ترجمہ: شاہد رضا
روی أنہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ، فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم وأموالہم إلا بحق الإسلام، لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین، وحسابہم علی اللّٰہ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑوں۱، یہاں تک کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۲۔اگر وہ یہ کریں گے تو ان کی زندگی اور مال مجھ سے محفوظ ہیں۳، اسلام کی طرف سے دیے گئے کسی حق کے سوا۴۔(ان شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں ان کو مسلم تصور کیا جائے گا)اوروہ تمام حقوق جو دیگر مسلمانوں کو حاصل ہوں گے، ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو فرائض دیگر مسلمانوں پر عائد ہوں گے، وہی ان پر عائد ہوں گے۵، اوران کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
۱۔ ان سے مراد بنی اسمٰعیل کے مشرکین ہیں۔اس نکتے کی تصدیق ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں لفظ ’الناس‘(یہ لوگ) کے بجائے لفظ ’المشرکین‘(یہ مشرکین)آیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، جن مشرکین کی طرف رسول بھیجا گیا، اگر وہ رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو وہ سزائے موت کے مستحق ہیں۔ یہ سزائے موت دو الگ طریقوں سے دی جا سکتی ہے:
ا۔رسول کے سیاسی حالات کے پیش نظر۔
ب۔رسول کے ماننے والوں کی تلواروں کے ذریعے سے۔
اگر رسول کو کسی خطۂ زمین میں سیاسی اقتدار نہ دیا جائے تو یہ فیصلہ براہ راست قدرتی آفات، یعنی بگولوں، زلزلوں اور سیلابوں کی صورت میں صادر ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ہود، حضرت شعیب اور حضرت نوح علیہم السلام وغیرہ کے مخاطبین کے معاملے میں ہوا تھا۔اس کے برعکس، اگررسول کو کسی خطۂ زمین میں سیاسی اقتداردیا جائے تو یہ سزا اس کے ماننے والوں کی تلواروں کے ذریعے سے صادر ہوتی ہے، جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ تھا۔اس سزائے موت کے صادر ہونے میں فرق کا سبب کیا ہے؟ اس کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:
قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ. وَیُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ. اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(التوبہ۹: ۱۴۔۱۶)
’’ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ ان کو تمھارے ہاتھوں کے ذریعے سے سزا دے گا، وہ ان کو رسوا کرے گا اور تم کو ان پر فتح دے گا اور (اس طرح)ماننے والوں کے سینوں کو سکون بخشے گا اور ان کے دلوں سے غصے کو ختم کردے گا۔(یاد رکھو، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، سزا دیتاہے)اور اللہ تعالیٰ(اپنے علم و حکمت کے مطابق) جس پر چاہتا ہے، رحم کرتاہے۔ یقیناًاللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے۔کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ان لوگوں کو الگ نہیں کیا جنھوں نے تم میں سے(اپنے طریقے پر)جہاد کیا اور جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور مومنین کو چھوڑ کر کسی کو دوست نہیں بنایا؟ اور جو تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
۲۔بعض روایات میں معافی کے لیے بعض شرائط کا اضافہ ہے۔مثلاً ترمذی، رقم۲۶۰۸میں ان شرائط میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان، نماز پڑھنا، زکوٰۃ ادا کرنا، نماز کے لیے مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کرنا اور مسلمانوں کے ذبح کردہ جانوروں کو کھانا شامل ہیں۔اولاً، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ترمذی کی روایت میں مذکورہ دو اضافی شرائط اوپر متن میں مذکورہ شرائط کی صرف وضاحت کے لیے آئی ہیں۔مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کرنا، اصل میں، نماز قائم کرنے کی وضاحت ہے۔مسلمانوں کے ذبح کردہ جانوروں کو کھانا، اصل میں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی وضاحت ہے، جس سے یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی پوری اطاعت کی جائے اور اس کو خلوص دل سے قبول کیا جائے۔ثانیاً، قرآن مجید نے سزائے موت سے معافی دینے کے متعلق عقائد کی اصلاح کے علاوہ دو قابل مشاہدہ احکام بیان کیے ہیں۔قرآن مجید میں ارشادہے:
فَاقْتُلُواالْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ.(التوبہ۹:۵)
’’چنانچہ تم ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کردو، ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ان کے لیے ہر گھات میں بیٹھو۔پھر اگر وہ (اپنے مشرکانہ عقائد اور پیغمبر کے انکار سے)باز آ جائیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
۳۔اس لیے اگر وہ یہ شرائط پوری کریں تو سزائے الٰہی سے ان کو معافی دی جائے گی۔
۴۔اس لیے ان کی زندگی اور مال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، سوائے اس کے کہ وہ ایسے جرم کے مرتکب ہوئے ہوں جس کے لیے اسلام نے جسمانی یا مالی جرمانے کی صورت میں کوئی سزا مقرر کی ہے۔
۵۔اس لیے سزائے الٰہی سے معافی کے لیے اگر وہ مذکورہ شرائط پوری کریں گے، تو اس سے نہ صرف وہ سزائے الٰہی سے محفوظ رہیں گے، بلکہ ان کو مسلمانوں جیسا قانونی اور معاشرتی درجہ بھی ملے گا، ان کو وہ تمام حقوق ملیں گے جو حکومت نے مسلمانوں کو دیے ہیں اور ان پر وہی فرائض عائد کیے جائیں گے جو دیگر مسلمانوں پر عائد کیے جائیں گے۔یہ بھی قرآن مجید کے ایک واضح حکم پر مبنی ہے۔قرآن مجید میں ارشادہے:
فَاِنْ تَابُوْاوَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُاالزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ.(التوبہ۹: ۱۱)
’’پھر اگر وہ (اپنے مشرکانہ عقائد اور پیغمبر کے انکار سے)باز آ جائیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو پھر وہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
۶۔اس لیے دنیوی زندگی کے مقاصد، حکومت کی طرف سے دیے گئے حقوق کے مقاصد اور حکومت کی طرف سے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کے لیے اس کے اور دیگر مسلمانوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوگا، یہاں تک کہ اس کے خفیہ ارادوں، اس کے اخلاص اور دعوت اسلام کی قبولیت کا فیصلہ بھی سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی کرے گا، اور اسی کے مطابق اس کو انعام یا سزا ملے گی۔
یہ حدیث بعض اختلافات کے ساتھ درج ذیل مقامات میں روایت کی گئی ہے:
بخاری،رقم۲۵،۳۸۵،۱۳۳۵،۲۷۸۶،۶۵۲۶،۶۸۵۵؛مسلم،رقم۲۰،۲۱ا،۲۱ب،۲۱ج،۲۲،۲۳ا،۲۳ب؛ ترمذی،رقم۲۶۰۶۔۲۶۰۸،۳۳۴۱؛ابوداؤد،رقم۱۵۵۶۔۱۵۵۷،۲۶۳۰،۲۶۴۰۔۲۶۴۲؛نسائی،رقم۲۴۴۳، ۳۰۹۰۔۳۰۹۵، ۳۹۶۶۔۳۹۸۳،۵۰۰۳؛ابن ماجہ، رقم۷۱۔۷۲،۳۹۲۷۔۳۹۲۹؛احمد، رقم۶۷، ۸۱۴۸، ۸۵۲۵، ۸۸۹۱، ۹۴۶۹، ۹۶۵۹۸، ۱۰۱۶۱۔۱۰۱۶۲، ۱۰۲۵۹،۱۰۸۳۴، ۱۰۸۵۲، ۱۳۰۷۸، ۱۳۳۷۲، ۱۴۱۷۴، ۱۴۲۴۷، ۱۴۶۰۰، ۱۴۶۹۱، ۱۵۲۷۸، ۱۶۲۰۵، ۱۶۲۰۸؛دارمی، رقم۲۴۴۶؛ابن حبان، رقم۱۷۴۔۱۷۵، ۲۱۶۔۲۲۰، ۵۸۹۵؛بیہقی، رقم۲۰۳۱، ۴۹۱۹۔۴۹۲۱،۶۲۹۳، ۷۱۱۶، ۷۱۲۹، ۱۲۷۱۰، ۱۲۸۹۴، ۱۲۸۹۸۔۱۲۸۹۹، ۱۵۰۴۷، ۱۵۶۲۳، ۱۶۲۸۰، ۱۶۵۰۷۔۱۶۵۰۸، ۱۶۵۱۰۔۱۶۵۱۲، ۱۶۶۰۴۔۱۶۶۰۵، ۱۷۷۲۶، ۱۸۴۰۴۔۱۸۴۰۵، ۱۸۴۰۵۱؛ابن خزیمہ، رقم۲۲۴۷۔۲۲۴۸؛سنن النسائی الکبریٰ، رقم۲۲۲۳،۳۴۲۸۔۳۴۴۲،۳۴۴۴۔۳۴۴۵، ۴۲۹۸۔۴۳۰۳،۸۶۸۰،۱۱۶۷۰، ۱۱۷۳۴، ۱۶۵۰۷۔۱۶۵۰۹،۱۸۴۰۷؛ابویعلیٰ، رقم۶۸،۲۲۸۲،۶۱۳۴؛مصنف عبدالرزاق، رقم۶۹۱۶۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۹۷۸میں ’أمرت أن أقاتل الناس‘(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑوں)کے الفاظ کے بجائے ’نقاتل الناس‘(ہم ان لوگوں سے لڑیں گے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۴۱۷۴میں یہ الفاظ ’أقاتل الناس‘(میں ان لوگوں سے لڑوں گا)روایت کیے گئے ہیں۔ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۲۵۰میں یہ الفاظ ’لا أزال أقاتل الناس‘(میں ان لوگوں سے لڑتا رہوں گا)روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم۶۱۳۴میں یہ الفاظ ’قاتلوا الناس‘((مسلمانو)، ان لوگوں سے لڑو) روایت کیے گئے ہیں، جبکہ بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۲۶۳۲میں یہ الفاظ ’أمرت أن أقاتل المشرکین‘(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان مشرکین سے لڑوں)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ‘(اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں)کے الفاظ محذوف ہیں۔