HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

میاں بیویوں کے کفیل ہی ہیں

عزیزم رضوان اللہ نے ’’اشراق‘‘ کے مارچ ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع شدہ میرے مضمون کے جواب میں مختصر نوٹ لکھا ہے جس میں کچھ حوالے پیش کیے ہیں۔ اللہ ان کو جزاے خیر دے، کیونکہ سند سے بات کرنا اہل علم کا شیوہ ہے۔ پڑھنے والوں کے یہاں حوالے نہ معروف ہوتے ہیں اور نہ مقبول، کسی کے استدلال پر تبصرہ کرنا اہل علم کا حق ہے اس سے اخلاقی قدروں کا استیصال نہیں ہوتا، عزیزم الفاظ ذرا سوچ سمجھ کر استعمال کیا کریں۔

قام الرجل علی المرأۃ‘ کے بارے میں جو حوالۂ جات صاحب مضمون نے دیے ہیں۔ ان کا جواب میں نے مذکورہ مضمون میں دیے دیا ہے، اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ صرف دوباتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر لغت میں اس محاورے کا ترجمہ پہلے ’مأنہا‘ کیا ہے اور پھر اس کے بعد ’قام بشأنھا‘ جو ’مأنھا‘ کی تشریح ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے عورت کے کام کا یعنی اس کے اقتصادی امور کا ذمہ لیا، اس سے سربراہ کے معنی کیسے پیدا ہو گئے؟ یہ بات تو ’مأنھا‘ کے ذکر کے بغیر بھی کہی جا سکتی تھی۔ دوسرے میں نے ابن فارس کے حوالہ سے لکھا تھا کہ یہ قیام عزم ہے، یعنی کسی کام کا ذمہ لینا نہ کہ قیام حتم جس کے معنی ہیں کسی کے اوپر کھڑا ہونا۔ پھر میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ صاحب ’’لسان العرب‘‘ نے ’قام الرجل علی المرأۃ‘ کا محاورہ ذکر کرنے کے فوراً بعد قرآن کی آیت ’الرجال قوّامون علی النساء‘ کو بطور مثال پیش کیا ہے۔

رضوان صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ جوہری کی کتاب کا نام ’’الصحاح‘‘ ہے جو ایک مستند لغت ہے، عربی کا ہر طالب علم ’’صحاح‘‘ اور اس کے انتخاب ’’مختار الصحاح‘‘ کے نام سے واقف ہے۔ لگتا ہے کہ صاحب مضمون نے کتاب دیکھے بغیر حوالہ نقل کیا ہے۔

اب آتے ہیں لفظ ’قنوت‘ کے حوالوں کی طرف، میں نے اپنے مضمون میں سب سے پہلے ابن فارس (م ۳۰۵ھ) کی ’’معجم المقاییس‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو ہر لفظ کا مادہ اور ہر مادہ کے بنیادی معنی بتاتی ہے۔ ان کا قول ہے کہ ’قنت‘ کا فعل دین کے بارے میں اطاعت پر دلالت کرتا ہے۔ پھر انھوں نے اس کے معنی دین میں استقامت، نماز میں طول قیام اور سکوت کے بھی بتائے ہیں۔ صاحب قاموس مجدالدین فیروز آبادی (م ۷۳۹ھ) نے اس میں دعا اور تواضع کے معنوں کا اضافہ کیا ہے۔

دوسرا حوالہ میں نے امام راغب (م ۵۰۲ھ) کی ’’المفردات فی غریب القرآن‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ یہ قرآنی الفاظ کی معروف لغت ہے اور اسے سب علما اس بارے میں ماخذ مانتے ہیں۔ امام راغب نے ’قنوت‘ کے معنی خشوع و خضوع کے ساتھ اطاعت کو ہمیشہ کے لیے اپنے اوپر لازم کرنا لیے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ہی بولا جاتا ہے۔

