HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

بیچ کی نماز (متفرق مضامین)

قرآن کریم کی سورۂ بقرہ (۲:۲۳۸)میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی نمازوں اور خصوصاً بیچ کی نماز کی حفاظت کریں۔نمازیں پانچ ہوتی ہیں، اس اعتبار سے بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جو پانچ نمازوں کے وسط میں آتی ہے۔نماز عصر سے متعلق اس خصوصی ہدایت کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا اندازہ آج کل کے لوگوں کو نہیں ہوسکتا۔

انیسویں صدی تک انسانی بستیاں ،بجلی نہ ہونے کی بنا پر آج کل کے دور کی طرح روشن نہ ہوتی تھیں۔اس زمانے میں یہ ناگزیر تھا کہ کاروبار زندگی سر شام ہی بند کردیا جائے تاکہ سورج کی روشنی ہی میں لوگ اپنے معاملات نمٹاکر گھروں کو لوٹ سکیں۔ایسے میں زمانۂ قدیم کی خاموش اور سست رفتار زندگی میں عصر کا وقت بڑی مصروفیت اور تیزی کا وقت ہوا کرتا تھا۔ اس وقت میں سورج بھی اسی تیزی سے ڈھلا کرتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا شدید اندیشہ تھا کہ بازار کی چہل پہل اور خریدو فروخت کی ہنگامہ آرائی میں لوگ نماز عصر کو فراموش کردیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خاص طورپر لوگوں کی توجہ اس نماز کی طرف مبذول کرائی۔

دور جدید میں ایک دوسرے پہلو سے اب یہ توجہ فجر کی نماز کی طرف دلانے کی ضرورت ہے۔آج کل کی زندگی میں دیر رات کو سونا معمولات زندگی میں شامل ہوچکا ہے۔ دوسری طرف زمانۂ قدیم کی طرح کاروبار حیات علی الصبح شروع نہیں ہوتا، بلکہ اسکول، کاروبار اور دفاتر سب سورج نکلنے کے کافی دیر بعد شروع ہوتے ہیں۔چنانچہ دیر سے سونے والوں کے لیے نہ صرف فجر کے اندھیرے میں اٹھنا مشکل ہے، بلکہ نماز کے بعد دوبارہ سونا بھی ایک ضرورت بن گیاہے ۔ان حالات میں فجر کی نماز پڑھنا بہت مشکل کام بن گیاہے اور عملاً فجر پڑھنا تہجد پڑھنے جیسا عمل بن چکا ہے۔

ایسے میں اہمیت، فضائل اور اجر، تمام پہلوؤں سے فجر کی نماز سب سے بڑی نماز بن چکی ہے۔ اس کا اہتمام بلاشبہ ایک نمازی کی معراج ہے۔

———————


ایمان کا فیصلہ

ہجرت مدینہ کے بعد مسلمان جب مدینہ آئے تو سولہ سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔اس کے بعد جنگ بدر سے دو ماہ قبل یہ حکم نازل ہوا کہ اب مسلمان ہر نماز میں اپنا رخ بیت اللہ الحرام کی طرف کرلیا کریں۔یہ حکم سورۂ بقرہ کی آیات (۱۴۲۔۱۵۰)میں آیا ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ان کے پیش نظر یہ تھا ہی نہیں کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ بنے۔ لیکن تبدیلئ قبلہ کا حکمہجرت مدینہ کے فوراً نہیں دیا گیا بلکہ کچھ عرصہ بعددیا گیا، مقصود اس سے یہ جانچنا تھا کہ یہود میں سے جو لوگ ساتھ ہوگئے تھے ان کے بارے میں واضح ہوجائے کہ کون اللہ اور رسول کا سچا وفادار ہے اور کس کو اپنے آبا کا طریقہ پیارا ہے، (۲: ۱۴۳)۔ وہ اگر سچے مومن ہیں تو آبائی قبلہ بدلنے کے باوجود وفادار رہیں گے ۔

