HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۴۳- ۶۰ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ{۴۳} لَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالْمُتَّقِیْنَ{۴۴} اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ{۴۵} وَلَوْاَرَا دُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَام  ۔ثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ{۴۶}

لَوْخَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَاْ اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ{۴۷} لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوْا لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ کٰرِھُوْنَ{۴۸}

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَا تَفْتِنِّیْ اَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌم بِالْکٰفِرِیْنَ{۴۹} اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ وَاِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوْا وَّھُمْ فَرِحُوْنَ{۵۰} قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ{۵۱} قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ{۵۲}

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْکَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ{۵۳} وَمَا مَنَعَھُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقٰتُھُمْ اِلَّآ اَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَایَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کٰرِھُوْنَ{۵۴} فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ{۵۵}

وَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ وَمَا ھُمْ مِّنْکُمْ وَلٰکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ{۵۶} لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْہِ وَھُمْ یَجْمَحُوْنَ{۵۷} 

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ{۵۸} وَلَوْاَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ{۵۹} اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۶۰}

اللہ تم کو معاف کرے (اے پیغمبر)، تم نے (اِس سفر سے) اِنھیں رخصت کیوں دے دی؟ (تمھیں چاہیے تھا کہ ایسا نہ کرتے)،یہاں تک کہ تم پر کھل جاتا کہ کون سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔۲۰۲؎ جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں، وہ کبھی تم سے اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد سے رخصت مانگنے نہیں آئیں گے۔اللہ اُن کو خوب جانتا ہے (جن کے عذر حقیقی ہیں اور) جو اُس سے ڈرنے والے ہیں۔ تم سے رخصت مانگنے تو وہی آتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں، سو اپنے اِسی شک میں بھٹک رہے ہیں۔ اگر وہ نکلنا چاہتے تو ضرور کچھ سامان کرتے، لیکن اللہ نے اُن کا اٹھنا پسند نہیں کیا، اِس لیے اُنھیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔۲۰۳؎۴۳-۴۶

(حقیقت یہ ہے کہ ) اگر یہ لوگ تمھارے اندر شامل ہو کر نکلتے تو تمھارے لیے خرابی ہی بڑھانے کا باعث بنتے اور اِن کی سب دوڑ دھوپ تمھارے درمیان فتنہ انگیزی کے لیے ہوتی۔ تمھارے اندر ایسے بھی ہیں جو اِن کی سن لیتے ہیں۲۰۴؎۔ اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اِنھوں نے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کی ہے اور تمھارے لیے معاملات کا الٹ پھیر کرتے رہے ہیں۲۰۵؎، یہاں تک کہ اِن کی مرضی کے خلاف حق آیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہو گیا۔۴۷-۴۸

اِن میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے رخصت دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے۲۰۶؎ ــــــسن لو، یہ فتنے میں پڑ چکے ۲۰۷؎اور(اب) دوزخ اِن منکروں کو گھیرے ہوئے ہے۲۰۸؎۔ اگر تمھیں کوئی اچھائی پیش آتی ہے تو اِنھیں دکھ ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ (خوب ہوا)، ہم نے پہلے ہی اپنا بچائو کر لیا تھا اور خوش خوش لوٹتے ہیں۲۰۹؎۔اِنھیں بتا دو کہ ہمیں وہی چیز پہنچے گی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ رکھی ہے۔ وہ ہمارا مولیٰ ہے اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ اِن سے کہہ دو کہ تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اِس کے سوا کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۲۱۰؎۔لیکن ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیجے گا یا ہمارے ہاتھوں سے۲۱۱؎۔ سو انتظار کرو، ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہیں۔۴۹-۵۲

