HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

فتنہ انگیزی کی سزا

ترجمہ: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: إِنَّہُ سَتَکُوْنُ ہَنَاتٌ وَہَنَاتٌ فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّفَرِّقَ أَمْرَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ وَہِیَ جَمِیْعٌ عَلٰی رَجُلٍ وَاحِدٍ فَاضْرِبُوْہُ بِالسَّیْفِ کَاءِنًا مَنْ کَانَ.
وَقَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ بَایَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ فَلْیُطِعْہُ إِنِ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَاءَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوْا رَقَبَۃَ الْآخَرِ.
وَقَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا بُوْیِعَ لِخَلِیْفَتَیْنِ فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْہُمَا.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک، عنقریب فتنے رونما ہوں گے۱۔چنانچہ جو شخص (مسلمانوں کی)اس جماعت کے معاملات میں انتشار۲پھیلانے کا ارادہ کرے، جبکہ وہ جماعت ایک شخص (کی حکومت)کے ماتحت متحد ہو، اس کو قتل کر دو۳، خواہ وہ کوئی شخص بھی ہو۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جو شخص کسی حکمران کی بیعت کرے۴ اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر)رکھتے ہوئے۵، اور خلوص دل سے اس کی بیعت کرتے ہوئے اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے، اس کی اطاعت کرے۔پھر کوئی دوسرا شخص آئے اور اس سے حکومت چھیننے کی کوشش کرے، اس کی گردن مار دو۶۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب دو حکمرانوں کی بیعت کی گئی۷، تو جس کی بیعت بعد میں کی گئی، اس کو قتل کر دو۔
ترجمے کے حواشی

۱۔اس روایت کے مضمون سے یہ بات بالبداہت واضح ہوتی ہے کہ سیاسی انتشار اور فتنہ انگیزی لوگوں کی تقسیم اور خوں ریزی کا باعث بنتی ہے۔

۲۔حکمران کے خلاف فتنہ انگیزی کرکے اور مسلمانوں میں سیاسی انتشار کا بیج بو کر۔

۳۔قرآن مجید کے مطابق،* مجرم کو موت کی سزا صرف دو صورتوں میں دی جا سکتی ہے:

ا۔وہ کسی کو قتل کرنے کا مرتکب پایا گیا ہو۔

ب۔وہ فساد فی الارض پھیلانے کا مرتکب پایا گیا ہو۔

سیاسی ریاست کے خلاف فتنہ انگیزی اور غیر آئینی ذرائع سے حکومت پر تسلط جمانے کے لیے اس کی نمائندہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش بھی فساد فی الارض کا بیج بونے کی ایک واضح دلیل ہے۔چنانچہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ جو شخص بھی اس جرم کا ارتکاب کرے، وہ سزاے موت کا مستحق ہے۔

۴۔یہ ایک قانون کا قیام ہے۔روایتی طور پر، قائدین، شیوخ اور مختلف قبائل کے نمائندگان اپنا دایاں ہاتھ حکمران کے ہاتھ میں رکھ کراور اس کے لیے اپنی اطاعت گزاری کا اعلان کرکے یہ بیعت کر سکتے ہیں۔قائدین اور شیوخ کی یہ بیعت ان کے متعلقہ قبائل کے تمام افراد کی طرف سے ہو گی اور قبائل کے تمام افراد اس بیعت کے پابند ہوں گے۔

۵۔جس طریقے کے مطابق عموماً بیعت لی جاتی تھی، یہ اسی کی طرف اشارہ ہے، وہ طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص حکمران کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا تھا۔

۶۔ ان الفاظ کا اطلاق بھی سزاے موت پر ہوتا ہے۔

۷۔جب ایک شخص کو حکومت کی زمام کار تفویض کر دی جائے اور وہ ابھی اس کی زیر نگرانی ہو، کوئی دوسرا شخص اپنی حکومت کو قبول کرنے کے لیے لوگوں کو دعوت دے اور اپنا الگ متبعین کا گروہ بنا لے، تو اس پر بھی وہی حکم صادر ہو گا جو پہلی دو روایات میں بیان ہوا۔

خلاصہ

جب مسلم ریاست کسی ایک حکمران کے ماتحت متحد ہو اور کوئی دوسرا شخص غیر آئینی ذرائع سے اس سے حکومت چھیننے کے لیے اس کا تختہ الٹ دینے اور اپنا تسلط جمانے کی کوشش کرے، جس کے نتیجے میں اس ریاست کے مسلمان باشندے مختلف فریقوں میں تقسیم ہو جائیں، تو اس طرح کا شخص فتنہ اور فساد فی الارض پھیلانے کا مجرم ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، یہ شخص سزاے موت کا مستحق ہے۔یہ روایت قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہے، جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ فساد فی الارض پھیلانے کے جرم کا ارتکاب کریں، ان کو عبرتناک طریقے سے موت کی سزا دی جائے (المائدہ۵:۳۳)۔

