الطاف احمد اعظمی*
[یہ مصنف کی طبع شدہ کتاب ’’اسلامی عبادات: تحقیقی مطالعہ‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘
کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالاقساط شائع کیے جا رہے ہیں۔]
- ۱ -
اسلام کی طرح یہودیت اور عیسائیت میں بھی نماز (Prayer) فرض ہے، لیکن اجزاے ترکیبی، اوقات اور طریقۂ ادائیگی کے لحاظ سے ان میں نمایاں فرق ہے۔ صلوٰۃ (نماز) پر گفتگو سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کی نماز کا اجمالی ذکر کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کی نماز کے امتیازی اوصاف واضح ہوں۔
یہودی مذہب میں نماز کی حقیقت خدا کا شکر بجا لانا اور گناہوں کی معافی چاہنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا نے زندگی دی اور تورات عطا کی اس لیے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اور اس کا شکر بجا لایا جائے۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
“Confession and repentance of sin on the one hand, and thanks giving on the other, are perhaps the two most importand parts of worship.”
’’یہودی عبادت دو اہم اجزاء پر مشتمل ہے، ایک اعتراف گناہ اور توبہ و استغفار، اور دوسرا اظہار تشکر۔‘‘(دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن (نیویارک / لندن ۱۹۸۷) ۱۵/۴۴۶۔۴۴۷)
یہودی مذہب میں انفرادی اور اجتماعی دونوں نمازیں ہیں۔ انفرادی نماز کسی وقت ادا کی جا سکتی ہے بالخصوص کسی اہم واقعہ کے ظہور پذیر یا بیماری سے شفایابی یا سبت (Sabbath) کے موقع پر روشنی کرتے وقت۔ ۱
اجتماعی نماز دن میں تین بار ہوتی ہے اور یہ عبادت خانوں (Synagogues) میں ادا کی جاتی ہے۔ تورات کا عالم (ربّی) ان کو نماز پڑھاتا ہے۔ ہفتہ یعنی سنیچر کے دن زیادہ بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں تورات کو اونچی آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ اس میں تمام اسرائیلی مرد اور عورت شرکت کرتے ہیں۔
یہودی اپنی نمازوں میں قدرے ترنم کے ساتھ تورات کی آیات تلاوت کرتے ہیں۔ دوران نماز وہ کبھی مراقبے میں چلے جاتے ہیں، کبھی زور سے خدا کو پکارتے ہیں، کبھی کھڑے رہتے ہیں، کبھی کھڑے کھڑے جھومتے ہیں، کبھی جھکتے اور سجدہ کرتے ہیں۔ نماز کے وقت ان کا رخ یروشلم کی طرف ہوتا ہے۔
عیسائیوں کی نماز میں واقعۂ صلیب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دی گئی اور اتوار کو، عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق، وہ جی اٹھے۔ چنانچہ پہلی صدی عیسوی تک عیسائی بطور تشکر روٹی اور شراب نمازوں میں پیش کرتے تھے۔ یہ دونوں چیزیں، ان کے عقیدہ کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم اور خون کی علامت کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ۲
لیکن دوسری صدی عیسوی میں روٹی اور شراب ۳ کی رسم کی ادائیگی سے پہلے انجیل کی تلاوت کی جانے لگی۔ تلاوت کے بعد امام بتاتا کہ ابھی جو تلاوت کی گئی ہے اس کا مفہوم کیا ہے۔ اس کے بعد وہ وعظ کہتا اور لوگوں کو اچھے اعمال کی تلقین کرتا، بعد ازاں عبادت میں شریک لوگ ایک دوسرے کے لیے دعاے خیر کرتے۔ اس کے بعد مقدس عشاء ربانی (The Eucharist) یعنی روٹی اور شراب کو میز پر رکھا جاتا۔ ان رسوم کی ادائیگی کے بعد نماز ادا کی جاتی تھی۔ ۴
جس طرح عیسائیوں میں طریقۂ نماز شروع سے غیر متعین رہا اور وہ برابر بدلتا رہا اسی طرح نماز کے اوقات بھی متعین نہیں تھے۔ شروع میں تین وقت کی نمازیں تھیں لیکن ان کا وقت واضح طور پر مقرر نہ تھا۔ ایک روایت ہے کہ صبح و شام اور آدھی رات کے علاوہ دن کے تیسرے، چھٹے اور نویں گھنٹے میں نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ یہ انفرادی نمازیں تھیں۔ شروع میں صبح کی نماز اجتماعی تھی۔ کبھی شام کی نماز بھی اجتماعی طور پر ادا کی جاتی تھی۔ لیکن چوتھی صدی عیسوی میں صبح و شام کی نمازیں باقاعدہ اجتماعی طور پر ادا کی جانے لگیں۔ سولہویں صدی میں اس میں مزید اصلاح ہوئی اور انفرادی نمازوں کو بھی دن کے دو اوقات میں خاص کر دیا گیا یعنی صبح و شام۔ بیسویں صدی میں یہ اصلاح کی گئی کہ صبح و شام کی اجتماعی نماز کو باقی رکھا گیا، لیکن درمیان میں نفل نمازیں بھی رکھی گئیں جن کی ادائیگی نمازی کی مرضی پر موقوف ہے۔ اس کے علاوہ ہفتہ میں ایک بار اتوار کے روز اجتماعی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس میں زبور کی تلاوت ضروری ہے۔ ۵
