HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ سیکشن مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

ـــــ ۱ ــــــــ

حضرت عبداﷲ بن مسعود کے دادا کا نام غافل (حارث:ابن ہشام)اور پرداداکا حبیب (شمخ:ابن اسحاق) تھا۔ قبیلۂ بنو ہذیل سے تعلق رکھتے تھے جو مضر کے پوتے ہذیل بن مدرکہ سے موسوم ہے ۔عام الفیل کے بارہ سال بعد پیدا ہوئے۔ بنو زہرہ کے حلیف تھے، ان کے والد نے زمانۂ جاہلیت میں عبداﷲبن حارث (یا عبدالحارث)بن زہرہ سے باہم عہدوپیمان کیا تھا۔ ان کی والدہ ام عبد(عبداﷲ) بنت ود بھی بنوہذیل(یابنو کنانہ کی شاخ قارہ) سے تھیں، انھیں قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ہند بنت عبدالحارث ان کی نانی تھیں۔ ابن مسعود کی کنیت ابو عبدالرحمان تھی۔کہتے ہیں، اولاد ہونے سے پہلے ہی یہ کنیت مجھے خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عطا کی تھی۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۳۶۴)

حضرت عبداﷲ بن مسعود ’’السابقون الاولون‘‘ میں سے تھے اور ان کی اکثریت کی طرح ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، عقبہ بن ابومعیط کے مویشی چراتے تھے۔ اس وقت ایمان لائے جب سعید بن زید اور ان کی اہلیہ فاطمہ بنت خطاب نے اسلام قبول کیا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔ قبول اسلام کے وقت حضرت عبداﷲ کی عمر بیس برس تھی۔وہ فخریہ طور پراپنے آپ کوچھ میں سے چھٹا کہتے تھے۔یہ بھی فرماتے ،تب روے زمین پر ہمارے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۳۶۸)کتب سیرت میں بیان کردہ ’’السابقون الاولون‘‘ کی فہرست میں ان کا نمبر بائیسواں ہے۔

ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کاقصہ یوں ہے ، ایک باروہ بکریوں کا ریوڑ چرا رہے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکرپاس سے گزرے۔آپ نے فرمایا، بیٹا! دودھ ہے؟ حضرت عبداﷲ نے کہا، ہاں ، لیکن آپ کو نہیں پلا سکتا، کیونکہ میں امانت دار ہوں (اور آقا کے مال میں خیانت نہیں کر سکتا)۔ آپ نے پوچھا ، کیا کوئی کم سن بھیڑ ہے( جسے دودھ نہ آتاہو)؟ عبداﷲ ایک نوعمر (ایک سال سے کم عمر والی)بھیڑ لے آئے ۔ آپ نے اس کی ٹانگ کو قابو کیا، تھنوں پر دست مبارک پھیرااور دعا مانگنے لگے۔اس کے تھن پر ہو گئے اور کثیر مقدار میں دودھ اتر آیا۔ سیدنا ابوبکر برتن لے آئے، آپ نے دودھ دوہا، سیدنا ابوبکر کو پلایا اور خود پیا۔ آپ نے اس کے تھنوں پر پھر ہاتھ پھیرا اور فرمایا، سکڑ جا ، سکڑ جاتو تھن پہلی حالت پر لوٹ آئے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عبداﷲ بن مسعود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اسلام قبول کیااورکہا، مجھے بھی قرآن کے پاک کلمات سکھا دیجیے ۔آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور علم کی دعا دی۔ آپ نے شفقت سے انھیں غلیم معلم (طفلک خواندہ )کہہ کر پکارا۔

