HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۶۱- ۷۲ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۶۱} یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ{۶۲} اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّہٗ مَنْ یُّحَادِدِاللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ{۶۳}
یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ قُلِ اسْتَھْزِئُ وْا اِنَّ اللّٰہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ{۶۴} وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَستَھْزِئُ وْنَ{۶۵} لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃًم بِاَنَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ{۶۶} 
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ{۶۷} وَعَدَاللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْکُفَّارَنَارَجَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ھِیَ حَسْبُھُمْ وَلَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ{۶۸} کَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْکُمْ قُوَّۃً وَّاَکْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِھِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِکُمْ کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ بِخَلَاقِھِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ{۶۹} اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاُالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّثَمُوْدَ وَقَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکٰتِ اَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ{۷۰}
 وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۷۱} وَعَدَاللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۷۲}
اِنھی میں وہ لوگ بھی ہیں جو (اپنی باتوں سے) پیغمبر کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص تو سراپا کان ہے۲۲۱؎۔ کہہ دو: وہ تمھاری بھلائی کے لیے کان ہے۲۲۲؎۔وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، ایمان والوں پر اعتماد کرتا ہے اور اُن کے لیے سراسر رحمت ہے جو تم میں سے پوری سچائی کے ساتھ ایمان لائے ہیں۲۲۳؎۔(سن لو) جو اللہ کے رسول کو دکھ دے رہے ہیں، اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ وہ تمھارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ تمھیں راضی کریں۔ حالاں کہ اگر وہ مومن ہیں تو اللہ اور اُس کا رسول زیادہ حق دار ہیں کہ وہ اُس کو راضی کریں۲۲۴؎۔کیا وہ نہیں جانتے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کرے گا، اُس کے لیے دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۲۲۵؎۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۲۲۶؎۔۶۱-۶۳
یہ منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نہ اتار دی جائے جو اِن کے دلوں کے بھید اُن پر کھول دے۲۲۷؎۔(اِن سے) کہو: (کچھ دیر اور) مذاق اڑا لو، اللہ اُس چیز کو کھول کر رہے گا جس سے تم ڈرتے ہو۔ (اِن کے اِس رویے کے بارے میں) اگر تم اِن سے پوچھو گے تو کہہ دیں گے کہ ہم تو محض سخن گستری اور دل لگی کر رہے تھے۔ (اِن سے) کہو: کیا تم اللہ سے ، اُس کی آیتوں سے اور اُس کے رسول سے ہنسی دل لگی کر رہے تھے؟ باتیں نہ بنائو، تم نے ایمان کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم تمھارے کسی گروہ سے درگذر بھی کر لیں گے۲۲۸؎ تو دوسرے کو ضرور (اِسی دنیا میں) سزا دیں گے، اِس لیے کہ وہ (فی الواقع) مجرم ہیں۲۲۹؎۔ ۶۴-۶۶
منافق مرد اور منافق عورتیں، سب ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ یہ برائی کی تلقین کرتے، بھلائی سے روکتے اور اپنے ہاتھ (ہر خیر کے لیے) بند رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی اِنھیں بھلا دیا۲۳۰؎۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منافق بڑے ہی بد عہد ہیں۲۳۱؎۔ اِن منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کھلے منکروں سے اللہ نے دوزخ کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ اِن کے لیے یہی کافی ہے۔ اِن پر اللہ کی لعنت ہے اور اِن کے لیے دائمی عذاب ہے۔ (ایمان کا جھوٹا دعویٰ کرنے والو۲۳۲؎)، اُنھی لوگوں کی طرح جو تم سے پہلے ہو گزرے۔ وہ زور میں تم سے زیادہ اور مال و اولادکی کثرت میں تم سے بڑھے ہوئے تھے۔ سو اُنھوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا اور تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھالیا، اُسی طرح جیسے تمھارے اگلوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا تھا اور تم نے وہی بحثیں کیں، جیسی اُنھوں نے بحثیں کی تھیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی نامراد ہونے والے ہیں۔ کیا اِنھیں اُن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو اِن سے پہلے گزرے۲۳۳؎ ـــــ نوح کی قوم، عاد و ثمود، ابراہیم کی قوم،۲۳۴؎مدین والوں اور اُن بستیوں کی خبر جنھیں الٹ دیا گیا۔۲۳۵؎ اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔سو ایسا نہ تھا کہ اللہ اُن پر ظلم کرتا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔۶۷-۷۰
مومن مرد اور مومن عورتیں، (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ عنقریب اپنی رحمت سے نوازے گا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ اِن مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے اُن باغوں کے لیے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے، اور ابد کے باغوں میںپاکیزہ مکانوں کے لیے۔ اور خدا کی خوشنودی ، وہ سب سے بڑھ کر ہے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔۷۱-۷۲

