HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۲۹- ۳۷ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


قَاتِلُواالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَابِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍوَّھُمْ صٰغِرُوْنَ{۲۹}
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ{۳۰} اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ{۳۱} یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّا ٓاَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ{۳۲} ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ{۳۳}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ{۳۴} یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِجَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ{۳۵}
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ{۳۶} اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ{۳۷}
(اِن مشرکوں کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں۱۷۳؎، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۱۷۴؎۔۲۹
(اُن کا دین اب یہی ہے کہ) یہودی کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں۱۷۵؎ اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔یہ اُن کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ وہ اُنھی منکروں کی سی بات کہہ رہے ہیں جو اُن سے پہلے (ہو گزرے ) ہیں۱۷۶؎۔اُن پر خدا کی مار، وہ کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔ اللہ کے سوا اُنھوں نے اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا ڈالا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی،۱۷۷؎دراں حالیکہ اُنھیں ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہ پاک ہے۱۷۸؎ اُن چیزوں سے جنھیں وہ شریک ٹھیراتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ خدا کے اِس نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ اِن منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔۱۷۹؎وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اُس کو غالب کر دے، خواہ مشرکین اِسے کتنا ہی نا پسند کریں۱۸۰؎۔۳۰-۳۳
ایمان ۱۸۱؎والو،اِن فقیہوں اور راہبوں میں بہتیرے ایسے ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۱۸۲؎۔سو اُن لوگوں کو دردناک عذاب کی خوش خبری دو جو (اِن میں سے) سونا اور چاندی ڈھیر کر رہے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۱۸۳؎۔ اُس دن جب دوزخ میں (اُن کے ) اِس (مال)پر آگ دہکائی جائے گی، پھر اُن کی پیشانیاں اور اُن کے پہلو اور اُن کی پیٹھیں اِس سے داغی جائیں گی ـــــ یہی ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا۔ سو چکھو اُس کو جو تم جمع کرتے رہے ہو۱۸۴؎۔۳۴-۳۵
(ایمان والو، تم اِن سے لڑو اور یاد رکھو کہ) اللہ کے نزدیک جس دن سے اُس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے، مہینوں کی تعداد اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے۱۸۵؎ جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۱۸۶؎۔یہی دین قیم ہے۱۸۷؎، سواِن (چار مہینوں) میں (کسی کے خلاف اقدام سے) اپنی جان پر کوئی ظلم نہ کر بیٹھو اور مشرکوں سے (بالخصوص) سب مل کر لڑو، جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (اُس کے حدود کی خلاف ورزی سے) بچنے والے ہوں۱۸۸؎۔(حقیقت یہ ہے کہ) مہینوں کا ہٹا دینا۱۸۹؎ کفر میں ایک اضافہ ہے جس سے یہ منکرین گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۱۹۰؎۔ کسی سال یہ حرام مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام ٹھیراتے ہیں تاکہ خدا کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کرکے اُس کے حرام کیے ہوئے کو (اپنے لیے) حلال بنا لیں۔ اِن کے برے اعمال اِن کے لیے خوش نما بنا دیے گئے ہیں۱۹۱؎۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ اِس طرح کے منکروں کو وہ راہ یاب نہیں کرے گا۔۳۶-۳۷

۱۷۳؎ یہ لوگ اگرچہ ایمان کے مدعی تھے، لیکن درحقیقت اِن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں مانتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ایمان کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ کے شرائط کے تحت ہو، لیکن اُن کا ایمان اپنی خواہشوں اور بدعات کے تحت تھا۔ مشرکانہ عقائد ایجاد کر کے اُنھوں نے خدا کی نفی کر دی، اپنے آپ کو چہیتی اور مغفور امت قرار دے کر آخرت کا ابطال کر دیا اور اللہ اور رسول کی حرام ٹھیرائی ہوئی چیزوں کو جائز بنا کر شریعت کو کالعدم کر دیا۔ پھر ستم بالاے ستم یہ کیا کہ اللہ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے سے اپنے وعدے کے مطابق جو دین حق بھیجا تو اُس کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا، بلکہ اُس کی مخالفت میں اپنا پورا زور صرف کر دیا اور اُس کے خلاف برابر سازشوں میں سرگرم رہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۵۹)

