ہے اورقرآن مجیدمیں بھی اس کی کئی مثالیں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وارث اس شخص کوکہتے ہیں جوکسی کے مرجانے کے بعداس کے مال کا مالک ہوتا اوراس میں تصرف کرنے کا حق پاتا ہو، مگر ’اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَ، الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ‘ ۳ کی آیت میں ظاہرہے،اس کا یہ معنی لے لیناممکن نہیں ہے۔اس لیے کہ فردوس وہ شے نہیں جوکسی سابق متصرف کے اچھی طرح سے اس کوبرت لینے اور پھر مر جانے کے بعد مومن کودی جائے گی،بلکہ یہ تو خدا کا عطا کردہ وہ مقام ہوگی کہ جس میں دیاجانے والاہرعطیہ مہربنداورجہاں کی ہربخشش اچھوتی ہوگی۔غرض یہ کہ یہاں ’وارث‘ کا لفظ جس طرح کسی کے مرنے کے بعداس کے مال کا مالک ہونے سے مجرد ہو کر صرف مالک ہوجانے کے لیے استعمال ہواہے، بالکل اسی طرح ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کی آیت میں ’قوام علی‘ مالی کفیل کے معنی سے مجرد ہو کر صرف اور صرف منتظم اورسربراہ ہو جانے کے لیے استعمال ہواہے۔
’قوام علی‘ کے دوپہلووں میں سے کس کی تجریدہوئی اورکون ساعلیٰ حالہ رہا،اس کی دلیل خود آیت کے سیاق میں موجودہے۔ ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کے بعد جب یہ جملہ آگیا کہ وہ مرداپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں تویہ بات حتمی ہوگئی کہ اس میں سے مالی کفالت کے معنی کی تجریدہوئی ہے، کیونکہ یہ تجریدنہ مانیں توکلام میں ایسی نامعقولیت پیدا ہو گی جو خدائی کلام تو کجا،کسی انسانی کلام کے بھی شایان شان نہیں ہے۔یعنی مرد عورتوں کے سربراہ ہیں ،اس لیے کہ وہ مال خرچ کرتے ہیں ،اس سادہ اورپُرحکمت بات کی جگہ کچھ اس قسم کی پیچیدہ اورمہمل بات سامنے آئے گی:’’مردوں کوذمہ دارٹھیرایاگیاہے کہ وہ بیویوں پرخرچ کریں،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘گویایہ آیت ایک ذمہ داری اوراس کی وجہ کا بیان نہ ہوئی ، کسی سزا کا بیان ہوگئی جومرد بے چارے کو اپنی ذمہ داری اداکرنے ہی پر سنا دی گئی ہے۔
اسی طرح ’قَوّٰمُوْنَ عَلَی‘ میں کون سامعنی باقی رہ گیاہے،اس سوال کاجواب بھی اُس وقت واضح طورپرسامنے آ جاتا ہے، جب اس جملے کے بعد یہ باتیں کہی جاتی ہیں:
ا۔ نیک عورتیں شوہروں کی اطاعت گزارہوتی ہیں۔
ب۔ اگریہ تمھاری اطاعت کریں توپھران پرالزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ظاہر ہے ،اس طرح کی باتیں شوہرکو سربراہ مان لینے کے بعدہی کہہ دینی ممکن ہیں۔
۳۔ بعض حضرات یہ تومانتے ہیں کہ ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کی آیت میں میاں بیوی کا ذکر ہوا اور اس میں قوّام ہونے سے مراد بھی سربراہ ہوناہی ہے،مگران کے نزدیک اس آیت کا خبریہ پیرایہ ایک اورہی بات بیان کررہاہے۔ان کے خیال میں قرآن کامخاطب معاشرہ چونکہ اپنی فطرت میں ایک پدری (patriarchal) معاشرہ تھاکہ جس میں مردکوبالفعل عورت پر حاکمیت حاصل تھی،اس لیے اس خبریہ پیراے میں کسی اخلاقی اورشرعی حکم کابیان نہیں ہوا،بلکہ اس کے ذریعے سے معاشرے میں رائج روایات کی صرف خبردی گئی ہے۔
