HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

میاں بیویوں کے کفیل ہیں

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ.(النساء۴: ۳۴)
’’مرد (میاں) عورتوں (بیویوں) کے ذمہ دار (کفیل) ہیں۔ اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ انھوں نے اپنے اموال میں سے کچھ خرچ کیا ہے۔ پس جو عورتیں نیک ہوتی ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کی حفاظت کی ہے۔‘‘

اشراق اگست ۲۰۱۲ء کے شمارے میں فاضل محترم محمد عمار خان ناصر کا ایک مضمون ’’خواتین ان کے حقوق اور مسائل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ میں نے مضمون کی دو ایک باتوں سے اختلاف کیا اور میرا مضمون اشراق ہی کے نومبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ خواہش تھی کہ فاضل محترم جواب میں حسب عادت کوئی لطیف علمی نکتہ بیان کریں گے جس سے میں فیض یاب ہو سکوں گا۔ خواہش توپوری نہ ہوئی البتہ رضوان اللہ صاحب کے نوک قلم سے ایک مضمون اشراق کے فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے جس میں میرے مضمون پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ صاحب مضمون نے میرے مضمون کو غور سے پڑھے بغیر مناظرانہ رنگ میں تنقید بلکہ تنقیص شروع کر دی ، کاش اپنے مضمون میں وہ تنقید کا رخ ان شخصیات کی طرف بھی موڑ دیتے جن کا حوالہ میں نے پیش کیا ہے۔ کیونکہ میں نے کوئی بات حوالے کے بغیر نہیں لکھی۔ میں اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھتا، جبکہ صاحب مضمون نے ہر بات حوالے کے بغیر کہی ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے آپ کو بیک وقت مفسر، لغوی اور نحوی تصور کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات سے معلوم ہوتا ہے کہ

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

اصل مشکل یہ ہے کہ مضمون نگار کے ذہن میں مرد کی فضیلت کا ایک مخصوص خیال راسخ ہے جس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وہ تاویل کر کے اللہ کے احکام کو پاژند بنا رہے ہیں۔ یہ خیال کہ مرد کو صرف مرد ہونے کے ناطے عورت پر خلقی فضیلت ہے قرآنی فکر و حکمت سے متصادم ہے۔ مرد بھی انسان ہے عورت بھی انسان۔ دونوں کو اللہ نے ’احسن تقویم‘ میں پیدا کر کے دونوں کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔ دونوں کا ڈھانچہ بنانے کے بعد اپنی روح (Divine Energy) پھونکی۔ دونوں کو استعدادا عطا کی۔ دونوں کو اپنے احکام کا مکلف ٹھہرایا اور دونوں جزا و سزا کے سزاوار ٹھہرے۔ جسمانی اعضا کا فرق حیاتیاتی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ قطعی طور پر وجہ فضیلت نہیں، فضیلت کا بس ایک ہی معیار ہے ’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم‘ (۴۹: ۱۳) ’’اللہ کے نزدیک تم میں عزت والا وہ ہے جو متقی ہے۔‘‘ اس معیار کے علاوہ رنگ، نسل اور جنس کی فضیلت کے سب معیار جھوٹے ہیں۔ تعجب ہے کہ ایک طرف صاحب مضمون یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آیت زیربحث میں مرد کی مطلق فضیلت کا ذکر نہیں مگر دوسری طرف مرد کی خلقی فضیلت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید

سید قطب اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں زیربحث آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’یہ ایک خاندانی نظام ہے اس میں شریک مرد اور عورت مستقل شخصیت کے مالک ہیں، دونوں کے حقوق یکساں ہیں‘‘۔

