HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

فلاح آخرت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے انعامات الٰہی

ترجمہ: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ، فَرَّقَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَمْرَہُ وَجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَلَمْ یَأْتِہِ مِنَ الدُّنْیَا إِلاَّ مَا کُتِبَ لَہُ. وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ نِیَّتَہُ، جَمَعَ اللّٰہُ لَہُ أَمْرَہُ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہِ وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کا مقصود صرف دنیا ہو۱، اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات منتشر کر دے گا اور اس کے چہرے پر پریشانی ڈال دے گا۲اور اس کو دنیوی فوائد سے بہرہ ور نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ جو اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے۳۔(تاہم)جس شخص کا مطمح نظر آخرت میں حصول انعامات ہو۴، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے معاملات کو منظم کر دے گا اور اس کے دل کو اطمینان بخشے گا۵اور اس کو دنیوی فوائد سے بہرہ ور کرے گا، جبکہ وہ ان فوائد کو حقیر سمجھے۔۶

ترجمے کے حواشی

۱۔سچا اور صاحب عقل مومن روز محشر، روز قیامت اور ابدی جزا یا ابدی سزا پر ایمان لانے کے بعد اس عارضی زندگی کو اپنا مقصود و مطلوب نہیں بنا سکتا۔

۲۔اپنی نوعیت میں آزمایش ہونے کی حیثیت سے، دنیوی زندگی متعدد اتار چڑھاؤ لاتی ہے۔چنانچہ جو شخص محض اس دنیا کی کامیابی اور مال کے لیے زندگی گزارتا ہے، وہ دلی طور پر مطمئن اور پر سکون نہیں رہ سکتا۔

۳۔یہاں تک کہ جس شخص کا مقصود اور توجہ صرف اس دنیا کے فوائد حاصل کرنے پر ہو، وہ صرف وہی حاصل کر سکے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حکم صادر فرمایا ہے۔ایک قسم کی آزمایش ہونے کی حیثیت سے، یہ زندگی عموماً ہماری مساعی کے مطابق نتائج برآمد نہیں کرتی۔جس شخص کا مقصود محض اس دنیا کے فوائد کا حصول ہو، اس قسم کی زندگی اس کے لیے مزید مایوسیوں کا باعث بنتی ہے۔

۴۔اس کے برعکس، یہ وہ شخص ہے جو اس قسم کی زندگی سے باخبر ہوتا ہے، اس لیے اس کا مطمح نظر صرف آخرت کے نتائج ہوتا ہے جو کہ یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ ابدی بھی ہوتے ہیں۔تاہم، اس بات کو ذہن نشین ہونا چاہیے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ شخص اس دنیوی زندگی میں انعامات الہٰیہ میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔اس طرح کی روایات کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ملاحظہ کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں ان لوگوں کا بیان ہے جو آخرت میں حقیقی کامیابی کے لیے آنکھیں بند کیے بغیر اس دنیا میں انعامات الہٰیہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ان دو قسم کے لوگوں کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ اُولٰٓءِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.(البقرہ۲:۲۰۱۔۲۰۲)
’’بعض وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار، ہمیں اس دنیا میں اچھی چیزیں عطا فرما اور (نتیجتاً)ان کے لیے آخرت میں انعامات الہٰیہ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔(اس کے برعکس)ان میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار، ہمیں اس دنیا میں بھی اپنے انعامات سے نواز اور آخرت میں بھی اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اور (جس روز اللہ تعالیٰ لوگوں میں فیصلہ فرمائے گا)یہی وہ لوگ ہوں گے جو اپنی کمائی کے مطابق (انعام کے طور پر)حصہ پائیں گے۔اور (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔‘‘

اس رویے کے نتیجے میں، کسی شخص کو اپنے مقاصد و منازل کے حصول سے آسانی سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔

۵۔وہ شخص جس کی آنکھوں کا محور آخرت ہو، اور وہ دنیوی زندگی کی نوعیت سے متنبہ بھی ہو تو وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے میں امید کے دامن کو نہیں چھوڑتا۔اس حقیقت کو جان کروہ ہمیشہ پرسکون رہتا ہے کہ آخرت میں اس کی کوششیں ضرور ثمربار ہوں گی اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایۂ رحمت سے نوازے گا، جب اسے سب سے زیادہ ضرورت اسی کی ہوگی۔

۶۔خواہ فائدہ ہو یا نقصان، جس شخص کی جدوجہد کا مرکز آخرت ہوگی، وہ ان کو اپنی آزمایش کا ایک حصہ سمجھے گا۔ نتیجتاً، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اس کو نا امید نہیں کر سکتا، اور دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی بھی اس کو غرور وتکبر میں مبتلا نہیں کر سکتی۔

بنیادی سبق

دنیوی زندگی ایک آزمایش ہے، اور اس کے فوائد و نقصانات بھی عارضی ہیں۔جو شخص اس حقیقت کو بھول جاتا ہے اور فقط اس زندگی کی فلاح کا خواہش مند ہو، وہ پریشان کن زندگی گزارتا ہے، یہاں تک کہ اس کی دنیوی دولت جمع کرنے کی کوششیں اس کے لیے صرف اتنا ہی سکون کا باعث بنتی ہیں، جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حکم فرمایا ہے۔اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کا احساس رکھتا ہے اور اس سے آگاہ ہے، اس کا مطمح نظر آخرت کی فلاح و کامیابی ہوتا ہے۔وہ نہ تو اس دنیا کی ناکامیوں سے پریشان ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کامیابیوں سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔وہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے وعدۂ رحمت و عدل سے مطمئن رہتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دنیوی حصے سے کوئی بھی اس کو محروم نہیں کر سکتا۔