۲۲۱؎ یعنی ہر وقت ہر شخص کی بات سننے اوراُسے مان لینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ ہجو ملیح کا جملہ ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ مفہوم اِس جملے میں یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر ایک کی بات سن لینا جہاں آدمی کی شرافت اور کریم النفسی کی دلیل ہے، وہیں یہ اُس کی سادگی، بھولے پن اور بے بصیرتی کی بھی دلیل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لفظ اِس کے اِسی مفہوم کو پیش نظر رکھ کر استعمال کرتے۔ وہ اپنی نجی مجلسوں میں اللہ، اُس کے رسول اور آیات الہٰی کا مذاق اڑاتے۔ جب آں حضرت تک کسی ذریعے سے اُس کی خبر پہنچتی اور آپ اُس پر کچھ خفگی یا ناراضی کا اظہار فرماتے تو منافقین اپنی صفائی میں لوگوں سے یہ کہتے کہ یہ نیک آدمی ہیں۔جو بات کوئی شخص کان میں ڈال جاتا ہے، اُس کو سچ جان لیتے ہیں اور اُس کی بنا پر ہم جیسے وفاشعاروں اور اطاعت گزاروں سے بدگمان ہو جاتے ہیں، ورنہ بھلا ہماری زبانوں سے اللہ و رسول کی شان میں کوئی توہین کا کلمہ قصداً نکل سکتا ہے؟ ازراہ سخن گستری، مذاقاً اور تفریحاً بلا ارادۂ تحقیر کوئی لفظ زبان سے نکل گیا ہو تو اُس کی بات اور ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۹۸)

۲۲۲؎ یہ نہایت بلیغ اسلوب میںمنافقین کی بات کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یقینا سراپا گوش ہے، مگر کس لیے؟ تم اِس رحیم و شفیق ہستی کی قدر پہچانتے تو سمجھ لیتے کہ تمھاری بھلائی کے لیے سراپا گوش ہے۔ تمھاری طرف سے کسی اچھی بات، اچھے کام اور اچھے ارادے کی خبر پہنچے تو اُس کو سننے اور ماننے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ تمھاری بری خبروں اور سازشوں کے لیے کی جانے والی سرگوشیوں کو سننے کے لیے کان نہیں لگائے ہوئے ہے کہ جو کچھ ملے، اُسے قیمتی سوغات سمجھ کر اپنے دل میں محفوظ کر لے۔

۲۲۳؎ یعنی برائی کی کوئی بات پہنچے تو تو ہر ایرے غیرے سے سن کر اُس کو باور نہیں کر لیتا۔ ہاں، خدا پر ایمان رکھتا اور سچے اہل ایمان پر ضرور اعتماد کرتا ہے۔ چنانچہ جب اُن کی طرف سے کوئی بات پہنچتی ہے تو یقینا باور کرتا ہے۔ وہ تمھارا بدخواہ نہیں ہے، بلکہ دیکھ سکتے ہو کہ تم میں سے جن لوگوں نے صحیح ایمان کا رویہ اختیار کیا ہے، اُن کے لیے سراپا رحمت ہے۔ خدا توفیق دے تو اپنی اصلاح کرکے تم بھی اُس کی رحمت و شفقت کے سزاوار بن سکتے ہو۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ آیت میں لفظ ’یُؤْمِنُ‘ کا صلہ’ب‘ اور ’ل‘، دونوں کے ساتھ آیا ہے۔’ب‘کے ساتھ یہ ایمان لانے اور ’ل‘ کے ساتھ محض کسی کی بات کو ماننے اور اُسے باور کر لینے کے مفہوم میں آتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۲۲۴؎ اصل میں ’یُرْضُوْہُ‘ کا لفظ آیا ہے۔ پیچھے اللہ و رسول، دونوں کا ذکر ہے، لیکن اِس میں واحد کی ضمیر آگئی ہے۔ یہ اِس بات کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی رضا ایک ہی ہے۔ اِس جملے میں ، اگر غور کیجیے تو منافقین کے رویے پر بڑی برمحل گرفت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔بسااوقات آدمی کا عذر گناہ بدتر از گناہ بن جاتا ہے۔ منافقین نے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے جو روش اختیار کی، وہ اُن کو اور زیادہ مجرم ثابت کرنے والی بن گئی۔ وہ راست باز ہوتے تو اللہ اور رسول کو راضی کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ جھوٹی قسموں کے ذریعے سے مسلمانوں کے سامنے اپنے کو معصوم اور پیغمبر کو کان کا کچا ثابت کرنے میں لگ جاتے۔ یہ تو پیغمبر کے خلاف پروپیگنڈے کی نہایت عیارانہ مہم ہوئی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۹۹)

