الطاف احمد اعظمی*
[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔
اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(۳)
مَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.(سورۂ حشر۵۹: ۷)
’’اللہ جو مال بستی والوں سے لڑائی کے بغیر اپنے رسول کو دلا دے، اس میں اللہ کا، رسول کا، قرابت والوں کا، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے، تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی میں نہ گردش کرتا رہے۔‘‘
مذکورہ قرآنی ہدایت کے مطابق ارتکاز مال و زر کو روکنے کے لیے جو اخلاقی اور قانونی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ان کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک طرف اصحاب مال کو جو اپنا فاضل سرمایہ غربا و مساکین پر خرچ کرنے کے بجاے اندوختہ کر کے رکھتے ہیں، آخرت کے بدترین عذاب سے ان لفظوں میں خبردار کیا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ. یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ.(سورۂ توبہ۹: ۳۴۔۳۵)
’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کے راستے میں نہیں خرچ کرتے، تو ان کو دردناک عذاب کی خبر دے دو۔ جس دن کہ ان پر (یعنی سونے اور چاندی کے ذخیرے پر) دوزخ کی آگ دہکائی جائے گی، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پسلیوں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، تو اب اپنے اس اندوختہ کا مزہ چکھو۔‘‘
اور دوسری طرف ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو سماج کے ناداروں کی خبرگیری میں اپنا مال خوشی سے رضاے الٰہی کی طلب میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کو خوش خبری دی گئی ہے کہ انفاق سے ان کے مال میں کمی کے بجاے کئی گنا اضافہ ہو گا۔ فرمایا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.(البقرہ۲: ۲۶۱)
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال کے اندر سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے دونا عطا کرتا ہے۔‘‘
آگے اسی سورہ میں فرمایا ہے:
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.(البقرہ۲: ۲۶۵)
’’جو لوگ اللہ کی رضا جوئی اور اپنے نفوس کے قرار و ثبات کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال اس باغ کی ہے جو بلندی پر واقع ہو، اس پر زور کی بارش ہو گئی تو دوگنا پھل لایا، اور اگر زور کی بارش نہ ہوئی تو (اس کے ثمر آوری کے لیے) پھوار ہی کافی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
ارتکاز مال کو روکنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ان میں پہلا قانون زکوٰۃ کا ہے۔ ہر وہ شخص جو صاحب مال ہے (یعنی غنی) اس پر قانوناً واجب ہے کہ وہ اپنے فاضل سرمائے پر زکوٰۃ نکالے۔ اس کا نصاب مقرر ہے اور اس نصاب کے مطابق یہ زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ جن لوگوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں، حتیٰ کہ غربا پر بھی واجب ہے کہ وہ صدقہ کریں۔ ۱۱ اس طرح اسلامی معاشرے میں انفاق کا ایک عام مزاج و ماحول پیدا ہوتا ہے۔
ارتکاز مال کو روکنے کے لیے جو دوسرا قانون بنایا گیا وہ حرمت سود کا ہے (البقرہ۲: ۲۷۵)۔ سود دراصل حب مال اور ازدیاد مال کی علامت ہے اور اس بات کا ثبوت کہ سودی کاروبار کرنے والا سماج کے کم زور طبقات کے لیے اپنے دل میں ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں رکھتا، بلکہ ان کا استیصال کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل راہ خدا میں انفاق کرنے والا اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ حب مال اور جمع مال کی فکر سے نجات پا چکا ہے۔ اس کو صرف اللہ کی رضا جوئی عزیز ہے اور وہ سماج کے غربا و مساکین کا دل سے خیر خواہ ہے۔
