HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس

میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(۲)


۲۶ھ میں گورنر کوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور والئ بیت المال حضرت عبداﷲ بن مسعود میں سخت جھگڑا ہوا۔ حضرت سعد نے بیت المال سے قرض لے رکھا تھا جو مقررہ مدت میں واپس نہ کر سکے۔ سیدنا عمر کو پتا چلا تو حضرت سعد کو معزول کر دیا۔ ۲۹ھ میں خلیفۂ سوم سیدنا عثمان نے منیٰ میں ظہر کی نماز قصرکرنے کے بجاے پوری چا ررکعتیں پڑھا دیں تو حضرت علی، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن مسعود نے ان پر سخت تنقید کی۔ خلیفۂ سوم حضرت عثمان نے عبداﷲ کو ان کے منصب سے ہٹایا تو لوگ اکٹھے ہو گئے او ر ا بن مسعود سے کہا،یہیں ٹھہریں اور نہ جائیں۔ اگر کوئی ناپسندیدہ بات ہوئی تو ہم آپ کا دفاع کریں گے۔عبداﷲ نے جواب دیا ، اطاعت مجھ پر لازم ہے۔ دور فتن آنے والا ہے ، میں نہیں چاہتا کہ اس کا افتتاح کرنے والا بن جاؤں۔ ایک حج کے موقع پر سیدنا عثمان، حضرت عبداﷲ بن مسعود سے منیٰ میں ملے اور انھیں الگ لے جا کر کسی کنواری دوشیزہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ، مجھے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ (بخاری، رقم ۵۰۶۵، مسلم، رقم ۳۳۷۹)

حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں،ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے قرآن کی دس آیات سیکھ لیتے تو اس کے بعد نازل ہونے والی آیات اس وقت تک نہ یاد کرتے جب تک پہلی آیات کا مکمل علم حاصل نہ ہوجاتا۔

حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداﷲبن مسعود کے پاس بیٹھے تھے کہ خباب بن ارت آ کر کھڑے ہو گئے اورپوچھا ، کیا آپ کے سب شاگرد اسی طرح قراء ت کرتے ہیں جیسے آپ کرتے ہیں۔ابن مسعود نے کہا،آپ کہیں توان میں سے ایک کو تلاوت کرنے کو کہوں۔اثبات میں جواب ملنے پرمجھے قراء ت کرنے کا حکم دیا۔ایک شاگرد زید بن حدیر نے کہا، آپ نے علقمہ کو کہا ہے، حالانکہ وہ ہمارے بہترین قاری نہیں۔ ابن مسعود نے اسے ڈانٹ دیا۔میں سورۂ مریم کی پچاس آیتیں تلاوت کرچکا تو عبداﷲ نے کہا،علقمہ نے ویسی قراء ت ہی کی ہے جیسے میں کرتا ہوں۔پھر وہ خباب کی طرف متوجہ ہوئے ، ان کی انگلی میں موجود سونے کی انگوٹھی کو دیکھ کرکہا، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس انگوٹھی کواتار پھینکیں؟ خباب نے انگوٹھی اتاری اور کہا ، اب آپ اس کو کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔(بخاری، رقم ۴۳۹۱)

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا،اگر غسل جنابت کی حاجت رکھنے والے شخص کو پانی نہ ملے تو کیا کرے؟ جواب دیا،وہ پانی نہ ملنے تک نماز ہی نہ پڑھے۔ ابوموسیٰ نے کہا، پھر عمار بن یاسر کے بیان کا کیا جائے کہ ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنبی کے لیے تیمم کافی قرار دیا تھااور قرآن مجید کی اس آیت ’فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدًا طیبًا‘، تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو‘‘(سورۂ مائدہ۵:۶) پر کیسے عمل کیا جائے؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود کوئی جواب نہ دے سکے۔صرف اتنا کہا، اگر ہم نے یہ رخصت دے دی تو کسی کو پانی ٹھنڈا لگا تو وہ بھی تیمم کرنا شروع کر دے گا۔ (بخاری، رقم ۳۴۶) حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں،(عہد نبوی میں) ہمارا تجربہ تھا کہ صرف کھلا نفاق رکھنے والا منافق یا بیمار شخص ہی باجماعت نماز چھوڑتا تھا۔اگرچہ مریض بھی دو افراد کا سہارا لے کر مسجدمیں آ جاتا تھا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنن ہدایت کی تعلیم دی ہے،ان میں سے ایک اس مسجد میں نما زادا کرنا ہے جس میں باقاعدہ اذان دی جاتی ہو ۔(مسلم، رقم ۱۴۳۱)

