HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

محترم قاضی صاحب

قاضی حسین احمد چل بسے۔ عقیدت و محبت کے پھول اب بے مصرف ہوگئے۔ تنقید و اختلاف کے سارے تیر اب ترکش میں پڑے رہیں گے۔ قاضی صاحب وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں انسان ان باتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ان کا نامۂ اعمال بند ہو چکا۔ ہماری کتاب البتہ کھلی ہے۔ لاریب! ہم نے بھی اپنے پروردگار کے دربار میں جانا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ عقیدت کا بھی اور تنقید کا بھی۔ یہ اس ہستی کا دربار ہے جو دل کے کسی گوشے میں انگڑائی لینے والے خیال سے بھی واقف ہے۔

قاضی صاحب غیر معمولی تحرک اور توانائی رکھنے والے تھے۔ تین بار ان کا دل کھولا گیا، لیکن ان کی سرگرمیوں میں کسی ڈاکٹر کا نشتر حائل نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر ہی کیا، کسی مخالف کا وار اور کسی تنقید کا حملہ ان کے راستے کی دیوار نہ بن سکا۔ وہ جسے درست سمجھتے تھے، اس پر قائم رہے اور اسی استقامت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

قاضی صاحب بائیس برس جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے۔ ان کے دور امارت میں جماعت کے خدوخال بدل گئے۔ پرانی صورت سے مانوس لوگوں کو نئی شکل اچھی نہیں لگی۔ اختلاف کی لہریں سونامی بن گئیں اور جماعت کو ایک نئے ماچھی گوٹھ سے گزرنا پڑا۔ یہ کم تکلیف دہ نہیں ہوتا کہ نیا سفر درپیش ہو اور پرانے ساتھی بچھڑ جائیں۔ یہ قافلہ پہلی بار ماچھی گوٹھ سے گزرا تو سید ابوالاعلیٰ مودودی کو مولانا امین احسن اصلاحی کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ مولانا اصلاحی نے اپنے سابق امیر کے نام آخری خط کا اختتام اس جملے پر کیا: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ کی رفاقت سے محروم ہو کر میں کیا کچھ کھو رہا ہوں، لیکن آپ کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ نے مجھ جیسے خیرخواہ مخلص کے مشوروں کی قدر نہیں کی ہے تو آپ کو برے مشیروں کے مشورے ماننا پڑیں گے.....۔‘‘ مولانا اصلاحی تو عالم تھے اور اس جدائی کے باوصف ان کا جنون فارغ نہیں بیٹھا۔ انھوں نے ’’تدبر قرآن‘‘ جیسا شاہ کار تخلیق کر ڈالا، مگر انھیں سید مودودی جیسا ساتھ میسر نہ آسکا۔ اس کی کسک ساری عمر ان کے ہم رکاب رہی۔ افسوس در افسوس یہ ہے کہ مولانا مودودی کے بارے میں مولانا اصلاحی کی پیش گوئی بھی پوری ہوئی۔ قاضی صاحب امیر ہوئے تو اختلاف کرنے والے نعیم صدیقی مرحوم جیسے لوگ تھے۔ ان کا معاملہ بھی یہ تھا کہ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔ وہ داغ مفارقت دے گئے۔ جماعت کو پھر کوئی نعیم صدیقی نہ مل سکا۔ بایں ہمہ نعیم صدیقی کو بھی کوئی جماعت نہ مل سکی۔ وہ مولانا اصلاحی نہ تھے۔ یوں وہ بھی گوشۂ گم نامی کی نذر ہو گئے۔

قاضی صاحب امیر بنے تو اس وقت تک جماعت کی جدوجہد لاحاصل تھی۔ پچاس برس بعد بھی اقتدار کے ایوان ان سے اتنے ہی فاصلے پر تھے، جتنے پہلے دن تھے۔ جماعت کا فلسفہ یہ ہے کہ اصلاح صرف صالحین کو منصب قیادت تک پہنچانے ہی سے ہو سکتی ہے۔ جب یہ منصب دور سے دور تر ہوتا دکھائی دیا تو نئی سوچ کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اس وقت فکری قیادت کے منصب پر خرم مراد مرحوم فائز تھے۔ میں انھیں جماعت کا پہلا مجتہد فی المذہب کہتا ہوں۔ ان کے نخل فکر پر پاکستان اسلامک فرنٹ کے برگ و بار آئے تو قاضی صاحب کے جنون کو گویا ایک میدان عمل مل گیا۔ جماعت میں یہ خیال مستحکم ہوا کہ جمہوری معاشرے میں محدود رکنیت کے اصول پر قائم جماعت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خرم مراد نے نئی سوچ دی کہ انتخابات توسیع دعوت کے لیے نہیں، جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں۔ قاضی صاحب اس کی عملی تفسیر بن کر مرد میدان بن گئے۔ انھوں نے چاہا کہ جماعت کی کایا کلپ ہو جائے اور لوگ نئے زاویے سے سوچنے لگیں۔ انھوں نے کہا ’’مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک جیسی برائیاں ہیں‘‘۔ جماعت اس سے پہلے یہ کہتی رہی تھی کہ پیپلز پارٹی جیسی کوئی برائی نہیں ہو سکتی۔ جماعت کے لوگوں نے قاضی صاحب کی بات مان کر نہیں دی۔ محمد صلاح الدین مرحوم جیسے اہل صحافت نے قاضی صاحب کے مقابلے میں جماعت کے نظریاتی کارکن کو زیادہ متاثر کیا۔ انتخابات ہوئے تو معلوم ہوا کہ جماعت کا نظریاتی کارکن قاضی صاحب سے اتفاق نہیں کرتا۔ قاضی صاحب کو لوٹنا پڑا۔ یہ مراجعت، میرا تاثر ہے کہ ایک مایوسی میں ڈھل گئی۔ قاضی صاحب نے اپنے خوابوں کی تعبیر کہیں اور تلاش کرنا چاہی۔ کبھی متحدہ مجلس عمل اور کبھی ملی یک جہتی کونسل۔ یہ ان کا آخری پڑاؤ تھا۔