اس سلسلے میں جو تیسرا قانون بنایا گیا وہ قانون میراث ہے۔ موجودہ دور میں ارتکاز زر کا ایک بڑا سبب یہ قانون ہے کہ باپ کی جائداد پر صرف لڑکے کا حق ہے۔ اس غلط قانون میراث کی وجہ سے نسلاً بعد نسلٍ ایک ہی خاندان میں دولت کی بڑی مقدار جمع ہو جاتی ہے، لیکن اسلام کا قانون میراث کہیں بھی دولت کو جمع نہیں ہونے دیتا، ایک خاص مدت کے بعد جمع شدہ دولت بکھر کر ایک سے زیادہ افراد کے پاس پہنچ جاتی ہے اور اس طرح دولت برابر معاشرے میں گردش میں رہتی ہے۔ اس سے نہ صرف تجارت کو فروغ ملتا ہے، بلکہ لوگوں کے اندر انفاق کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ارتکاز مال کی ایک صورت سونے اور چاندی کے برتن اور زیورات بھی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کھانے اور پینے کے لیے سونے اور چاندی کے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا، وہیں عورتوں اور مردوں دونوں کو نصیحت کی کہ وہ سونے کے زیورات استعمال نہ کریں۔ اس سلسلے میں چند روایات ملاحظہ ہوں:
۱۔ لا تشربوا فی آنیۃ الذھب والفضۃ ولا تاکلوا فی صحافھا.(صحاح ستہ)
’’سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی نہ پیا کرو اور نہ ہی ان کے پیالوں میں کھانا کھایا کرو۔‘‘
۲۔ الّذی یاکل ویشرب فی آنیۃ الفضۃ انہ یجر فی بطنہ نار جھنم.(صحیح بخاری)
’’جو شخص چاندی کے برتن میں کھانا کھاتا اور پانی پیتا ہے وہ اپنے شکم میں جہنم کی آگ سمیٹتا ہے۔‘‘
۳۔ یالیت اُمتی لا تحمل الذھب. (مسند احمد)
’’کاش میری امت (کے عورت اور مرد) سونے کے زیور نہ پہنتے۔‘‘
ام عطیہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں کے لیے سونے کے زیور استعمال کرنے کی اجازت چاہی گئی تو آپ نے انکار کیا ’فابی علینا‘۔ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سونے کے مختلف زیورات کا نام لے کر پوچھنا شروع کیا کہ اس کی اجازت ہے؟ ہر ایک سوال کے جواب میں آپ یہی فرماتے کہ آگ کا زیور ’النّار‘ ہے۔ اس نے آخر میں کہا کہ عورت جب اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگار نہیں کرتی تو وہ اس کی نظر سے گر جاتی ہے ’ان المرأۃ اذا لم تتزین لزوجھا صلفت عندہ‘۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:
ما یمنع احدا کن ان تضع قرطین من فضۃ ثم تصفر بزعفران او بعبیر. (مسند احمد)
’’تم عورتوں کو کس چیز نے اس سے روکا ہے کہ چاندی کی دو بالیاں (اپنے کانوں میں) ڈال لیں اور ان کو زعفران یا عبیر سے رنگ دیں (تاکہ وہ مثل سونے کے ہو جائیں)۔‘‘
سونے اور چاندی کے استعمال کی اس ممانعت کی وجہ اخلاقی سے زیادہ معاشی ہے۔ ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سونے اور چاندی کی حیثیت زرمبادلہ کی تھی، بالخصوص چاندی جو درہم کی شکل میں رائج تھی اور خرید و فروخت میں استعمال ہوتی تھی۔
اسلام کے معاشی نظام میں جس طرح یہ بات ناپسندیدہ ہے کہ اموال (سونا، چاندی، نقدی) کو جمع کر کے رکھا جائے، اسی طرح اس چیز کو بھی ناپسند کیا گیا ہے کہ لوگوں کے پاس زائد از ضرورت زمین ہو، یا زمین ہو اور اس میں کاشت نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں چند روایات قابل ذکر ہیں:
۱۔ حضرت رافع بن خدیج روایت کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو بظاہر ہمارے لیے نفع بخش تھا اور وہ یہ کہ ہم میں سے کسی شخص کے پاس زمین ہو تو وہ اس کو بٹائی پر دے اور نہ نقد لگان (اجارہ) پر، اور فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ خود اس میں کاشت کرے یا اپنے مسلمان بھائی کو کاشت کے لیے احسان کے طور پر دے دے۔ ۱۲
۲۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زمین ہو تو اس کو چاہیے کہ خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کے لیے احسان کے طور پر دے دے، اور اگر دونوں میں سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اپنی زمین کو یوں ہی روکے رکھے۔‘‘ ۱۳
