HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

غیر مسلموں کا اسلامی سزا کے لیے مطالبہ

محمد بلال

۱۶ دسمبر۲۰۱۲ء کی رات دہلی میں ایک بس میں ۲۳ سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور پھر زخموں کی تاب نہ لا کر اس کے انتقال کر جانے کے واقعہ نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ۔حتیٰ کہ بھارتی وزیر اعظم او روزیر داخلہ نے استعفے پیش کر دیے۔بھارتی خواتین میں اسلحہ حاصل کرنے کی درخواستوں میں اضافہ ہوگیا ۔ بس میں اس لڑکی کا دوست بھی سوار تھا جس نے دفاع میں مزاحمت کی، مگر مجرموں نے اس کو بھی زخمی کر دیا تھا۔ اس دوست نے صحت یاب ہو کر مطالبہ کیا ہے کہ مجرموں کو زندہ جلادیا جائے۔ بھارتی حکومت نے زیادتی کے خلاف قانون کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے تجاویز مانگ لیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی حکومت بھارت سے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ حکمران جماعت کی سربراہ سونیا گاندھی نے کہاکہ ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملے۔ احتجاج کرنے والوں نے جنسی زیادتی کی سزا میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔شو بز سے وابستہ خواتین نے بڑے قابل غور مطالبات کیے۔ انھوں نے کہا کہ اگر واقعی تبدیلی لانی ہے تو قانون میں تبدیلی لانی ہوگی۔..... مجرموں کو نامرد بنا دیا جائے........ مجرموں کو سرعام سنگ سار کر دیا جائے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اجتماعی عصمت دری کی سزا پر غیر مسلم اور لبر ل حتیٰ کہ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگ عام سزاے موت پر مطمئن نہیں ہورہے ۔ وہ سزاے موت سے زیادہ سخت سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ مجرموں کی سزا قتل کے بجاے تقتیل چاہ رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ اصل میں ایک اسلامی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انسا ن خیر وشر ،دونوں قسم کے جذبات رکھتا ہے۔وہ شر کی راہ اختیار نہ کرے ، وہ دوسرے انسان کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ نہ بنے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص ہدایت کا اہتمام کیا ،یعنی کچھ جرائم کی سزا خود مقرر کر دی ۔ یہ ایسے جرائم ہیں کہ اس معاملے میں انسان اگر خود کوئی قانون سازی کرتا تو وہ ٹھوکر کھا سکتا ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بعض جرائم کی سزا قتل اور تقتیل مقرر کر دی ۔سورہ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں ہے:

’’ان لوگوں کی سزا، جو اللہ اور رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں، بس یہ ہے کہ تقتیل( عبرت ناک طور پر قتل) کر دیے جائیں یا سولی پر لٹکا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیںیا ملک سے باہر نکال دیے جائیں۔‘‘

ملک میں فساد برپا کرنے کے حوالے سے صا حب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی نے شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم برہم کر دے۔ لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان ،مال ،عزت،آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلارہیں۔قتل، ڈکیتی،رہزنی،آتش زنی،اغوا،زنا،تخریب،تہریب،اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لااور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں۔‘‘(۲/۵۰۵)

پھر اصلاحی صاحب تقتیل کی وضاحت کرتے ہیں:

’’عبرت انگیز اور سبق آموز طریقہ پر قتل کیا جائے جس سے دوسروں کو سبق ملے۔ صرف وہ طریقہ اس سے مستثنیٰ ہوگا جو شریعت میں ممنوع ہے ۔مثلاًآگ میں جلانا ، اس کے ماسوا دوسرے طریقے جوگنڈوں اور بدمعاشوں کو عبرت دلانے، ان کو دہشت زدہ کرنے اور لوگوں کے اندر قانون و نظم کا احترام پیدا کرنے کے لیے ضروری سمجھے جائیں، حکومت ان سب کو اختیار کر سکتی ہے ۔رجم یعنی سنگسار کرنا بھی ہمارے نزدیک ’تقتیل‘ کے تحت داخل ہے۔ اس وجہ سے وہ گنڈے اور بدمعاش جوشریفوں کے عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائیں،جو اغوا او رزنا کو پیشہ بنا لیں،جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پر ڈاکے ڈالیں اور کھلم کھلازنابالجبر کے مرتکب ہوں،ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔‘‘ (۲ / ۵۰۶)

لاریب ،جب کچھ انسان نما درندے کھلم کھلا کسی نوخیز لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے قتل کر دیتے ہیں یااسے قتل نہ بھی کریں تب بھی ایسے مجرموں کی سزا تقتیل ہی ہونی چاہیے۔اسلامی سزاؤں کووحشیانہ کہنے والے مسلمانوں سے بس اتنی درخواست ہے کہ وہ مجرموں کے ساتھ محبت کو اپنے دل سے چند لمحوں کے لیے نکال کر تھوڑی دیر کے لیے زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی، اس کی ماں،اس کی بہن،اس کے باپ ،اس کے بھائی کے لیے کچھ ہمدردی پیدا کر کے یا اس خاتون کی جگہ اپنی بیٹی ،بہن یا بیوی کو رکھ کر سوچیں تو ان ’’وحشیانہ‘‘ سزاؤں سے بڑی عادلانہ سزا انھیں اور کوئی سجھائی نہیں دے گی۔ جب صحیح زاویۂ نگاہ سے غیر مسلم فلمی اداکارائیں بھی سوچتی ہیں تو وہ بھی صحیح راے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس لیے اپنے لوگوں کے صحیح راے تک پہنچنے کے امکانات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔شرط یہ ہے کہ اپنے اندر مظلوم کے ساتھ ہمدردی اور مجرم سے بیزاری پیدا کر کے سوچا جائے۔ یہی ’’وحشیانہ‘‘ سزائیں ہیں جو ان انسانوں کو بھی انسانی حدود میں رکھ سکتی ہیں جن کے اندروحشی بننے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔دیدۂ بینا رکھنے والا ہر شخص صاف دیکھ سکتاہے کہ انھی سزاؤں میں اصل میں معاشرے کا حسن اورسکون پوشیدہ ہے۔

اب اس مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے۔ بھارت میں اس واقعہ پر فلمی فنکاروں نے بے حد دکھ کا اظہار کیا۔بعض فنکاروں کی اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آنکھیں بھیگ گئیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں یہ تنقید بھی کی گئی ہے کہ بھارتی فلمیں بھی ایسے واقعات کی ذمہ دار ہیں۔یہ تنقید قابل توجہ ہے ۔بھارتی فلمی لوگوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔بھارتی فلمیں پورے برصغیر کومتاثر کر رہی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بہت سے لوگ فلمیں دیکھ کر جرائم کرنا سیکھتے ہیں۔سادہ لوح نوجوان فلمی اداکاروں کی نقل کرتے ہیں ۔ان کے لباس پہننے ،بال بنانے،بات کرنے حتیٰ کہ چلنے کے انداز کی بھی نقل کرتے ہیں۔اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی فلموں میں نفسانی جذبات کو ابھارنے والے مناظر میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوچکاہے۔فلمیں بنانے والے عام طو رپر اصل میں entertainers ہوتے ہیںیعنی دلوں کو لبھانے والے ہیں، مگر انھیں اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو لبھاتے لبھاتے،انھیں آلود ہ کرنے کا باعث تو نہیں بن رہے۔ کیونکہ دلوں کی یہی آلودگی ہوتی ہے جو بعض اوقات شدت اختیار کر لیتی ہے اور پھر دلی ریپ جیسے ہولناک واقعات کی بالواسطہ وجہ بن جاتی ہے۔

 _______________

B