HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

نظام سرمایہ داری اور اسلام (2)

الطاف احمد اعظمی*


[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس

میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(۲)


مغربی ممالک کے مقابلے میں روس کے مزدوروں کی پست حالت کی اصل وجہ سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔ اور یہی وہ بیماری ہے جس کو دور کرنے کے لیے مارکس نے اجتماعی ملکیت کا نظام پیش کیا تھا، لیکن روس ایک طویل مدت گزر جانے کے باوجود اس بیماری کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹ روس کا مزدور اسی طرح استحصال کا شکار تھا جس طرح وہ بورثوا سوسائٹی میں سرمایہ داروں کے استحصال کا عذاب جھیل چکا تھا۔

روس کے محنت کشوں کی جاں فشانی سے جو خطیر سرمایہ حاصل ہوتا تھا اس کے ایک بڑے حصے کو اصولاً مزدوروں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سرمائے کا نصف حصہ قومی خزانے میں جو کمیونسٹ سماج کا بورثوا طبقہ تھا، جمع ہو جاتا تھا اور نصف حصے سے حکومت کے ارباب انتظام، افسروں، کارکنوں اور منیجروں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور جو باقی بچ رہتا تھا اس سے مزدوروں کو اجرتیں دی جاتی تھیں اور سوشل انشورنس کے نام سے ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔

سرمایے کی اس تقسیم کو منصفانہ کون کہہ سکتا ہے۔ جو ہاتھ دولت پیدا کرے اس کو کم تنخواہ ملے اور جو لوگ محنت نہ کریں ان کو زیادہ تنخواہیں دی جائیں۔ کیا یہ بات خود مارکسزم کے اصولوں کے خلاف نہیں تھی؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قومی سرمائے کا نصف حصہ قومی خزانے میں اس لیے جمع کر دیا جاتا تھا تاکہ اس رقم سے صنعت و حرفت اور تعلیم کو فروغ دیا جائے اور غیر ملکی سامراج کے خلاف قومی دفاع کو مضبوط بنایا جائے، لیکن یہ سب کام نظام سرمایہ داری میں بورثوا طبقہ بھی انجام دیتا تھا۔ پھر وہ مطعون کیوں تھا، کیا وہ فاضل سرمایے کو محض عیش و عشرت میں اڑا دیتا تھا؟ بورثوا طبقے کی قومی خدمات کو خود مارکس اور انگلس نے ان لفظوں میں سراہا ہے:

’’بورثوا طبقہ وہ پہلا طبقہ ہے جس نے دکھا دیا ہے کہ انسان کی کارگزاری کیا کچھ کر سکتی ہے۔ اس نے وہ عجائبات پیش کیے ہیں جن کے مقابلے میں مصر کے اہرام، روم کی نہریں اور گاتھی نمونہ کے شان دار گرجے ہیچ ہیں۔ اس نے وہ مہمیں سر کی ہیں جن کے سامنے تمام اگلے زمانوں کی قوموں کی ہجرتیں اور صلیبی جنگیں مات ہیں۔‘‘(کمیونسٹ مینی فسٹو، ص ۶۰)

یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو:

’’بورثوا طبقہ نے یہ مشکل ایک سو برس کے دور میں حکومت میں اتنی بڑی اور دیوپیکر قوتیں تخلیق کی ہیں کہ پچھلی تمام نسلیں مل کر بھی نہ کر سکی تھیں۔ قدرت کی طاقتوں پر انسان کی کارفرمائی، مشینیں، صنعت اور زراعت میں کیمیا کا استعمال، دخانی جہاز رانی، ریلیں، تار برقی، کھیتی کے لیے پورے کے پورے براعظموں کی صفائی، دریاؤں سے نہر کاٹنا، گویا جادو کے زور سے زمین کا سینہ چیر کر چشم زدن میں بڑی بڑی آبادیوں کا ظہور میں آ جانا، آج سے پہلے کس زمانہ کے لوگوں کے ذہن میں آ سکتا تھا کہ اجتماعی محنت کی گود میں ایسی ایسی پیداواری طاقتیں پڑی سو رہی ہیں۔‘‘ (کمیونسٹ مینی فسٹو، ص ۶۴)