قاضی مزاجاً میدان کارزار کے آدمی تھے۔ مجاہد تھے۔ سیاست کا میدان ان کے جذبۂ جنوں کے لیے ایک قفس تھا۔ انھیں اپنی اڑان کے لیے افلاک کی وسعت چاہیے تھی۔ ان کی قوت کار کو تو ایسا میدان چاہیے تھا جہاں روز نئے چیلنج ہوں۔ ان کا معاملہ وہی تھا جو اقبال نے بیان کیا ہے کہ

خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں

وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

انھوں نے میدان سیاست کو بھی میدان جنگ بنانا چاہا۔ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سیاست کا مزاج نہیں بدلا اور قاضی صاحب بھی خود کو نہ بدل سکے۔ دونوں میں کش مکش جاری رہی، یہاں تک کہ آخری بلاوا آگیا۔

قاضی صاحب سے اختلاف کے بہت سے زاویے تھے۔ لیکن ان کا احترام اس سے ماورا تھا۔ ان کا دور امارت ختم ہوا تو اسلام آباد میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب ہوئی۔ تمام مذہبی اور سیاسی نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواب زادہ نصر اللہ خان کے بعد قوم کو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو پوری قوم کو جمع کر سکتی ہو۔ اب نظریں اٹھتی ہیں تو قاضی صاحب کی طرف۔ یہ ان کے لیے بڑا خراج تحسین تھا۔ یقیناًوہ اس کے مستحق تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس حوالے سے شاید ہی کوئی دوسرا نام پیش کیا جا سکے۔ اس منصب کے لیے مقاصد جلیل ہونے چاہییں۔ اور یہاں ان لوگوں کا راج ہے جو قلیل مقاصد کے اسیر ہیں۔

قاضی صاحب کئی حوالوں سے یاد رکھے جائیں گے۔ میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی قومی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے مسلکی اختلاف کی خلیج کو کم کیا۔ متحدہ مجلس عمل کی سیاست بحث کا موضوع رہے گی لیکن اس فورم کے وجود میں آنے سے مذہبی مسالک کے مابین فاصلہ کم ہوا۔ یہی کردار ملی یک جہتی کونسل بھی ادا کر سکتی ہے اگر سیاست دوراں سے دور رہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ان کی وفات سے اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تو وہ یہی کونسل ہے۔ یہ کم المیہ نہیں کہ اس قوم کے پاس اب قاضی صاحب کا متبادل کوئی نہیں ہے جو سب مسالک کو ایک جگہ جمع کر سکے۔

قاضی صاحب انسان تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معصوم نہیں تھے۔ ہماری روایت یہی ہے کہ جانے والے کی خوبیوں کو یاد کیاجاتا ہے۔ قاضی صاحب کے معاملے میں ان کی تلاش مشکل نہیں۔ ہم انھیں تادیر یاد رکھیں گے۔ قاضی حسین احمد صاحب ان لوگوں میں سے تھے جن کے لیے زندگی ان ہی شب و روز کا نام نہیں ہے جو سطح زمین پر بسر ہوتے ہیں ۔ وہ اس زندگی پر یقین رکھتے تھے جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ایسا آدمی کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ عقیدت و محبت اور تنقید و اختلاف کا ہر رشتہ ختم ہوا۔ صرف دعا کا رشتہ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انھیں اپنی مغفرت سے نوازے اور اس شہر کا مکیں بنائے جس کی تمنا ہر مسلمان اپنے دل میں رکھتا ہے۔ جہاں نہریں بہتی ہیں اور ایک دائمی آسودگی شہریوں کا مقدر ہوتی ہے۔

_______________

B