اب آتے ہیں ان اعتراضات کی طرف جن کی نشان دہی صاحب مضمون نے کی ہے۔

۱۔ میں نے ’الرجال‘ کا ترجمہ مرد اور ’النساء‘ کا ترجمہ عورتیں کرنے پر جس تحفظ کا اظہار کیا تھا وہ یہ ہے کہ بعض مفسرین ’الرجال‘ اور ’النساء‘ سے پہلے ’ال‘ کو جنس کا سمجھا ہے۔ اس طرح یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا جہان کے مرد دنیا کی عورتوں پر خرچ کرنے کے مکلف ہیں، جوقطعی غلط بات ہے۔ میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ ’الرجال‘ اور ’النساء‘ سے میاں بیوی مراد نہیں ہو سکتے۔ صاحب مضمون نے ایک مفروضہ قائم کر کے اہل زبان کی بول چال اور عربی زبان کی خوب صورتی و بے ساختگی کا بے محل قصہ چھیڑ دیا ہے، حالانکہ اس زبان کی خوب صورتی کا ان کے مضمون میں اور دور دور تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔ میں نے بھی مردوں سے میاں اور عورتوں سے بیویاں مراد لی ہیں اور صاحب مضمون نے بھی یہی معنی مراد لیے ہیں تو پھر بحث کس بات کی؟ یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔

۲۔ دوسرا اعتراض لفظ ’قوّام علی‘ کی لغوی تحقیق کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا ہے کہ عربی میں جب فعل کے بعد حرف جار کا صلہ (Preposition) آتا ہے تو معنی میں یا تو تخصیص پیدا ہو جاتی ہے یا معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ کم و بیش سب لغات نے یہ محاورہ دیا ہے ’قام الرجل المرأۃ وقام علیھا‘ ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مرد نے عورت کو روزی مہیا کی۔ پھر میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’لسان العرب‘‘ کے مصنف ابن منظور نے یہ محاورہ لکھنے کے بعد زیربحث آیت کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ اب میں کبھی ابن منظور کے قول کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی رضوان اللہ کے قول کی طرف۔ کس کی بات مانوں اور کس کی نہ مانوں۔

صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ محاورے کے بعض دیگر معنوں کے علاوہ یہ بھی ایک معنی ہیں۔ محترم محاورے کے بس یہی معنی ہیں اور کوئی معنی ہو نہیں سکتے۔ اس سے کفالت کا مفہوم ابھرتا ہے نہ کہ سربراہی کا۔ عربی میں ’قَوام‘ اس مال کو کہتے ہیں جس سے ضروریات پوری ہوں۔ اور ’قِوام‘ اتنی روزی کو کہتے ہیں جو انسان کو کھڑا کر سکے۔ ایک اور عربی محاورہ ہے۔ ’فلان قِوام اھل بیتہ‘۔ ’’فلاں شخص اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔‘‘ قرآن حکیم میں اللہ کا ارشاد ہے:

لاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا.(النساء۴:۵)
’’بے عقلوں کو ان کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا، مت دو۔‘‘

عزیزم! کان کو ایک طرف سے پکڑو یا دوسری طرف سے ’قوّامون علی‘ کے معنی کفیل ہی بنتے ہیں نہ کہ سربراہ۔

میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ابن فارس نے ’’معجم المقاییس‘‘ میں لکھا ہے کہ قیام کی دو قسمیں ہیں قیام حتم یعنی سیدھا کھڑا ہونا اور قیام عزم یعنی کسی کام کا ذمہ لینا۔آیت زیربحث میں قیام حتم مراد نہیں جیسا کہ شاونزم کے حامی سمجھتے ہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر کھڑے ہونے والے ہیں۔ یہ معنی مضحکہ خیز ہیں۔ مراد قیام عزم ہے یعنی ان کے ذمہ دار ہیں۔

ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ صاحب مضمون کفالت کو نہ ماننے پر بضد ہیں، مگر خلق خدا کے خوف سے حاکم کا لفظ استعمال کرنے سے جھینپتے ہیں۔ اس کی جگہ سربراہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے عزیز، شیکسپئر کا قول ہے (What is in a name) نام میں کیا پڑا ہے۔ گلاب کا کوئی بھی نام رکھ دیں خوشبو تو اس سے آئے گی۔ حاکم اور متسلط کی جگہ سربراہ کہیں گے تو حاکمیت کی بو تو اس سے نکلے گی۔ میرے خیال میں آپ کے زعم کے مطابق مولانا اصلاحی کا لفظ ’’سرپرست‘‘ سربراہ سے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ وہ کفالت کے زیادہ قریب ہے ویسے وہ مفسر تو قابل تعریف ہیں جو برملا وہی بات کہتے ہیں جو ان کے ضمیر کے اندر ہے۔ خلق خدا کے خوف سے ایسی بات کو چھپانا جو آپ کے نزدیک حق ہے کتمان حق کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن میں کتمان حق کی کیا سزا ہے یہ آپ جانتے ہی ہوں گے؟