۳۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرما دیا ہے کہ زمین کے ذریعہ سے عوض یا اجارہ (اجر و حظ) کا فائدہ اٹھایا جائے۔۱۴
۴۔ حضرت عبداللہ ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے حضرت امیر معاویہ کے عہد تک اپنی زمین کاشت کاروں کو دے کر ان سے لگان لیتے تھے، مگر جب انھوں نے رافع کی حدیث سنی تو اس عمل کو اس خوف سے ترک کر دیا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس کی ممانعت فرمائی ہو۔ ۱۵
راقم کا خیال ہے کہ اس ممانعت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کے پاس فاضل زمینیں تھیں اور وہ ان میں کاشت نہیں کرتے تھے بلکہ بٹائی یا نقد لگان پر کاشت کے لیے دوسروں کو دے دیتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی زمینوں پر خود کاشت کریں یا دوسروں کو بطور احسان کاشت کے لیے دے دیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث سے جو اوپر نقل کی گئی ہے، اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صاحب زمین خود کاشت کرے یا دوسروں کو کاشت کے لیے مفت دے دے، اور اگر یہ دونوں صورتیں منظور نہ ہوں تو پھر وہ زمین کو بغیر کاشت کے چھوڑ دے۔ اس میں تنبیہ پوشیدہ ہے۔ یہ بات ہر کسان جانتا ہے کہ جس زمین میں کاشت نہ کی جائے اس کی قوت نمو رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔
اس معاملے میں حضرت عبداللہ ابن عباس اور بعض دوسرے صحابہ سے جو اقوال مروی ہیں وہ محل نظر ہیں۔ ۱۶ حضرت عبداللہ ابن عمر کا عمل جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، اس پر دلیل ہے۔ ۱۷ اسی طرح شاہ ولی اللہ دہلوی کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کا تعلق ایک وقتی مصلحت سے تھا، درست نہیں ہے۔ ۱۸ حضرت ابوزرغفاری اور بعض دوسرے صحابہ کے طرز عمل سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ ۱۹
انفرادی ملکیت کے نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں بالعموم مزدوروں کا استیصال ہوتا ہے۔ سرمایہ دار چاہتا ہے کہ کم اجرت پر ان سے زیادہ کام لے۔ صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں جیسا کہ سرمایہ داری کے تاریخی پس منظر کے ذیل میں ذکر ہو چکا ہے، سرمایہ داروں نے جس طرح مزدوروں کا استیصال کیا اور ان پر مظالم ڈھائے وہ سرمایہ داری نظام کی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے۔
لیکن اسلام کے معاشی نظام میں ہر طرح کا استیصال ممنوع ہے۔ وہ اس بات کی اجازت تو دیتا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے اجرت پر کام لے، لیکن اجیر (اجرت پر کام کرنے والا) اور مستأجر (جو کسی سے اجرت پر کام کرائے) کے درمیان اجرت کے تعین میں عدل و انصاف لازمی ہے۔ اگر ریاست محسوس کرے کہ مزدوروں کی اجرت میں انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا ہے تو وہ خود سماجی اور معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اجرتوں کا تعین کر سکتی ہے۔ اس معاملے میں نہ اجیر کے ساتھ زیادتی ہو اور نہ مستأجر کے ساتھ۔ قرآن کے الفاظ میں:
لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ.(البقرہ۲: ۲۷۹)
’’نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ میں تین آدمیوں کا قیامت کے دن فریق مخالف (خصیم) بنوں گا۔ ایک وہ شخص جس نے میرے نام سے کسی کو کچھ دیا اور پھر عہد شکنی کی، دوسرا وہ جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ جس نے کسی کو مزدور رکھا اور اس سے پورا کام لیا، لیکن اس کو پوری مزدوری نہیں دی۔ ۲۰