حضرت عبداﷲبن مسعود کہتے ہیں ،مجھے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں تھا۔آپ مجھے قرآن کی سورت بھی ایسے ہی سکھایا کرتے تھے۔(بخاری،کتاب الاستئذان: باب ۲۸) یہ وہی تشہد ہے جو ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں،ایک بار میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تہجدکی نماز میں شریک ہوا۔آپ مسلسل کھڑے رہے، اتنی دیر کہ میں ایک برا عمل کرنے ہی لگاتھا۔سامعین نے پوچھا، وہ کیا تھا ؟ کہا،میں نے چاہا کہ آپ کو کھڑا رہنے دوں اور خود بیٹھ جاؤں۔ (بخاری، رقم ۱۱۳۵،مسلم، رقم ۱۴۶۵) ایک عید کے موقع پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو صدقہ کرنے کی خاص طور پر تلقین کی۔ پہلے مردوں کو پھرالگ سے عورتوں کو انفاق پر انگیخت کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو حضرت عبداﷲ بن مسعود کی اہلیہ زینب آپ سے ملنے پہنچ گئیں اور کہا،میرے پاس کچھ زیورات ہیں جومیں صدقہ کرنا چاہتی ہوں، لیکن ابن مسعود کہتے ہیں، وہ اوران کے بچے اس زیور کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔آپ نے فرمایا، وہ سچ کہتے ہیں، انھی کا حق زیادہ ہے۔ (بخاری، رقم ۱۴۶۲) زینب نے دوبارہ سوال کیا،کیا میں اپنا انفاق اپنے شوہر اور اپنی پرورش میں موجود یتیموں پر خرچ کر سکتی ہوں؟ جواب فرمایا، ہاں ، ایسا کرنے سے دہرا اجر ملے گا ،ایک حق قرابت ادا کرنے کا، دوسرا انفاق کا۔ (بخاری، رقم ۱۴۶۶) عبداﷲ بتاتے ہیں ، (۸ ذی الحجہ ،عرفہ کی رات)ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے کہ آپ پر سورۂ مرسلات نازل ہوئی۔ آپ تلاوت فرما رہے تھے اور میں آپ کے دہن مبارک سے ادا ہونے والی آیات یاد کر رہا تھا۔آپ کی زبان ذکر وحی سے تر تھی کہ ایک سانپ ہم پر آکودا۔ آپ نے فرمایا، مارو اسے۔ہم اس کے پیچھے لپکے، لیکن وہ بھاگ گیا۔آپ نے فرمایا، ’’وہ تمھارے شر سے بچ نکلا ہے جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے ہو۔ ‘‘ (بخاری، رقم ۱۸۳۰، مسلم، رقم ۵۸۹۶) حجاج منیٰ کے بلند مقام سے جمرۂ کبریٰ (بڑے شیطان) کو کنکریاں مارتے تھے، لیکن حضرت عبداﷲ بن مسعود وادی کے نشیب میں جاتے، منیٰ ان کے داہنے ہاتھ اور بیت اﷲ بائیں طرف ہوتا۔ ہر کنکری پر اﷲ اکبر پکارتے۔ رمی کرنے کے بعد انھوں نے کہا، اسی طرح اس جگہ پر اس ذات اقدس نے رمی کی تھی جس پر (اسی مقام میں) سورۂ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ (بخاری، رقم ۱۷۴۸، ۱۷۵۰، مسلم، رقم ۳۱۱۴) مزدلفہ کے مقام پر اور وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے عبداﷲ بن مسعود نے تلبیہ (لبیک اللّٰہم لبیک)کہا اور بتایا،اسی مقام پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلبیہ کہا اور ہم نے آپ کے ساتھ لبیک کی صدا لگائی۔ (مسلم، رقم ۳۰۷۲) حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں، روزہ دار کو علی الصبح تیل لگانا اور کنگھی کرنی چاہیے۔ (بخاری: کتاب الصوم:باب ۲۵)ان کا فتویٰ ہے ، جس نے کسی عذر اور بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا، ساری عمر روزہ رکھتا رہے توبھی اس کا کفارہ ادا نہ ہوگا۔ (بخاری: کتاب الصوم: باب ۲۹)