یہ راے دراصل اس مغالطے پرمبنی ہے کہ قرآن میں زبان کایہ خبریہ اسلوب، صرف اور صرف معاشرے کے حالات اوراس میں وقوع پذیرہونے والے واقعات پردلالت کیاکرتاہے، حالاں کہ اہل علم اس بات سے عام طور پر واقف ہیں کہ قرآن جس طرح مختلف انواع کے اسالیب استعمال کرتاہے ،اسی طرح بعض اوقات ایک ہی اسلوب کے مختلف استعمالات بھی کیا کرتاہے۔ اس میں یہ معمول کی بات ہے کہ مذکورہ پیراے میں سابقہ وموجودہ اقوام کے حالات بیان کیے جائیں گے اوراسی میں خداکی طرف سے مقررکی گئی شریعت بھی بیان کردی جائے گی۔ مثال کے طور پر ’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‘ ۴ کا جملہ ہے۔ یہ ہے تو خبریہ اسلوب میں ،مگرسب جانتے ہیں کہ یہ گرد وپیش میں ہونے والے کسی واقعہ کا نہیں ،بلکہ خداکی شریعت کا بیان ہے۔یہی معاملہ زیربحث آیت کابھی ہے ۔یہ بھی پدری قسم کے کسی معاشرے ،اس کے ظلم اوراس پرمبنی کسی استحصال کا نہیں ، بلکہ خدا کی شریعت ہی کابیان ہے؛اوراس بات کی دلیل خوداس آیت کا سیاق اورسباق ہے۔
۴۔اسی قسم کے بعض دوسرے لوگ ہیں جواس آیت سے متعلق مذکورہ بالاتمام حقائق کومان کر بھی ایک نئے مسئلے کاشکارہوگئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں شوہرکوبیوی کاشرعی طورپر سربراہ بنایاگیاہے،یہ بات صحیح ہے، مگراس کی بنیادپریہ کہہ دیناکہ شوہرہمیشہ کے لیے بیویوں کے سربراہ بنادیے گئے ہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں چونکہ سماجی حالات کی رعایت سے ہدایات دی جاتی ہیں جواِن حالات پرمبنی ہونے کی وجہ سے ہوتی بھی وقتی اور عارضی ہیں،اس لیے زیربحث آیت میں بھی عرب کے پدری معاشرے کالحاظ کرتے ہوئے جو کچھ ہدایات دی گئی ہیں، وہ اپنی نوعیت میں عارضی ہی ہیں۔چنانچہ ان کی بنیادپر نہ توکوئی قدرہمیشہ کے لیے مردوزن پرمسلط کی جا سکتی اورنہ عمل کاکوئی میدان مستقل طورپران کے لیے مقررکیاجاسکتا ہے،یا دوسرے لفظوں میں ، ہروہ معاشرہ جس کامزاج پدری نہیں رہ گیا، اس آیت کی ہدایات اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اب اس سے متعلق نہیں رہی ہیں۔
ان لوگوں کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن اپنے احکام دیتے ہوئے گردوپیش کے حالات کی رعایت کرتا ہے۔ بلکہ اس پر اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ایسا کرنااس پرلازم بھی ہے۔وہ اس لیے کہ کوئی بھی حکم اُس وقت ہی معقول اورقابل عمل قرار پاتا ہے، جب وہ اپنے مخاطبین سے براہ راست تعلق رکھتااورانھی کے ماحول سے پھوٹتاہوامحسوس ہوتاہو۔ان لوگوں کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ قرآن وقتی مصالح کی رعایت سے جوحکم دیتا ہے، وہ حالات پر منحصر ہونے کی وجہ سے ہوتے بھی وقتی ہیں،اس لیے کچھ وقت گزرنے اورحالات میں واضح طورپرتغیرآجانے کے بعد وہ کالعدم ہوجاتے یااپنی ظاہری ساخت ،کم سے کم ضرورکھوبیٹھتے ہیں۔مگر ان دونوں صحیح باتوں کو ملاکر یہ کہہ دیناکہ قرآن میں صرف اورصرف وقتی احکام پائے جاتے ہیں،یہ بات یک سر غلط ہے۔ ایک عام درجے کاطالب علم بھی جانتاہے کہ یہ کتاب صرف وقتی ہدایات کا مجموعہ نہیں۔اس قسم کی ہدایات اگراس میں موجودہیں توابدی نوعیت کی ہدایات بھی اس میں موجود ہیں، بلکہ اول الذکر تو اس میں محض مستثنیات کی حیثیت رکھتی اور انتہائی قلیل تعداد میں پائی جاتی ہیں اورجو مستقل بالذات وجود رکھتی اوراچھی خاصی تعدادمیں پائی جاتی ہیں،وہ دراصل ثانی الذکر ہدایات ہی ہیں۔ اس میں ایمان کے متعلق ساری تعلیمات ابدی ہیں،اخلاقیات کے سارے مباحث ابدی ہیں اور شریعت بھی اپنی جزئیات سمیت ،صدفی صدابدی ہے۔ چنانچہ اس میں موجود ایک قسم کی ہدایات کو تسلیم کرنااورپھراسی کی بنیادپر دوسری قسم، جونہ صرف اس میں موجودہو، بلکہ کثیرتعدادمیں موجود ہو، اس کی نفی کردیناایک غیر علمی طرزاوراپنے حدود سے صریح طورپر تجاوزکرجاناہے۔
یہاں عارضی اورابدی ہدایات کے بارے میں چندباتیں مزیدپیش نظررہنی چاہییں:
ایک یہ کہ قرآن میں عارضی مصالح کے تحت دی گئی ساری ہدایات بھی ایک ہی معنی میں عارضی نہیں ہیں۔ان میں سے اگرچہ وہ بھی ہیں جونزول قرآن کے وقت اوراس کے احوال سے اس طرح خاص ہیں کہ اب ان پرعمل کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی،تاہم انھی میں سے اکثروہ بھی ہیں جو اب بھی قابل عمل ہیں یاآیندہ پھرسے قابل عمل ہو سکتی ہیں۔پہلی کی مثال یہ آیت ہے: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْاْ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘۔۵ اس میں بیان ہونے والی تعلیم واقعتاعارضی نوعیت کی ہے، اس لیے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورآپ کی مجلس کے شرکا کے ساتھ خاص ایک معاملہ تھا اور آپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعداس مجلس کے بپاہونے کا کوئی امکان ہے نہ اس کے متعلق تعلیمات پرعمل کرنے کا اب کوئی موقع ہے۔دوسری قسم کی مثال یہ آیت ہے: ’وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلاَ یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا‘۔۶ اس میں بیان کردہ تعلیم بھی عارضی ہے ، اس لیے کہ یہ تعلیم اس معاشرے کودی گئی تھی کہ جس میں قاتل کو اجتماعی طورپرسزادینے کاابھی کوئی انتظام نہ ہوسکاتھا،تاہم یہ اس طرح کی عارضی نہیں ہے کہ اس پراب کبھی بھی عمل نہ ہو سکتا ہو، بلکہ آج بھی اگرکوئی معاشرہ اسی حالت میں ہویاپھرپلٹ کراسی حالت میں چلاجائے تواس آیت کی تعلیم پھر سے اس کے لیے قابل عمل ہوجائے گی۔
دوسری بات یہ کہ قرآن جیسی کتاب جوالہامی ہونے کی دعوے دارہے ،اس میں ابدی ہدایات کاوجود، انتہائی معقول بھی ہے اورازحدضروری بھی۔وہ اس لیے کہ ہماری فطرت اپنے اندراخلاقی داعیات رکھتی اورعقل انھی کی بنیاد پروقتی مصالح کے تناظر میں ایک قانون کووضع کرلینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے، لیکن ہماری یہ صلاحیت ہرگزنہیں کہ ہم حالات موجودہ کے تناظرسے اٹھ کر حقائق کا اِدراک اوران پرمبنی کسی مستقل حکم کا استخراج کرسکیں۔ یہاں ہم مجبورمحض ہیں کہ خداہماری رہنمائی کرے اورہمیں ابدی احکام عطا کرے۔اب جو ابدی شریعت کے منکرہیں، انھیں ان دوسوالوں کا جواب ضروردیناچاہیے:اول یہ کہ ان کے دعوے کے مطابق اگر قرآن میں صرف عارضی احکام پائے جاتے ہیں توبتایاجائے کہ عقل وفطرت کی موجودگی میں ان کی اصلاً ضرورت ہی کیاہے؟دوم یہ کہ اگراس میں ابدی احکام نہیں پائے جاتے تو اسے خدائی کتاب کی حیثیت سے دوسروں کے سامنے پیش کرنا،آخراس کی وجہ کیاہے؟