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مزدور مستقل طور پر کھیت یا باغ میں کام کرتا ہو تو متعین مزدوری کے علاوہ اس سے حاصل ہونے والے نفع میں سے بھی اس کو کچھ دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اعطوا العامل من عملہ، فانّ عامل اللّٰہ لا یخیب.(مسند احمد)
’’مزدور کو اس کے کام سے بھی حصہ دو، کیوں کہ اللہ کا عامل (مزدور) نامراد نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
یہی معاملہ خادم کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اذا صنع لاحدکم خادمہ طعامًا ثم جاء بہٖ ولی حرہ ودخانہ فلیقعدہ معہ فلیاکل، فان کان الطعام مشفوھا فلیضع منہ فی یدہ اکلۃ او اکلتین. (صحیح بخاری)
’’اگر تمھارا خادم تمھارے لیے کھانا تیار کرے اور پھر اس کو لے کر تمھارے پاس آئے اور اس نے گرمی اور دھوئیں کو برداشت کیا تھا، تو اس کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لو۔ اور اگر کھانے پر زیادہ آدمی ہوں تو خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمہ ضرور رکھ دو۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آپ کا ارشاد ہے:
اخوانکم خولکم، جعل اللّٰہ تحت ایدیکم، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ ممّا یلبس، ولا تکلفوھم مما یغلبھم، فان کلفتموھم فاعینوھم.(صحیح بخاری)
’’تمھارے ماتحت تمھارے بھائی ہیں، اللہ نے ان کو تمھارا مملوک بنایا ہے، تو جس کا بھائی اس کا مملوک ہو تو چاہیے کہ جو خود کھاتا ہو، اس کو کھلائے اور جو خود پہنتا ہو اسے پہنائے۔ اور ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو جو ان کو مغلوب کر دے (یعنی ان کی طاقت سے باہر ہو)، اور اگر ان پر کسی کام کا بوجھ ڈالو تو پھر ان کی مدد کرو۔‘‘
اس روایت میں مملوک، یعنی خادم کو مالک کا بھائی کہا گیا ہے، اس لیے اس کے ساتھ ایک بھائی کی طرح سلوک لازمی ہے۔ ابو مسعود بدری کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہے تھے کہ دفعۃً آواز آئی: ’اعلم ابا مسعود‘ ’’خبردار ابو مسعود۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں اس قدر غصے میں تھا کہ مجھے کچھ پتا نہ چلا کہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سامنے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں: ’اعلم ابا مسعود، انّ اللّٰہ اقدر علیک علٰی ھٰذا الغلام‘ ’’خبردار، ابو مسعود، اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتے ہیں جتنی قدرت تم اپنے اس غلام پر رکھتے ہو۔‘‘۲۱
ان روایات سے بالکل واضح ہو گیا کہ اسلام میں مالک اور خادم کے درمیان تعلق کی نوعیت وہ نہیں جو عام طور پر دنیوی نظاموں میں پائی جاتی ہے۔ یہ تعلق دو بھائیوں جیسا ہے۔ جہاں تک اجیر اور مستأجر کا تعلق ہے تو وہ بھی انصاف پر مبنی ہے۔ اسلام کے معاشی نظام میں مزدور محض پیداواری مشین کا کوئی بے روح پرزہ نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک انسان کی ہے جو مالک ہی کی طرح احساسات اور جذبات رکھتا ہے اور پیداواری عمل میں بھرپور شریک ہوتا ہے۔ اس لیے وہ مزدوری کے علاوہ کا بھی حق دار ہے، بالخصوص جب کاروبار میں نفع کثیر حاصل ہو۔
اسلامی نظام معیشت میں مزدوروں اور سماج کے دوسرے کم زور طبقات کے ساتھ اس لیے بھی نا انصافی کے امکانات بہت کم ہیں کہ ملکیت رکھنے کے باوجود ہر صاحب ایمان جانتا ہے کہ وہ درحقیقت خدا کی ملکیت ہے اور اس کی حیثیت نگراں اور امین کی ہے۔ اس لیے اس کا کارمنصبی یہ ہے کہ وہ مالک حقیقی کی مرضی کے مطابق اس کی ملکیت کا انتظام کرے، خود اس سے فائدہ اٹھائے اور جو حاجت مند ہیں ان کو بھی اس سے فائدہ پہنچائے۔ اسے معلوم ہے کہ اصل مالک ایک روز اپنی ملکیت کا اس سے ضرور حساب لے گا۔
جواب دہی کا یہ اخروی تصور معاشی انصاف کے قیام میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عصری معاشی نظامات کی ناکامی کے جہاں دوسرے اسباب ہیں، وہاں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں اس نوع کی جواب دہی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