۱۷۴؎ یعنی مغلوب ہو کر اور اپنی اِس مغلوبیت اور محکومی کو تسلیم کرکے اُس کی علامت کے طور پر جزیہ ادا کریں۔ اوپر مشرکین کی سزا بیان ہوئی ہے کہ ایمان نہ لائیں تو قتل کر دیے جائیں۔ یہ اُن اہل کتاب کی سزا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ یہ رعایت اِس لیے کی گئی ہے کہ اہل کتاب اصلاً توحید ہی سے وابستہ تھے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ بھی شرک کے مرتکب تھے، مگر بنی اسمٰعیل کی طرح اُنھوں نے شرک کو دین اور عقیدے کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا تھا۔ قرآن نے دوسری جگہ واضح کر دیا ہے کہ لوگ مشرک نہ ہوں تو قیامت میں بھی اِسی طرح رعایت کے مستحق ہوں گے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ قرآن کا یہ حکم بھی اُس کے قانون اتمام حجت کی ایک فرع اور اُنھی اقوام کے ساتھ خاص تھا جن پر خدا کے آخری پیغمبر کی طرف سے حجت پوری ہو گئی۔ اُن کے لیے یہ اُسی طرح کا عذاب تھا جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کے مخاطبین پر ہمیشہ نازل کیا جاتا رہا ہے۔ اُن کے بعد اب دنیا کے کسی غیر مسلم سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۷۵؎ یہ وہی عزرا (Ezra) ہیں جنھیں یہودی اپنے دین کا مجدد کہتے ہیں۔ اِن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ یہودی اپنے دور ابتلا میں تورات کو گم کر بیٹھے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اِنھی عزرا نے اُسے اپنی یادداشت سے ازسرنو مرتب کیا۔ چنانچہ بنی اسرائیل اِن کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ نماے عرب میں جو یہودی قبائل آباد تھے، اُن کے اندر یہ تعظیم اِس حدتک بڑھ گئی تھی کہ اُنھوں نے اِن کو خدا کا بیٹا بنا ڈالا تھا۔

۱۷۶؎ یہ اُن مشرک اقوام کی طرف اشارہ ہے جو اپنی دیومالائوں میں آفتاب کو خدا بنا کر اُس کے لیے بیٹا فرض کیے ہوئے تھیں۔ یہود و نصاریٰ اُنھی سے متاثر ہوئے اور اپنی کتابوں کے بعض الفاظ کو موقع و محل سے ہٹا کر اُن کے وہ معنی بیان کرنے لگے جو اِن نئے مشرکانہ عقائد کے لیے بطور سند پیش کیے جا سکیں۔

۱۷۷؎ یعنی وہی حیثیت دے دی ہے جو رب العٰلمین کے لیے ماننی چاہیے۔ چنانچہ اُن کے لیے تحلیل و تحریم کے خدائی اختیارات مان کر اُن کے ہر حکم اور ہر فیصلے کو اُسی طرح واجب الاطاعت سمجھتے ہیں، جس طرح خدا کے احکام اور فیصلوں کو واجب الاطاعت سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے مقابلے میں کتاب الٰہی کی کوئی صریح آیت اور پیغمبر کا کوئی واضح ارشاد بھی پیش کر دیا جائے تو اُسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

۱۷۸؎ اصل میں ’سُبْحٰنَہٗ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ تنزیہہ کا کلمہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس کے اندر توحید کی نہایت واضح منطقی دلیل بھی ہے۔ وہ یوں کہ کسی چیز کی مسلم اور بنیادی صفات سے بالکل متناقض صفات کااُس کے ساتھ جوڑ ملانا بالبداہت خلاف عقل ہے۔ اِس اصول کے مطابق خداکا کسی کو شریک ٹھیرانا اُس کی شان الوہیت کے منافی ہے، کیونکہ اِس سے اُس کی مسلمہ صفات کی نفی لازم آتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۶۳)   