یہودیوں اور عیسائیوں کی نماز کے اس مختصر ذکر کے بعد اب ہم صلوٰۃ یعنی اسلامی نماز کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے لفظ صلوٰۃ کے لغوی اور قرآنی معانی پر ایک اجمالی نظر ڈال لینا ضروری ہے تاکہ اس کے مغز و جوہر تک رسائی ہو سکے۔
لفظ صلوٰۃ باعتبار مادہ نہایت قدیم ہے۔ کلدانی اور عبرانی دونوں میں گو کہ اس کا املا مختلف ہے، لیکن تلفظ ایک ہے یعنی صلا۔ اس مادے میں جلانے کا مفہوم غالب ہے۔ چنانچہ عبرانی میں اس کے معنی جلانے اور کباب کرنے کے ہیں۔۶ عربی میں بھی اس کے یہی معنی ہیں۔ اس کے علاوہ آگ میں لکڑی تپا کر اس کو سیدھا کرنے کا مفہوم بھی اس میں داخل ہے۔
قدیم زمانے میں دعا اور عبادت کے وقت آگ یا بخور جلاتے تھے۔ اسی مناسبت سے آگے چل کر یہ عمل صلوٰۃ کہلایا۔ کلدانی، عبرانی اور سریانی، تینوں زبانوں میں یہ لفظ دعا اور عبادت کے لیے مستعمل رہا ہے۔ عربی میں بھی دعا اور عبادت کے لیے اس کا استعمال قدیم ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
وَمَا کَانَ صَلاَتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْْتِ اِلاَّ مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً.(سورۂ انفال۸: ۳۵)
’’کعبہ کے پاس مشرکین کی نماز محض سیٹی اور تالیاں بجانا تھا۔‘‘
امام راغب صلوٰۃ کے لغوی معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’بہت سے اہل لغت کا بیان ہے کہ صلوٰۃ کے معنی دعا کرنے، برکت مانگنے اور بزرگی سے یاد کرنے کے ہیں۔ بولا جاتا ہے: ’صلیت علیہ‘ یعنی میں نے اس کے لیے دعا کی اور بزرگی سے یاد کیا۔ آں حضرت کا ارشاد ہے: ’اذا دعی احدکم الی طعام فلیجب وان کان صائما فلیصل‘ ’’جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے تو دعوت قبول کرنا چاہیے اور اگر روزہ دار ہو تو دعا کرنا چاہیے (یعنی دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرے)‘‘۔‘‘ (مفردات راغب ۲۸۵)
اس سلسلے میں مولانا فراہی کی تحقیق قابل ذکر ہے:
’’صلوٰۃ (نماز) کا اصل مفہوم ’اقبال الی الشء‘ ہے، یعنی کسی شے کی طرف بڑھنا اور لپکنا۔ یہی مفہوم رکوع، تعظیم اور دعا کا بھی ہے۔ یہ کلمہ نماز و عبادت کے لیے قدیم زمانہ سے مستعمل ہے۔ کلدانی میں دعا اور تضرع کے لیے اور عبرانی میں نماز اور رکوع کے لیے آیا ہے۔‘‘ (رسالہ فی اصلاح الناس ۸)
انھوں نے مزید لکھا ہے:
’’نماز نہ صرف ذریعۂ تقرب بلکہ عین تقرب ہے... میرے خیال میں عربی میں صلوٰۃ کا اصل مفہوم بھی قربت قریبہ ہی کا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف بڑھنا اور اس میں داخل ہو جانا۔ اسی لیے گھوڑ دوڑ کے اس گھوڑے کو جو اگلے گھوڑے کے بعد ہو مصلی کہتے ہیں۔ جو شخص آگ کے پاس نہایت قریب ہو کر تاپ رہا ہو اس کو صالی کہتے ہیں۔ یہی لفظ اس شخص کے لیے استعمال کیا جائے گا جو آگ میں گھس جائے۔‘‘ (رسالہ فی اصلاح الناس ۳۹۔۴۰)
اس لغوی تحقیق کے بعد یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن میں یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے تاکہ صلوٰۃ کا قطعی مفہوم متعین کیا جا سکے۔ قرآن میں یہ لفظ دعا کے معنی میں ایک سے زیادہ مقامات پر استعمال ہوا ہے، اور دعا توجہ الی اللہ ہی کی ایک صورت ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ.(سورۂ توبہ۹: ۹۹)
’’اور ان بدویوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو قرب الٰہی اور رسول کی دعا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘
سورۂ توبہ ہی میں دوسری جگہ ہے:
وَصَلِّ عَلَیْْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.(۱۰۳)
’’اور ان کے لیے دعا کرو ، بے شک تمھاری دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