متون

بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت ابن ماجہ، رقم ۴۱۰۵؛ترمذی، رقم۲۴۶۵؛ابن حبان، رقم۶۸۰؛دارمی، رقم ۲۲۹اور احمد، رقم۲۱۶۳۰میں روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۴۶۵میں مذکور حکم، جس میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے، اس کے برعکس ہے۔

بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۶۸۰میں ’من کانت الدنیا ہمہ‘(جس کا مقصود صرف دنیا ہو)کے الفاظ کے بجاے ’من کانت الدنیا نیتہ‘(جس کی نیت صرف دنیا ہو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۱۶۳۰میں یہ الفاظ ’من کانت نیتہ الدنیا‘(جس کی نیت صرف دنیا ہو)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۴۶۵میں’ فرق اللّٰہ علیہ أمرہ‘(اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات منتشر کر دے گا)کے الفاظ کے بجاے ’فرق علیہ شملہ‘(اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو منتشر کر دے گا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۴۶۵میں ’فرق اللّٰہ علیہ أمرہ وجعل فقرہ بین عینیہ‘(اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات منتشر کر دے گا اور اس کے چہرے پر پریشانی ڈال دے گا)کے الفاظ کے بجاے ’جعل اللّٰہ فقرہ بین عینیہ وفرق علیہ شملہ‘(اللہ تعالیٰ اس کے چہرے پر پریشانی ڈال دے گا اور اس کے اتحاد کو منتشر کر دے گا)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۱۶۳۰میں یہ الفاظ’فرق اللّٰہ علیہ ضیعتہ‘(اللہ تعالیٰ اس کی دولت کو منتشر کر دے گا)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً دارمی، رقم۲۲۹میں’ جعل فقرہ بین عینیہ‘(وہ اس کے چہرے پر پریشانی ڈال دے گا) کے بجاے ’جعل فرقہ بین عینیہ‘(وہ اس کے چہرے پر انتشار ڈال دے گا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۴۶۵میں ’إلا ما کتب لہ‘(سواأ اس کے جو اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے) کے الفاظ کے بجاے’ إلا ما قدر لہ‘(سوا أ اس کے جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۴۶۵میں ’من کانت الآخرۃ نیتہ‘(جس شخص کا مطمح نظر آخرت میں حصول انعامات ہو)کے الفاظ کے بجاے ’من کانت الآخرۃ ہمہ‘(جس شخص کا مقصود آخرت ہو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۱۶۳۰میں یہ الفاظ ’من کان ہمہ الآخرۃ‘(جس شخص کا مقصود آخرت ہو)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً دارمی، رقم ۲۲۹میں ’جمع اللّٰہ لہ أمرہ‘(اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو اس کے لیے منظم کر دے گا)کے الفاظ کے بجاے ’جمع اللّٰہ لہ شملہ‘(اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو اس کے لیے منظم کر دے گا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۱۶۳۰میں یہ الفاظ’ جمع اللّٰہ شملہ‘(اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو منظم کر دے گا)روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۱۶۳۰میں یہ الفاظ بعض دیگر احکام کے اضافے کے ساتھ اس طرح روایت کیے گئے ہیں:

نضر اللّٰہ إمرءً سمع منا حدیثًا فحفظہ حتی یبلغہ غیرہ فإنہ رب حامل فقہ لیس بفقیہ ورب حامل فقہ إلی من ہو أفقہ منہ. ثلاث خصال لا یغل علیہن قلب مسلم أبدًا: إخلاص العمل للّٰہ ومناصحۃ ولاۃ الأمر ولزوم الجماعۃ فإن دعوتہم تحیط من وراء ہم وقال: من کان ہمہ الآخرۃ جمع اللّٰہ شملہ وجعل غناہ فی قلبہ وأتتہ الدنیا وہی راغمۃ ومن کانت نیتہ الدنیا فرق اللّٰہ علیہ ضیعتہ وجعل فقرہ بین عینیہ ولم یأتہ من الدنیا إلا ما کتب لہ وسألنا عن الصلٰوۃ الوسطی وہی الظہر.
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو روشن کرے جو ہماری حدیث کو سنتا ہے اور اسے یاد کرتا ہے، یہاں کہ تک اسے دوسرے تک پہنچا دیتا ہے۔کتنے ہی صاحب فقہ ہیں جو فقیہ نہیں ہیں اور کتنے ہی صاحب فقہ ہیں جن سے زیادہ بڑے بھی فقیہ ہیں۔تین خصائل ایسے ہیں جن کے بارے میں مسلمان کا دل کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا: اللہ تعالیٰ کے لیے خالص عمل، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی اور سیاسی اتحاد کے ساتھ وابستگی، کیونکہ (جو لوگ سیاسی اتحاد سے وابستہ رہتے ہیں) مسلمانوں کی دعا ان کے پیچھے سے ان کا احاطہ کرتی ہے۔فرمایا: جس شخص کا مطمح نظر آخرت (کی فلاح)ہو، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے معاملات کو منظم کر دے گا اور اس کے دل کو اطمینان بخشے گا اور اس کو دنیوی فوائد سے بہرہ ور کرے گا، جبکہ وہ ان فوائد کو حقیر سمجھے۔جس شخص کا مقصود دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی دولت منتشر کر دے گا اور اس کے چہرے پر پریشانی ڈال دے گا اور دنیا میں سے اس کو اتنا ہی ملے گا جتنا اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ (راوی کہتے ہیں:) ہم نے آپ سے صلوٰۃ وسطیٰ کے بارے میں سوال کیا اور وہ ظہر کی نماز ہے۔‘‘

جیساکہ بعض احادیث میں روایت کیا گیا ہے، یہ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکام ایک ہی خطبہ میں ارشاد فرمائے ہوں۔ان احکام کی نوعیت مختلف ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔

_______________

B