متون

پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۸۵۲ا، ۱۸۵۲ب، ۱۸۵۲ج؛ ابوداؤد، رقم۴۷۵۲؛ نسائی، رقم۴۰۲۰۔۴۰۲۳؛ احمد، رقم۱۸۳۲۱،۱۹۰۲۱،۱۹۰۲۲،۲۰۲۹۲؛ ابن حبان، رقم۴۴۰۶،۴۵۷۷؛ سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۳۔۳۴۸۶؛ بیہقی، رقم۱۶۴۶۶۔۱۶۴۶۸اور ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۳۷۳میں روایت کی گئی ہے۔

دوسری روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۸۴۴ا، ۱۸۴۴ب، ۱۸۴۴ج؛ابوداؤد، رقم۴۲۴۸؛ نسائی، رقم۴۱۹۱؛ ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶؛ احمد، رقم۶۵۰۱،۶۵۰۳،۶۷۹۳،۶۸۱۵؛ بیہقی، رقم۱۶۴۶۹۔۱۶۴۷۰؛ سنن النسائی الکبریٰ، رقم۷۸۱۴،۸۷۲۹اور ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۵۳۶،۳۷۱۰۹میں روایت کی گئی ہے۔

تیسری روایت مسلم، رقم۱۸۵۳اور بیہقی، رقم۱۶۳۲۴میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۴۷۶۲میں ’إنہ ستکون ہنات وہنات‘ (بے شک، عنقریب فتنے رونما ہوں گے) کے الفاظ کے بجاے’ ستکون فی أمتی ہنات وہنات وہنات‘ (عنقریب میرے متبعین کے درمیان بہت فتنے رونما ہوں گے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۸۳۳۱میں یہ الفاظ ’تکون ہنات وہنات‘ (فتنے رونما ہوں گے) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۱۹۰۲۱ میں یہ الفاظ ’إنہا ستکون بعدی ہنات وہنات‘ (بے شک، عنقریب میرے بعد فتنے رونما ہوں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ابن حبان، رقم۴۵۷۷ میں اس کے مترادف الفاظ’ سیکون بعدی ہنات وہنات‘ (عنقریب میرے بعد فتنے رونما ہوں گے) روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم ۳۴۸۳ میں اس کے مترادف الفاظ ’إنہ سیکون بعدی ہنات وہنات‘(بے شک، عنقریب میرے بعد فتنے رونما ہوں گے)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۰۲۱میں ’إنہا ستکون بعدی ہنات وہنات‘ (بے شک، عنقریب میرے بعد فتنے رونما ہوں گے)کے الفاظ کے بعد ’ورفع یدیہ‘(اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند فرمایا)کے الفاظ کا اضافہ ہے۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۰۲۱میں’ فمن أراد أن یفرق أمر ہذہ الأمۃ‘(چنانچہ جو شخص (مسلمانوں کی)اس جماعت کے معاملات میں انتشار پھیلانے کا ارادہ کرے)کے الفاظ کے بجاے’ فمن رأیتموہ یفرق بین أمۃ محمد‘(چنانچہ جس شخص کو تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے متبعین کے درمیان انتشار پھیلاتے ہوئے دیکھو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۴۵۷۷میں ان الفاظ کے بجاے ’فمن رأیتموہ فارق الجماعۃ أو یرید أن یفرق بین أمۃ محمد‘(چنانچہ جس شخص کو تم مسلمانوں کے سیاسی اتحاد سے اپنے آپ کو الگ کرتے ہوئے دیکھو یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے متبعین کے درمیان انتشار پھیلاتے ہوئے دیکھو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۳میں یہ الفاظ’ فمن رأیتموہ فارق الجماعۃ أو یرید یفرق أمر أمۃ محمد‘(چنانچہ جس شخص کو تم مسلمانوں کے سیاسی اتحاد سے اپنے آپ کو الگ کرتے ہوئے دیکھو یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے متبعین کے (مجموعی)معاملات میں انتشار پھیلاتے ہوئے دیکھو)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۴میں یہ الفاظ ’فمن رأیتموہ یرید تفریق أمر أمۃ محمد‘(چنانچہ جس شخص کو تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے متبعین کے (مجموعی)معاملات میں انتشار پھیلاتے ہوئے دیکھو)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۷میں یہ الفاظ ’فمن رأیتموہ یمشی إلی أمۃ محمد فیفرق جماعتہم‘(چنانچہ جس شخص کو تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے متبعین کی طرف چلتے ہوئے دیکھو اور پھر وہ ان کے اتحاد کو منتشر کر دے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۳۷۳میں یہ الفاظ’ من فرق بین أمتی‘(جس شخص نے میرے متبعین کے درمیان انتشار پھیلایا) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۴۷۶۲میں ’أمر ہذہ الأمۃ‘(اس امت کے معاملات)کے الفاظ کے بجاے ’أمر المسلمین‘(مسلمانوں کے معاملات)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۱۹۰۲۱ میں یہ الفاظ’ بین أمۃ محمد‘(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے متبعین کے درمیان)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۴۶۷۲میں ’وہی جمیع‘(جبکہ جماعت متحد ہو)کے الفاظ کے بجاے ’وہم جمیع‘ (جبکہ یہ لوگ متحد ہوں) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۰۲۲میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’وہم جمع‘ روایت کیے گئے ہیں۔