۱۷۹؎ یہ اکمال دین کی تمثیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ جو کچھ چاہتے ہیں ، اُس کے علی الرغم جو دین ہم نے اپنے پیغمبر کو پہلی وحی سے دینا شروع کیا تھا، اُسے پورا کریں گے اور اُس کی دعوت وہاں تک پہنچا دیں گے، جہاں تک پہنچنا اُس کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔

۱۸۰؎ یہ غلبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اور اُن مشرکین کی خواہشوں کے علی الرغم قائم ہونا تھا جو آپ کے مخاطبین اولین تھے اور جن کا ذکر ’لَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں لفظ ’کُلّ‘ کو اُسی تخصیص کے ساتھ لیا جائے جو ہم نے ترجمے میں واضح کر دی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کی یہ بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں دین حق کا غلبہ پورے جزیرہ نماے عرب پر قائم ہو گیا۔ یہ ایک سنت الہٰی کا ظہور تھا جو رسولوں کے باب میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ اُن کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ اُنھیں غلبہ عطا فرماتے اور اُن کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں۔ اِس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ آخرت کی جزا و سزا کا تصور بھی اُسی معیار پر ثابت کر دیا جائے جس معیار پر سائنسی حقائق معمل (laboratory) کے تجربات سے ثابت کیے جا تے ہیں۔ اِس کا انقلاب کی کسی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس طرح کہ دورحاضر کے بعض مفکرین نے سمجھا ہے۔ یہاں اِس کا ذکر مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے ہوا ہے کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور مشرکین اور اہل کتاب، دونوں کے خلاف جس آخری اقدام کا حکم اُنھیں دیا گیا ہے، وہ اِسی فیصلے کے نفاذ کے لیے دیا گیا ہے۔

۱۸۱؎ اوپر وہ جرائم بیان ہوئے ہیں جن کے مرتکب یہ لوگ اپنے خالق کے حقوق کے معاملے میں ہوئے، اب اِن کے وہ جرائم بیان ہورہے ہیں جن کا ارتکاب یہ خلق کے معاملے میں کرتے رہے تھے۔ اِس میں بالخصوص علما اور مشائخ کا ذکر کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ خاص پہلو بھی ملحوظ رہے کہ عوام کے کردار کے بجاے یہاں علما اور مشائخ کے کردار کو بے نقاب کیا ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آجائے کہ جن کے علما اور مشائخ کا کردار اِس درجہ فاسد ہو چکا ہے، اُن کے عوام کا کیا ذکر اور اب اُن کی اصلاح کی کیا توقع! اصلاح کا یہ ذریعہ علما و مشائخ ہی ہو سکتے تھے۔ جب وہی مال و دولت کے پجاری بن کر رہ گئے ہیں تو اصلاح کن کے ہاتھوں ہو گی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۶۵)

۱۸۲؎ یعنی جب کوئی دعوت اصلاح کے لیے اٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنے الزامات ، اعتراضات اور فتووں کے ساتھ اُس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

۱۸۳؎ زکوٰۃ ادا کردینے کے بعد حال اور مستقبل کی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے لیے روپیہ جمع رکھنا ممنوع نہیں ہے، لیکن خلق یا خالق کی طرف سے اُس کے انفاق کا کوئی مطالبہ سامنے آجائے اور آدمی اُسے خرچ کرنے سے انکار کر دے تو اُس کی سزا وہی ہے جو قرآن نے آگے بیان کر دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہی انفاق حکمت کا خزانہ بخشتا ہے، اِسی سے نورقلب میں افزونی ہوتی ہے۔ اگر مال کے ڈھیر رکھتے ہوئے کوئی شخص اپنے پاس پڑوس کے یتیموں، بے کسوں، ناداروں سے بے پروا رہے یا دعوت دین، اقامت دین، تعلیم دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے دوسرے کاموں سے بے تعلق ہو جائے تو وہ عند اللہ مواخذے اور مسئولیت سے بری نہیں ہو سکتا ،اگرچہ اُس نے اپنے مال کا قانونی تقاضا پورا کر دیا ہو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۶۶)