لفظ ’قنوت‘ قرآن کی نظر میں

اب دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی داخلی شہادت کیا ہے، کیونکہ قرآن کی داخلی شہادت کے مقابلہ میں کوئی شہادت پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں ان تمام آیات کوجن میں ’قنوت‘ کا لفظ ’قانت‘، ’قانتون‘، ’قانتات‘، ’اِقنتتی‘ اور ’یقنت‘ کی شکل میں استعمال ہوا ہے اس ترتیب سے پیش کروں گا جس ترتیب سے مفردات میں پیش کیا گیا ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے: ’قوموا للّٰہ قانتین‘ (۲: ۲۳۸) ’’خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔‘‘ بعض نے ’قانتین‘ کے معنی ’طائعین‘ کے لیے ہیں (جیسا کہ زجاج کا قول ہے) یعنی اطاعت کی حالت میں۔ ابن سِیدہ کا بھی یہی قول ہے چنانچہ زجاج اور ابن سِیدہ اطاعت کو ’قنوت‘ کے اصل معنی تصور کرتے ہوئے اس کی تعریف یوں کرتے ہیں ’القانت القائم لجمیع امر اللّٰہ‘ یعنی ’قانت‘ اللہ کے تمام احکام کی بجا آوری لانے والے کو کہا جاتا ہے۔ بعض اس کے معنی ’خاضعین‘ یعنی خشوع و خضوع کی حالت میں کرتے ہیں اور بعض اس کے معنی ’ساکتین‘ (خاموش رہنے والے) کرتے ہیں۔

کلٌّ لہ قانتون‘ (۲: ۱۱۶) ’’سب اس کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ اس کے معنی بھی بعض نے ’طائعون‘ (فرماں بردار) بعض نے ’خاضعون‘ یعنی خشوع و خضوع کرنے والے اور بعض نے ’ساکتون‘ (چپ چاپ) کیے ہیں۔

اللہ کا ارشاد ہے:

انّ ابراہیم کان امّۃ قانتا (۱۶: ۱۲۰)
’’بے شک ابراہیم (لوگوں کے) امام اور اللہ کے فرماں بردار تھے۔‘‘

حضرت مریم علیہما السلام کے متعلق ارشاد ہے

وکانت من القانتین (۶۶: ۱۲)
’’وہ فرماں برداروں میں سے تھیں۔‘‘

یہاں دو باتیں ذہن میں رکھی جائیں۔ ایک یہ کہ وہ بے شوہر تھیں اور دوسری یہ کہ ان کے لیے ’قانتات‘ کے بجاے مذکر کا حصہ ’قانتین‘ استعمال ہوا ہے۔ مریم سیدہ کے بارے ارشاد ہے:

اقنتی لربّک (۳: ۴۳)
’’اپنے پروردگار کی فرماں برداری کر۔‘‘

ارشاد باری ہے:

امن ھو قانت اٰناء الیل ساجدا وقائما (۳۹: ۹)
’’یا وہ جو رات کے وقت سجدہ کر کے اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا ہے۔‘‘

اللہ کا ارشاد ہے:

ومن یقنت منکن للّٰہ ورسولہ (۳۳: ۳۱)
’’اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار رہے گی۔‘‘

ارشاد ربانی ہے:

والقانتین والقانتات
’’اللہ کے فرماں بردار مرد اور اللہ کی فرماں بردار عورتیں‘‘۔

کیا فرماں بردار مرد بیویوں کے فرماں بردار ہوں گے؟

اللہ کا ارشاد ہے:

فالصالحات قانتات
’’پس صالح عورتیں اللہ کی فرماں بردار ہوتی ہیں۔‘‘

اب خدا لگتی کہیں کہ جب پورے قرآن میں ’قانتات‘ اور ’قانتون‘ کا لفظ اللہ کی اطاعت کرنے والے، خشوع و خضوع کرنے والے اور خاموشی سے اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں تو صرف اس آیت میں خاوند کی فرماں برداری کے معنی کیسے لیے جا سکتے ہیں؟ پھر زیر نظر آیت کے اندر ہی ایک واضح دلیل ہے جو ثابت کرتی ہے کہ یہاں ’قنوت‘ کے معنی مرد کی فرماں برداری نہیں۔ سورۂ نساء (۴) کی زیربحث آیت ۳۴ کے آخر میں اللہ کا قول ’فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا‘ ’’اور اگر وہ تمھاری فرماں بردار ہو جائیں تو پھر انھیں سزا دینے کا بہانہ مت ڈھونڈو۔‘‘ یہاں مردوں کی اطاعت کے لیے ’قنت‘ کی جگہ ’اطاع‘ استعمال ہوا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ ’قانتات‘ سے مراد صرف اللہ کی فرماں بردار ہیں۔

اب ذرا قرآن حکیم کے جملے پر نظر ڈالیں: ’’جو صالح عورتیں ہیں وہ وفا شعار ہوتی ہیں۔‘‘ دین میں استقامت اختیار کرنے والی اور اعمال صالحہ سرانجام دینے والی عورتوں کو صالح کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی عورتیں اللہ کی فرماں بردار ہوتی ہیں نہ کہ مرد کی۔