ایک دوسری روایت میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں،میں اپنے چچاؤں اور قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ مکہ آیا۔ہم نے عطر بیچنا اور مکہ سے کچھ سامان خریدنا تھا۔ لوگوں نے ہمیں عباس بن عبدالمطلب کے پاس بھیج دیا۔وہ چاہ زمزم کے پاس بیٹھے تھے ۔ہم بھی وہیں بیٹھ گئے۔ اچانک کوہ صفا کی جانب سے ایک شخص نمودار ہواجس کا رنگ سرخی مائل سفیدتھا،اس کے گھنے ،گھنگریالے بال آدھے کانوں تک لٹک رہے تھے ، ناک اونچی اور بلند تھی،نتھنے باریک اور تنگ تھے،آنکھیں بڑی اور سیاہ تھیں، سامنے کے دانت خوب چمک رہے تھے،سینے پر باریک بال تھے، ہاتھ پاؤں مضبوط تھے،ڈاڑھی گھنی تھی،جسم پردو سفید کپڑے ڈال رکھے تھے۔گویا وہ چودھویں کی رات کا چاند ہے۔ اس کے داہنے طرف ایک خوب رو، نو عمر لڑکا (سیدنا علی) تھا جس کی مسیں ابھی نہ بھیگی تھیں۔ان کے پیچھے ایک خاتون (سیدہ خدیجہ) تھی جس نے اپنے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا ۔اس شخص نے حجر اسود کا رخ کیا،اسے بوسہ دیا۔پھر لڑکے اور خاتون نے بھی بوسہ لیا۔پھرتینوں نے بیت اﷲ کے سات چکر لگائے ، رکن یمانی کے پاس آئے،ہاتھ بلند کیے اور اﷲ اکبر کہاپھرکھڑے ہوئے ، رکوع کیا،سجدہ ریز ہوئے پھر کھڑے ہو گئے۔ہم نے یہ عمل دیکھا تو عجیب محسوس ہوا، ایسا ہوتے مکہ میں کبھی دیکھا نہ تھا۔ چنانچہ عباس سے پوچھا، ابوالفضل! یہ دین تمھارے ہاں نیا آیا ہے یا ہمارے علم میں نہ تھا۔انھوں نے جواب دیا، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔یہ میرے بھتیجے حضرت محمدبن عبداﷲ ہیں،لڑکا حضرت علی بن ابوطالب ہے اور خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اہلیہ ہیں۔واﷲ! ہمارے علم میں روے زمین پر ان تینوں کے علاوہ اس دین کا کوئی پیر و نہیں۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود پہلے شخص تھے جنھوں نے مکہ میں قرآن پاک جہراًپڑھا ۔ایک بار اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ان کو خیال آیا ،واﷲ! قریش نے بلند آواز میں قرآن مجید کبھی نہیں سنا، یہ مقدس کلام انھیں کون سنائے گا؟ حضرت عبداﷲ نے کہا، میں سناؤں گا۔ ساتھیوں نے کہا، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ تمھیں ماریں پیٹیں گے،اس لیے ہم چاہتے ہیں ،یہ کام وہ شخص کرے جسے بچانے کے لیے اس کا کنبہ موجود ہو ۔ابن مسعود نے جواب دیا، مجھے اﷲ بچائے گا۔ اگلا دن چڑھا، چاشت کے وقت قریش بیت اﷲ میں اپنی مجلسیں جمائے ہوئے تھے کہ عبداﷲ بن مسعود مقام ابراہیم کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اوربآواز بلند سورۂ رحمان کی تلاوت کرنے لگے۔قریش سوچ میں پڑ گئے کہ ابن ام عبد کیا کہہ رہے ہیں؟ جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہواکلام سنا رہے ہیں تو لپکے اور انھیں تھپڑ اور طمانچے مارنے لگے۔ابن مسعود باز نہ آئے ،مار کھاتے کھاتے انھوں نے سورہ کا ایک حصہ تلاوت کر ڈالا۔جب وہ لال منہ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹے تو انھوں نے کہا،ہمارا خدشہ سچ ثابت ہوا۔ حضرت عبداﷲ نے کہا ،اﷲ کے دشمنوں سے میں اتنا بے خوف کبھی نہیں تھا جتنا اب ہوں۔آپ لوگ چاہیں تو میں کل یہ مشق پھردہرا سکتا ہوں ۔صحابہ نے کہا، اتنا ہی کافی ہے۔سب سے پہلے زبانی قرآن پڑھنے والے بھی حضرت عبداﷲ بن مسعود ہی تھے۔ حضرت عبداﷲکے بھائی حضرت عتبہ بن مسعود بھی نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود کو حبشہ و مدینہ دونوں شہروں کی طرف ہجرت کرنے کاشرف حاصل ہوا۔ انھیں مسجد اقصیٰ و بیت اﷲ دونوں قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا موقع ملا۔وہ پہلی ہجرت کے دوسرے مرحلہ میں شامل ہوئے اور ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ لوٹ آئے۔خودبیان کرتے ہیں،ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نجاشی کے پاس بھیجا۔ہم اسی (یا تراسی)افراد تھے، حضرت جعفرطیار اور حضرت عثمان بن مظعون ہمارے ساتھ تھے۔ قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ کشتی پر سوار ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو ان میں سے کچھ حبشہ لوٹ گئے، تاہم سیدنا عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن مسعود ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو واپس نہ گئے اور مکہ ہی میں مقیم ہو گئے۔ ایک بارابن مسعود حبشہ میں گرفتار ہوگئے تو دو دینار دے کر چھوٹے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے سے پہلے میں نے مکہ کے مقام منیٰ پر چاند کودو ٹکڑے ہوئے دیکھا ہے،ایک ٹکڑا جبل ابوقبیس پر اور دوسرا سویدا کے مقام پرتھا۔ قریش نے کہا، یہ ابن ابی کبشہ (محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ) کا سحر ہے تو انھی میں سے کچھ نے اعتراض کیا، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام انسانوں پر جادو تو نہیں کر سکتے۔ (بخاری، رقم ۳۶۳۶، مسلم، رقم ۷۱۷۴) ابن مسعود فرماتے ہیں،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حرم مکہ میں سورۂ نجم تلاوت فرمائی۔ آیت سجدہ پر آپ سجدہ ریز ہوئے تو تمام مشرکین بھی آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے ۔ایک بڈھے ولید بن مغیرہ نے مٹی کی مٹھی بھر کر پیشانی کو لگا لی اور کہا، مجھے اتنا ہی کافی ہے، بعد میں وہ کافر ہی مرا۔ (بخاری، رقم ۴۸۶۳)