(اپنے نفاق کو چھپانے کے لیے یہ کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں)، (اِن سے) کہہ دو: تم اپنے مال خوشی سے خرچ کر و یا نا خوشی سے، وہ تم سے ہرگز قبول نہ کیے جائیں گے، اِس لیے کہ تم بد عہد لوگ ہو۔ اِن کا انفاق درخور قبول نہیں ہے تو اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اِنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول سے کفر کیا ہے۲۱۲؎ اور نماز کے لیے آتے ہیں تو مارے باندھے آتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں۔سو اِن کے مال و اولاد کو کچھ وقعت نہ دو،۲۱۳؎ اللہ تو (اب) یہ چاہتا ہے کہ اِن کے ذریعے سے اِنھیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور اِن کی جانیں اِس حالت میں نکلیں کہ یہ کافر ہوں۲۱۴؎۔۵۳-۵۵

یہ خدا کی قسمیں کھا کھا کر اطمینان دلاتے ہیں کہ تم میں سے ہیں، دراں حالیکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں، بلکہ ایسے لوگ ہیں جو ڈرتے ہیں۲۱۵؎۔اگر یہ کوئی ٹھکانا، کوئی غار یا کوئی گھس بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تو رسی تڑا کر اُدھر بھاگ کھڑے ہوتے۔۲۱۶؎۵۶-۵۷

اِن میں ایسے بھی ہیں ، (اے پیغمبر) جو صدقات۲۱۷؎ (کی تقسیم)کے معاملے میں تم پر عیب لگاتے ہیں۔ (یہ وہ لوگ ہیں جنھیں لالچ نے تمھارے ساتھ باندھ رکھا ہے۲۱۸؎)۔چنانچہ اگر اُس مال میں سے اِنھیں دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ (اِن کے لیے کہیں بہتر ہوتا)، اگر یہ اُس پر راضی رہتے جو اللہ اور اُس کے رسول نے اِنھیں دیا تھا اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۲۱۹؎۔اللہ آگے اپنے فضل سے ہم کو بہت کچھ دے گا اور اُس کا رسول بھی۔ ہمیں تو اللہ چاہیے۔ (اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۲۲۰؎۔۵۸-۶۰

۲۰۲؎ تبوک کے موقع پر جہاد کے لیے نفیر عام کا اصلی مقصد یہی تھا کہ جزا و سزا کے اِس مرحلے میں منافقین کے چہرے سے بھی نقاب الٹ دی جائے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کریم النفسی اور چشم پوشی اُن کے آڑے آئی اور آپ نے یہ جاننے کے باوجود کہ جو عذرات وہ پیش کر رہے ہیں، سب جھوٹے ہیں، اُنھیں قبول کر لیا اور رخصت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہایت دل نواز اسلوب میں آپ کو اِس پر توجہ دلائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔بات کا آغاز ہی عفو کے اعلان سے فرمایا کہ واضح ہو جائے کہ مقصود سرزنش اور عتاب نہیں، بلکہ توجہ دلادینا ہے کہ منافقین تمھاری کریم النفسی سے بہت غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تم اپنی چشم پوشی کی وجہ سے اُن کے عذرات کو لاطائل سمجھنے کے باوجود اُن کو اجازت دے دیتے ہو جس سے وہ دلیر ہو جاتے ہیں کہ اُن کی مکاری کامیاب ہو گئی، حالاں کہ اگر تم اجازت نہ دیتے تو اُن کا بھانڈا پھوٹ جاتا۔ اُن کے جھوٹوں اور سچوں میں امتیاز ہو جاتا۔ تمھاری اجازت کے بغیر جو گھر میں بیٹھ رہتے، ہر شخص پہچان جاتا کہ یہ منافق ہیں، لیکن وہ تمھاری اجازت کو اپنے چہرے کی نقاب بنا لیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۸۳)

۲۰۳؎ یہ توفیق کے باب میں سنت الہٰی کا بیان ہے اور اسلوب طنزیہ ہے۔ آگے کی بعض آیتوں میں یہ طنز اور بھی تیز ہو گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جب تم نے اٹھنا پسند نہیں کیا تو خدا نے بھی تمھیں اِس کی توفیق نہیں دی، بلکہ یہی پسند کیا کہ جائو گھروں میں بیٹھنے والے بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کی طرح تم بھی بیٹھے رہو۔ تمھارے لیے یہی موزوں ہے۔

