HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

صلوٰۃ (نماز)

پروفیسر الطاف احمد اعظمی*

 

 [یہ مصنف کی طبع شدہ کتاب ’’اسلامی عبادات:تحقیقی مطالعہ‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘

کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالاقساط شائع کیے جا رہے ہیں۔]

 (۲)


گذشتہ حصے میں درج آیات میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ ساری طاقت اللہ کے ہاتھ میں ہے ’اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا‘ یہ حقیقت اس دنیا میں پوشیدہ ہے، لیکن آخرت کے دن سب پر ظاہر ہو جائے گی۔ اس وقت ان لوگوں کو بڑی پشیمانی ہو گی جو دنیا میں قوم کے نیک بندوں کے بارے میں یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ صاحب قوت ہیں، مشکلات میں ان کی مدد کرتے ہیں، اور روز آخرت ان کی شفاعت کریں گے۔ لیکن وہاں معاملہ الٹا ہو گا۔ وسیلے کی رسی کٹ چکی ہو گی، دنیوی تعلقات ٹوٹ چکے ہوں گے اور وہ بالکل بے یارومددگار ہوں گے۔ اپنے جن مقتداؤں کی طاقت اور شفاعت پر ان کو بھروسا تھا وہ ان سے منہ پھیر لیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ ہم تمھاری مدد سے عاجز ہیں۔ ہم کل بھی بے اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار ہیں۔ ہم نے تم سے کب کہا تھا کہ ہم صاحب اختیار ہیں اور روز آخرت تمھاری مشکل کشائی کریں گے۔ ’اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ‘۔

یہ ہوش ربا منظر دیکھ کر وہ کف افسوس ملیں گے اور غصے کے عالم میں کہیں گے کہ اے کاش ہم کو ایک بار اور دنیا میں جانے کا موقع ملتا تو اپنے مذہبی رہنماؤں کو دکھاتے کہ کس طرح اظہار براء ت کیا جاتا ہے ’وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْا مِنَّا‘ لیکن حسرت و غم کے سوا اور کچھ بھی ان کو حاصل نہ ہو گا اور وہ جہنم کی دائمی سزا سے دوچار ہو کے رہیں گے ’کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْْہِمْ وَمَا ہُم بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ‘۔

معلوم ہوا کہ کوئی مخلوق مافوق الفطرت قوت (Super natural power) نہیں رکھتی اور اسی لیے غیر خدا کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لاَ یَخْلُقُوْنَ شَیْْءًا وَہُمْ یُخْلَقُوْنَ، اَمْوَاتٌ غَیْْرُ اَحْیَآءٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ.(سورۂ نحل۱۶: ۲۰۔۲۱)
’’اور اللہ کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرتے، بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ وہ مردے ہیں نہ کہ زندگی رکھنے والے، اور نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘

دوسری جگہ ہے:

لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْْءٍ اِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْْہِ اِلَی الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ.(سورۂ رعد۱۳: ۱۴)
’’اسی کو پکارنا برحق ہے۔ اور اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی مشکل کشائی نہیں کر سکتے۔ ان کو پکارنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے درآں حالیکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے۔‘‘

جو لوگ نادانی کی وجہ سے غیر خدا کو پکارتے ہیں اور اپنی حاجات و بلایا میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ دراصل ان کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ ان کی پکار سنتے ہیں اور سنتے ہی نہیں، ان کو نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں اور ان کی تردید اس سے پہلے ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں چند اور آیات ملاحظہ ہوں:

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ قُلْ اَتُنَبِّءُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.(سورۂ یونس ۱۰: ۱۸)
’’اور وہ اللہ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچا سکیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ کہہ دو (اے پیغمبر): کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اسے علم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ پاک اور بلند ہے اس کی ذات ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک قرار دیتے ہیں۔‘‘
وَلاَ تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ، وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَاِنْ یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.(سورۂ یونس ۱۰: ۱۰۶۔۱۰۷)
’’اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو نہ پکارو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمھارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ اگر اللہ تمھیں کسی تکلیف میں مبتلا کر دے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس تکلیف کو دور کر سکے۔ اور اگر وہ تمھارے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے فضل کو روکنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس فضل سے نوازتا ہے۔ وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلاَ یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلاَ تَحْوِیْلاً، اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا.(سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۵۶۔۵۷)
’’کہہ دو کہ تم نے اپنے خیال میں اللہ کے سوا جن کو معبود سمجھ رکھا ہے ان کو (اپنی مشکلات میں) پکار دیکھو، نہ وہ تم سے کسی مصیبت کو دفع کر سکیں گے اور نہ ہی وہ اس کو ٹال سکیں گے۔ جن کو وہ پکارتے ہیں (اور خدا کے ہاں ذریعۂ تقرب سمجھتے ہیں) وہ تو خود اپنے رب کے قرب کے طلب گار ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ قرب حاصل کرتا ہے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں۔ اور بے شک تمھارے رب کا عذاب ایسی چیز ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔‘‘
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلاَ نَفْعًا وَاللّٰہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.(سورۂ مائدہ۵: ۷۶)
’’(اے پیغمبر) کہہ دو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تم کو نقصان پہنچا سکے اور نہ نفع، اور اللہ ہی سننے والا اور (ہر چیز کی) خبر رکھنے والا ہے۔ (اس کے سوا یہ قدرت کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے)۔‘‘

اس آیت سے ٹھیک پہلے جو آیت ہے اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے اور اکل و شرب کی بنیاد پر ان کے بشر ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی مذکورہ آیت ہے ’قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلاَ نَفْعًا‘ اس سے بالکل واضح ہے کہ آیت میں ’مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد ہیں، جن کو عیسائی نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر پکارتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی ایک بڑی تعداد اس شرک و ضلالت میں مبتلا ہے۔

مذکورہ آیت میں جن لفظوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نافع و ضار ہونے یعنی کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت رکھنے کی تردید کی گئی ہے تقریباً انھی لفظوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نافع و ضار ہونے کی بھی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً آیت ذیل ملاحظہ ہو:

قُلْ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا، قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا.(سورۂ جن۷۲: ۲۱۔۲۲)
’’کہہ دو، میں نہ تم کو کوئی ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ ہدایت کا۔ کہہ دو، مجھے کوئی بھی اللہ سے پناہ دینے والا نہیں بنے گا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ گاہ پا سکوں گا (اگر میں نے اس کی نافرمانی کی)۔‘‘

کسی کو نفع و نقصان پہنچانا تو درکنار ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہ تھا۔ ارشاد ہے:

قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلاَ نَفْعًا اِلاَّ مَا شَآءَ اللّٰہُ.(سورۂ یونس ۱۰: ۴۹)
’’کہہ دو، میں اپنی ذات کے معاملے میں بھی کسی نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘

غور فرمائیں، جب اللہ کے یہ دو جلیل القدر پیغمبر کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے تو اولیا و اقطاب کے بارے میں یہ گمان رکھنا کہ ان کو نفع و نقصان کا اختیار حاصل ہے کیونکر صحیح ہو گا۔ کیا ان کا رتبہ انبیا سے بڑھ کر ہے؟ کون مسلمان بقید ہوش و حواس اس بات کو تسلیم کرے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں مسلمانوں کو یہی تعلیم دی ہے کہ وہ صرف اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ’ما شاء اللّٰہ وشئت‘ آپ نے فرمایا، تو نے تو مجھے اللہ کا شریک (ند) بنا لیا، مشیت صرف اللہ کی ہے۔ ۱؂

امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ آپ کی دعوت کیا ہے؟ فرمایا، ایک اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے اور تو اس کو پکارے تو وہ تیری تکلیف رفع کرے گا، اگر تو کسی ویرانے میں گم ہو جائے اور اس کو پکارے تو تجھے واپس لا دے گا، اگر تو قحط سالی سے دوچار ہو اور اس کو پکارے تو وہ تیرے لیے اگائے گا۔‘‘ ۲؂

[باقی]

——————


* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔

۱؂ بیہقی، کتاب الاسماء والصفات ۱۱۰ (اس میں ند کی جگہ ’’عدل‘‘ کا لفظ ہے: ’اجعلتنی للّٰہ عدلا بل شاء اللّٰہ وحدہ‘ ’’کیا تو نے مجھے اللہ کا برابر بنا لیا، بلکہ ایک اللہ جو چاہے۔‘‘ مزید دیکھیں، تفسیر ابن کثیر، ۱/ ۵۷۔

۲؂ مسند امام احمد بن حنبل ۵/۶۴، مزید دیکھیں، الاستیعاب، ابن عبدالبر ۱/۸۷ و تفسیر ابن کثیر ۳/ ۳۷۰۔

————————————

B