حضرت علقمہ کہتے ہیں ، میں نے ابن مسعود سے پوچھا ،جس رات آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جنوں سے ملاقات ہوئی، کیا آپ میں سے کوئی ساتھ تھا؟ انھوں نے جواب دیا،نہیں۔ مکہ میں ایک رات ہم نے آپ کو موجود نہ پایا تو بہت پریشان ہوئے۔آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں ڈھونڈا۔آپ نہ ملے تو رات وسوسوں اور اندیشوں میں کٹ گئی۔ سحر کے وقت ہم نے آپ کو حرا کی جانب سے آتے دیکھا۔آپ نے بتایا،مجھے ایک جن بلانے آیاتھا ،میں اس کے ساتھ گیا اور اسے اوراس کے ساتھیوں کو قرآن سنایا۔ (مسلم، رقم ۹۳۸) ایک شاذ روایت میں ہے، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا، کون آج رات میرے ساتھ جا کر جنوں سے ملاقات کرنا چاہتا ہے؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں، میرے سوا کوئی نہ گیا۔ہم بالائی مکہ کے مقام حجون پرپہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک دائرہ کھینچا اور مجھ سے فرمایا، اس کے اندر بیٹھ جاؤ۔ آپ نے کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت شروع کی تھی کہ کئی ہیولے میرے اور آپ کے بیچ حائل ہو گئے ۔میں آپ کی آواز بھی نہ سن سکتا تھا۔کافی وقت گزر گیا تو وہ ہیولے چھٹنے لگے اور بادلوں کی طرح ٹکڑیوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہو گئے۔فجر کے وقت آپ فارغ ہوئے اور رفع حاجت کر کے واپس آئے۔ حضرت عبداﷲبن مسعود نے ایک بارکچھ ہندوستانی جاٹوں کو گزرتے دیکھا تو کہا،جنوں والی رات میں نے جو جن دیکھے ان سے ملتے جلتے تھے۔

ایک روایت کے مطابق کفار نے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال (یسئلونک عن الروح: سورۂ بنی اسرائیل۱۷: ۸۵) ہجرت سے پہلے مکہ میں کیا، تاہم حضرت عبداﷲ بن مسعود روایت کرتے ہیں، یہ واقعہ مدینہ میں پیش آیا۔بتاتے ہیں، میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں جا رہا تھا۔آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انھوں نے سوال کیا، ابو القاسم! روح کیا شے ہے؟آپ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے تو مجھے پتا چل گیا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ایک توقف کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، ’الروح من امر ربی‘، ’’روح میرے رب کے حکم سے ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۱۲۵،مسلم، رقم ۷۱۶۱) کئی صحابہ کی طرح ابن مسعود رویت باری تعالیٰ کے قائل تھے، جبکہ سیدہ عائشہ اسے خارج از امکان سمجھتی تھیں،البتہ دونوں مانتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ رکھا ہے ، ان کے چھ سو پر ہیں۔ (بخاری، رقم ۳۲۳۲)

سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت عمرو بن ام مکتوم مدینہ پہنچے پھر حضرت عماربن یاسر، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور سیدنا بلال نے ہجرت کی۔ سیدنا عمر بیس افراد کے قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کی آمد ہوئی۔ ابن مسعود حضرت معاذ بن جبل (یا سعد بن خیثمہ) کے مہمان ہوئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ میں حضرت زبیر بن عوام (یا انس بن مالک) کو حضرت عبداﷲ بن مسعود کا بھائی قرار دیا تھا۔مدینہ تشریف آوری کے بعد آپ نے ابن مسعود اور حضرت معاذ بن جبل (یا سعد بن معاذ) میں مواخات قائم فرمائی۔ آپ نے مہاجرین میں گھروں کی تقسیم کی تو سیدنا عبداﷲ بن مسعود، عتبہ بن مسعود اور بنوزہرہ کو مسجد نبوی کی پشت پر جگہ ملی ۔ابن مسعود کے حلفا بنوزہرہ نے درخواست کی کہ ابن ام عبد کو ہم سے دور رکھا جائے۔ آپ نے غصہ سے فرمایا، کیا اﷲ نے مجھے اسی لیے مبعوث کیا ہے؟اﷲ اس قو م کوتقدس عطا نہیں کرتا جس میں کم زور کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ امام باقر کہتے ہیں ، مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصۂ فصل پر (انصار کی زمینیں) کاشت نہ کرتا ہو۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود بھی بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود کو اپنے ساتھ ایسا وابستہ کر لیا کہ وہ آپ کے حجرہ میں داخل ہو جاتے، جوتا پہناتے ،عصا تھامتے، آپ کے ساتھ یا آگے چلتے،آپ مجلس میں فروکش ہوتے تو وہ جوتا اتار کر خودپکڑ لیتے اور عصا آپ کو دے دیتے ۔آپ غسل فرماتے تو ستر کا اہتمام کرتے، سوجاتے تو آپ کو جگاتے ۔ آپ سفر پر جاتے توآپ کے بستر ، مسواک اورطہارت کے پانی کا خیال رکھتے۔اسی لیے انھیں صاحب النعلین و السواک (جوتے اور مسواک کی ذمہ داری اٹھانے والا) کہا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ خود بیان کرتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا، تجھے میرے پاس آنے کی اجازت ہے ۔ پردہ اٹھا لیا جائے اور تو میری سرگوشیاں سنے ۔یہ اجازت تب تک ہے جب تک میں تمھیں منع نہیں کرتا۔ (مسلم، رقم ۵۷۱۷) آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قدر قریب ہونے کی وجہ سے صاحب السواد (سرگوشیاں سننے والا،رازدان رسالت ) ان کالقب ہو گیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری بتاتے ہیں ، میں اور میرا بھائی یمن سے مدینہ آئے توسمجھے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کے فرد ہیں، کیونکہ وہ اور ان کی والدہ (بلا تکلف) نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے تھے۔ (بخاری، رقم ۳۷۶۳، مسلم، رقم ۶۴۰۸، ترمذی، رقم ۳۸۰۶)

حضرت عبداﷲ بن مسعود بدر،احد،خندق، اور تمام غزوات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ شریک رہے ۔