حضرت عبداﷲ بن مسعود نماز پر بہت زور دیتے، البتہ نفلی روزے کم رکھتے تاکہ خدمت کے کاموں کے لیے طاقت برقرار رہے۔یوم عاشور پر اشعث ان سے ملنے گئے تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔انھوں نے کہا،آج تو عاشورا کا دن ہے۔ ابن مسعودنے جواب دیا،رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس دن روزہ رکھا جاتا تھا۔اب اس کی فرضیت ختم ہو گئی ہے، اگر روزہ نہیں تو آپ بھی کھانا کھا لیں۔(بخاری، رقم ۴۵۰۳،مسلم، رقم۲۶۲)

محارب بن دثار کہتے ہیں،میرے چچا مسجد نبوی گئے تو ایک مناجات کرنے والے کی آواز سنی،’’اﷲ! تو نے بلایا تو میں آ گیا،مجھے حکم دیا تو میں نے اطاعت کر لی۔یہ سحر کا وقت ہے ،میری مغفرت کر دے۔ ‘‘غور کیا تومعلوم ہوا کہ آوازابن مسعودکے گھر سے آرہی ہے۔چچا نے ان سے ذکر کیا تو انھوں نے بتایا، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے ان سے دعاے مغفرت کی استدعا کی تو انھوں نے کہا، میں جلد ہی اپنے رب سے تمھاری بخشش کی دعا کروں گا۔ پھر دعا کو وقت سحر تک موخر کر دیا۔ابن مسعود نے کسی کے گھر میں تصویر لگی دیکھی تو ملاقات کیے بغیر لوٹ آئے۔ (بخاری،کتاب النکاح، باب: ۷۶)

تابعی عبدالرحمان نخعی کہتے ہیں،ہم حذیفہ بن یمان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا،ہمیں اس صحابی کے بارے میں بتائیں جو ہدایت یافتہ ہونے اور راہ راست پا جانے میں سب لوگوں سے بڑھ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریب ہو۔ہم ان سے ملیں اورکچھ سماع کر لیں۔انھوں نے بتایا،ہدایت و رہنمائی پاجانے اور صحیح سمت پر چلنے میں ابن مسعود رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مماثل تھے۔ (بخاری، رقم ۳۷۶۲، ترمذی، رقم ۳۸۰۷) شقیق کی روایت میں یہ اضافہ ہے ،گھر سے نکلنے اور لوٹنے تک ان کی یہی کیفیت ہوتی،گھر میں اکیلے کیا کرتے ،ہم نہیں جانتے۔ (بخاری، رقم ۶۰۹۷) ایک باررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، میں نے اگر مشورہ کیے بغیر کسی کو امارت سونپنا ہوتی تو ابن ام عبد کے سپرد کرتا۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۹)عبداﷲ بن مسعود کو جنت کی بشارت بھی ملی ۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۴)

