محمد بلال
۳ مارچ۲۰۱۳ کوکراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں خو ف ناک بم دھماکوں کے باعث بچوں او رخواتین سمیت ۵۰ جاں بحق اور ۱۴۶ زخمی ہوگئے۔مجلس وحدت المسلمین نے۱۰ روزہ اورتحفظ عزاداری کونسل نے ۳ روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر دیاگیا۔آئی جی سندھ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی اوررینجرز نے شہر میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔مذہبی رہنماؤ ں میں اسلم سلیمی، طاہرالقادری،فضل الرحمن، ساجدمیر، حافظ سعید نے دھماکوں کی شدید مذمت کی ۔
افسوس! اس انتہائی گھمبیر مسئلے کو سادہ طور پر لیا جارہا ہے۔ایک دن تعلیمی ادارے بند کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ کھلے ہوئے تعلیمی اداروں کے بارے میں آنکھیں کھولناہوں گی۔مذہبی اور عام تعلیمی اداروں کے نصاب کا جائزہ لینا ہوگا۔ علمی اختلاف انسانی مخالفت کیسے بن گیا ہے؟ انسانی اخلاقیات کا درس کیوں نہیں دیا جارہا ؟ہمارے اندر تعصبات نے اپنی جڑیں اس قدر گہری کیسے کر لی ہیں؟ اگر اہل تشیع پر ظلم ہوا، تو اس پر صرف شیعہ تنظیمیں ہی کیوں متحرک ہوئیں؟فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ ہیں کہ : ’’ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا ۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سرجسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)’’ جو شخص کسی پر رحم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر بھی رحم نہ کیا جائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الآداب) عباس ٹاؤن کے ظلم پر سب کا درد ایک جیسا کیوں نہ ہوا؟
آئی جی سندھ نے تحقیقات کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے افسران پر مبنی کمیٹی قائم کر دی،لیکن ایک اور علمی اور سماجی تحقیقاتی کمیٹی بھی بننی چاہیے جو یہ جاننے کی کوشش کرئے کہ رحمن ورحیم کو اپنا خدا ماننے والوں، رحمۃً للعالمین کو اپنا رسول ماننے والوں، ہر ملنے والے کو سلامتی کی دعا دینے والوں کے اندریہ وحشت و بربریت کہاں سے آگئی؟ اسلام جیسے دین سلامتی کو ماننے والوں کے مذہب اور ان کے رویوں میں یہ خوف ناک تضاد کیسے پیدا ہو گیا؟ شہروں کی دیواروں پر باہمی نفرت و عداوت او رکفر کے فتووں پر مبنی عبارتیں کیسے لکھ دی جاتی ہیں اور حاکم اور معاشرہ اسے کیسے برادشت کر لیتا ہے؟ اگر اس خونی کھیل کے پیچھے بیرونی دشمن بھی کارفرما ہیں تو ہمارے لوگ ان کے آلۂ کار کیسے بن جاتے ہیں؟
محترم اسلم سلیمی،ڈاکٹرطاہر القادری،مولانا فضل الرحمن، پروفیسرساجدمیر، حافظ سعید کی خالی مذمت کافی نہیں ہے ۔ایسی مذمت تو سیاست دانوں اورحکمرانوں نے بھی کی ہے۔ آپ علماے دین ہیں۔آپ نبیوں کے وارث ہیں۔ آپ سیاست دانوں او رحکمرانوں سے بلند تر لوگ ہیں۔ آپ سے توقعات بھی بلند تر ہیں۔ اعلیٰ علمی اور سماجی شعور کی امیدیں ہیں۔ایک خدا، ایک رسول ، ایک کتاب کو ماننے والوں میں کچھ ایسے لوگ کیسے پیدا ہوگئے جو بچوں او رعورتوں کو بھی ناحق قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟انسانوں کے مابین اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔یہ ایک فطری امر ہے، لیکن ہمارے اندر ان اختلافات کو برداشت کرنے کا کلچر کیوں نہیں پیدا ہو سکا؟ اختلاف کرنے کے آداب کیوں نہیں اپنائے گئے؟ اہل مغرب کی طرح ہمارے اندر جیو اور جینے دو کا مزاج کیوں نہیں پیدا ہوا؟ آپ کھل کر کفر او رقتل کے فتوے دینے والوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟کفر و قتل کی علمی دکانوں کے خلاف علمی کریک ڈاؤن کیوں نہیں کرتے؟