جنگ بدرسے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صحابہ سے راے لی۔ حضرت مقدادبن اسود نے جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا،یا رسول اﷲ!ہم آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں، ’’میں نے اس موقع پر مقداد کا وہ رنگ دیکھا کہ اب یہ حسرت مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو گئی ہے،کاش یہ سب ان کے بجاے میں نے کہا ہوتا۔ میں نے دیکھا کہ مقداد کی تقریر سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مسرت سے دمک اٹھا۔ ‘‘(بخاری، رقم ۳۹۵۲، ۴۶۰۹) جنگ کا بازار گرم ہوا تو عمرو بن جموح کے صاحب زادے معاذ نے تلوار کا وار کر کے ابوجہل کی آدھی ٹانگ اڑا دی، ان کے دوسرے بیٹے معوذ نے اسے شدید زخمی کر دیا۔ پھرنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عبداﷲ بن مسعود ابوجہل کو زخمیوں میں تلاش کرنے آئے (بخاری، رقم ۴۰۲۰)اور اس کا سر کاٹ کرآپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ابوجہل نے مرتے وقت کہا، کاش مجھے قتل کرنے والا چرواہا یا کاشت کارنہ ہوتا۔ (مسلم، رقم ۴۶۸۵) دوسری روایت میں خود ابن مسعود کی زبانی یہ واقعہ ذرا مختلف طرح بیان ہوا ہے، بدر کے دن میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، یا رسول اﷲ! میں نے ابوجہل کو جہنم رسید کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا، اس اﷲ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں!تم نے اسے قتل کر دیا ہے؟میں نے کہا، ہاں۔آپ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا، چلو مجھے دکھاؤ۔ میں آپ کو لے کر چلا اور ابوجہل کے سر پر جا کھڑا ہوا۔ فرمایا، اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے اس امت کے فرعون کو رسوا کر دیا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود مزید تفصیل بتاتے ہیں، ابوجہل زخمی تھا،اس کے سر پر خوداور ہاتھ میں عمدہ تلوار تھی۔ میں نے اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر کہا، دشمن خدا! اﷲ نے تمھیں رسوا نہیں کر دیا؟ پھر اپنی پرانی تلوار سے اس پر وارکیا ، اس نے کام نہ کیا تو اسی کی تلوار چھین کر اس سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہی تلوار مجھے غنیمت میں عطا کر دی۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودجنگ احد کے بارے میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی اس آیت ’اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ‘، ’’جنھوں نے گھاؤ کھانے کے بعد اﷲ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا‘‘۔ (سورۂ آل عمران۳: ۱۷۲) کی تفسیر میں بتاتے ہیں ،میں ان اٹھارہ جوانوں میں شامل تھا جو اس موقع پر موجود تھے۔ البتہ یہ روایت درست نہیں کہ جنگ احد میں جب ابتدائی ہزیمت کے بعدجیش اسلامی منتشر ہو گیا تو ابن مسعود ان چار جاں نثار صحابہ میں سے ایک تھے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے ۔فتح مکہ کے موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو پاش پاش کیا تو بھی وہ آپ کے ساتھ تھے۔

حضرت عبداﷲبیان کرتے ہیں، جنگ حنین کے دن جب سب مسلمان بکھر گئے تھے ،میں ان اسی (۸۰) مسلمانوں میں شامل تھاجنھوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا۔ انھی پر اﷲ نے اپنی سکینت اتاری۔ آپ خچر کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔ وہ ایک طرف کو جھکا تو آپ زین سے گرنے لگے۔ آپ نے فوراً اسے اپنی طرف کھینچا اور مجھے ایک مٹھی مٹی دینے کا حکم دیاپھر مٹی پکڑ کر کافروں کی آنکھوں میں جھونک دی اور پکارے ،کہاں ہیں مہاجرین و انصار؟ جواب ملا ، ہم یہاں ہیں۔ سب تلواریں سونت کر بجلی کی تیزی سے پلٹے تو مشرکوں نے پیٹھ دکھا دی۔فتح حاصل کرنے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عرب کے کچھ سرداروں(مؤلفۃ القلوب) کو فوقیت دی۔اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن کو سو سو اونٹ عطا کیے۔ایک شخص نے کہا،اس تقسیم میں (معاذاﷲ) انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ ابن مسعود نے یہ بات آپ کو بتا دی۔غصے اوردکھ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا،فرمایا،اﷲ اوررسول انصاف نہ کریں گے تو کون انصاف کرے گا؟اﷲ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں اس سے زیادہ ایذا پہنچائی گئی تو انھوں نے صبر کیا۔ حضرت عبداﷲ کہتے ہیں،مجھے یہ دیکھ کر اتنا رنج ہوا کہ فیصلہ کیا ، آیندہ ہر گز ایسی بات آپ تک نہ پہنچاؤں گا۔ (مسلم، رقم ۲۴۱۱)