اگر آپ کسی ان پڑھ سے ان پڑھ آدمی سے پوچھیں کہ ان دو جملوں میں سے کون سا درست ہے؟ ۱۔ صالح عورتیں اللہ کی فرماں بردار ہوتی ہیں اور اس کے حکم پر چلتی ہیں۔ ۲۔ صالح عورتیں مرد کی فرماں بردار ہوتی ہیں اور اس کے حکم پر چلتی ہیں۔ وہ فوراً کہے گا پہلا فقرہ درست ہے اور دوسرا غلط، کیونکہ اللہ کا حکم ماننے والی شوہر کا جائز حکم ضرور مانے گی، جبکہ ضروری نہیں کہ مرد کا حکم ماننے والی اللہ کا حکم مانے۔

لفظ ’قنوت‘ حدیث کی نظر میں

صاحب ’’لسان العرب‘‘ کا قول ہے کہ حدیث میں بھی لفظ ’قنوت‘ اطاعت، خشوع، نماز، قیام، دعا اور عبادت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ’تفکّرُ ساعۃٍ خیر من قنوت لیلۃٍ‘ ’’پل بھر کی سوچ و بچار پوری رات کے قیام سے بہتر ہے۔‘‘ اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’افضل الصلٰوۃ طول القنوت‘ ’’سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں نمازی ہمہ تن عبادت میں مصروف ہو۔‘‘ اور حدیث میں ہے

مثل المجاھد فی سبیل اللّٰہ کمثل القانت الصائم
’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ایسا ہے جیسا نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا۔‘‘
لفظ ’قنوت‘ مفسرین کی نظر میں

بعض مفسرین نے تابعین کرام کے حوالہ سے ’قانتات‘ کے معنی صرف ’مطیعات‘ کیے ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ مجاہد، ابن عباس اور سدی نے صرف ’مطیعات‘ (فرماں بردار) ترجمہ کیا ہے۔ صاحب ’’تاج العروس‘‘ نے لکھا ہے کہ اس لفظ کی اصل اطاعت ہے۔ ’’محکم‘‘ میں ابن سِیدہ اور ’’صحاح‘‘ میں جوہری کا بھی یہی قول ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ قرآن میں جہاں لفظ ’قنوت‘ استعمال ہوا ہے وہ محض اطاعت کے معنوں میں ہے۔ اللہ کے قول ’قوموا للّٰہ قانتین‘ کے بارے میں شعبی، جابر، زید، عطاء اور سعید بن جبیرکا قول ہے کہ اس سے مراد اطاعت ہے اور حضرت ابوسعید خدری سے بھی یہی مروی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جن لوگوں نے اس سے مراد صرف اطاعت لیے ہیں وہ اسے صرف اللہ کی اطاعت سمجھتے ہیں۔ ابن الانباری نے ’اقامۃ الطاعۃ‘ (یعنی اطاعت کو قائم کرنا) کہہ کر اسے مزید واضح کر دیا ہے۔ امام بیضاوی، امام نسفی نے ’’مدارک التنزیل‘‘ اور قاضی ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں اور صاحب ’’کتاب التسہیل‘‘ نے ’قانتات‘ کا ترجمہ صرف ’مطیعات‘ کیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ کیا ہے ’’اللہ اور اپنے خاوند کی فرماں بردار‘‘۔

امام ابن جریر نے سفیان ثوری اور قتادہ کی روایت سے اس ترجمہ کا ذکر کیا ہے۔ امام رازی صاحب روح المعانی، تفسیر المنار، فی ظلال القرآن اور صفوۃ التفسیر میں صابونی نے بھی یہ ترجمہ کیا ہے۔ گویا انھوں نے قرار دیا ہے کہ خاوند کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے تابع ہے، کیونکہ ’لا طاعۃ فی معصیۃ الخالق‘ مولانا مودودی نے بڑی خوب صورت بات کہی ہے۔ انھوں نے اس کا ترجمہ صرف وفا شعار کیا ہے وہ فرماتے ہیں: ’’عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے، لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دیتا ہے تو اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گنہ گار ہو گی۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اس کا ترجمہ مطلقاً وفا شعار کیا ہے، یعنی اللہ کی فرماں بردار۔