ہمارے خیال میںآیت ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کے تحت عارضی اورابدی کی اصولی بحث چھیڑدینے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ان دونوں کے ثبوت کواصول میں مانتے ہوئے ہمیں ہر آیت کو علیحدہ سے دیکھناچاہیے کہ وہ اپنے مضمون اورسیاق کے لحاظ سے کس نوعیت کی حامل ہے ۔ کیااس پرعمل کرناآج کے دورمیں یا پھرہمیشہ کے لیے ناممکن ہو چکا یا پھر اس پرآج بھی عمل ہوسکتا اور قیامت تک ہو سکتا ہے؟ اس نظرسے مذکورہ آیت کودیکھیں توواضح ہوجاتاہے کہ اس میں دی جانے والی ہدایت کے وقتی اورعارضی ہونے کی کوئی دلیل اس آیت میں توکیا، پورے قرآن میں کہیں موجودنہیں ہے۔ البتہ، اس ہدایت کی نوعیت اوراس کاسیاق اس کے ابدی ہونے پرنہایت واضح دلیل ضرور رکھتا ہے ۔ اول تو میاں اور بیوی کاادارہ کہ جوہمیشہ سے چلاآتا اوراسے ہمیشہ کے لیے قائم بھی رہنا ہے، اس کے بارے میں دی گئی تعلیمات محض عارضی ہوں ،یہ بات ہی غیر معقول ہے۔پھراس حکم کے جووجوہ بیان کیے گئے ہیں ،وہ اپنی حقیقت میں اس بات کاانکار کرتے ہیں کہ انھیں کسی عارضی حکم کی بنیادسمجھاجائے، بلکہ ان میں سے ایک اپنی ذات میں فطری ہونے کی وجہ سے اوردوسرا فطری ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون معاشرت کاایک اہم حصہ ہونے کی وجہ سے نہایت واضح طورپرابدی نوعیت رکھتاہے۔تفصیل ان کی آیندہ صفحات میں آئے گی۔
۵۔کچھ لوگ یہ بات تومان لیتے ہیں کہ شوہرقرآن مجیدکے مطابق بیویوں کے قوام ہی ہیں،مگر اس پرایک سوال اٹھا دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے میاں اوربیوی ، دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھ کر معاملہ کیوں نہیں کیا ،کیوں ان میں سے ایک کودوسرے پرحاکم بنادیا گیا؟ اور ایسا کیوں نہیں ہوا کہ حاکم اورمحکوم کے بجاے انھیں دو دوست قراردیاجاتاکہ یہ زندگی سے صحیح طور پر حظ اٹھاتے، دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے اور اس طرح معاشرے کو مفید اور تعمیری اکائی فراہم کرنے کاایک موثرذریعہ بن جاتے؟
اس اعتراض نماسوال کاجواب یہ ہے کہ قرآن خودیہ چاہتاہے کہ میاں بیوی کے مابین دوستوں اورہم جولیوں کاسا ماحول ہو،پیاراور محبت کا رشتہ پایا جاتاہو، یہ اچھی معاشرت قائم کریں اورزندگی سے خوب خوب حظ اٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے لیے بالعموم ’زَوْج‘ کالفظ استعمال کرتا،۷ ان کی فطری مودّت کا ذکر کرتا،۸ انھیں ایک دوسرے کالباس قرار دیتا۹ اور ان کی آزادیوں اوربے تکلفیوں کوبیان کرنے کے لیے کھیتی تک کااستعارہ استعمال کرتا ہے۱۰ ۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتاہے کہ انسانی رشتوں میں مراتب کاجوواضح فرق ہے ،اس کابھی لحاظ رہے۔