HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۳۸- ۴۲ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ{۳۸} اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۳۹} اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍلَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۴۰}
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ{۴۱} لَوْکَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْ م بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَّۃُ وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِاسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ{۴۲}
ـــــــــــــــــــــــــ
ایمان۱۹۲؎  والو، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے)نکلو تو زمین پر ڈھیر ہوئے جاتے ہو۱۹۳؎۔کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ (حقیقت یہ ہے کہ )آخرت میں تو دنیا کی زندگی کا یہ سروسامان بہت تھوڑا نکلے گا۔ (اِس لیے اٹھو)، اگر نہیں اٹھو گے تو (یاد رکھو کہ) خدا تمھیں دردناک سزا دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔۱۹۴؎ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۱۹۵؎ اگرتم پیغمبر کی مدد نہیں کرو گے (تو کچھ پروا نہیں) ، اُس کی مدد تو اللہ نے اُس وقت فرمائی، جب اِنھی منکروں نے اُس کو اِس طرح نکالا تھا کہ وہ صرف دو میںکا دوسرا تھا۱۹۶؎،جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۱۹۷؎۔اللہ نے اُس وقت اُس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسے لشکروں سے اُس کی مدد کی جو تم کو نظر نہیں آئے اور منکروں کی بات اُس نے نیچی کر دی اور خدا کی بات ہی اونچی رہی۔ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۱۹۸؎۔۳۸-۴۰
تم نکلو، خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۱۹۹؎۔یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ (اے پیغمبر)، اگر فائدہ نزدیک اور سفر ہلکا ہوتا تو یہ لوگ ضرور تمھارے پیچھے ہو لیتے، مگر یہ منزل اِن پر کٹھن ہو گئی۔ ۲۰۰؎اب یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم نکل سکتے تو ضرور تمھارے ساتھ نکلتے۔ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۲۰۱؎۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں۔۴۱-۴۲

۱۹۲؎ یہ چوتھا شذرہ ہے اور ۹؍ ہجری میں کسی وقت نازل ہوا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے خلاف اعلان جنگ کے بعد یہاں سے روے سخن اب منافقین کی طرف ہے اور سورہ کے آخر تک اُنھی کا تعاقب فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس سے پہلے منافقین کے رویے پر جو تنقید بھی ہوئی، اُس کا لب و لہجہ نرم رہا ہے، لیکن اِس سورہ میں جس طرح مشرکین اور اہل کتاب کے باب میں آخری فیصلے کا اعلان کر دیا گیا ہے، اُسی طرح منافقین کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ سنا دیا گیا ہے تاکہ اُن میں سے جن کے اندر توبہ اور اصلاح کی کوئی صلاحیت باقی ہے، وہ توبہ اور اصلاح کے لیے اسلامی معاشرے کے صالح جزو بن جائیں اور جو بالکل مردہ ہو چکے ہیں ،وہ خس و خاشاک کے اُس ڈھیر میں شامل ہو جائیں جس کے صاف کر دینے کا آخری فیصلہ قدرت کی طرف سے ہو چکا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۷۲)   

۱۹۳؎ اصل الفاظ ہیں:’اِثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ‘۔ اِن میں ، اگر غور کیجیے تو قرآن نے اُس حالت کی تصویر کھینچ دی ہے جسے بیان کرنا مقصود ہے۔

۱۹۴؎ یہ اُن لوگوں کی سزا ہے جنھیں خدا اپنے کسی مشن کے لیے منتخب کر لے اور وہ اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیں۔ ذریت ابراہیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو معاملہ ہمیشہ رہا ہے، وہ اِسی قانون کے تحت ہے۔

۱۹۵؎ یہ مختصر سا جملہ بہ یک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ ایک یہ کہ خدا تمھیں عذاب دینے پر قادر ہے، دوسری یہ کہ تمھاری جگہ دوسروں کو اٹھا کھڑا کرنے پر قادر ہے، تیسری یہ کہ وہ اپنی ہر اسکیم بروے کار لانے پر قادر ہے، اپنے کسی بھی ارادے کی تکمیل میں وہ کسی کا محتاج نہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۷۶)    

۱۹۶؎ یہ سفر ہجرت کی طرف اشارہ ہے جس میں صرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔

۱۹۷؎ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس اندیشے سے کہ آپ کا تعاقب کیا جائے گا، مکہ سے نکل کر تین دن کے لیے غار ثور میں پناہ گیر ہو گئے تھے۔ یہ اُسی موقع کا ذکر ہے۔ آپ کا تعاقب کرنے والے عین اُس غار کے دہانے تک پہنچ گئے تھے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے۔ سیدنا ابوبکر کو سخت خوف لاحق ہوا کہ کہیں کوئی شخص آگے بڑھ کر غار میںجھانک نہ لے، لیکن آپ کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا اور اپنے ساتھی کی تسلی کے لیے آپ کی زبان مبارک سے وہ بے مثل الفاظ نکلے جو قرآن نے یہاں نقل کیے ہیں۔*

۱۹۸؎ یہ بالاجمال اُن سب تائیدات الہٰی کا حوالہ ہے جو اُس وقت تک ظاہر ہو چکی تھیں۔

۱۹۹؎ یعنی سروسامان کم ہو یا زیادہ، اُسے جہاد سے جی چرانے کا بہانہ نہ بنائو۔ یہ نفیر عام کا موقع ہے۔ اِس نوعیت کا کوئی عذر بھی اِس وقت مقبول نہیں ہے۔

۲۰۰؎ یعنی تبوک کا سفر جس میں روم جیسی بڑی اور منظم طاقت سے مقابلہ تھا، مسافت طویل تھی، موسم شدید گرم تھا اور نئے سال کی فصل پک کر کٹنے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔  **

۲۰۱؎ اللہ اور اُس کے رسول کے سامنے جھوٹے عذرات پیش کیے جائیں تو اُس کا نتیجہ، ظاہر ہے کہ یہی ہے اور یہی ہونا چاہیے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــ

  * السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۲/ ۱۱۱۔

** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۴/ ۱۳۱۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B