سورۂ نور میں بھی یہ لفظ دعا ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْْرُ صٰفّٰتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ.(۲۴ : ۴۱)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور پرندے بھی پروں کو پھیلائے ہوئے، اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی دعا اور تسبیح معلوم ہے۔ اور اللہ پوری طرح باخبر ہے اس سے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں تسبیح کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور صلوٰۃ پر عطف ہے، جس سے مقصود اس کی تشریح ہے۔ تسبیح کے معنی بلند آواز سے کسی کو پکارنے اور اس کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے:
قبح اللّٰہُ وجوہ تغلب کلما
سبح الحجیج وکبّروا اھلا
’’خدا قبیلہ بنی تغلب والوں کے منہ کو ہر ایسے موقع پر کالا کرے جب کہ حاجی لوگ دعا کے ساتھ اپنی آوازیں بلند کریں اور تکبیر و تہلیل کریں۔‘‘
صلوٰۃ بمعنی دعا کی مزید تشریح آیۂ مذکورہ بالا میں ’’صلٰوۃ الطیر‘‘ کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے جو ایک مشاہداتی حقیقت ہے۔ صبح و شام کے مقررہ اوقات میں چڑیوں کی زمزمہ سنجی دراصل خدا کی تسبیح کی ایک صوتی شکل ہے۔ ’’صلا‘‘ ہی سے تصلیہ ہے یعنی دعا کرنا۔ عرب کا ایک شاعر ابوقیس بن اسلت جاہلی یثربی کہتا ہے:
قوموا فصلو ربکم وتعوذوا
بارکان ھٰذا البیت بین الاخاشب
’’کھڑے ہو کر اپنے رب سے دعا کرو اور اس گھر کے ستونوں کی پناہ لو جو پہاڑوں کے درمیان ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ صلوٰۃ کے اصلی معنی دعا کے ہیں۔ عبادت خانہ کو بھی صلوٰۃ کہا جاتا ہے۔ عبرانی میں اس کو صلوتا کہتے ہیں۔ ۷ قرآن مجید میں ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا. (سورۂ حج۲۲ : ۴۰)
’’اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں، گرجے، کنیسے اور مسجدیں، جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، ڈھا دیے گئے ہوتے۔‘‘
وہ صلوٰۃ جو ایک مخصوص عبادت ہے یعنی نماز اس کی اصل بھی دعا ہے۔ جس طرح کسی شے کو اس کے اہم جز سے موسوم کرتے ہیں اسی طرح یہ عبادت بھی صلوٰۃ سے موسوم ہوئی کہ اس کا بڑا حصہ خدا کی حمد و تسبیح اور اس کی مناجات پر مشتمل ہے۔
لیکن شرع میں جب صلوٰۃ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے اصطلاحی معنی مراد ہوتے ہیں، یعنی ایک مخصوص بدنی عبادت (نماز) جو شب و روز کے پانچ معینہ اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
قرآن میں ’اقیموا الصلٰوۃ‘ کا جملہ بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اس لیے صلوٰۃ کے بعد اقامت کے معنی و مفہوم سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ اقامت کے لغوی معنی کسی چیز کو اس طرح کھڑا کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اگر کسی لکڑی کو بالکل سیدھا کھڑا کر دیا جائے تو کہا جائے گا: ’اقام العود‘۔ اسی معنی میں قرآن مجید میں ہے:
فَوَجَدَا فِیْہَا جِدَارًا یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ.(سورۂ کہف ۱۸: ۷۷)
’’وہاں ان دونوں نے ایک دیوار کو اس حال میں پایا کہ وہ بالکل گرا چاہتی تھی پس اس نے وہ دیوار سیدھی یعنی کھڑی کر دی۔‘‘
حدیث میں آیا ہے:
لن یقبضہ حتی یقیم بہٖ الملۃ العوجآء. (بخاری، کتاب البیوع)
’’اللہ ان (آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم) کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ ملت عوجاء (ملت عرب) کو سیدھا نہ کر دے۔‘‘ ۸
اقامت کے دوسرے معنی کسی کام کو اس طرح انجام دینے کے ہیں کہ اس کا حق ادا ہو جائے۔ ’اقامۃ الشئ: توفیۃ حقہ‘ ۹ اس سلسلے میں قرآن کی چند آیات ملاحظہ ہوں۔ فرمایا گیا:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکُم مِّنْ رَّبِّکُمْ.(سورۂ مائدہ ۵: ۶۸)
’’کہہ دو، اے اہل کتاب، تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات، انجیل اور اس چیز کو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے، قائم نہ کرو۔‘‘
اس آیت میں تورات، انجیل اور اس چیز، یعنی قرآن کی اقامت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کتابوں کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کی جائے، ان کے احکام و ہدایات پر کسی کمی و بیشی کے بغیر عمل کیا جائے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:
وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ.(سورۂ طلاق۶۵: ۲)
’’اپنے میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لو اور اللہ کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔‘‘