وہ بتاتاہے کہ ماں باپ اوران کی اولادممتااورشفقت کے باہمی ناتوں کے باوجود، آپس میں مراتب کافرق رکھتے ہیں اوراتنافرق رکھتے ہیں کہ اولاد کے لیے اِن کی برابری کرنا تو بہت دورکی بات، بے زاری سے ’اونہوں‘ کہہ دینا بھی روانہیں ہے۔ یہی معاملہ استاد اورطالب علم کے باہمی رتبے کاہے۔اورفرق مراتب کایہی وہ اصول ہے جو زن وشو کے رشتے پربھی مکمل طور پرلاگوہوتا ہے۔ آج کا سماج چاہے انھیں برابر کی سطح پردیکھتااور رفقا سے اوپرکوئی حیثیت دینے کوتیارنہ ہوتا ہو،مگر قرآن کی تعلیم بڑی واضح ہے کہ ان میں سے ایک بہرحال قوّام ہے۔اوریہ قوامیت ہی ہے جو ان کے درمیان میں مراتب کی تقسیم پیداکردیتی اورلازم قراردیتی ہے کہ اس کاہردم، حتیٰ کہ محبتوں کے ہر موسم میں بھی لحاظ رکھاجائے، یعنی ان میں اُلفت ہو،محبت ہو،عشق اورمستی ہو، پیار کی وہ جولانیاں ہوں کہ ماضی کی ہرداستان محبت صرف وہم سمجھی جائے، کسی شاعر کاخیال سمجھی جائے، مگر اس سب کے باوجود،ایک گونا رتبے اور درجے کا فرق ان میں پھر موجود ہو۔
جہاں تک سوال کے اس حصے کاتعلق ہے کہ میاں بیوی میں سے ایک کودوسرے پرحاکم بنایا ہی کیوں گیاہے؟ تو اس کے جواب میں دوباتیں سامنے رہنی چاہییں:پہلی یہ کہ حاکم کالفظ قرآن نے استعمال نہیں کیا۔ یہ تو ’قوام علی‘ میں موجود استعلا کوبیان کرنے کے لیے مفسرین یا پھرمترجمین کا اختیارکردہ لفظ ہے۔لہٰذا آج کی دنیامیں اس سے پیدا ہونے والے توحش اورتنفر کی ذمہ داری کسی مفسر اورکسی مترجم پرآئے توآئے ،قرآن پرایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔قرآن نے جو ’قوام علی‘ کی ترکیب بیان کی ہے، اس کامعنی اہل لغت کی تصریحات کے مطابق حاکم کا نہیں، بلکہ منتظم یا سربراہ کابنتاہے،جیساکہ اوپربیان ہوا۔دوسری بات جواس سلسلے میں سامنے رہنی چاہیے، وہ اس رشتۂ نکاح کی حقیقت ہے۔یہ بات توہم سب مانتے ہیں کہ نکاح باہمی رفاقت کے پیمان کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ بات بھی ہمیں مان لینی چاہیے کہ یہ مردوزن کی محض رفاقت ہی نہیں ہے کہ یہ تواس کے بغیر بھی حاصل ہو سکتی اور بہ حسن وخوبی حاصل ہوسکتی ہے ۔نکاح اصل میں رفاقت سے آگے بڑھ کر خاندان کاادارہ وجودمیں لانے کاایک اعلان بھی ہے۱۱ ۔ سو نکاح کی یہی حقیقت ہے جو ہمیں مجبورکرتی ہے کہ جس طرح ریاست کے ادارے یاکسی کاروباری ادارے کا ہم سربراہ بناتے ہیں،اسی طرح خاندان کے اس ادارے کا بھی کوئی سربراہ بنائیں۔ نیزوہ سربراہ ہوبھی صرف ایک۔ اس لیے کہ ادارے کی بقا اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس پردودوسربراہ لاد دیے جائیں اوروہ اختیارات کے معاملے میں ہمیشہ منازعت کاشکار رہیں۔یہ ساری باتیں اس قدر واضح ہیں کہ قرآن عورت کے بجاے مرد کو سربراہ بنانے کی دلیل تو دیتاہے ،مگران میں سے کسی ایک کو کیا سربراہ ہونابھی چاہیے یاان میں سے صرف ایک ہی کو ہوناچاہیے ، وہ سرے سے ان باتوں کی کوئی دلیل نہیں دیتاکہ یہ سب اس ادارے کاناگزیر تقاضا ہے ۔غرض یہ کہ مرد وزن کوایک جیسی حیثیت دینے کے بجاے ان میں سے ایک کواگرسربراہ بنانا پڑاہے تواس کی واحدوجہ خاندان کایہ ادارہ ہے،جو اگر نہ ہوتاتوان دونوں کو نکاح کے بعدبالکل برابری کادرجہ دے دیاجاتا۔