’علی رجل واحد‘ (ایک شخص کے ماتحت) کا جملہ مسلم، رقم۱۸۵۲ ج میں روایت کیا گیا ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۵۲امیں ’فاقتلوہ‘(تو اس کو قتل کر دو)کے بجاے ’فاضربوہ بالسیف‘(تو اس کو تلوار کے ساتھ مار دو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۶میں یہ الفاظ ’فاضربوا رأسہ بالسیف‘(تو تلوار کے ساتھ اس کا سر مار دو)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۳۷۳میں یہ الفاظ ’فاضربوا رأسہ‘(تو اس کا سر مار دو)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۳میں ’فاقتلوہ، کائنا من کان‘(اس کو قتل کر دو، خواہ وہ کوئی شخص بھی ہو)کے بجاے ’کائنا من کان، فاقتلوہ‘(خواہ وہ کوئی شخص بھی ہو، اس کو قتل کر دو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۰۲۱میں’ کائنا من کان‘(خواہ وہ کوئی شخص بھی ہو)کے بعد’ من الناس‘ (لوگوں میں سے)کے الفاظ کا اضافہ ہے؛بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۴۵۷۷میں ’کائنا من کان‘(خواہ وہ کوئی شخص بھی ہو)کے بعد ’فإن ید اللّٰہ مع الجماعۃ وإن الشیطان مع من فارق الجماعۃ یرتکض‘ (بے شک، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے اور جو شخص جماعت سے الگ ہو جائے، شیطان اس کے ساتھ چلتا ہے)کے الفاظ کا اضافہ ہے، جبکہ بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۳میں لفظ ’یرتکض‘(وہ چلتا ہے)کے بجاے اس کا مترادف ’یرکض‘ روایت کیا گیا ہے۔

بعض روایات، مثلاً سنن النسائی الکبریٰ، رقم۳۴۸۶میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أیما رجل خرج یفرق بین أمتی فاضربوہ بالسیف.
’’جو شخص میرے متبعین کے درمیان انتشار پھیلانے کے لیے نکلا، اس کو تلوار کے ساتھ مار دو۔‘‘

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۰۲۳میں ’فاضربوہ بالسیف‘(تو اس کو تلوار کے ساتھ مار دو)کے بجاے ’فاضربوا عنقہ‘(تو اس کی گردن مار دو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۱۸۵۲ ج میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل واحد یرید أن یشق عصاکم أو یفرق جماعتکم فاقتلوہ.
’’جو شخص تمھارے پاس تمھاری حکومت توڑنے یا تمھاری جماعت کو منتشر کرنے کے لیے آئے، جبکہ تمھارے (مجموعی)معاملات ایک شخص کے ماتحت متحد ہوں، اس کو قتل کردو۔‘‘

بیہقی، رقم۱۶۴۶۸میں ’وأمرکم جمیع‘(جبکہ تمھارے (مجموعی)معاملات ایک شخص کے ماتحت متحد ہوں) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’وأمرکم جمع‘ روایت کیے گئے ہیں۔

دوسری روایت

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۸۱۵میں’ فأعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ‘(اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر) رکھتے ہوئے اور خلوص دل سے اس کی بیعت کرتے ہوئے)کے بجاے ’فأعطاہ ثمرۃ قلبہ وصفقۃ یدہ‘ (خلوص دل سے اس کی بیعت کرتے ہوئے اور اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر)رکھتے ہوئے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶میں’ صفقۃ یدہ‘(اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے)کے بجاے ’صفقۃ یمینہ‘(اپنا دایاں ہاتھ مارتے ہوئے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۱میں لفظ ’رقبۃ‘(گردن)کا مترادف لفظ ’عنق‘ روایت کیا گیا ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں ’ما استطاع‘(جہاں تک وہ کر سکے)کے بجاے ’إن استطاع‘ (اگر وہ کر سکے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴امیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد طویل روایت کے ایک حصے کے طور پر درج ذیل الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