حضرت عبداﷲ بن مسعود بیان کرتے ہیں،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لیے مدینہ سے نکلے تو آپ کو بار بار اطلاع ملتی کہ فلاں شخص پیچھے رہ گیا ہے ، فلاں واپس ہو گیا ہے ۔آپ فرماتے ،جانے دو، اگر نیکی کی رمق بھی ہوئی تو اﷲ اسے واپس لے آئے گا۔ سیدنا ابوذر غفاری کا اونٹ چلنے پر آمادہ نہ ہوا تو وہ بوریا بستر کمر پر لاد کر پیدل چل پڑے۔ صحابہ نے انھیں دور سے آتے دیکھا تو کہا، ایک شخص پیدل چلا آ رہا ہے۔آپ نے فرمایا، ابوذر ہی ہو گا۔اﷲ اس پر رحم فرمائے ،اکیلا چلے گا، اکیلا فوت ہو گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔عہد عثمانی میں ربذہ کے مقام پر سیدنا ابوذر کی وفات ہوئی تو وصیت کی، کفن پہنا کر میری میت کو راستے میں رکھ دینا۔ ابن مسعود کوفہ سے آ رہے تھے۔ انھوں نے سرراہ میت دیکھی تو اترے ، معلو م ہوا کہ سیدنا ابوذر کا جنازہ ہے تو روپڑے اورکہا، رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا،ابوذر تنہا فوت ہوگا اور روز قیامت تنہا ہی اٹھایا جائے گا۔پھر نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین میں حصہ لیا۔

تبوک کے مقام پرعبداﷲذوالبجادین نے وفات پائی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تدفین کے لیے خود لحد میں اترے۔ میت رکھ کر آپ نے دعا فرمائی،اﷲ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں ،تو بھی راضی ہو جا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود نے تمنا کی، کاش صاحب قبر میں ہوتا۔

اﷲ تعالی نے خود حضرت عبداﷲ بن مسعود کے اخلاص کی شہادت دی ہے۔مشرکین قریش نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ عمار، صہیب، بلال، خباب اور عبداﷲ بن مسعود کی طرح کے غریب مسلمانوں کو اپنے پاس نہ آنے دیں۔(مسلم، رقم ۶۳۲۰)اسلام کو غلبہ حاصل ہوا اور لوگ جوق در جوق دین میں داخل ہونے لگے تو یہ تقاضا عرب کے نومسلم سرداروں نے بھی کیا۔بنوتمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنوفزارہ کے عیینہ بن حصن مدینہ آئے تو دیکھا کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم انھی چاروں مخلص مسلمانوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں،چنداور غربا بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔(ابن ماجہ، رقم ۴۱۲۸) ان کو حقارت سے دیکھنے کے بعدوہ آپ کو علیحدہ لے گئے اور فرمایش کی کہ ہمارے مرتبے کے مطابق ہمارے لیے الگ نشست مقرر کی جائے۔ عرب کے مختلف اطراف سے آنے والے وفود نے اگر ہمیں ان کے ساتھ بیٹھے دیکھ لیا تو عار کی بات ہو گی۔ آپ نے اس رغبت میں کہ یہ سردار اسلام پر ثابت قدم ہو جائیں، ایسا کرنے کا ارادہ کیا، لیکن یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ اﷲ کی طرف سے فوراً وحی نازل ہوئی:

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِینَ یدْعُوْنَ رَبَّہُم بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یرِیدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِنْ شَیْءٍ وَّ مَامِنْ حِسَابِکَ عَلَیہِمْ مِنْ شَیءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الْظّٰلِمِینَ. (الانعام۶: ۵۲)
’’ اے نبی! ان اہل ایمان کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کو اس کی خوش نودی چاہنے کے لیے صبح و شام پکارتے ہیں۔ان کے حساب میں سے آپ پر کوئی بار نہیں،نہ آپ کے حساب میں سے ان کے ذمہ کچھ آئے گا۔ایسا نہ ہو کہ آپ ان کو دھتکاریں اور ظالموں میں شامل ہوجائیں۔‘‘