یہاں پر صاحب مضمون نے دو غیر منطقی اعتراض جڑ دیے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل لغت ’قوّامون علی‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ’مأنھا‘ (اس نے روزی مہیا کی) کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ’قام بشانہا‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ میں نے یہ جملہ صرف ’’تاج العروس‘‘ میں ’مأنھا‘ کے فوراً بعد لکھا دیکھا ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’اس نے عورت کے کام کا ذمہ اٹھایا۔‘‘اس اعتبار سے یہ ’مأنھا‘ کی تشریح ہے۔ میں نے اوپر واضح کر دیا ہے کہ ’قام الرجل علی المرأۃ‘ کے محاورے کے صرف ایک معنی ہیں۔ دوسرے احتمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے انھوں نے یہ کہا ہے کہ یہ جملہ کیونکہ وہ اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں، اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ’قوّامون علی‘ کے معنی مال خرچ کرنا ہو۔ سبحان اللہ کیا منطق بگھاری ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تکرار کا ظاہرہ قرآن حکیم کا ایک اسلوب ہے۔ زیربحث جملہ میں اس اجمال کی تفصیل ہے جو روزی مہیا کرنے کے معنوں میں پائی جاتی ہے۔ ’وبما انفقوا من اموالہم‘ میں بتایا گیا ہے کہ مرد عورت کے نان و نفقہ کے علاوہ حق مہر، رہایش اور لباس پر خرچ کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اس کی وضاحت اس وقت ہو گی جب میں ’بما فضل اللّٰہ بعضہم علی بعض‘ پر بحث کروں گا۔ ’’عورتیں شوہر کی وفادار ہوتی ہیں‘‘ اس جملہ کے تحت حاشیہ میں صاحب مضمون نے عورت کے نشوز سے بھی استدلال کیا ہے کہ مرد کو سزا دینے کا حق ہے۔ میں صاحب مضمون کی توجہ ’وان امرأۃ خافت من بعلہا نشوزا‘ (۴: ۱۲۸) کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ نشوز کا ارتکاب عورت سے بھی ہوتا ہے اور مرد سے بھی۔ اللہ نے عورت کو اجازت دی ہے کہ یا تو وہ شوہر سے صلح کر لے یا اس سے جان چھڑا لے خواہ اس کے لیے اسے خاوند کا منہ پیسے سے بند کرنا پڑے۔

۳۔ تیسرا اعتراض صاحب مضمون نے ’بما فضل اللّٰہ بعضہم علی بعض‘ (اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے) اور اس کے فوراً بعد ’وبما انفقوا من اموالہم‘ (کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں)؟ صاحب مضمون کے ذہن میں کیونکہ مرد کی جنسی بالاتری کا مخصوص خیال ہے اس لیے وہ بات سمجھنے کے بجاے سبب اور مسبب اور واو عطف کی آڑ لے رہے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اللہ کا قول ہے مرد عورتوں کے کفیل ہیں اس کے دو سبب ہیں ایک یہ کہ ان کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے۔ جو مفسر ’قوّامون علی‘ کا ترجمہ حاکم یا متسلط کرتے ہیں ان کو اس جملے سے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ یہ جملہ ان کے ترجمہ کی نفی کرتا ہے۔ اگر بعض باتوں میں عورتوں کی فضیلت کو مان لیا جائے تو حاکم کا تصور خاک میں مل جاتا ہے۔ اس لیے اپنے خیال کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس جملہ کی تاویل یہ کی گئی کہ پہلے ’بعضہم‘ سے مراد مرد اور دوسرے ’بعضہم‘ سے مراد عورتیں ہیں اور ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اس لیے وہ حاکم ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ترجمہ قطعی غلط ہے اور سیاق و سباق سے کٹا ہوا ہے۔ صاحب مضمون بھی اسی خیال کے ہم نوا ہیں۔ وہ مرد کی خلقی فضیلت کے قائل ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ٹکڑے سے مرد کی مطلق فضیلت کی نفی ہوتی ہے۔ اس ٹکڑے سے جس طرح مرد کی مطلق فضیلت کی نفی ہوتی ہے بالکل اسی طرح حاکم، متسلط اور سربراہ کے ترجمہ کی بھی نفی ہوتی ہے۔

