نقد و نظر
ماہنامہ اشراق فروری ۲۰۱۳میں ہماری ایک تحریر’’میاں بیویوں کے سربراہ ہیں‘‘کے نام سے شائع ہوئی جو اصل میں ہمارے ممدوح جناب پروفیسرخورشیدعالم کے ایک مضمون پرمحض اس امید پر لکھی گئی تھی کہ آیت ’قوامون‘ کی تفہیم میں جو ناروا اندیشے اور بے جامغالطے درآئے ہیں، ان کا کسی حدتک مداوا ہو۔ اس کے جواب میں ہمارے استدلال سے صرف نظر کرتے ہوئے جوکچھ لکھا گیا، اس پرکسی قسم کا تبصرہ کرنا ہم اخلاقی قدروں کااستیصال اوراپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ البتہ ہماری دو ایک باتیں جنھیں حوالوں کے بغیراس لیے ذکر کر دیا گیا تھا کہ وہ اہل علم کے ہاں معروف بھی ہیں اور مقبول بھی،ان کے حوالہ جات ہم یہاں ضروربیان کیے دیتے ہیں:
’قام الرجل علی المراۃ‘ کے ضمن میں ہم نے جوعرض کیاتھا کہ اہل لغت اس کے معنی بیان کرتے ہوئے صرف ’مانھا‘ ہی کہہ دینے پراکتفانہیں کرتے ،بلکہ ’قام بشانھا‘ کا بھی ذکر کر تے ہیں تواس کے لیے علامہ فیروز آبادی کی ’’القاموس‘‘، علامہ الزبیدی کی ’’تاج العروس‘‘ اورعلامہ سعید خوری کی ’’اقرب الموارد‘‘ دیکھ لی جاسکتی ہیں۔ ان میں اس محاورے کامطلب بالترتیب، ’مانھا وقام بشانھا‘، ’مانھا وقام بشانھا متکفلا بامرھا‘ اور ’مانھا وقام بشانھا‘ کے الفاظ ہی سے ادا کیاگیاہے۔
اسی طرح ’فلان قوام اھل بیتہ‘ کا معاملہ ہے ۔اس کامطلب بھی یہ نہیں کہ مرداپنے گھروالوں کے محض مالی کفیل ہوتے ہیں، بلکہ یہی ہے کہ وہ ان کے معاملات کاانتظام کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ہماری اس بات کے لیے جوہری کی ’’تاج اللغہ‘‘ اور ابن منظور کی ’’لسان العرب‘‘ کفایت کرتی ہے۔ اول الذکرمیں اس کے معنی یوں بیان کیے گئے ہیں: ’وھو الذی یقیم شانھم‘۔ اور ثانی الذکر میں بھی ابوعبیدہ کے حوالے سے اس کے معنی ٹھیک انھی الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔
جہاں تک ’قنتت المراۃ لزوجھا‘ کا تعلق ہے تویہ بھی اہل عرب کے ہاں رائج اورماہرین لغت کے ہاں ایک معروف محاورہ ہے۔ اس کی دلیل کے لیے بھی ’’لسان العرب‘‘، ’’اقرب الموارد‘‘ اور علامہ زمخشری کی ’’اساس البلاغہ‘‘ کی طرف مراجعت کرکے انھیں بآسانی وہاں دیکھ لیا جا سکتا ہے۔
______________