۲۰۴؎ یہ اُن سادہ لوح مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن کی سادہ لوحی کے سبب سے منافقین بالعموم اُنھیں چکما دینے میں کامیاب ہو جاتے اور اِس طرح فتنہ انگیزی کے لیے کچھ نہ کچھ راستہ نکال لیتے تھے۔

۲۰۵؎ قرآن کے مخاطبین اِن سب چیزوں سے واقف تھے، اِس لیے اُس نے صرف اجمالی اشارہ کردیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہی لوگ تھے جنھوں نے جنگ بدر کے موقع پر ۔۔۔اللہ اور رسول کا منشا واضح ہونے کے باوجود مسلمانوں کو قافلۂ تجارت پر حملہ کرنے کی راہ سجھانے کی کوشش کی، اِنھی لوگوں نے جنگ احد کے موقع پر پہلے تو شہر میں محصور ہو کر مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا، پھر جب اِن کا مشورہ قبول نہیں ہوا تو عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر عین موقع پر الگ ہو گیا۔ پھر جنگ کے بعد اِسی کے ہم خیالوں نے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا کہ نعوذ باللہ آپ قوم کے بدخواہ ہیں کہ خیرخواہوں کے مشورے کے خلاف ایک غلط مقام پر لے جا کر ہمارے بھائیوں کو کٹوا دیا اور شکست کا سبب بنے۔ پھر یہی لوگ تھے جنھوں نے جنگ مریسیع کے موقع پر اپنی فتنہ انگیزی سے ایسی صورت پیدا کر دی کہ انصار اور مہاجرین کے درمیان تلوار چلتے چلتے رہ گئی۔ اِسی سلسلے میں اِن کی ایک نہایت سنگین شرارت واقعۂ افک کی شکل میں ظاہر ہوئی جو بات کا بتنگڑ بنانے کی ایک نہایت گھنونی مثال ہے۔ حنین کے موقع پر تقسیم غنیمت کے معاملے میں اِنھوں نے اپنی بدطینتی سے دلوں میں سخت کدورت پیدا کر دینے کی کوشش کی۔ غرض جو موقع بھی اِن کے ہاتھ آیا، اُس سے فائدہ اٹھا کر اِنھوں نے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۸۵)

۲۰۶؎ یعنی روم جانے کے لیے نہ کہیے کہ مبادا وہاں کوئی فتنہ ہمیں اپنی گرفت میں لے لے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اِس سے اُن کی مراد رومی عورتوں کے حسن و جمال کا فتنہ تھا*۔ یہ اُسی طرح کا عذر ہے، جیسا کہ بعض مدعیان تقویٰ مسجد کی حاضری سے متعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ گھر ہی میںنماز پڑھ لیتے ہیں، اِس لیے کہ وہاں جائیں گے تو ریا کے فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اگرچہ یہ عذر پیش تو ایک آدھ احمقوں نے ہی کیا ہو گا، لیکن یہ عذر کی ایک ایسی قسم تھی جس پر تقویٰ اور دین داری کا ملمع چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی، اِس وجہ سے قرآن نے اِس کا خاص طور پر ذکر فرمایا تاکہ مسلمانوں کو شیطان کے ایک خاص حربے سے آگاہ کر دیا جائے کہ کبھی کبھی وہ تقویٰ کے بھیس میں بھی حملہ آور ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۸۶) 

۲۰۷؎ نہایت بلیغ فقرہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تبوک جانا تو دور کی بات ہے، اپنی بد عملی پر فریب کاری کا یہ ملمع چڑھا کر اور اِس طرح کے عذرات پیش کرکے یہ گھر بیٹھے ہی فتنے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

۲۰۸؎ اِس سے دو باتیں واضح ہوئیں: ایک یہ کہ اِس قسم کے تمام بہانے تراشنے والے اگرچہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں ، مگر درحقیقت منکر ہیں۔ دوسری یہ کہ تبوک کے سفر سے تو یہ اِس طرح کی بہانہ سازی سے بچ سکتے ہیں، لیکن خدا کی دہکائی ہوئی جہنم سے نہیں بچ سکتے۔ یہ جہاں چاہیں ، بھاگ کر دیکھ لیں، وہ ہر طرف سے اِن کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