یہ ایک گھر گرہستی کا نظام ہے جس میں خالق کائنات نے توازن رکھا ہے۔ بعض باتوں میں میاں کی صلاحیت زیادہ ہے اور بعض باتوں میں بیویوں کی۔ مرد میں کمانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور مواقع بھی۔ اس کے مقابلہ میں اللہ نے عورت کو تخلیقی قوت عطا کی ہے۔ اس میں حمل، ولادت، رضاعت اور تربیت کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے پاس وقت بھی کم ہوتا ہے اور مواقع بھی کم۔ علامہ رشید رضا نے اپنے استاذ محمد عبدہ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت کی استعداد کے مطابق بوجھ ڈال کر حساب برابر کر دیا ہے۔ اب آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ میاں بیویوں کے ’قوّام‘ (کفیل) ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے اور دوسرا سبب جو اس فضیلت کا نتیجہ ہے یہ ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی مالی کفالت کو وجہ فضیلت قرار دیا ہے۔ سید قطب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یہ ایک خاندانی نظام ہے اس میں شریک مرد اور عورت مستقل شخصیت کے مالک ہیں۔ دونوں کے حقوق یکساں ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘ میاں بھی راعی (نگران) اور بیوی بھی، دونوں جواب دہ ہیں۔ میں نے اپنے مضمون میں امام مالکؒ اورامام شافعیؒ کے مسلک کا ذکر کیا ہے کہ اگر میاں نان و نفقہ کی ادائیگی سے عاجز ہو تو وہ قوامیت کا حق کھو دیتا ہے اور بیوی اس بنیاد پر اس سے اپنی جان چھڑوا سکتی ہے۔

ہمارے گھروں میں کام کرنے والی بے شمار بچیوں کے شوہر یا باپ نشہ کرتے ہیں اور ان کی کمائی کھاتے ہیں کیا وہ پھر بھی سربراہ کہلائیں گے؟

فضیلت کی اس بحث کے آخر میں صاحب مضمون نے وہی بات کہہ دی ہے جو میں کہہ رہا ہوں یہ کہ ’بعضہم علی بعض‘ کی ترکیب سے مرد کی مطلق فضیلت کا احتمال ختم ہو گیا ہے۔ یہی بات تو میں کہہ رہا ہوں پھر بحث کس بات کی؟

۴۔ چوتھا اعتراض لفظ قنوت کی لغوی بحث کے بارے میں ہے۔ وہ یہ بحث نہ کرتے تو بہتر ہوتا، کیونکہ اس سے ان کی لغت دانی کا پول کھل گیا ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں اس لفظ کے ضمن میں ابن فارس اور امام راغب جیسے جغادری اہل لغت کا حوالہ دیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں رضوان اللہ صاحب نے اپنے آپ کو بطور اصمعی دوراں پیش کیا ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ابن فارس ’’مقاییس اللغۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قنت‘ صرف اور صرف دین کے بارے میں اطاعت پر دلالت کرتا ہے۔ دین کے راستے میں استقامت کو قنوت کہا گیا ہے۔ نماز میں طول قیام اور سکوت کو بھی قنوت کہتے ہیں۔ ’’مفردات‘‘ میں امام راغب نے قنوت کے معنی خشوع اور اطاعت میں التزام کے کیے ہیں، یعنی خشوع و خضوع اور دوام اطاعت کے عناصر ہیں۔ جس اطاعت میں یہ عناصر مفقود ہوں گے اسے قنوت نہیں کہا جا سکتا۔ قرآن کی آیات ۲: ۲۱۶،۲۳۸، ۳۰:۲۶ اور ۳۳:۴۱ میں سے کسی آیت میں بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کے سوا کسی انسان کی اطاعت کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے عام ہونے کی شہادت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اس کے لیے نہ کسی عربی محاورہ کا حوالہ دیا ہے اور نہ کسی شعر اور نہ کسی لغت کا۔ آخر یہ شہادت کہاں پائی جاتی ہے؟ لکھتے ہیں اہل زبان کا محاورہ ہے ’قنتت المرأۃ لزوجہا‘۔ یہ محاورہ کہاں ہے کچھ تو بتائیں۔ اسی محاورے کی وجہ سے میں نے ان کو اصمعی دوراں کا لقب دیا ہے۔ بیس برس تک میں ریاض سعودی عرب میں رہا۔ اہل نجد کے علاقہ کی زبان معروف ہے۔ میرے رفیق کار نجد کے سعودی، مصری، فلسطینی اور شامی تھے۔ میں نے کبھی کسی کے منہ سے یہ محاورہ نہیں سنا۔ ہاں پنجاب کا ایک نو آمیز جس کی شناسائی عربی زبان سے واجبی سی ہے وہ کہہ رہا ہے کہ اہل زبان کا محاورہ ہے۔

ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے

قرآن مجید میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہ آیات میں نے پیش کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ اور کون سی شرعی دلیل کی ضرورت ہے۔

صاحب مضمون کی بحث کا معیار یہ ہے کہ دیدہ دلیری سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ لفظ میاں کی اطاعت کے لیے بے تکلف استعمال ہوتا ہے اور ثبوت میں ایک خود ساختہ محاورہ بغیر کسی حوالے کے دے دیا ہے۔ گویا وہ کہہ رہے ہیں چھوڑو قرآن کو، رہنے دو ابن فارس اور امام راغب کو میرے قول کی طرف دھیان دو، کیونکہ میں نے برسہا برس تک صحرا نوردی کر کے صحرا نشینوں سے عربی محاورہ اخذ کیا ہے۔

مضمون نگار کے ذہن میں ایک ہی سودا سمایا ہوا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ نیک عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے شوہر کی فرماں بردار ہو۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے وہ کبھی سبب اور مسبب کی اور کبھی متعلق اور غیر متعلق کی لایعنی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔

آیت کے جس حصے کو انھوں نے تختۂ مشق بنایا ہے وہ یوں ہے ’فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ’’پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرماں برداری کرنے والیاں، رازوں کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں بوجہ اس کے اللہ نے بھی ان کی یا رازوں کی حفاظت فرمائی ہے۔‘‘ امام رازی نے اس ٹکڑے کا خوب صورت ترجمہ کیا ہے ’’یعنی وہ اللہ کی اطاعت کرنے والیاں اور پیٹھ پیچھے حفاظت کرنے والیاں ہیں۔‘‘ اللہ کے حقوق کو مقدم رکھا گیا ہے پھر اس کے بعد زوج کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور زوج کے حقوق کی حفاظت ان پر واجب کی گئی ہے، کیونکہ اللہ نے ان کے حقوق کو بھی زوج پر واجب کیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ محاورے میں کہا جاتا ہے ’ھذا بذاک‘ ’’یہ اس کے مقابلہ میں ہے۔‘‘ یہ عبارت امام رازی کی ہے جو انھوں نے زیربحث ٹکڑے کے ضمن میں ’’تفسیر کبیر‘‘ میں لکھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مضمون نگار کی تسلی ہو جائے گی۔

مضمون نگار مجھے ایک سوال کا جواب دیں: ’کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیک عورتیں وہ ہوتی ہیں جو شوہر کی فرماں بردار ہوں؟‘ کیا وہ عورت جو لچے لفنگے شوہر کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے وہ صالح ہو سکتی ہے، ہاں جو عورت اللہ کی فرماں بردار ہو گی وہ اپنے شوہر کا صرف جائز حکم مانے گی کیونکہ ’لا طاعۃ فی معصیۃ الخالق‘ اللہ کی نافرمانی میں وہ کسی کا حکم نہیں مانے گی۔ اطاعت صرف اللہ کی ہو گی اس لیے یہاں پر وہ لفظ استعمال ہوا ہے جوصرف اللہ کی اطاعت کے ساتھ مخصوص ہے۔