مذہبی لوگ ہمیشہ خدا کے نام پر دنیا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ ان کی وفاداری کا رخ اپنے اسلاف، اپنی قوم اوراپنی تہذیب کی طرف مڑتا چلا جاتا ہے۔وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی سار ی دعوتی جدو جہد اللہ کے دین کے لیے ہورہی ہے، لیکن درحقیقت وہ اپنے خاص فرقہ اور خیالات کی تبلیغ کی جدو جہد کررہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں حکم شریعت کا ہے، لیکن درحقیقت وہ ان کے اپنے خاص فقہی مذہب اور مسلک کا فہم ہوتا ہے۔

ایسے میں اللہ تعالیٰ امتحان کی کوئی نہ کوئی شکل پیدا کردیتے ہیں، جس کے بعد ایسے دین داروں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ کوئی مرد قلندر اٹھتا ہے دلیل کی بنیاد پر دعوت حق ان کے سامنے رکھ دیتا ہے،مگر یہ لوگ حق کے بجاے اپنے فرقہ اور نقطۂ نظر کوبنیاد بنالیتے ہیں۔وہ دلیل کے بجاے جذبات اور اصول کے بجاے تعصب پر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کا فیصلہ کرتا ہے، مگر وہ اس سے بے خبر اپنی دین داری کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔

کیسا عجیب ہے خد اکا یہ امتحان اور کیسی عجیب ہے اس کے نام پر کھڑے ہوئے لوگوں کی ناکامی ۔

———————

 

قیادت کا مسئلہ

ہمارے ہاں اکثر اس بات کا شکوہ کیا جاتا ہے کہ مخلص اور باشعور قیادت کا فقدان ہوچکا ہے۔ اب نہ اقبال جیسے فکری رہنما پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ شاہ ولی اللہ جیسے مذہبی عالم، نہ قائد اعظم جیسے سیاسی لیڈر کی اب کوئی جگہ ہے اور نہ سرسید جیسے مصلح کے اٹھنے کا کوئی امکان ۔ لیکن یہ نقطۂ نظر اللہ تعالیٰ کے قانون کے قطعاً خلاف ہے۔

خدا نے جب سے انسان کو اس دنیا میں بسایا ہے تب سے اس کی انفرادی اور اجتماعی ضرورت کی ہر چیز کی فراہمی کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے۔انسانی ضروریات ہوا، پانی، خوراک ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ لوگ مختلف صلاحیتیں لے کر پیدا ہوں تاکہ اجتماعی زندگی وجود میں آسکے۔اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ محنت، سرمایہ، عقل اور علم کا بہترین استعمال کرنے والے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو قوم کی قیادت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔

ہماری قوم میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت اعلیٰ ترین درجے کے لیڈر پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج تک ہورہے ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں لیڈر نہیں پیدا ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لیڈر تو موجود ہیں، ہم ان کی بات سننے ،ان کی رہنما ئی قبول کرنے اور ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔خاص کر ہمارا مڈ ل کلاس طبقہ جس نے مادی آسایشوں کو زندگی کا نصب العین بنالیا ہے، وہ اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔

ہم اپنے بچوں میں اجتماعی خیر و شر کا شعور پیدا کرنے کے بجاے فلموں اور میوزک کا ذوق پیدا کرتے ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب اور تہذیب کا شعور دینے کے بجاے منہ بگاڑ کے انگریزی بولنا سکھانا پسند کرتے ہیں۔ہم کتاب خریدنے کے بجاے برگر خریدنا ، مطالعے کے بجاے ٹی وی پر تفریحی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ہم مخلص اور باکردارلوگوں کا ساتھ دینے کے بجاے اپنے گھر اور کیرےئرز کو مقصود زندگی بنانا پسند کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں شکوہ اپنے آپ سے ہونا چاہیے نہ کہ ملک کے بد سے بدتر ہوتے ہوئے حالات سے۔

———————

 