۲۰۹؎ یہ اُسی کفر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا ذکر پیچھے ہوا کہ اِن کے سینے ایمان سے خالی ہیں، اِس لیے کہ اِن کے دلوں میں تو مسلمانوں کے لیے اِس درجے کی بدخواہی بھری ہوئی ہے۔

۲۱۰؎ یعنی جس سفر کے لیے نکل رہے ہیں، اُس میں کامیابی یا ناکامی۔ یہ دونوں ہمارے لیے بھلائی ہیں۔ اِس لیے کہ پہلی چیز حاصل ہوئی تو اپنے پروردگار کا شکرادا کریں گے جس کے بعد ازیاد نعمت کی توقع ہے اور دوسری چیز سے دوچار ہوئے تو صبر و استقامت کے ساتھ اور توبہ و انابت کے جذبے سے اپنی کمزوریوں کی اصلاح کریں گے جس کے نتیجے میں امید ہے کہ دنیا اور آخرت ، دونوں میں خدا کی رحمت و عنایت شامل حال ہو جائے گی۔

۲۱۱؎ اِس کتاب میں کئی جگہ بیان ہو چکا ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد خدا کا عذاب بالعموم اِنھی دو صورتوں میں آتا ہے۔ رسول کے ساتھی تعداد میں کم ہوں اور اُنھیں کوئی دارالہجرت بھی میسرنہ ہوسکے تو ابر و باد کے لشکر منکرین کو تباہ کر دیتے ہیں۔ وہ معتد بہ تعداد میں ہوں اور کسی سرزمین میں اُن کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان بھی ہوجائے تو اُن کی تلواریں بے نیام ہوتی ہیں اور منکرین حق کا استیصال کر دیتی ہیں۔

۲۱۲؎ یعنی حقیقت میں کفر کیا ہے، اِس لیے کہ اللہ و رسول پر ایمان کے جو تقاضے ہیں، یہ اُن میں سے کسی کو بھی پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

۲۱۳؎ یعنی اِس بنا پر اِن سے دین کی کسی سچی خدمت کی توقع نہ کرو، اِس لیے کہ یہ مال و اولاد اِن کے لیے آخرت میں کسی بڑے مرتبے کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ غلامی کا پھندا ہے۔ اپنی گردنیں یہ اب اِس پھندے سے چھڑا نہ سکیں گے۔

۲۱۴؎ اللہ کا یہ چاہنا اُس سنت کے مطابق ہے جو اُس نے لوگوں کی ہدایت اور گمراہی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اِس کی وضاحت ہم پیچھے ایک سے زیادہ مقامات میں کر چکے ہیں۔

۲۱۵؎ یعنی اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ تم سے الگ ہو گئے تو اُسی انجام کو پہنچا دیے جائیں گے جو اِس سے پہلے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے لیے بیان ہو چکا ہے۔

۲۱۶؎ یعنی جانتے ہیں کہ اب فرار کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا، ورنہ بھاگ کر کہیں پناہ لے چکے ہوتے۔

۲۱۷؎ اِن میں زکوٰۃ بھی شامل ہے، مگر یہ لفظ اُس کی نسبت عام ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس میں وہ تمام عطا یا شامل ہیں جو بہ نیت اجرو ثواب دیے جائیں۔ عام اِس سے کہ وہ زکوٰۃ کا مال ہو یا انفاق و تبرع کی نوعیت کاکو ئی اور مال۔ چونکہ اِسی انفاق سے آدمی کے ایمان کی صداقت اور پختگی واضح ہوتی ہے، اِس وجہ سے اِس کو صدقہ کہتے ہیں جس کی اصل ’صدق‘ ہے جس کی روح قول و فعل کی کامل مطابقت اور رسوخ و استحکام ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۹۱)

۲۱۸؎ اوپر مال دار منافقین کا ذکر تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ اِنھیں خوف نے تمھارے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ اب یہ اُن منافقین کا ذکر ہو رہا ہے جو مال دار نہیں تھے۔