اب آتے ہیں حوالۂ جات کی طرف، یوں معلوم ہوتا ہے کہ عزیزم رضوان اللہ نے حوالے بادل نخواستہ دیے، کیونکہ بقول ان کے حوالوں کی ضرورت اہل علم کو نہیں ہوتی، یعنی اس کی ضرورت تو مجھ جیسے کم علم کو ہوتی ہے۔ دراصل لفظ ’قنوت‘ اور ’قانت‘ ان کا مسئلہ ہی نہیں ان کا مسئلہ تویہ ثابت کرنا ہے کہ مرد بیوی پر حاکم، مسلط اور سربراہ ہوتا ہے۔ پس بیوی کو لازماً اس کا حکم ماننا چاہیے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر انھوں نے حوالے تلاش کیے ہیں۔ گویا وہ اپنے آپ کو حوالوں کے تابع بنانے کے بجاے حوالے کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔

لغت کی تین مستند کتابوں جوہری کی ’’صحاح‘‘، فیروز آبادی کی ’’القاموس المحیط‘‘ اور زبیدی کی ’’تاج العروس‘‘ میں لفظ ’قنوت‘ کے ضمن میں شوہر کی فرماں برداری کا نشان تک نہیں ملتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ’قنتت المراۃ لزوجہا‘ ماہرین لغت کے ہاں ایک معروف محاورہ ہے، قطعی غلط ہے۔ عزیزم رضوان اللہ نے ’قنتت المراۃ لزوجہا‘ کے سلسلہ میں تین حوالے دیے ہیں۔ میں صرف ’’لسان العرب‘‘ اور ’’اساس البلاغہ‘‘ کے حوالوں پر بات کروں گا، کیونکہ ’’اقرب الموارد‘‘ قرآنی مفردات کے بارے میں کوئی مستند کتاب نہیں۔ بقول رضوان اللہ انھوں نے عربی کسی استاذ سے نہیں پڑھی، بلکہ (Self Studied) ہیں۔ مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ ایسا شخص ’’صحاح‘‘، ’’قاموس‘‘، ’’لسان العرب‘‘ اور ’’تاج العروس‘‘ جیسی لغات کی امہات الکتب سے عربی لفظ کی تلاش کیسے کر سکتا ہے۔ یہ کام استاذ کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے مجھے گمان گزرتا ہے کہ انھوں نے کتاب پڑھے بغیر انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کی ہیں اور ان میں سے بھی وہ فقرہ چنا ہے جو ان کی مطلب برآری کرتا ہے۔ حالانکہ ’’لسان العرب‘‘ کا عام بحث سے ہٹ کر لکھا ہوا فقرہ بھی ان کے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔’’لسان العرب‘‘ کے کچھ حوالے میں نے اوپر دیے ہیں مگر یہاں لفظ ’قنوت‘ کے تحت ساری بحث کا مفہوم دوں گا، تاکہ شک کی کوئی گنجایش نہ رہے۔ ’’لسان العرب‘‘ میں یہ بحث یوں ہے:

القنوت‘: خاموشی اور کہا گیا ہے کہ نماز میں دعا، خشوع، عبودیت کا اقرار، ایسی اطاعت بجا لانا جس میں گناہ کا شائبہ نہ ہو اور کہا گیا ہے کہ کھڑا ہونا اور ثعلب کے قول کے مطابق یہی اصل ہے نماز پڑھنے والے کو ’قانت‘ کہا جاتا ہے حدیث میں یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً اطاعت، خشوع، نماز، دعا، عبادت، قیام اور خاموشی۔ ابن سِیدہ کا قول ہے کہ ’قنوت‘ کے اصل معنی اطاعت کے ہیں اور اللہ کا قول ’القانتین والقانتات‘ (۳۳: ۳۵) اور ’کل لہ قانتون‘(۲: ۱۱۶) انھی معنوں میں ہے، یعنی اطاعت کرنے والے۔ یہ اطاعت عبادت کی مستحق ہے، بلکہ یہ ارادہ و مشیت کے تابع ہوتی ہے۔ ’قانت‘ کے معنی ذکر کرنے والا ہے، جیسے کہ اللہ کے قول ’امن ہو قانت‘ (۳۹:۹)میں ہے۔ ’وکانت من القانتین‘ (۶۶: ۱۲) میں ’قانتین‘ کے معنی عابدین (عبادت کرنے والے) ہیں۔ ’قانت‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو بجا لانے والا ہے۔ ابن سِیدہ کا قول ہے کہ ’قانت‘ وہ ہے جو اللہ کے تمام احکام کو بجا لانے والا ہو۔ اس بحث کے آخر میں عجاج کا یہ مصرعہ نقل ہوا ہے:

ربّ البلاد والعباد القنّت

’’ملکوں کا اور فرماں بردار بندوں کا پروردگار۔‘‘

اس بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ صاحب ’’لسان العرب‘‘ ’قانت‘ سے کیا مراد لیتے ہیں۔ عزیزم رضوان اللہ نے یا تو یہ بحث پڑھی نہیں یا دیدہ و دانستہ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ’’لسان العرب‘‘ کی بحث کے آخر میں ایک جملے کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی ان کا مقصد پورا نہیں کرتا۔ حوالہ بھی انھوں نے پورا نقل نہیں کیا جو علمی دیانت کے منافی ہے۔ حوالہ یوں ہے: ’وقَنَتَ لہ: ذَلّ وقَنَتَتَ المراۃَ لِبعلِھا اقَرَّتْ‘ حرف واو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اطاعت کے علاوہ اسی لفظ کے دوسرے معنی بتا رہے ہیں یعنی ’وقنت لہ‘۔ وہ اس کے آگے ذلیل اور حقیر ہو گیا۔ عورت نے اپنے شوہر کے سامنے اقرار کر لیا۔ یعنی صاحب ’’لسان العرب‘‘ یہاں یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ذلیل و حقیر ہو گئی۔ اگر صاحب مضمون اس محاورے سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو مبارک ہو۔ بہرکیف صاحب ’’لسان العرب‘‘ نے اطاعت کے سلسلہ میں مرد کی اطاعت کا ذکر تک نہیں کیا۔ زمخشری نے ’’اساس البلاغہ‘‘ میں لفظ ’قنت‘ کے تحت لکھا ہے ’قانت للّٰہ مطیع خاشع‘ وہ اللہ کا فرماں بردار اور اس کے آگے خشوع و خضوع کرنے والا ہے۔ اور اس کے بعد ’قنت المراۃ لزوجہا‘ کا ذکر کیا ہے۔ گویا کہ شوہر کی فرماں برداری اللہ کی فرماں برداری کے تابع ہے اور جب ہم ’الصالحات قانتات‘ کا ترجمہ یہ کریں گے کہ ’’صالح عورتیں اللہ کی وفادار ہوتی ہیں‘‘ تو اس میں جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت خود بخود شامل ہوگی۔ اور امام رازی کے قول کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اللہ کے حقوق کو ادا کرنے والا ہی بندوں کے حقوق کو پورا کر سکتا ہے۔ زیرنظر آیت میں پہلے اللہ کا حق، یعنی اس کی فرماں برداری اور اس کے بعد شوہر کے حق یعنی اس کے رازوں کی حفاظت کا ذکر ہے۔

رضوان اللہ اور اس کے ہم خیال لوگوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرد کو حاکم، مسلط اور سربراہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ اس کے لیے عورت کو اللہ کے بجاے مرد کی فرماں بردار ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سہارے ڈھونڈتے ہیں خواہ وہ سہارا تنکوں کا ہی کیوں نہ ہو۔

آخر میں، میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انگریزی میں قرآنی لفظ ’قانت‘ کا ترجمہ ‘Obedient’ نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی نے “Vocabulary of the Holy Quran” میں ’قانت‘ کا ترجمہ ‘A devout One’ کیا ہے۔ لفظ ‘Devout’ کا اردو ترجمہ پارسا، خدا پرست اور عابد ہے۔ حافظ غلام سرور جو کیمبرج کے تعلیم یافتہ اور“Imperial Institute of Modern languages” کے عربی کے اسکالر تھے اور ملایشیا اور سنگاپور میں سول جج رہے، انھوں نے قرآن کا ترجمہ کیا ہے اور ’قانت‘ کا ترجمہ ‘Devout’ کیا ہے۔ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ ‘Devoutly Obedient’ کیا ہے۔ ظاہر ہے ایسی فرماں برداری صرف اللہ کی ہو سکتی ہے علامہ محمد اسد نے بھی ’قانت‘ کا ترجمہ ‘Devout One’ کیا ہے۔ انگریزی لغت کی مستند ترین کتاب Lane کی “Lexicon” ہے جس میں مصنف نے عربی لغت کی تمام امہات الکتب کا خلاصہ پیش کر دیا ہے وہ لفظ ’قانت‘ کے متعلق لکھتے ہیں:

“The proper signification of ’القانت‘ (or the signification that implies all the meaning of the word) is the performer of the commands god.”

میرا خیال ہے کہ اس قرآنی لفظ کے بارے میں عربی اور انگریزی کے ڈھیر سارے دلائل عزیزم رضوان اللہ کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ ہماری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔

—————————

B