سرمایہ داری اور اسلام کے معاشی نظام کے اس مختصر تقابلی تعارف سے معلوم ہو گیا کہ اسلامی نظام معیشت میں نہ افراط کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ تفریط کی کوئی گنجایش۔ دوسرے لفظوں میں اس میں نہ تو انفرادی ملکیت کے نظام کی خرابیاں ہیں اور نہ ہی اجتماعی ملکیت کے عیوب و مفاسد، وہ ایک ایسا معتدل معاشی لائحۂ عمل ہے جس کو اختیار کر کے انسان کے پیچیدہ معاشی مسائل کو بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔ اور ایک بار پھر دنیا کو وہی معاشی اطمینان حاصل ہو سکتا ہے جو کبھی خلافت راشدہ میں لوگوں کو حاصل تھا۔ اس دور زریں کی معاشی فارغ البالی کا حال بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اصحاب مال اپنے صدقات لیے پھرتے تھے اور ان کو کوئی لینے والا نہ تھا۔۲۲
————————
* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔
۱۱ بخاری، کتاب الادب، باب: کل معروف صدقۃ۔
۱۲ بخاری، باب المرزارعۃ، ترمذی، باب الزکوٰۃ۔
اس سلسلے میں حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج سے زمین کو اجارہ لینے کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے کہا کہ چاندی اور سونے کے بدلے بھی یعنی نقد لگان پر بھی منع فرمایا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم، کتاب المزارعۃ)۔ اس روایت کا مضمون رافع بن خدیج ہی سے مروی مذکورہ بالا روایت سے مختلف ہے۔ راقم کی نظر میں پہلی روایت صحیح ہے۔ اس کی تائید عبداللہ ابن عمر کے آخری عمل سے ہوتی ہے۔
۱۳ مسلم، باب المزارعۃ۔
۱۴ مسلم، باب المزارعۃ۔
۱۵ بخاری، کتاب المزارعۃ۔
۱۶ عبداللہ ابن عباس کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو اجارہ پر دینے سے منع نہیں کیا، بلکہ یہ پسند فرمایا کہ صاحب زمین اپنے بھائی (یعنی کاشت کار) سے معاوضہ لینے کے بجاے حسن سلوک کے طور پر اس کو مفت دے دے (بخاری، کتاب المزارعۃ)۔
۱۷ بخاری، کتاب المزارعۃ۔
۱۸ شاہ صاحب نے اس خیال کو حضرت زید کی طرف منسوب کیا ہے۔ دیکھیں، حجۃ اللہ البالغہ، باب التبرّع والتعاون ۲/ ۱۱۷۔
۱۹ حضرت ابوذر غفاری زمین کا اجارہ اور مزارعت دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے اور آخر عمر تک اس موقف پر قائم رہے، لیکن جمہور علما و فقہا اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ فقہا احناف کا اس میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بٹائی کی جو بھی صورت ہو وہ ناجائز ہے، لیکن نقد لگان پر معاملہ کرنا درست ہے۔ امام ابویوسف نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ان کے نزدیک زمین کو نصف، تہائی یا چوتھائی بٹائی پر دینا جائز ہے (کتاب الخراج ۸۸)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ حدیث کی کتابوں میں نقد لگان کو درست قرار دینے سے متعلق جو روایت مذکور ہے وہ ’’مدرج‘‘ ہے، یعنی یہ سعید بن المسیّب کا قول ہے نہ کہ قول رسول۔ (فتح الباری۵/ ۲۰)
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ بٹائی اور نقد لگان جائز ہے یا ناجائز جیسا کہ ہمارے بہت سے علما و فقہا نے خیال کیا ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ لوگ جن کے پاس فاضل زمین ہے وہ اس کو بٹائی یا نقد لگان پر دے سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ جائز نہیں جیسا کہ مذکورہ روایات سے بالکل واضح ہے۔ ان کے لیے مستحسن طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی فاضل زمین اپنے غریب بھائیوں کو کاشت کے لیے دے دیں اور ان سے کوئی معاوضہ نہ لیں۔
۲۰ بخاری۔
۲۱ صحیح مسلم۔
۲۲ البدایۃ والنہایۃ، طبع بیروت ۱۹۶۶ء۵/ ۶۴۔
——————————————