اس آیت میں اقامت شہادت کا مفہوم، جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے، یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک حق و انصاف کے مطابق سب کے سامنے دی جائے۔ کسی خوف یا طمع کی وجہ سے شہادت میں کتر بیونت نہ ہو، بلکہ صورت معاملہ کو جوں کا توں بیان کر دیا جائے۔
ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے:
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ.(سورۂ رحمن ۵۵: ۹)
’’انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور تول میں کمی نہ کرو۔‘‘
اس آیت میں اقامت وزن کا مطلب تول میں انصاف کا حق ادا کرنا ہے، یعنی ترازو مستقیم ہو، باٹ صحیح ہو اور نیک نیتی سے وزن کیا جائے۔ یہ صحیح وزن کے شرائط ہیں۔ اگر ظاہری تول تو ٹھیک ہو، یعنی ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں، لیکن باٹ صحیح نہ ہو تو تول کی یہ ظاہری درستی کوئی معنی نہیں رکھتی اور اس صحیح وزن کا اطلاق نہ ہو گا۔ اسی طرح باٹ تو صحیح ہو، لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہ ہوں تو اس کو بھی صحیح وزن نہیں کہیں گے۔ فی الواقع صحیح وزن اور درست تول وہ ہے جس میں باٹ اور ترازو کی ظاہری درستی کے ساتھ جذبۂ نیک نیتی بھی شامل ہو۔ باٹ کتنا ہی صحیح ہو، ترازو کتنا ہی مستقیم ہو مگر دل میں کھوٹ ہو، یعنی ایمان داری نہ ہو تو ناپ تول میں خرابی کا آجانا ناگزیر ہے۔
اقامت کے مذکورہ لغوی اور قرآنی مفہومات سے معلوم ہوا کہ اقامت صلوٰۃ سے محض نماز کی ظاہری ہیئت مراد نہیں، بلکہ نماز کو اس کے جملہ ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ ۱۰ امام راغب نے لکھا ہے:
ولم یامر تعالی بالصلوۃ حیثما امر ولامدح بہ حیثما مدح الا بلفظ الاقامۃ تنبیھا ان المقصود منھا توفیۃ شرائطھا لاالاتیان بھیئاتھا.(مفردات راغب ۴۱۸)
’’اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) جہاں کہیں نماز کا حکم دیا ہے یا اس کی مدح کی ہے تو اس کے لیے اقامت کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا ہے صرف اس امر پر متوجہ کرنے کے لیے کہ اقامت سے مقصود اس کے شرائط کی تکمیل ہے نہ کہ محض اس کی ظاہری ہیئت کی بجا آوری ہے۔‘‘
شرائط نماز میں خصوصیت کے ساتھ تین چیزیں داخل ہیں، محافظت نماز، مداومت نماز اور تعدیل ارکان۔ اگر ان میں سے کوئی شرط بھی ساقط ہو جائے تو اس پر اقامت صلوٰۃ کا اطلاق نہ ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے:
فَاِذَا قَضَیْْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ.(سورۂ نساء ۴: ۱۰۳)
’’پس جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے یاد کرو، پھر جب تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے تو نماز قائم کرو۔‘‘
اس آیت کا تعلق حالت جنگ کی نماز سے ہے جو ایک رکعت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس مختصر نماز کے لیے اقامت کا لفظ استعمال نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تعدیل ارکان، جو شرائط نماز میں سب سے اہم شرط ہے، مفقود ہے۔ اس کے علاوہ رکعتوں کی تعداد بھی کم ہے۔ اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ جب اطمینان حاصل ہو جائے تو نماز قائم کرو، یعنی اس کو جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اقامت کا اطلاق اسی نماز پر ہو گا جس میں جملہ ارکان نماز کامل اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کیے جائیں، عدم اطمینان کی حامل نماز پر اقامت کا اطلاق نہ ہو گا۔
اسی مفہوم میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(سورۂ بقرہ ۲: ۲۳۹)
’’اگر تم کو خطرہ درپیش ہو تو پیدل اور سوار، دونوں حالتوں میں نماز ادا کرو، اور جب خطرہ جاتا رہے تو خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا جس کو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘
اس آیت میں ’کَمَا عَلَّمَکُمْ‘ سے محض نماز کی ظاہری ہیئت کی تعلیم مراد نہیں، بلکہ شرائط نماز کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے۔ گویا حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ حالت خوف رفع ہو جانے کے بعد نماز اس کے تمام ارکان سمیت کامل اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کی جائے۔ جو لوگ نماز کی ظاہری ہیئت ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور شرائط نماز سے غفلت برتتے ہیں، یعنی نہ تو نماز اس کے صحیح وقت پر ادا کرتے ہیں (محافظت صلوٰۃ)، نہ اس پر مداومت اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے جملہ ارکان اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کرتے ہیں، وہ مصلی تو ضرور ہیں، لیکن ان کو مقیم صلوٰۃ نہیں کہا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
انّ المصلین کثیر والمقیمین قلیل. (مسند احمد)
’’مصلی (نمازی) تو بہت ہیں، لیکن مقیم نماز (یعنی اس کے حقوق ادا کرنے والے) بہت تھوڑے ہیں۔‘‘
نماز باجماعت کا اہتمام بھی اقامت صلوٰۃ میں داخل ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت سے بالکل واضح ہے:
وَاَوْحَیْْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. (سورۂ یونس ۱۰: ۸۷)
’’اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر ٹھہرا لو اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بنا لو اور نماز قائم کرو، اور اہل ایمان کو بشارت دے دو۔‘‘
اس آیت میں چند گھروں کو قبلہ بنا لینے اور ان میں اقامت صلوٰۃ کے حکم سے صاف ظاہر ہے کہ یہ دراصل قوم موسیٰ کو نماز باجماعت کے اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اقامت کے اس مفہوم کو اور واضح کر دیا گیا ہے:
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا.(سورۂ نساء۴: ۱۰۲)
’’اور (اے پیغمبر) جب تم ان میں موجود ہو اور ان کو نماز پڑھا رہے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے ہتھیار لیے ہوئے ہو پھر جب وہ سجدہ کر چکے توپیچھے ہو جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے تمھارے ساتھ نماز پڑھے۔‘‘
دیکھیں، اس آیت میں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھانے کا ذکر ہے وہاں اقامت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے (وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃ) اور جہاں مقتدیوں کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے وہاں اقامت کے بجاے تصلیہ کالفظ آیا ہے (فلیصلوا معک)اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اقامت صلوٰۃ میں نماز باجماعت شامل ہے۔ حدیث سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
سؤوا صفوفکم انّ تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلٰوۃ.(بخاری و مسلم)
’’صفوں کو سیدھا کرو، کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنا اقامت صلوٰۃ میں داخل ہے۔‘‘
نماز دراصل خدا کی یاد اور اس سے قلبی و ذہنی تعلق کا ایک محسوس خارجی اظہار ہے۔ جس قدر یہ تعلق قوی ہو گا اسی قدر اس کی یاد بھی قوی ہو گی۔ خدا کی یاد کو قرآن مجید میں ذکر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہٰ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ.(سورۂ طٰہٰ۲۰: ۱۴)
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ پس تم میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذٰا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ.(سورۂ جمعہ۶۲: ۹)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن کی نماز کے لیے پکارا جائے (یعنی اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف تیزگامی کرو۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ.(سورۂ عنکبوت۲۹: ۴۵)
’’بے شک نماز بری باتوں اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔‘‘
ذکر خدا کو قرآن مجید میں بعض مقامات پر خدا کا نام لینا بھی کہا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی.(سورۂ اعلیٰ۸۷: ۱۴۔۱۵)
’’کامیاب ہوا وہ شخص جس نے خود کو پاک کیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ.(سورۂ بقرہ ۲: ۱۱۴)
’’اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو خدا کے گھروں میں اس کا نام لینے سے روکیں۔‘‘
نماز کے لیے خدا کا نام لینا ایک قدیم مذہبی تعبیر ہے۔ تورات میں ہے:
’’اور ابراہیم وہاں سے کوچ کر کے اس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل (بیت اللہ) کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا اس طرح لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور ’عی‘ مشرق میں پڑا، اور وہاں اس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اس کا نام لیا۔‘‘ (کتاب پیدایش، باب ۱۲: ۸۔۹)
کتاب پیدایش ہی میں ایک دوسرے مقام پر ہے:
’’اسحاق نے وہاں ایک قربان گاہ بنائی اور خداوند کا نام لیا۔‘‘ (کتاب پیدایش، باب ۲۶:۲۵)
ذکر کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کا نام زبان پر آجائے بلکہ یہ بات بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے کہ اس کی بے حد بڑائی بیان کی جائے، اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس سے قرب و محبت کا بے تابانہ اظہار ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
فَاِذَا قَضَیْْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا. (سورۂ بقرہ ۲: ۲۰۰)
’’جب تم اپنے (حج کے) مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو جس طرح تم پہلے اپنے آبا و اجداد کو یاد کرتے رہے ہو، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس کو یاد کرو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰکُمْ.(سورۂ بقرہ ۲: ۱۹۸)
’’مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس طرح اس کو یاد کرو جس طرح اس نے تمھیں ہدایت کی ہے۔‘‘
ایام جاہلیت میں اہل عرب کا معروف دستور تھا کہ وہ حج کے اختتام پر مشعر حرام اور منیٰ میں جلسے منعقد کرتے تھے۔ ان جلسوں میں ہر قبیلہ کے شعرا اور خطبا اپنے اپنے قبائل کے مفاخر و محامد بالخصوص آباو اجداد کی شجاعت و بسالت اور ان کی فیاضی و سیرچشمی کے واقعات کو شعر و خطابت کی شکل میں خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ آیات مذکورہ میں ان اعمال تفاخر سے باز آجانے کے لیے کہا گیا ہے اور ساتھ ہی حکم دیا گیا ہے کہ اب باپ دادا کی بڑائی بیان کرنے کے بجاے خداے بزرگ و برتر کی عظمت و کبریائی بیان کی جائے اور اجداد کی تعریف سے کہیں بڑھ کر اس کی تعریف و توصیف کی جائے کہ اس کائنات میں وہی ایک ہستی ایسی ہے جو فی الواقع ہر طرح کی تعریف و ستایش کے لائق ہے۔
ذکر کے اس مفہوم کی تائید ان آیات سے بھی ہوتی ہے جن میں نماز کے لیے تسبیح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا وَمِنْ اٰنَآیئ الَّیْْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّہَارِ.(سورۂ طٰہٰ ۲۰: ۱۳۰)
’’اور اپنے رب کی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو آفتاب کے طلوع اور اس کے غروب سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کرو اور دن کے اطراف میں بھی۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
وَمِنَ الَّیْْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَارَ النُّجُومِ. (سورۂ طور۵۲: ۴۹)
’’اور شب میں اور ستاروں کے پلٹنے کے وقت (وقت سحر) اس کی تسبیح کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا ہے:
وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَاَصِیْلاً. (سورۂ احزاب۳۳: ۴۲)
’’اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔‘‘
ان آیات میں نماز پڑھنے کو خدا کی تسبیح سے تعبیر کیا گیا ہے، ۱۱ اور تسبیح کے معنی خدا کی پاکی اور اس کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں۔ اعشیٰ کہتا ہے:
وسبح علی حین العشیات والضحٰی
ولا تعبد الشیطان واللّٰہ فاعبدا
’’صبح اور شام کے اوقات میں تسبیح کرو اور شیطان کی عبادت مت کرو، بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو۔‘‘
روایت ہے کہ ایک بار معاویہ بن حکم سلمی، جو جلد ہی مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، شریک نماز تھے۔ کسی مسلمان کو چھینک آئی تو انھوں نے، جیسا کہ انھیں تعلیم دی گئی تھی، ’یرحمک اللّٰہ‘ کہہ دیا۔ صحابہ نے ان کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔ انھوں نے نماز ہی میں کہا: تم لوگ مجھے اس طرح کیوں گھور کر دیکھتے ہو؟ صحابہ نے اپنے زانو پر ہاتھ مارے اور سبحان اللہ کہا تب جا کر وہ سمجھے کہ بولنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ نماز ہو چکی تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، نماز میں کون باتیں کر رہا تھا۔ صحابہ نے عرض کیا، معاویہ۔ آپ نے ان کو پاس بلا کر نہایت نرمی سے فرمایا: نماز، قرآن پڑھنے، اللہ کو یاد کرنے اور اس کی پاکی و بڑائی بیان کرنے کا نام ہے، اس میں باتیں کرنا مناسب نہیں۔۱۲