سورۂ کہف (۱۸) آیت ۲۸ میں یہی مضمون دوسرے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی وفات کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت اور ارتداد کا طوفان اٹھ کھڑا ہواتو خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر نے مدینہ کے کم زور مقامات کی نگرانی کے لیے فوجی دستے مقرر کیے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ان میں شامل تھے۔ اہل مدینہ کو عدی بن حاتم طائی کے دستے کی کامیابی کی خبر انھوں نے دی۔ ابن مسعود نے جنگ یرموک اور شام کی فتوحات میں بھی حصہ لیا۔جنگ یرموک میں مال غنیمت کی تقسیم ان کے ذمہ تھی۔ایک شخص نے عبداﷲبن مسعود کو بتایاکہ بنوحنیفہ کی ایک مسجد میں من گھڑت سورتوں کی تلاوت کی جا رہی ہے۔وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک سو ستر مرتدوں کا ایک گروہ ہے جس کی لیڈری عبداﷲ بن نواحہ کر رہا ہے۔انھوں نے اسے قتل کرا دیا۔یہ وہی شخص تھا جو ابن اثال نامی مرتد کے ساتھ مسیلمہ کذاب کا ایلچی بن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا، اگر میں ایلچیوں کو قتل کرانے والا ہوتا تو تم دونوں کو ضرور مروا دیتا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں، ابن اثال تو اپنا انجام پا چکاہے ، ابن نواحہ کی پھانس میرے دل میں تھی ،اﷲ نے وہ بھی نکال دی۔ اس کے ساتھیوں کے بارے میں انھوں نے دیگرصحابہ سے مشورہ لیا۔عدی بن حاتم نے قتل کرنے کو کہا، تاہم جریر اور اشعث بن قیس نے مشورہ دیا،ان سے توبہ کرائیں اور ( آیندہ مرتد نہ ہونے کی) ضمانت طلب کریں۔چنانچہ انھوں نے توبہ کی اور ان کے اہل قبیلہ نے ضمانت دی۔ (بخاری، رقم ۲۲۹۰)

سیدنا عمرفاروق نے زمام خلافت سنبھالی تو حضرت عبداﷲ بن مسعود حمص میں مقیم تھے ۔وہ۱۵ھ میں حمص کی پہلی جنگ میں شریک ہوئے۔رومیوں پر محاصرہ تنگ ہوا اور وہ صلح پر مجبور ہوئے تو کمانڈر ابوعبیدہ بن جراح نے فتح کی بشارت دینے اور مال غنیمت خمس پہنچانے کے لیے حضرت عبداﷲ بن مسعود کو مدینہ روانہ کیا۔ ۲۱ھ میں سیدنا عمر نے انھیں تبلیغ اسلام کے لیے کوفہ روانہ کیا اور بیت المال کی نگرانی بھی سونپی۔ تب حضرت عماربن یاسر ان کے مقررہ گورنر تھے۔ دونوں کو روانہ کرنے کے بعد سیدنا عمر نے خط لکھا،یہ صاحب شرف ، بدری صحابہ ہیں، ان کی پیروی کرواور دھیان سے ان کی بات سنو۔میں نے تمھارے لیے عبداﷲ کو اپنی ذات سے بہتر سمجھا ہے۔ کوفہ پہنچ کر انھوں نے مسجد کے پاس گھر بنوایا۔ قرآن و سنت کا عالم ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے مسائل پوچھتے ۔ایک بار افواہ پھیلی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود اور ان کے ساتھی کسی سفر میں پیاس کی شدت سے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ سیدنا عمر نے کہا، مجھے یقین ہے اﷲ نے ان کے لیے چشمہ جاری کر دیا ہوگا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود نے بیت المال کی چاندی پگھلوائی ۔اس کے رنگ بدلنے لگے تو انھوں نے بیت المال کے باہر موجود لوگوں کو بلا کر کہا ، یہ ابلتی ہوئی چاندی قرآن مجید میں بیان کردہ مُہل (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم کالمہل) سے ادنیٰ مشابہت رکھتی ہے۔ایک بار گورنر کوفہ ولید بن عقبہ نے فجر کی چار رکعتیں پڑھا ڈالیں پھرمنہ موڑ کر مقتدیوں سے پوچھا، کیا میں نے کچھ بڑھا دیا ہے؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود بھی نمازیوں میں شامل تھے۔ کہا، تمھاری معیت میں آج تک ہم زیادتی ہی کا شکار رہے ہیں۔

                                                  [باقی]

————————

[email protected]

B