غداری

اردو زبان میں میر جعفرغداری کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ہمارے ادب اور تاریخ میں اس کی غداری ضرب المثل بن چکی ہے۔ہمارے ہاں یہ عام تصور ہے کہ ۱۷۵۷ کی جنگ پلاسی میں اگر میر جعفر غداری نہ کرتا تو انگریز کبھی ہندوستان پر قبضہ نہ کرسکتے۔ بدقسمتی سے یہ بات جوہمارے لیے ایک تاریخی مسلمہ بن چکی ہے ، درحقیقت اپنی غلطیوں اور تاریخی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔جنگ پلاسی کے حقائق میر جعفر کی غداری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ پلاسی دور جدید کی اہم ترین جنگ تھی۔ اس نے ایک طرف انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کی راہ ہموار کی اور دوسری طرف یہاں سے حاصل ہونے والے خزانے جب انگلستان پہنچے تو ٹیکنالوجی کی ترقی کو سرمایہ کی وہ طاقت حاصل ہوگئی جس نے یورپ میں صنعتی انقلاب برپا کردیا۔تمام اہم مورخین یہ بات مانتے ہیں کہ ۱۷۶۰ سے ۱۷۸۰ وہ زمانہ ہے جب انسانی ہاتھ اور حیوانی قوت کی جگہ مشینی طاقت نے لی اور دیکھتے ہی دیکھتے صنعتی انقلاب کی لہر نے مغرب کو دنیا کا حکمران بنادیا۔تاہم اس تاریخی جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے عوامل ’میر جعفر‘ کے علاوہ اور بھی بہت تھے۔

پہلا عامل مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کی علم سے غفلت تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطے کو غیر معمولی خزانوں سے نوازاتھا۔ مگر بدقسمتی سے مغلیہ حکمران جنھیں صدیوں یہاں حکومت کا موقع ملا ان کا پسندیدہ شوق مقبرے، مساجد، باغات اور دیگر یادگاریں تعمیر کرنا تھا۔ ان کے عہدمیں یورپی سفیر اور تاجر آآکر انھیں بتارہے تھے کہ دنیا میں کیا تبدیلی آرہی ہے، مگر ان کی آنکھوں پر ڈلا ہوا پردہ نہ اٹھ سکا۔ وہ علم و فن کی کوئی درس گاہ قائم نہ کرسکے۔وہ کتب خانے اور چھاپہ خانے کھولنے کو کرنے کا کوئی کام نہ سمجھ سکے۔وہ جدید علوم کے ترجمے اور تصانیف کی اہمیت نہ سمجھ سکے۔ انھوں نے اپنی بحری قوت کو بڑھایا، نہ اسلحہ وبارود کو جدید سے جدید تر بنانے کی کوئی کوشش کی۔

چنانچہ آخری عظیم مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر کی وفات (۱۷۰۷) کے صرف نصف صدی بعد پلاسی کا معرکہ ہوا۔سراج الدولہ کی ۵۰ ہزار فوج کے سامنے رابرٹ کلائیو کی صرف ۲۹۷۱ افراد پر مشتمل فوج تھی۔مگر یہ فوج جدید اصولوں پر تربیت یافتہ تھی۔جبکہ سراج الدولہ کی فوج غیر تربیت یافتہ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو میر جعفر کے زیر قیادت دستوں کو الگ ہوتا دیکھ کر سراسیمہ ہوگیا۔نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا۔

علمی پسماندگی کی تاریخ کے ساتھ دوسرا بڑا عامل صدیوں سے اخلاقی انحطاط تھا۔ یہ انحطاط اگر ایک طرف میرجعفر کی غداری کی شکل میں ظاہر ہوا تو دوسری طرف سراج الدولہ کی اپنی سیرت میں بھی موجود تھا۔ابتدائی عمر سے اس کی شہرت ایک ظالم اور متکبر شخص کی تھی جس کے پاس دولت کے انبار تھے۔ یہ انبار یورپ پہنچے تو صنعتی انقلاب لے آئے مگر نواب کا خزانہ کبھی بنگال کے غریب عوام کی بہبودکے لیے نہ صرف ہوسکا۔