۶۔شوہرکابیوی پرحاکم ہونانہیں،بلکہ محض اس کاسربراہ ہوجانا،کچھ نازک طبیعتوں پریہ بھی گراں گزراہے اوروہ کسی بھی صورت میں اسے مان کردینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ان کے اس انکار کی ،اگرغورکیاجائے تودو بنیادی وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ مردکی سربراہی کو یہ حضرات ایک وجۂ ترجیح خیال کرتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ سربراہی مردکو آسمان پر بٹھا دینے اورعورت کو زمین تلے گرادینے کا ایک قانونی جوازہے،اوراس اعتبارسے ظلم کی انتہائی کریہہ صورت اور خودقرآن کے ولٹن شاؤنگ (Weltanschauung) کے بالکل خلاف ہے۔۱۲ ان کے انکارکی دوسری وجہ لفظ سربراہ کے ساتھ جڑے ہوئے وہ تلخ تجربات ہیں جن کی بہت سی مثالیں گردوپیش میں ہروقت دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ یہ حضرات شوہرکی سربراہی کوبھی انھی کے تناظرمیں دیکھتے اورنتیجتاً اس پربھی صریح ظلم کااطلاق کرنے لگتے ہیں۔
پہلی بات کے جواب میں واضح ہو کہ اول تویہ مسئلہ عورت اورمردکی جنس کانہیں ،بلکہ شوہراور بیوی کے رشتے کا ہے،۱۳ اس لیے اس کی بنیادپرمردوزن کی مساوات پرگفتگوکرنا،بالکل بے معنی اوربے محل ہے۔مزیدیہ کہ شوہرکوبیوی پر حاصل یہ سربراہی کسی قسم کی ترجیح یافضیلت کی کوئی شے نہیں، بلکہ تقسیم کارکے اصول پرطے کیاگیا عمل کاایک تفاوت ہے۔ اس اعتبار سے یہ حددرجہ معقول بھی ہے اور ازحدضروری بھی اور محض ایک ذمہ داری ہے اورکچھ بھی نہیں۔آج بھی ریاست میںیا پھر کسی کاروباری ادارے میں تقسیم کارکے اسی اصول کے مطابق مختلف لوگوں کومختلف ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ایک ریاست کاسربراہ قرارپاتاہے تودوسرااُسی ریاست کاایک عام شہری۔ ایک شخص کاروباری معاملات میں صاحب کی جگہ سنبھالتاہے تودوسرامحنت اورمزدوری کی ذمہ داریاں نبھاتاہے۔یہ سبھی اپنے اپنے دائروں میں کام کرتے اوراس طرح اپنے اداروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں،مگر عمل کا یہ تفاوت ان کی بنیادی حیثیت میں کوئی کمی کرتاہے اورنہ کسی قسم کا کوئی اضافہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح خاندان کے ادارے کامعاملہ ہے۔اس میں بھی چندذمہ داریوں کا تعین مرداور عورت کی بنیادی صلاحیتوں کے لحاظ سے کردیاگیاہے۔یہ تعین ان کے درجوں میں انتظامی قسم کا ایک فرق تو ضرور پیدا کردیتاہے ،مگران کی بنیادی حیثیت میں کوئی کمی یابیشی ہرگز نہیں کرتا۔ چنانچہ مرد کی سربراہی کو ایک وجۂ ترجیح اورفضیلت کی کوئی چیزسمجھنااوراسے عدل وانصاف کے خلاف قرار دے لینا،یہ دونوں باتیں صحیح ہیں اورنہ ان کی بنیادپرکیے جانے والے اعتراضات ہی صحیح ہیں۔