صالحات کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ اللہ کی فرماں بردار ہوتی ہیں۔ صلاح و تقویٰ کے باعث یہ ان کی فطرت بن جاتی ہے کہ وہ اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتیں اور پیٹھ پیچھے بندوں کے حقوق کی بھی حفاظت کرتی ہیں، کیونکہ اللہ ان کی مراقبت کرتا ہے اور ان کو خباثت سے بچائے رکھتا ہے۔ بعض مرد تو بیوی کو خود خیانت پر آمادہ کرتے ہیں مگر جو صالحات اللہ کی فرماں بردار ہوتی ہیں وہ خیانت سے بچ جاتی ہیں۔ غیب یا راز کی حفاظت وہ اپنی فطرت ثانیہ کی وجہ سے کرتی ہیں نہ کہ مرد کو خوش کرنے کے لیے۔ اللہ نے یہ ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے کہ ایسی صالح عورتیں گھر کو ٹھیک طریقے سے چلانے کی اہل ہوتی ہیں اس میں مرد کی فضیلت یا برتری کا کوئی شائبہ نہیں جیسا کہ صاحب مضمون کا وہم ہے۔

الغیب‘ سے مراد راز مولانا اصلاحی نے لیا ہے۔ وہ پیٹھ پیچھے کی اصطلاح کو مناسب نہیں سمجھتے۔ مذکورہ تمام صفات عورتوں کے ساتھ خاص نہیں کہ وہ صرف مرد کی تابع داری کرتی رہیں اور مرد ان پر حکم چلاتا رہے۔ اللہ کی فرماں برداری اور رازوں کی حفاظت مردوں سے بھی مطلوب ہے۔ جتنی یہ عورتوں پر واجب ہیں مردوں پر بھی اتنی ہی واجب ہیں ’الحافظین فروجہم والحافظات‘ کی ترکیب مردوں اور عورتوں کے لیے قرآن حکیم میں استعمال ہوئی ہے۔

اگر ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ یہ کفالت گھر کے اندر تقسیم کار کا ایک نظام ہے تو آیۂ مبارکہ بڑی آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔ مشکل وہاں پیش آتی ہے جہاں ہم مرد کی فضیلت کا قضیہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ صاحب مضمون کی سوئی بھی اسی فضیلت پر اٹکی ہوئی ہے۔

مضمون کے آخر میں صاحب مضمون نے ایک لمبا چوڑا بیان اپنے موقف کی تائید میں داغ دیا ہے۔ کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ گھر کا جو سربراہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہو گا وہ ظالم ہو گا۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی نظام کا سربراہ عادل ہو گا۔ کاش یہ نظام قائم ہو جائے۔ وگرنہ خلافت راشدہ کے بعد آج تک یہ نظام قائم نہ ہو سکا۔ بعد کے زمانہ کے سربراہ نظام خلافت کی پیداوار تھے۔ انھوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے؟ اپنے حرم میں لونڈیوں کو بھر کر عورت کو رسوا کیا گیا۔ رامش و رنگ کی محفلوں میں انھیں اپنی شہوت پرستی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی منڈیاں لگائی گئیں۔

دوسرے صاحب مضمون نے عورت اور مرد کے درمیان مساوات پر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ میرے عزیز! یہ مساوات قرآن نے قائم کی ہے۔ قرآن نے عورت کو انسان سمجھ کر مرد کے مساوی حقوق عطا کیے ہیں۔ آپ نے اپنے مضمون میں ’للرجال علیہن درجۃ‘ (۲: ۲۲۸) کا ذکر کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ مرد اور عورت کی باہمی فضیلت پر ایک مضمون لکھیں۔ اس کا جواب میں دوں گا اور بتاؤں گا کہ یہ درجہ فضیلت کا نہیں ذمہ داری کا ہے۔ امام ابن جریر طبری کا یہی قول ہے۔

میرا ایک مشورہ ہے کہ آیندہ بحث میں علمی انداز اختیار کرتے ہوئے حوالہ ضرور دیا کریں۔ ورنہ بحث بے وقعت ہو جاتی ہے۔

_______________

B