کتاب ہدایت کو محض ایصال ثواب او رحصول ثواب کا ذریعہ بنا کر ہی کیوں رکھ دیا گیا ہے؟اگر قوم اسے سمجھ کر پڑھنا شروع کر دے توکیا اللہ کی یہ رسی پارہ پارہ امت کو وحدت کی لڑی میں پرونے کا اہتمام نہیں کر سکتی؟ اسرائیل، امریکہ اور بھارت تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے نہیں روکتے۔اور اس کے بعد اس پر بھی تحقیقات ہونی چاہییں کہ دنیا کی ہر کتاب میں الفاظ اور عبارات کا مفہوم طے کرتے وقت ان کا سیاق وسباق دیکھا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں عقل عام پر مبنی یہ اصول قرآن مجید پر لاگو کیوں نہیں کیا جاتا؟آیات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر ان کی تشریح کیوں کی جاتی ہے اور ان کا اطلاق اپنی خواہش کی بنیاد پر، کبھی اپنے گروہ پر اور کبھی دوسرے گروہ پر کیوں کر دیا جاتا ہے؟
ایک دفعہ کسی عالم دین کی تقریر سننے کا درد ناک اتفاق ہوا۔اس نے قرآن مجید کی سورۂ کافرون کاحوالہ دیا اور کہا کہ ہمارے رسول نے کہا کہ’’اے کافرو۔‘‘اور پھر اپنے مخالف مذہبی گروہ پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے کہا کہ کافر کہنا تو میرے نبی کی سنت ہے۔اور یہ بتایا ہی نہیں کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش کے لیڈروں کواتمام حجت کے بعد مخاطب کیا تھا۔ (اتمام حجت کے بعد، یعنی دین حق کواپنی بے مثل اعلیٰ ترین اخلاقی شخصیت، تبلیغ اور دلیل کے ذریعے سے پوری طرح واضح کرنے کے بعد)۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں مولانا امین احسن اصلاحی پر، انھوں نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں کیسا اعلیٰ تدبر کیا ہے اورکس قدر احسن طریقے سے اس آیت کا اطلاق سمجھایا ہے۔ سورۂ کافرون سے پچھلی سورتوں میں تمام تر بحث قریش کے لیڈروں ہی سے رہی ہے۔ کافرون، سور ہ نمبر ۱۰۹ ہے۔ اس سے پیچھے ۱۰۶ نمبر سورہ کا نا م ہی قریش ہے۔جس میں قریش کی قوم کو سمجھا یا جا رہا ہے کہ انھیں عرب میں جو وقار حاصل ہے اس میں اصل دخل ان کی ذہانت و قابلیت اور ان کے حسن تدبیر کو نہیں، بلکہ بیت اللہ کے ساتھ ان کے تعلق او ر اس کے خادم ہونے کو ہے۔ ان کی معاشی زندگی میں خون کی گردش انھی تجارتی سفروں سے ہے جن کی کامیابی کی ضمانت ان کو بیت اللہ کے متولی ہونے کی بدولت حاصل ہے۔ا س لیے وہ دنیوی کامیابیوں کے نشہ میں ان حقوق وفرائض کو نہ بھول بیٹھیں جو خانہ کعبہ اور اللہ سے متعلق ان پر عائد ہوتے ہیں۔ سورۂ کافرون سے قبل خطاب قومی اور انسانی بنیاد پر ہوا، کہیں قریش کو کافر نہیں کہا گیا۔اتمام حجت کے بعد ہجرت ہوئی۔اللہ تعالیٰ رسول کو ہجرت کا حکم اسی وقت دیتا ہے جب قوم کے رویے سے واضح ہوجاتاہے کہ اس کے اندر ایمان قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔اندیشہ ہوتاہے کہ قوم اپنی سرکشی میں آکر رسول کی جان لینے کی کوشش کرے گی۔چنانچہ رسول کو حکم دیا جاتاہے کہ وہ قوم سے برأت کا اعلان کر کے ہجرت کرے اور قوم سے الگ ہوجائے۔چنانچہ جب ان کفار کو سزا کے طور پر قتل کیا گیا توسورۂ انفال (۸) کی آیت۱۷ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ:’’تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا۔‘‘
دین مکمل ہوگیا۔اب تمام تر ہدایت قرآن،سنت او رحدیث میں ہے۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ چنانچہ اب وحی و الہام کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ۔اب وحی کے ذریعے سے کسی مذہبی رہنما کو اللہ کی طرف سے کوئی پیغام نہیں مل سکتا کہ اس کے دعوتی کا م سے اتمام حجت کا عمل مکمل ہوگیا ہے، فلاں مدعو یا مخاطب گروہ کے اندر ایمان قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی اوروہ ہجرت کر جائے ۔لاریب، یہ سارے معاملات رسول اللہ کے ساتھ خاص تھے۔ اب کوئی عالم دین کسی کو کیسے کافر کہہ سکتاہے؟ان نکات پر بھی علمی تحقیقات ہونی چاہییں۔شاید مسئلے کی ایک اہم وجہ اور حل اسی میں پوشیدہ ہو۔
__________________