دوسری بات کے جواب میں عرض ہے کہ سربراہ کاجوتصور ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ فی الواقع قابل رشک نہیں اورلازم ہے کہ اس سے ذہنوں میں اشکال پیداہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سربراہوں میں اورشوہرکے سربراہ ہونے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ان میں سے ایک سربراہ وہ ہے جوظلم اورجبرکانتیجہ یا کسی بگڑے ہوئے عقیدے کالازمہ ہوتاہے،چنانچہ وہ ہر زیر دست کو اپنی ملکیت قراردیتا،اس کے جان ومال کااستحصال کرتااورہردم اس کے درپے آزاررہتا ہے۔یا پھر وہ سربراہ ہے جو ایک بے حس معاشی نظام کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ،چنانچہ اپنا ہی مفاد سامنے رکھتااوراپنے ماتحتوں کے خون کا ہرہرقطرہ چوس لینے کو ہمہ وقت بے قرار رہتا ہے۔ لیکن ان سب کے مقابلے میں ایک سربراہ وہ ہے جوکسی غیر کا نہیں ، اپنے گھر اورخاندان ، اپنی بیوی اور اپنے ہی بچوں کی ماں کا سربراہ ہوتا ہے۔ اورصرف سربراہ ہی نہیں ، اُس کا ’زَوْج‘ اورصاحب ہوتا،اس کے نفع ونقصان میں شریک ، اس کے دکھ سکھ کا ساتھی ، اس کی جلوت اورہر خلوت کاہم نشین بھی ہوتا ہے ۔غرض یہ کہ یہ بہت بڑافرق ہے اوراس کے ہوتے ہوئے ان دونوں قسم کے سربراہوں میں ذرہ بھربھی کوئی نسبت مانی جاسکتی اورنہ ایک کو دوسرے پرقیاس ہی کیاجاسکتا ہے کہ ان میں سے ایک کے ظلم اور مادہ پرستی کا ہوا دکھاکردوسرے کوجی بھرکرمطعون کیاجائے یا پھر ایک کی رعونت اور خودغرضی کا اشتہار دے کر دوسرے کی محبت اورخلوص کوبھی یک سررد کردیاجائے ۔
_______
۱ ذمہ داری کے اس فرق کواس مثال سے بخوبی سمجھاجاسکتاہے کہ ایک شخص مسجد کے اخراجات کے لیے باقاعدہ کچھ رقم دیتا ہے اوربس، مگر دوسراوہ ہے جواصل میں مسجدکامتولی اورناظم ہے ،چنانچہ اس حیثیت سے اس پرخرچ بھی لازماًکرتاہے۔
۲ جیسے علامہ فیروزآبادی نے ’’القاموس المحیط‘‘ میں اورعلامہ زبیدی نے ’’تاج العروس‘‘ میں۔
۳ المومنون۲۳: ۱۰۔۱۱۔
۴ البقرہ۲: ۲۲۹۔ ’’یہ طلاق (ایک رشتۂ نکاح میں) دو مرتبہ (دی جا سکتی) ہے۔‘‘
۵ البقرہ ۲: ۱۰۴۔ ’’ایمان والو، (تم بارگاہ رسالت میں بیٹھو تو) ’رَاعِنَا‘ نہ کہا کرو، ’اُنْظُرْنَا‘ کہا کرو اور (جو کچھ کہاجائے، اسے) توجہ سے سنو،اور (اس بات کویادرکھوکہ)اِن کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
۶ بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳۔ ’’اورجوشخص مظلومانہ قتل کیاگیاہو، اس کے ولی کوہم نے اختیاردے دیا ہے۔ چنانچہ وہ قتل میں حد سے تجاوزنہ کرے،اس لیے کہ اس کی مددکی گئی ہے۔‘‘
۷ النساء۳: ۲۰۔
۸ الروم۳۰: ۲۱۔
۹ البقرہ۲: ۱۸۷۔
۱۰ البقرہ۲: ۲۲۳۔
۱۱ یہ بھی یادرہے کہ اس ادارے کوقائم کرنے کی تحریک کسی فکری عمل کانتیجہ نہیں کہ اس پر دو رائیں ہوسکیں،بلکہ یہ فطرت انسانی کابدیہی تقاضا اور انسانی تاریخ کا مجمع علیہ عمل ہے کہ اس کے بغیر بچوں کو نہ بڑوں کی شفقت مل سکتی اورنہ بڑوں بوڑھوں کواپنی نگہداشت کے لیے اولادکی توجہ ہی میسر آ سکتی ہے۔
۱۲ اس اصطلاح سے مرادکلی نوعیت کے تصورات ہیں۔ زیربحث مسئلہ میں اس سے مراد قرآن میں بیان کردہ وہ تعلیمات ہیں جواپنی نوعیت میں عمومی اندازرکھتی ہیں ،جیسے انسانی عظمت یاعدل و انصاف ۔
۱۳ وگرنہ ایک عورت ہونے کے باوجود،ماں باپ سے تین درجے زیادہ مقام رکھتی ہے۔
____________