حقیقت نماز کا دوسرا قابل ذکر پہلو دعا ہے، یعنی قادر مطلق اور علیم و خبیر خدا کو پکارنا اور اس سے درخواست اور التجا کرنا۔ حضرت نعمان بن بشیر انصاری سے مروی ہے کہ ایک بار آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’الدعاء ہو العبادۃ‘۱۳ ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ اور اس کے بعد یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ.(سورۂ مومن۴۰: ۶۰)
’’تمھارے رب کا ارشاد ہے، مجھے پکارو، میں تمھاری درخواست قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے روگردانی کرتے ہیں وہ عنقریب رسوا ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد سے حقیقت نماز کے اس دوسرے پہلو کی تائید ہوتی ہے، فرمایا:
’’نماز دو دو رکعت کر کے ہے اور ہر دوسری رکعت میں تشہد اور گریہ و زاری ہے، خشوع و خضوع ہے، عاجزی اور مسکنت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اے رب، اے رب کہنا ہے۔ جس نے ایسا نہ کیا تو اس کی نماز ناقص رہی۔‘‘(ابوداؤد، باب: صلوٰۃ النہار، ترمذی، باب: ماجاء فی التخشع فی الصلوٰۃ)
حقیقت نماز کے مذکورہ بالا پہلوؤں پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ دراصل اسلام کے عقیدۂ توحید کا عملی اظہار ہے۔ سورۂ فاتحہ نماز کا ایک لازمی جز ہے اور تمام تر توحیدی تعلیم پر مشتمل ہے۔ اسی سورہ میں یہ فقرے موجود ہیں: ’ایاک نعبد وایاک نستعین‘ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ ہر نمازی اپنی زبان سے روزانہ کم از کم پانچ بار ان الفاظ کو دہراتا ہے اور ان کے ذریعہ خدا سے اس کی عبادت و استعانت کا عہد باندھتا ہے اور غیر خدا کی عبادت و استعانت سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ ’وایاک نستعین‘ میں ’’واو‘‘ بیان کا ہے، یعنی ’ایاک نعبد‘ کی تشریح کے لیے لایا گیا ہے کہ استعانت عبادت کے مفہوم میں داخل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مافوق الطبیعی طور پر خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو حاجات و مصائب میں مدد کے لیے پکارنا اس کی عبادت کے مترادف ہے۔
شرک کی بنیاد ہمیشہ سے اس غلط خیال پر قائم رہی ہے کہ اس کائنات میں خدا کے علاوہ اس کی بعض مخلوقات، مثلاً فرشتے، سیارے اور بعض وفات یافتہ نیک لوگ (انبیا و اولیا)، بھی صاحب قوت ہیں اور وہ بندوں کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتی ہیں، اور یہ اختیار ان کو خدا نے عطا کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد سورتوں میں اس مشرکانہ خیال کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو خدا اس کائنات کا خالق و مالک ہے وہی اس پر مکمل اختیار و تصرف رکھتا ہے۔ اس کے سوا اس کائنات خلقت میں کوئی دوسرا وجود ایسا نہیں جو نظام عالم میں تصرف تو کجا بذات خود کسی نوع کا کوئی ادنیٰ اختیار و اقتدار بھی رکھتا ہو۔ اور ایسا بھی نہیں کہ خدا نے اپنے اقتدار اعلیٰ کا کوئی حصہ اپنی کسی مخلوق کی طرف منتقل کر دیا ہو اور وہ صاحب اختیار بن گئی ہو۔ اس نوع کی شرکت اقتدار سے نظام جہاں ناآشنا ہے۔ فی الواقع نظام عالم پر ایک ہی خدا غالب و مستولی ہے۔ وہی حاکم و آمر ہے، وہی نافع و ضار ہے، وہی مشکل کشا، حاجت روا اور فریاد رس ہے۔ اس کائناتی حقیقت کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً:
اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ. (سورۂ اعراف۷: ۵۴۔۵۵)
’’سن لو! خلق اور امر دونوں اسی کے لیے خاص ہیں۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، تمام جہانوں کا آقا اور پرورش کنندہ۔ اپنے رب کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ وہ یقیناًحد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ، اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّءُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ.(سورۂ فاطر۳۵: ۱۳۔۱۴)
