HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

فریب نفس یا تعبیر کی غلطی؟

کاش میں طاہر القادری صاحب سے یہ عرض کر سکتا کہ ایک اور رسوائی ان کے تعاقب میں ہے۔

یہ نفس کا فریب ہے یا تعبیر کی غلطی، یہ میں نہیں جانتا لیکن دونوں کا انجام ایک جیسا ہے، کم از کم اس دنیا کی حد تک۔ یہ سوال اس کالم نگار کے بارے میں بھی اٹھ سکتا ہے کہ یہ تجزیہ کس کا نتیجہ ہے۔ تعصب کا یا بے بصیرتی کا؟ جناب طاہر القادری صاحب کا موقف تو سامنے آ چکا، میں اپنی بات کہے دیتا ہوں، فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں۔

مولانا مودودی میرے ممدوح ہیں۔ علم اور اخلاق کا ایسا امتزاج کم ہی وجود میں آتا ہے۔ لوگ کچھ کہتے رہیں لیکن جبہ و دستار میں لپٹے لوگوں کو بھی ان کے اخلاق کی ہوا نہیں لگی، الا ما شاء اللہ۔ تاہم، میرے علم کی حد تک اس غلطی کا پہلا شکار وہی تھے۔ انھوں نے اسوۂ حسنہ سے استنباط کرتے ہوئے یہ تصور پیش کیا کہ مسلمانوں کو ایک کثیر الجہت قیادت کی ضرورت ہے۔ ان کی اصطلاح میں ایک ’’مجدد کامل‘‘ کی۔ ’’مجدد کامل‘‘ کے فرائض کیا ہیں، مولانا کے الفاظ میں:

’’اپنے عہد میں جاہلیت کے حملے کی صحیح تشخیص اور اپنی حدود کے تحت اصلاح کی تجویز، ذہنی انقلاب کی کوشش کے ساتھ عملی اصلاح کرنا، تمدنی حالات کے تحت اجتہاد فی الدین، اسلام کو مٹانے والی سیاسی قوت کا مقابلہ، جاہلیت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجیاں چھین لینا اور پھر عالم گیر اسلامی انقلاب جس کے نتیجے میں اسلام ساری دنیا پر چھا جائے۔‘‘

مولانا کا تجزیہ یہ ہے کہ ایسی جامع الصفات شخصیت ہماری تاریخ میں پیدا نہیں ہوئی۔ ’’قریب تھا کہ عمر بن عبدالعزیز اس منصب پر فائز ہو جاتے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔‘‘

مولانا کے ذہن میں وہ اسلامی انقلاب ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سرزمین عرب میں برپا ہوا۔ ان کا خیال ہے کہ اس کی اگر دوبارہ کوشش کی جائے گی تو اس کی حکمت عملی بھی وہی ہو گی جو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائی۔ ان کے نزدیک یہ ایک منصوص معاملہ ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قائد ساری ذمہ داریاں ادا فرمائیں، ان کی نیابت میں جدید اسلامی تحریک کا قائد بھی یہی کرے گا۔ ذرا ایک نظر ان اوصاف پر ایک بار پھر ڈال لیجیے جو ایک ’’مجدد کامل‘‘ میں ہونے چاہییں۔ یہ تصور پیش کرتے وقت مولانا نے اس بات سے صرف نظر کیا کہ ایک عامی اس باب میں کئی وجوہ کے سبب پیغمبر کی نیابت نہیں کر سکتا۔ پیغمبر کا علم توقیفی ہوتاہے۔ وہ کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست احکام لیتا اور انھیں لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اسے صرف و نحو پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ منطق اور کلام کی۔ اسے علم تفسیر کی تحصیل کرنی ہے نہ علم حدیث کی۔ وہ تو خود صاحب وحی ہوتا ہے۔ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے راہ نمائی لیتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی غیر پیغمبر دین کے باب میں راہ نمائی کرے گا تو اسے یہ تمام علوم سیکھنا پڑیں گے۔ ظاہر ہے یہ برسوں کاکام ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سپہ سالار ہے تو اسے فن حرب میں مہارت حاصل کرنی ہو گی۔