۲۲۵؎ آیت میں ’فَاَنَّ‘ کا عطف ’اَنَّہُ‘ پر ہے اور ’یُحَادِدْ‘ کا لفظ اُس مخالفت کو بیان کرتا ہے جس میں کوئی شخص کسی کے مقابل میں دشمن بن کر کھڑا ہو جائے۔

۲۲۶؎ یعنی اِس وقت جس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ سارے جتن کر رہے ہیں، اُس سے بڑی رسوائی ہے۔ یہ سوچیں کہ اُس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کیا تدبیر کریں گے۔

۲۲۷؎ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ‘۔ اِن میں ’عَلٰی‘ کا صلہ بتا رہا ہے کہ ’تُنَزَّلَ‘ یہاں ’تقرء علیہم‘ کے مفہوم میں ہے، یعنی اُنھیں پڑھ کر سنا دی جائے۔ پیچھے فرمایا ہے کہ منافقین خدا کی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو اپنی معصومیت کا قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اُس کا پس منظر واضح کر دیا ہے کہ یہ سب اِس اندیشے سے ہو رہا ہے کہ اِس سورہ میں اُن کو لب و لہجہ بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔ چنانچہ گھبرائے ہوئے ہیں کہ کہیں سارے راز بے نقاب نہ ہو جائیں ۔

۲۲۸؎ یعنی دنیا میں درگذر کر لیں گے اور اُس کا معاملہ آخرت پر اٹھا رکھیں گے۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ منافقین کے بہت سے گروہ تھے اور اُن میں سے ہر ایک کے نفاق کی نوعیت اور اُن کے شرو فساد کا درجہ بھی ایک نہیں تھا۔

۲۲۹؎ یعنی محض کم عقل مسخرے نہیں ہیں، بلکہ اِس تمسخر سے اُن کے پیش نظر یہی ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے جائیں اور وہ اُس جدوجہد میں ناکام ہو جائیں جو وہ پیغمبر کی قیادت میں کر رہے ہیں۔

۲۳۰؎ یعنی نظر انداز کرکے توفیق خیر سے محروم کر دیا۔ یہ اُن کی بے توفیقی کی وجہ بیان کر دی ہے کہ وہ جب خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے بھی اپنی سنت کے مطابق اُنھیں شیطان کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ دیکھ سکتے ہو کہ اب وہی اُن کی باگ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ، اُنھیں جہاں چاہتا ہے، لے جاتا ہے۔

۲۳۱؎ اِس لیے کہ اِنھوں نے پیغمبر سے سمع و طاعت کا عہد کیا اور پھر اُسے توڑ دیا ہے۔ بظاہر یہ مسلمان ہیں، لیکن پس پردہ اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے درپے ہیں۔

۲۳۲؎ یہاں سے خطاب براہ راست ہو گیا ہے جس سے کلام میں زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔

۲۳۳؎ یہ ’کَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘ کے اجمال کی تفصیل ہے۔

۲۳۴؎ اِس سے ابراہیم علیہ السلام کی وہ قوم مراد ہے جسے اُنھوں نے دعوت دی، مگر اُس نے اُن کی یہ دعوت رد کر دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ اُس کو چھوڑ کر نکل آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ قرآن نے جس طریقے سے یہاں اُس قوم کا ذکر کیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ اُن سب قوموں کی طرح جن پر رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کیا گیا، اُن کی ہجرت کے بعد وہ بھی عذاب کی زد میں آگئی تھی۔

۲۳۵؎ اِس سے قوم لوط کی بستیاں مراد ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B