۱۸۴؎ یہ سزا جرم کی مناسبت سے ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ دولت جمع کرنے کی سرگردانی میں بڑا دخل دو چیزوں کو ہوتا ہے: ایک ہم چشموں میں اپنا سر اونچا رکھنے کی خواہش، دوسری اپنے ذاتی آرام و راحت کی طلب۔ فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں سربلندی اور فخر کی خاطر دولت جمع کریں گے، اُن کی دولت بروز قیامت اُن کی پیشانی پر داغ لگائے گی۔ اِسی طرح جو لوگ نر م ریشمین و مخملیں گدوں، غالیچوں، قالینوں اور صوفوں کے درپے ہو کر انفاق کی سعادت سے محروم رہیں گے، اُن کی یہ بچائی ہوئی دولت اُن کے پہلوئوں اور اُن کی پیٹھوں کو زخمی کرے گی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۶۷)

۱۸۵؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اہل عرب نسی کی خاطر، جس کا ذکر آگے آ رہا ہے، مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنا لیتے تھے، جبکہ چاند مہینے میں ایک ہی دفعہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اِس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔

۱۸۶؎ یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرے کے لیے۔

۱۸۷؎ یعنی یہ حکم کہ سال میں چار مہینے حج و عمرہ کی غرض سے جنگ و جدال کے لیے حرام ہوں گے۔ فرمایاکہ یہ ٹھیک وہی دین ہے جو خدا نے اپنے پیغمبروں ، بالخصوص ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے ذریعے سے اُن کے ماننے والوں کو دیا تھا۔

۱۸۸؎ مطلب یہ ہے کہ پیچھے جس قتال کا حکم دیا گیا ہے، وہ اگرچہ خدا کا عذاب ہے، لیکن اُس میں بھی حرام مہینوں کا لحاظ ضروری ہے۔ تاہم اِن کے حدودحرمت کا لحاظ رکھتے ہوئے جنگ لازماً کی جائے گی اور یہ جنگ مشرکین سے من حیث الجماعت ہوگی۔ اِس میں کسی رشتہ و قرابت ، کسی دوستی اور کسی سیاسی، معاشرتی یا معاشی مفاد کی بنا پر کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ یہ جنگ کفر کے استیصال کے لیے ہے، اِس میں اِس نوعیت کے تمام تعلقات بالاے طاق رکھ دیے جائیں گے۔ یہی ایمان و اسلام کا تقاضا ہے۔

۱۸۹؎ اصل میں ’نَسِیْٓئ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ عرب جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اِس کے دو طریقے تھے: ایک یہ کہ کسی کے خلاف لڑائی چھیڑنا پیش نظر ہو تو حرام مہینے کی جگہ حلال مہینہ رکھ کر لڑائی کو جائز کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ تجارتی اغراض کے لیے قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیا جائے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے۔

۱۹۰؎ نسی کا یہ طریقہ اہل عرب اِس لیے اختیار کرتے تھے کہ اِس طرح کاروباری مفادات بھی محفوظ رہتے تھے اور حرام مہینوں کی تعداد بھی پوری ہو جاتی تھی جو دین داری کا تقاضا تھا، لیکن قرآن نے اِسے کفر میں ایک اور اضافہ قرار دیا۔ اِس لیے کہ ابراہیم علیہ السلام کے جس دین سے وہ پہلے ہی بڑی حد تک منحرف تھے، اُن کی یہ حیلے بازی اُس سے مزید انحراف کا باعث بن جاتی تھی۔ فرمایا کہ اِس سے یہ خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، لیکن الٹا اُس کے قانون کی زد میں آجاتے ہیں اور گمراہی کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ جو لوگ دین و شریعت کے معاملے میں حیلہ بازی کے طریقے اختیار کریں، وہ کبھی راہ یاب نہیں ہوتے۔ اللہ اُنھیں خود اُن کے پیدا کیے ہوئے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ 

۱۹۱؎ یعنی اِس حیلہ بازی کو بڑی فقاہت سمجھتے ہیں، لیکن نہیں جانتے کہ یہ آخری درجے کی بد عملی ہے جو شیطان نے اِن کی نگاہوں میں خوش نما بنا دی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B