’’وہی اللہ تمھارا رب ہے۔ اقتدار و بادشاہی اسی کی ہے۔ اسے چھوڑ کر جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے بھی مالک نہیں (یعنی بالکل بے اختیار ہیں) اگر تم انھیں پکارو تو وہ (بذات خود) تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر (کسی خدائی ذریعہ سے) سن بھی لیں تو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور قیامت کے روز وہ تمھارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ ایک باخبر کے سوا کوئی دوسرا تمھیں (ان حقائق سے) آگاہ نہیں کر سکتا۔‘‘
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا. (سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۱۱۱)
’’اور کہو کہ شکر و ستایش کا سزاوار ہے وہ اللہ جس کے نہ کوئی اولاد ہے اور نہ اس کے اقتدار و حکومت میں اس کا کوئی ساجھی ہے، اور نہ اس کے عجز کی وجہ سے اس کا کوئی مددگار ہے، اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسا کہ اس کا حق ہے۔‘‘
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا وَاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ، اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ، وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْْہِمْ وَمَا ہُم بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ.(سورۂ بقرہ۲: ۱۶۵۔۱۶۷)
’’اور لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے ہم سر ٹھہراتے ہیں، جن سے وہ محبت کرتے ہیں بالکل خدا کی محبت کی طرح۔ لیکن جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ خدا سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم دیکھ سکتے اس حالت کو جب عذاب سے دوچار ہوں گے تو ان کو اچھی طرح معلوم ہو جاتا کہ ساری قوت اور کل اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اور اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے۔ اس وقت کا خیال کرو جب قائد اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے، اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے اور ان کے تعلقات کا تانا بانا ٹوٹ چکا ہو گا۔ اور پیرو کہیں گے کہ اے کاش، ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع ملتا تو ہم بھی ان سے اسی طرح بیزاری دکھاتے جس طرح انھوں نے ہم سے بیزاری دکھائی ہے۔ اسی طرح اللہ ان کے اعمال ان کو دکھائے گا جو ان کے لیے موجب حسرت و پشیمانی ہوں گے۔ اور ان کو دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہو گا۔‘‘
[باقی]
————————
* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔
۱ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن ۱۵/۴۴۵۔
۲ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن ۱۵/۴۴۹۔
۳ نویں صدی عیسوی سے تمام مغربی چرچوں میں روٹی اور شراب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ میں تبدیل کر دیا گیا، یعنی یہ میرا جسم اور یہ میرا خون ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن ۱۵/۴۴۹)
۴ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن ۱۱/۴۵۰۔
۵ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن ۱۱/۴۵۱۔
۶ یہودی مذہب میں مذبح پر قربانی کے گوشت کو جلانا ایک بڑی عبادت سمجھا جاتا ہے۔
۷ الاتقان فی علوم القرآن، ۱/۱۴۰۔
۸ ملت عرب کی کجی ان کا شرک تھا اور ان کو سیدھا کرنے سے مراد توحید پر ان کو قائم کرنا تھا۔
۹ مفردات راغب ۴۱۸۔
۱۰ تفسیر خازن، ۱/۲۷۔
۱۱ تسبیح قول سے بھی ہوتی اور عمل سے بھی۔ قولی تسبیح کا مطلب خدا کی یاد اور اس کی بڑائی بیان کرنا، اور عملی تسبیح کا مطلب اس کی فرماں برداری ہے۔ قرآن مجید میں جہاں زمین اور آسمانوں کی تسبیح کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد عملی تسبیح ہے، یعنی خدا کے حکم کی تعمیل جو ان کا طبعی وظیفہ ہے۔ انسان سے دونوں طرح کی تسبیح مطلوب ہے۔ نماز میں قولی اور عملی دونوں تسبیحیں جمع ہیں، جیسا کہ کلمات نماز (مثلاً، اللّٰہ اکبر، سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد، سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلٰی) اور رکوع و سجدہ کے اعمال سے بالکل واضح ہے۔
۱۲ سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ۔
۱۳ سنن ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب الدعا۔
____________________________