اس بات کو جدید ذہن نے سمجھا ہے اور انسان نے انفرادی بصیرت سے اجتماعی بصیرت کی طرف سفر کیا ہے۔ اس نے تجربے سے یہ جانا ہے کہ ایک فرد زندگی میں کسی ایک میدان ہی کا شاہ سوار ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ ایک میدان میں مہارت کے لیے بھی ایک عمر چاہیے۔ اگر ایک آدمی سب کام کرنا چاہے تو غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ یہ کام اس کے تمام تقاضے نبھاتے ہوئے کر سکے۔ مولانا مودودی خود اس کی مثال ہیں۔ انھوں نے چاہا کہ وہ علم دین، سیاست، تربیت، تنظیم اور دوسرے میدانوں میں قیادت کریں۔ اس نے ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو مجروح کیا۔ یہ حادثہ اس سے پہلے ہم مولانا ابوالکلام آزاد کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

اس فکر میں تعبیر کی غلطی یہ ہے کہ اجتماعی بصیرت پر انفرادی بصیرت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس فرق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو ایک پیغمبر اور عامی میں ہے۔ طاہر القادری بھی یہی کر رہے ہیں۔ وہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔ لوگوں کی تنظیم کر رہے ہیں۔ اپنے تئیں ان کا تزکیہ کر رہے ہیں، سیاست بھی کر رہے ہیں اور اب ملک میں ایک سیاسی انقلاب کے لیے میدان میں نکل چکے ہیں۔ میں تمام تر حسن ظن کے ساتھ ان کے اس تازہ اقدام کو دیکھتا ہوں تو ان کی ناکامی مجھے نوشتۂ دیوار نظر آتی ہے۔ وہ ہر میدان میں قوم کی راہ نمائی فرما ر ہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ کسی ایک حوالے سے بھی تاریخ کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ مولانا مودودی ناکامی سے دوچار ہوئے، لیکن اپنی غیر معمولی اخلاقی حیثیت کے سبب، اللہ نے ان کو رسوائی سے محفوظ رکھا۔ پروفیسر طاہرالقادری کے ساتھ بدقسمتی سے ایسی داستانیں منسوب ہیں کہ ان کے بارے میں خود کو میں اس خوف سے آزاد نہیں کر سکتا۔

انسان ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے۔ وہ تجربات سے سیکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب جیسے ذہین آدمی نے بہت سے تجربات کیے۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی اخلاقی حیثیت کو کسی طرح مجروح نہ ہونے دیتے۔ دین کے حوالے سے متعارف ہونے والے لوگوں کو تو اخلاقی اعتبار سے غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت وہ میدان میں نکل چکے اور اس مرحلے پر کوئی مشورہ شاید زیادہ کارگر نہ ہو۔ تاہم، نفس کا فریب یا تعبیر کی غلطی کا انجام تو بہرحال سامنے آنا ہے۔ اگر ان کے لیے ممکن ہو تو وہ کچھ دیر کے لیے اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں۔ اگر وہ خود کو تعلیم کے لیے وقف کر سکیں اور اس میں تربیت بھی شامل ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ سماج کے لیے کہیں زیادہ مفید ہو سکتے ہیں۔ خواب و خیال کی جو باتیں ان سے منسوب ہیں، میں اب انھیں دہرانا نہیں چاہتا۔ میں نے ۹۰۔۱۹۸۹ء میں انھیں موضوع بنایا تھا اور اب وہ میری کتاب ’’اسلام اور پاکستان‘‘ میں بھی شامل ہیں۔ میرے نزدیک آدمی سیکھتا اور ارتقا سے گزرتا ہے۔ کاش پروفیسر طاہر القادری صاحب بھی یہ کر سکتے۔ کاش میں انھیں متنبہ کر سکتا کہ ایک اور رسوائی ان کے انتظار میں ہے۔

فقیہہ شہر کی تحقیر کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

 ________________

B