ایک اور اہم عامل انسانی سماج میں ہونے والی ترقی اور جمہوری اقدار سے ہماری ناواقفیت تھی۔ اٹھارہویں صدی میں امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کا پودا ایک تناور درخت بن چکا تھا اور ہمارے ہاں حال یہ تھا کہ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے بیٹا نہ ہونے کی بنا پر اپنے نواسے ۲۳سالہ ناتجربہ کار اور ناہل سراج الدولہ کو تخت نشین کردیا۔دربار کے امرا اور خاندان کے لوگوں نے اس فیصلے کو دل سے پسند نہیں کیا تھا۔ چنانچہ سازشیں شروع ہو گئیں۔اس صورتحال میں سراج الدولہ کی نااہلی نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔وہ جانتا تھا کہ میر جعفر اس سے قبل علی وردی خان کے ساتھ غداری کر چکا ہے پھر بھی اس نے اس کو اپنی افواج کا سربراہ بنادیا۔ پلاسی سے پہلے بھی میر جعفر کی انگریزوں سے ساز باز سراج الدولہ کے علم میں تھی۔ مگر اس نے میر جعفر کا عہدہ کم کرنے ہی پر اکتفا کیا۔ نہ اسے سزا دی نہ فوج سے معزول کیا۔چنانچہ عین میدان جنگ میں اس کے ماتحت جتنی فوج تھی وہ اسے لے کر الگ ہوگیا۔ اس لیے میر جعفر نے جو کچھ کیا اس میں سراج الدولہ برابر کا ذمہ دار ہے۔ایسے نااہل حکمرانوں کی تخت نشینی ، غیرجمہوری طرز حکمرانی کے لازمی نتائج میں سے ہے۔

پلاسی میں جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری جتنی میر جعفر پر عائد ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ علم و اخلاق میں ہماری پستی اور جمہوری رویے سے ہماری غفلت پر عائد ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے پچھلی ڈھائی صدیوں سے ان حقائق سے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔اور ہر شکست کا انجام کسی میر جعفر پر ڈال دیتے ہیں۔ہماری نفسیات میں یہ بات شامل ہوچکی ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کا اقرار کرنے اور غلطیو ں کو ماننے کے بجاے اپنی شکستوں کا الزام کسی غدار پر ڈال دیتے ہیں اور اس پر تبراء بھیج کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔یوں کبھی ہم میں احتساب کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا جو قوموں کی ترقی کے لیے نا گزیر ہے۔

تصور کیجیے کہ ہمارے نصاب کی کتابوں میں یہ لکھا ہوتا کہ پلاسی میں شکست علم و اخلاق میں پستی اور غیر جمہوری سوچ کے باعث ہوئی تو لوگوں کی سوچ کتنی بدلتی۔ مگر چونکہ شکست کی وجہ میر جعفر کو قرار دے دیا گیا اس لیے آج پلاسی کے ڈھائی صدی بعد بھی ہماری جمہوری پارٹیوں میں خاندانی بادشاہی کا راج ہے اور اس کے باوجود ہم اپنے ووٹوں سے انھی رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں۔ سرسید کی مہربانی سے ہم علمی طو ر پر مغلیہ عہد سے تو باہر آگئے مگر ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ آج تک نہیں ہوسکے۔ اور اخلاقی دیوالیہ پن کا تو نہ پوچھیے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے۔

تاریخ اس دنیا میں انسانوں کی سب سے بڑی استاد ہے۔ لیکن اس سے سبق وہی لوگ سیکھ سکتے ہیں جو تاریخ کو درست زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔جو لوگ تاریخ کے آئینے میں صرف اپنی پسند کی باتیں تلاش کریں، وہ کبھی تاریخ سے سیکھ کر ترقی نہیں کرسکتے۔

———————

 

اندھیرا چھٹ جائے گا

اقوام عالم کی ہزارہا برس کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ان کو پیش آنے والے اچھے برے حالات نہیں کرتے، بلکہ وہ فکری قیادت کرتی ہے جو ان کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتی اور ان کے لیے راہ عمل طے کرتی ہے۔کسی قوم کے حالات بہت برے ہوں اور اس کے فکری رہنما بہت مثبت سوچ کے حامل ہوں تو قوم بدترین بحرانوں سے بھی نکل آتی ہے، اس کے برعکس قوم کے حالات اچھے ہوں، مگر اس کے رہنما منفی سوچ سے اوپر نہ اٹھ سکیں تو بہترین امکانات کی حامل قوم بھی بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔

تاریخ کے اس سبق کی سب سے نمایاں مثال خود پاکستان ہے۔ ایک صدی قبل اس خطے کے مسلمان غلامی، محرومی، پستی اور ذلت کا شکار تھے۔پورا عالم اسلام ایک ایسی سیاسی، ذہنی اور معاشی غلامی کا شکار تھا جس سے نکلنے کے امکانات دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔ مگر ایسے میں سر سید اور علامہ اقبال جیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ان دونوں کی مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ بدترین حالات کے باوجود انھوں نے امید کے دیے روشن کیے اور اس وقت کے حالات میں ممکنہ طور پر ایک بہترین لائحۂ عمل کی طرف قوم کی رہنمائی کی۔ نتیجہ یہ نکلاکہ صرف نصف صدی میں دنیا کی پانچویں اور مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست ظہور پذیر ہوئی۔

بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے ہم مسلسل تنزل کا شکار ہیں۔ یہ زوال کیوں ظہور پذیر ہوا،سر دست اس کو جانے دیجیے ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب ہم اس زوال کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اس زوال کے باوجود ہمارے آج کے حالات ایک صدی پہلے کے حالات سے بہت بہتر ہیں۔ بلاشبہ آج ہم ایک بدترین جمہوری دور سے گزررہے ہیں، لیکن ہم نے یہ جان لیا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی کے اعتبار سے ہمیں سخت حالات کا سامنا ہے، لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ ادراک ہوچکا ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہورہا۔ یہ ادراک کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ جس قوم کے اعلیٰ اذہان میں یہ شعورپیدا ہوجائے وہ چند برسوں میں حالات کا رخ اپنے حق میں پھیر دیتے ہیں۔

آج پاکستانی قوم اپنی بقا کی آخری جنگ لڑرہی ہے۔اس جنگ میں ہم نے حال ہی میں آمریت کو شکست دی ہے ،مگر جمہوری رہنماؤ ں کی عاقبت نااندیشی کے ہاتھوں وقتی شکست کھائی ہے۔ قوموں کی زندگی میں وقتی پسپائی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہم اس وقت عارضی پسپائی کا سامنا کررہے ہیں۔مگر چند برسو ں کے اندر لازماً ہم بہتری کی طرف جائیں گے۔

اس وقت کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اقبال اور سرسید کی رہنمائی کو زندہ کریں۔ سرسید نے تعلیم کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب سارے امکانات ختم نظر آتے تھے انھوں نے علم کے میدان کو قوم کے سامنے رکھا اور کچھ ہی عرصے میں قوم کے بہترین لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کی لگن پھونک دی۔جس کے نتیجے میں آنے والے چند برسوں میں اعلیٰ ترین رہنماؤ ں کی ایک کھیپ سامنے آ گئی۔

اقبال نے مایوسی اور بے یقینی کی شکار قوم میں امید کا دیا چمکایا اور اس کے افراد میں یقین اور اعتماد کی طاقت پیدا کردی ۔قوم کے حال پر چھائی شکست کی تلافی کے لیے اقبا ل نے قوم کا تعلق اس کے عظیم ماضی سے جوڑا اور اس کے افراد کو یقین دلادیا کہ وہ اگر حوصلے سے کام لیں تو مستقبل ان کا ہے۔ اس یقین نے قوم میں جرأت اور ہمت کی وہ طوفانی لہر پیدا کی جو آنے والے دنوں میں انگریزوں اور ہندوؤں کی طاقت اور مخالفت کو اپنے زور میں بہاکر لے گئی۔

آج بھی قوم کے باشعور لوگوں کے کرنے کا اگر کوئی کام ہے تو وہ یہی ہے کہ قوم میں تعلیم کاصور پھونکیں اور امید و یقین کی شمع روشن رکھیں۔ بہت جلد ہر اندھیرا چھٹ جائے گا۔

 ———————————

B