۲۱۹؎ یہ شرطیہ جملہ ہے جس کی جزا اصل میں حذف کر دی گئی ہے تاکہ وہ شدت نمایاں ہو جائے جو متکلم اِس جملے سے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ عربی زبان میں یہ اسلوب اِسی طریقے سے زجر، شفقت، حسرت و ملامت اور التفات و عنایت کے پہلوئوں کو نمایاں کرنے کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے۔

۲۲۰؎ مطلب یہ ہے کہ بیت المال میں جو صدقات جمع ہوتے ہیں، وہ اُن مصارف کے لیے خاص ہیں جو نظم اجتماعی کی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اُنھیں خدا نے اپنے علم و حکمت سے مقرر فرمایا ہے، لہٰذا صدقات اُنھی میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔ یہ مال کے حریص ناخواندہ مہمانوں کے لیے نہیں ہیں اور نہ اُن کی خواہشوں کے مطابق تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔

آیت میں جو مصارف بیان ہوئے ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے:

فقرا و مساکین کے لیے۔ فقیر کا لفظ اُس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ غنی کا مقابل ہے اور ہر قسم کے حاجت مندوں کے لیے عام ہے۔ مسکین اِس کے مقابل میں سخت ہے۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی ، بے بسی اور بے چارگی شامل ہے۔ اِس اعتبار سے مسکین اُسے کہا جائے گا جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہو۔

العاملین علیھا‘، یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں۔ اِس لیے کہ ریاست کے تمام ملازمین درحقیقت ’العاملین علی اخذ الضرائب وردھا الی المصارف‘ ہی ہوتے ہیں۔ ’متصدقین‘ یااِس طرح کے بعض دوسرے الفاظ کے بجاے قرآن نے یہ لفظ اِسی مدعا کو ادا کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔

المؤلفۃ قلوبھم‘، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات کے لیے۔

فی الرقاب‘، یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے۔

الغارمین‘، یعنی کسی نقصان ، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔

فی سبیل اللّٰہ‘، یعنی دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبود کے کاموں میں۔

ابن السبیل‘،یعنی مسافروں کی مدد اور اُن کے لیے سڑکوں، پلوں، سرائوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ زکوٰۃ اور دوسرے تمام صدقات جس طرح فرد کے ہاتھ میں دیے جا سکتے ہیں، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ اِن کے مصارف پر تملیک ذاتی کی جو شرط بالعموم عائد کی جاتی ہے، اُس کے لیے کوئی ماخذ قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ ہمارے فقہا کا ایک گروہ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ‘ کے ’ل‘ کو تملیک ذاتی کے مفہوم کے لیے خاص کرتا ہے اور پھر اِس سے یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ صدقات و زکوٰۃ کی رقوم فقرا و مساکین کی کسی ایسی اجتماعی بہبود پر صرف نہیں ہو سکتیں جس سے ملکیت ذاتی تو کسی کی بھی قائم نہ ہو، لیکن اُس کا فائدہ بحیثیت مجموعی سب کو پہنچے۔ ہمارے نزدیک یہ راے کسی مضبوط دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ اول تو ’ل‘ کچھ تملیک ہی کے معنی کے لیے خاص نہیں ہے ،بلکہ یہ متعدد معانی کے لیے آتاہے اور اِن سب معانی کے لیے یہ خود قرآن میں استعمال ہوا ہے، تملیک ذاتی ہی کے معنی کے لیے اِس کو خاص کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ آخر بہبود، نفع رسانی اور استحقاق کے معانی کے لیے بھی جب اِس کا استعمال معروف ہے تو اِن معانی میں یہ کیوں نہ لیا جائے؟ پھر آیت میں آپ نے دیکھا کہ بعض چیزیں ’فی‘ کے تحت بیان ہوئی ہیں اور ’فی‘ کا متبادر مفہوم تملیک نہیں، بلکہ خدمت، مصرف، رفاہیت اور بہبود ہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۹۳)    

[باقی]

ــــــــــــــ

 * تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۴۷۵۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B