ایک مرتبہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مختصر خطبہ دیاپھر فرمایا، ابوبکر! اٹھو، خطاب کرو۔ سیدنا ابوبکر اٹھے اور آپ سے مختصر تر خطاب کیا۔ پھر آپ نے سیدنا عمر سے خطاب کو کہا، انھوں نے سیدنا ابوبکر سے بھی تھوڑی گفتگو کی۔پھر آپ نے ایک اور صحابی کو کہا، کھڑے ہوکر بات کرو۔انھوں نے آواز بنا بنا کر نکالنی شروع کی توآپ نے منع فرما دیا اور کہا، ابن ام عبد!تم اٹھو اور بولو۔ابن مسعود کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد کہا،اﷲ ہمارا رب اور اسلام ہمارا دین ہے۔قرآن ہمارا امام اور بیت اﷲ ہمارا قبلہ ہے ۔پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہا، یہ ہمارے نبی ہیں۔ہم اس طریقے پر راضی ہیں جو اﷲ اور رسول نے ہمارے لیے پسند کیا ہے اور اس کام کو ناپسند کرتے ہیں جو اﷲ اور رسول نے ہمارے لیے پسند نہیں کیا۔والسلام علیکم۔تب آپ نے ارشاد فرمایا،ابن ام عبد نے سچ اور درست کہا۔میں اس پر راضی ہوں جو اﷲ نے میری امت کے لیے اور ابن ام عبدنے پسند کیا (مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۸) اور وہ ناپسند کرتا ہو ں جواﷲ نے میری امت کے لیے اور ابن ام عبد نے پسند نہیں کیا۔یہ روایت معجم طبرانی اور تاریخ دمشق میں بیان ہوئی ہے، لیکن اس کی سند منقطع ہے۔

سیدنا علی فر ماتے ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود کوپیلو کے درخت پر چڑھ کراس کی مسواک اتارنے کو کہا۔تیزہوا سے ان کی ٹانگوں سے کپڑا ہٹ گیا، لوگ ان کی سوکھی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے ۔آپ نے پوچھا،تمھیں کس بات کی ہنسی آرہی ہے؟جواب دیا،پتلی اور کم زور ٹانگیں دیکھ کر۔ فرمایا، میزان اعمال میں یہ احد پہاڑ سے زیادہ وزن کی حامل ہوں گی۔ (مسند احمد، رقم ۹۲۰، مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۵) کچھ اہل ایمان حضرت علی کے پاس بیٹھے تھے، آپس میں باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اتفاق کیا،ہم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے زیادہ بااخلاق،بہتر معلم، اچھا ہم نشین اور زیادہ پرہیزگار نہیں دیکھا۔ سیدنا علی نے قسم دے کر پوچھا ،کیا تم یہ بات صدق دل سے کہہ رہے ہو؟ جواب ملا، ہاں۔ کہا، میں بھی اﷲ کو گواہ بنا کران کی یہی یا ان سے بھی زیادہ خوبیاں مانتا ہوں ۔ اس مرتبہ کے حامل ہونے کے باوجودابن مسعود منکسر المزاج تھے ، کہتے،اگر تمھیں میرے گناہوں کا علم ہو جائے تو میرے پیچھے دو آدمی بھی نہ چلیں بلکہ الٹا میرے سر پر مٹی ڈالیں۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۲) حضرت عمرو بن عاص کا آخری وقت آیا تو جزع فزع کرنے لگے۔ کہا گیا،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کو قریب رکھتے تھے اور ذمہ داریاں سونپتے تھے۔جواب دیا، معلوم نہیں،یہ آپ کی محبت تھی یا محض تالیف قلب مقصود ہوتی۔اس کے برعکس دو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وفات کے وقت ان سے بہت محبت فرماتے تھے، ابن ام عبد اور ابن سمیہ۔ (مسند احمد، رقم ۱۷۷۸۱)

[باقی]

————————

B