عن عبد الرحمٰن بن عبد رب الکعبۃ قال: دخلت المسجد فإذا عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص جالس فی ظل الکعبۃ والناس مجتمعون علیہ فأتیتہم فجلست إلیہ، فقال:کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی سفر فنزلنا منزلاً، فمنا من یصلح خباء ہ ومنا من ینتضل ومنا من ہو فی جشرہ إذ نادی منادی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الصلٰوۃ جامعۃ فاجتمعنا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: إنہ لم یکن نبی قبلی إلا کان حقًا علیہ أن یدل أمتہ علی خیر ما یعلمہ لہم وینذرہم شر ما یعلمہ لہم وإن أمتکم ہذہ جعل عافیتہا فی أولہا وسیصیب آخرہا بلاء وأمور تنکرونہا وتجیء فتنۃ فیرقق بعضہا بعضًا وتجیء الفتنۃ فیقول المؤمن: ہذہ مہلکتی ثم تنکشف وتجیء الفتنۃ فیقول المؤمن: ہذہ ہذہ، فمن أحب أن یزحزح عن النار ویدخل الجنۃ فلتأتہ منیتہ وہو یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر ولیأت إلی الناس الذی یحب أن یؤتی إلیہ ومن بایع إمامًا فأعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ فلیطعہ إن استطاع، فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوا عنق الآخر، فدنوت منہ فقلت لہ: أنشدک اللّٰہ آنت سمعت ہذا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ فأہوی إلی أذنیہ وقلبہ بیدیہ وقال: سمعتہ أذنای ووعاہ قلبی فقلت لہ: ہذا بن عمک معاویۃ یأمرنا أن نأکل أموالنا بیننا بالباطل ونقتل أنفسنا واللّٰہ یقول: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا. قال: فسکت ساعۃ، ثم قال: أطعہ فی طاعۃ اللّٰہ واعصہ فی معصیۃ اللّٰہ.
’’ حضرت عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ (رضی اللہ عنہ)نے کہا:میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن العاص کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے۔چنانچہ میں ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔انھوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ہم نے ایک مقام پر قیام کیا۔ہم میں سے بعض وہ تھے جو اپنے خیمے درست کر رہے، بعض وہ تھے جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے اور بعض وہ تھے جو اپنے مواشی چرا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے نداء دی کہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع ہو جانا چاہیے، چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ارشاد فرمایا:مجھ سے پہلے جو نبی بھی آیا، اس پر یہ فرض تھا کہ اپنے متبعین کی اس بات کے طرف رہنمائی کرے جس کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے، اور اس بات سے ڈرائے جس کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے، مگر تمھاری اس جماعت کی عافیت اس کے پہلے دور میں ہے اور اس کے بعد والے دور میں آزمایش اور ایسے اموردرپیش ہوں گے جن کا تم انکار کرو گے اور یکے بعد دیگرے آزمایش آئے گی۔جب آزمایش آئے گی تو مومن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت لانے والی ہے۔جب یہ آزمایش ختم ہو جائے گی تو ایک اور آزمایش آئے گی تو مومن کہے گا کہ یہ یقیناًمجھے ختم کرنے والی ہے۔ چنانچہ جو شخص جہنم سے بچنا چاہتا ہے اور جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان کی حالت میں فوت ہونا چاہیے اور اس کو لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہیے، جس طرح کا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ سلوک کریں۔جو شخص کسی حکمران کی بیعت کرے اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر)رکھتے ہوئے، اور خلوص دل سے اس کی بیعت کرتے ہوئے اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے، اس کی اطاعت کرے۔پھر کوئی دوسرا شخص آئے اور اس سے حکومت چھیننے کی کوشش کرے، تو اس کی گردن مار دو۔(راوی کہتے ہیں) پھر میں ان (عبداللہ بن عمرو بن العاص)کے قریب ہوا اور ان سے کہا:میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں!کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے کانوں نے یہ سنا اور میرے دل نے اسے یاد کیا ہے۔میں نے ان سے کہا:یہ آپ کے چچا زاد معاویہ (رضی اللہ عنہ)ہیں جو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کا مال آپس میں باطل طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو، ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الاّ یہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی جائے اور اپنے بھائیوں کو قتل نہ کرو۔ بے شک، اللہ تعالیٰ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر کہا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں اس کی نافرمانی کرو۔‘‘

اس روایت کے مضامین اور مشمولات کی تفصیل الگ سے پیش کی جائے گی۔

———————

* المائدہ۵:۳۲۔’اَنَّہُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘(جس نے کسی کو قتل کیا، اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا)۔

——————————————

B