چنانچہ،’ حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ‘(یہاں تک کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں)کے بجائے ’حتی یقول لا إلہ إلا اللّٰہ‘(یہاں تک کہ یہ لوگ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۱ب میں ’حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ ویؤمنوا بی وبما جئت بہ‘(یہاں تک کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور وہ مجھ پر اور(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)جو کچھ میں لے کر آیا ہوں، اس پر ایمان لائیں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۲۲۰میں یہ الفاظ ’حتی یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ وآمنوا بی وبما جئت بہ‘(یہاں تک کہ وہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اوروہ مجھ پر اور(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)جو کچھ میں لے کر آیا ہوں، اس پر ایمان لائیں)روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۷۱میں یہ الفاظ ’حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأنی رسول اللّٰہ‘ (یہاں تک کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں) روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۲۸۹۸میں یہ الفاظ ’حتی یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ‘(یہاں تک کہ وہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں)روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۰۸میں یہ الفاظ ’حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا عبدہ ورسولہ وأن یستقبلوا قبلتنا ویأکلوا ذبیحتنا وأن یصلوا صلاتنا‘(یہاں تک کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ ہمارے قبلہ (کعبہ)کی طرف منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھائیں اور ہماری طرح نماز ادا کریں)روایت کیے گئے ہیں، جبکہ بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۳۸۵میں یہ الفاظ ’حتی یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ فإذا قالوہا وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وذبحوا ذبیحتنا‘(یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، چنانچہ جب وہ اس بات کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز ادا کریں اور ہمارے قبلہ (کعبہ)کی طرف منہ کریں اور ہماری طرح جانور ذبح کریں)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۹۸۳میں ’فإذا فعلوا ذلک‘(اگر وہ یہ چیزیں کریں)کے الفاظ محذوف ہیں۔بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’فإذا فعلوا ذلک‘(اگر وہ یہ چیزیں کریں)کے بجائے ’فمن قال لا إلہ إلا اللّٰہ‘(جس نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۱ج میں ان الفاظ کے بجائے ’فإذا قالوا لا إلہ إلا اللّٰہ‘(اگر وہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۱۷۴میں ان الفاظ کے بجائے ’فإذا شہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وآمنوا بی وبما جئت بہ‘(اگر وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور مجھ پر اور(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)جو کچھ میں لے کر آیا ہوں، اس پر ایمان لائیں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۰۶میں یہ الفاظ ’فإذا قالوہا‘(اگر وہ یہ کہیں)روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۰۹۵میں ان الفاظ کے بجائے ’فمن قالہا‘(جو یہ کہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۹۶۶میں یہ الفاظ ’فإذا شہدوا أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا عبدہ ورسولہ وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وأکلوا ذبائحنا‘(اگر وہ اس بات کا اعلان کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں اور ہماری طرح نماز ادا کریں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھائیں)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’فإذا فعلوا ذلک‘(اگر وہ یہ چیزیں کریں)کے الفاظ کے بعد ’فقد‘(تو) کے لفظ کا اضافہ ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۸۳۴میں ’عصموا منی دماء ہم وأموالہم إلا بحق الإسلام‘( ان کی زندگی اور ان کا مال مجھ سے محفوظ ہے، سوائے اسلام کے کسی حق کے)کے الفاظ محذوف ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’عصموا منی‘(وہ مجھ سے محفوظ ہیں)کے الفاظ کے بجائے ’عصم منی‘(وہ مجھ سے محفوظ ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۰۶میں اس جملے کے بجائے ’منعوا منی‘(وہ مجھ سے روک دیے گئے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۳۹۷۸میں اس جملے کے بجائے ’حرمت علینا‘(ہم پر حرام ہے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۹۸۳میں اس جملے کے بجائے ’ثم تحرم‘(پھر وہ حرام کر دیے گئے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۴۶۹۱میں اس جملے کے بجائے ’حرمت علی‘(یہ مجھ پر حرام ہے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم۶۱۳۴میں اس جملے کے بجائے ’حقنوا‘(روک دیے گئے)کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۲۹میں اس جملے کے بجائے ’حرم علی‘(یہ مجھ پر حرام ہے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۲۸۹۸میں اس جملے کے بجائے ’حرمت‘(یہ حرام ہے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۴۶۰۰میں ’دماء ہم وأموالہم‘(ان کے خون اور مال)کے بعد ’أنفسہم‘ (ان کی زندگیاں)کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’دماء ہم‘(ان کے خون)کے بجائے ’نفسہ‘(اس کی زندگی) کا لفظ روایت کیا گیاہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’أموالہم‘(ان کے اموال)کے بجائے ’مالہ‘(اس کا مال)کا لفظ روایت کیا گیاہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں ’إلا بحق الإسلام‘(سوائے اسلام کے کسی حق کے)کے بجائے ’إلا بحقہ‘(سوائے اس کے کسی حق کے)کا جملہ روایت کیا گیا ہے۔بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۸۸۹۱میں یہ الفاظ ’إلا من أمر حق‘(سوائے کسی سبب کے لیے جو کہ عدل ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
’لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین‘(وہ تمام حقوق جو دیگر مسلمانوں کو حاصل ہوں گے، ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو فرائض دیگر مسلمانوں پر عائد ہوں گے، وہی ان پر عائد ہوں گے)کے الفاظ ترمذی، رقم۲۶۰۸میں روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۳۸۵میں یہ الفاظ’ فہو المسلم، لہ ما للمسلم وعلیہ ما علی المسلم‘(وہ ایک مسلمان ہے، وہ تمام حقوق جو دوسرے مسلمان کو حاصل ہوں گے، اس کو بھی حاصل ہوں گے اور جو فرائض دوسرے مسلمان پر عائد ہوں گے، اس پر وہی فرائض عائد ہوں گے)روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۹۶۷میں یہ الفاظ ’لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علیہم‘(وہ تمام حقوق جو دیگر مسلمانوں کو حاصل ہوں گے، ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو فرائض دیگر مسلمانوں پر عائد ہوں گے، وہی ان پر عائد ہوں گے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۴۶۹۱میں ’وحسابہم علی اللّٰہ‘(اور ان کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے)کے جملے کے بجائے ’وعلی اللّٰہ حسابہم‘ (اور اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ان کے اعمال کا حساب) کا جملہ روایت کیا گیا ہے، جبکہ بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۷۸۶میں یہ جملہ ’وحسابہ علی اللّٰہ‘(اور اس کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے)روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۱ج میں راوی نے ’ثم قرأ: اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘، ’’پھر آپ نے تلاوت کی:آپ ان کو صرف یاددہانی کرانے والے ہیں، آپ ان پر کوئی محافظ نہیں ہیں‘‘ (الغاشیہ۸۸: ۲۱۔۲۲)کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۳ا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدرے مختلف روایت کیے گئے ہیں۔آپ کا ارشاد ہے:
من قال لا إلہ إلا اللّٰہ وکفر بما یعبد من دون اللّٰہ حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی اللّٰہ.
’’جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جس کی پوجا کرتا تھا، اس کا انکار کیا، تو اس کا مال اور خون حرام ہو گیا اور اس کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔‘‘
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۳ب میں ’من قال لا إلہ إلا اللّٰہ‘(جس نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے)کے الفاظ کے بجائے ’من وحد اللّٰہ‘(جس نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کیا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
_________________