بورثوا طبقہ پر مارکسزم کے ہم نواؤں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ مزدوروں کو ان کی محنت کا قلیل حصہ بطور اجرت دے کر باقی سرمائے کو یا مارکس کے الفاظ میں قدر زائد (Surplus Value) کو خود ہضم کر جاتا تھا اور یہ طرز عمل ان کے نزدیک مزدوروں کے استحصال کے مترادف تھا۔ بلا شبہ یہ ایک بدترین استحصال تھا، لیکن یہی استحصال تو کمیونسٹ معاشرے میں بھی جاری رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ استحصال کرنے والا طبقہ اب بورثوا کے بجاے خود کمیونسٹ پارٹی بن گئی۔

سرمایہ داری (Capitalism) اور اجتماعی ملکیت کے نظاموں کی خرابیاں قارئین نے دیکھ لیں اور معلوم ہو گیا کہ ان نظاموں نے دنیائے انسانیت کو دکھ درد اور ظلم و استحصال کے سوا اور کچھ نہیں دیا ہے۔ آج دنیا اس بات کی شدت سے آرزو مند ہے کہ کوئی ایسا نظام معیشت ہو جس میں مذکورہ دونوں نظاموں کی خرابیاں نہ ہوں۔ اور یہ اسلام کے نظام معیشت کے سوا کوئی دوسرا نظام نہیں ہو سکتا ہے۔ اگلے صفحات میں اس نظام کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ دنیا اس سرچشمۂ خیر و برکت کی طرف متوجہ ہو۔

اسلامی نظام معیشت

معاش کا انسان کی زندگی سے جو گہرا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہے۔ قرآن میں اس کو قیام زندگی کا ایک مضبوط ذریعہ قرار دیا گیا ہے:

وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا.(سورۂ نساء۴: ۵)
’’اپنے اموال جن کو اللہ نے تمھارے لیے گزر بسر کا ذریعہ بنایا ہے، کم عقلوں (یعنی بچوں) کے حوالے نہ کرو۔‘‘

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں مال اور کسب مال کو اچھی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں مال کے لیے خیر (البقرہ۲: ۲۱۵) اور فضل (البقرہ۲: ۱۹۸) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور اہل ایمان کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کسب معاش میں سرگرمی دکھائیں۔ فرمایا ہے:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ.(سورۂ جمعہ۶۲: ۱۰)
’’پس جب (جمعہ کی) نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ.(کنز العمال)
’’عبادت کے بعد حلال روزی حاصل کرنا فرض کے درجے میں ہے۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے:

قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ان قامت الساعۃ وفی احدکم فسیلۃ، فان استطاع ان لا تقوم حتی یغرسھا فیغرسھا.(کنز العمال)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر اس کے بس میں ہو کہ کھڑا نہ ہو جب تک کہ اس کو بولے تو چاہیے کہ اس پودے کو بو دے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں سوال یعنی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ عمل انسان کے مقام و مرتبہ سے فروتر ہے۔ روایت ہے کہ ایک غریب انصاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور مدد چاہی۔ آپ نے فرمایا، تمھارے پاس کوئی چیز ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ میرے پاس صرف ایک ٹاٹ ہے، اس کے ایک حصہ کو بچھاتا ہوں اور دوسرے کو اوڑھتا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا، جاؤ اور یہ سامان لے آؤ۔ وہ دونوں سامان لے کر آ گئے۔ آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا: ’من یشری ھٰذین‘ ’’کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟‘‘ ایک صحابی نے کہا: ’انا اخذھما بدرھم‘ ’’میں ایک درہم میں ان کو لیتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’من یزید درھم‘ ’’کون ایک درہم پر اضافہ کرتا ہے؟‘‘ ایک صحابی نے دو درہم میں خرید لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں درہم غریب انصاری کو دے کر فرمایا: ’’ایک درہم سے غلہ خرید کر گھر پہنچا دو اور ایک درہم سے کلہاڑی خرید کر لاؤ۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ جو اس روایت کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ غریب انصاری نے ایسا ہی کیا اور ایک کلہاڑی خرید کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے اس میں ایک لکڑی ٹھونکی اور اسے انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: ’اذھب فاحتطب وبع ولا نرینّہ خمسۃ عشر یوما‘ ’’جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور میں تمھیں پندرہ دن تک نہ دیکھوں (یعنی پندرہ دن سے پہلے نہ ملو)۔‘‘ چنانچہ وہ پندرہ دن کے بعد آئے اور کہا: یا رسول اللہ، میں نے اتنے دنوں میں دس درہم کمائے۔ چند درہموں سے کپڑے خریدے اور چنددرہم سے کھانا (غلہ) لیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:

ھذا خیر لک من ان تجئ والمسئلۃ نکتۃ فی وجھک یوم القیامۃ.(ابوداؤد، ترمذی)
’’یہ تمھارے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن اس حال میں آؤ کہ سوال تمھارے چہرے میں داغ بنا ہوا ہو۔‘‘

اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول

اسلام کے نظام معیشت کا پہلا اصول کسب معاش میں جدوجہد ہے، جیسا کہ سورۂ جمعہ ۶۲ کی آیت ۱۰ سے بالکل واضح ہے اور اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس اصول کے مطابق ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد جو کمانے پر قادر ہے، تلاش رزق کے عمل میں حتی الوسع شریک ہو۔ جو لوگ قدرت کے باوجود کسب معاش میں حصہ نہیں لیتے وہ درحقیقت سماج پر ایک بوجھ اور اس کے ناپسندیدہ افراد ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی حاجت روائی سے منع کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

لا تحل الصدقۃ لغنی ولا الّذی مرۃ سوی.(صحاح)۱؂
’’صدقہ غنی ۲؂ کے لیے جائز ہے اور نہ اس آدمی کے لیے جو قوی اور تندرست ہو۔‘‘

اسلامی نظام معیشت کا دوسرا اصول ذریعے کی پاکیزگی ہے، یعنی مال جائز ذریعوں سے حاصل کیا جائے۔ فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.(البقرہ۲: ۱۶۸)
’’اے لوگو، زمین میں جو چیزیں حلال و طیب ہیں ان کو کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘

اس آیت میں حلال کے ساتھ طیب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ علامہ رشید رضا مصری نے اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’قرآن میں جن چیزوں کو حرام کہا گیا ہے ان کی حرمت ذاتی ہے اور ان کو مضطر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں استعمال کر سکتا ہے، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں بذات خود حرمت نہیں پائی جاتی، بلکہ خارجی اسباب سے ان میں حرمت آجاتی ہے۔ طیب کے لفظ سے اسی قسم کی اشیاء کی حرمت کو واضح کیا گیا ہے۔ پس وہ تمام چیزیں جو ناجائز ذریعوں، مثلاً رشوت، قمار، غصب، دھوکا فریب، خیانت اور چوری وغیرہ سے حاصل کی گئی ہوں وہ بھی حرام ہیں۔ الغرض ہر خبیث شے خواہ اس میں خبث خارجی ذرائع سے آیا ہو اور خواہ اس کے اندر موجود ہو، حرام ہے۔ ۳؂

انفرادی ملکیت کا نظام ہو یا اجتماعی ملکیت کا، دونوں میں نہ تو اموال کے حلال ہونے کی شرط ہے اور نہ ہی ذرائع مال کا جائز ہونا ضروری ہے، کیوں کہ ان مادی نظامات میں جائز اور ناجائز کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ بس مال ہونا چاہیے، خواہ اس کا ذریعہ قمار بازی ہو یا شراب سازی۔ چنانچہ بہت سے ملکوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ قمار بازی (لاٹری) اور شراب کا کاروبار ہے۔

لیکن قارئین نے دیکھا کہ اسلام کے نظام معیشت میں مال کے حلال ہونے کے ساتھ ذریعۂ حصول کی طہارت بھی لازمی ہے۔ اس کی نظر میں ایک روپیہ اس ایک لاکھ روپے سے بدرجہا بہتر ہے جو حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو۔ فرمایا ہے:

قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(المائدہ۵: ۱۰۰)
’’کہہ دو، ناپاک اور پاک برابر نہیں ہیں، اگرچہ ناپاک کی کثرت تم کو کتنی ہی عمدہ معلوم ہو، اے عقل مندو! اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ تمھیں فلاح حاصل ہو۔‘‘

اسلامی معیشت کا تیسرا اصول میانہ روی ہے، یعنی مال خرچ کرنے میں اعتدال کی روش اختیار کی جائے۔ یہ اصول استحکام معیشت میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ فرمایا ہے:

وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۲۹)
’’اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لو (یعنی بخل کرو) اور نہ ہی بالکل کھول دو، پھر ملامت زدہ اور تہی دست ہو کر بیٹھ رہو۔‘‘

دوسری جگہ ہے:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا.(سورۂ فرقان۲۵: ۶۷)
’’اور وہ لوگ (یعنی اہل ایمان) جس وقت خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں، ان کا انفاق اس کے (یعنی خرچ کی ان دونوں انتہائی حالتوں کے) درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ‘ ۴؂ ’’خرچ میں میانہ روی معیشت کی خوش گواری کا نصف حصہ ہے۔‘‘ آپ کا یہ ارشاد بھی ملاحظہ ہو:

’’حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کی دانائی میں سے یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنی معیشت میں اعتدال اختیار کرے۔‘‘ (رواہ امام والطبرانی، مزید دیکھیں، التفسیر الکبیر، ۱۹/ ۴۲)

اس کے برخلاف خرچ میں افراط و تفریط سے معاشی زندگی میں خلل پڑتا ہے۔ تفریط یعنی بخل کا فساد تو بالکل واضح ہے کہ اس سے مال کی فیض بخشی مسدود ہو جاتی ہے۔ بخیل اپنے مال سے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ ہی سماج کے حاجت مندوں کو اس سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ افراط یعنی اسراف و تبذیر کا نقصان یہ ہے کہ اس سے مال ضائع ہو جاتا ہے۔

اسراف کا مفہوم یہ ہے کہ مال جتنی مقدار میں خرچ ہونا چاہیے اس سے کہیں زیادہ خرچ ہو جائے، اور تبذیر یہ ہے کہ مال اس جگہ خرچ کیا جائے جو اس کے خرچ کا حقیقی محل نہ ہو۔ خود اس لفظ کا مادہ ’بذر‘ اس کے مفہوم کو واضح کر دیتا ہے۔ ’بذر‘ کے معنی تخم کے اور ’تبذیر‘ کے معنی تخم چھڑکنے کے ہیں۔ جس طرح کسان اپنے کھیت میں تخم ریزی کرتا ہے اور اس خیال کے بغیر دانے پھینکتا جاتا ہے کہ وہ کہاں گریں گے اور کہاں نہیں گریں گے، اسی طرح دولت مند اپنی دولت بے دریغ خرچ کرتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا کہ یہ جائز خواہشات کی تکمیل میں خرچ ہو رہی ہے یا ناجائز کاموں میں۔ شیطان کے ایک معنی قوت کا غلط راہ میں استعمال بھی ہے۔ اسی لیے قرآن میں ’مبذر‘ کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے ’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ‘(بنی اسرائیل۱۷: ۲۷)

روایات و آثار سے بھی ’تبذیر‘ کے مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ حق کے خلاف ہر قسم کے خرچ کو ’تبذیر‘ کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص حق کی راہ میں اپنا سارا مال خرچ کر ڈالتا ہے تو یہ اسراف نہیں کہا جائے گا لیکن اگر اس نے تھوڑا مال بھی ناحق کی راہ میں خرچ کر دیا تو یہ ’تبذیر‘ ہے۔ ۵؂

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی تمیم کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں ایک مال دار آدمی ہوں۔ اپنے اہل و عیال پر خرچ کے علاوہ مہمان نوازی بھی کرتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ میں اپنا مال کس طرح خرچ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پہلے اپنے مال کی زکوٰۃ نکالو اگر وہ زکوٰۃ کی مقدار کو پہنچتا ہو، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کو خباثت سے پاک کرتی ہے۔ اس کے بعد صلۂ رحمی کرو، اور سائل، اجنبی اور مسکین کے حقوق بھی ادا کرو (یعنی ان کی حاجت روائی کرو)۔ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول، اس بات کو چند مختصر الفاظ میں فرما دیجیے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا‘ اس نے کہا، بس یہ میرے لیے کافی ہے۔۶؂

معلوم ہوا کہ حق داروں کا حق ادا کرنے کے بجاے مال کو غلط کاموں، مثلاً قمار بازی، شراب نوشی، شاہد بازی وغیرہ میں اڑا دینا ’تبذیر‘ ہے۔ ۷؂

اسلامی معیشت کا چوتھا اصول عدم احتکار (Deconcentration of wealth) ہے یعنی ایک جگہ زیادہ مال جمع نہ ہو۔ جب صحابہ نے پوچھا کہ کتنا خرچ کیا جائے ’یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ‘ تو جواب دیا گیا، جو زائد ہو ’قُلِ الْعَفْوَ‘ (البقرہ۲: ۲۱۹)۔

لغت میں ’عفو‘ کا مطلب زیادتی اور بڑھوتری ہے۔ معروف امام لغت فراء سے یہی معنی منقول ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں: ’قولہ تعالٰی، العفو وھو فضل المال‘ ’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’قُلِ الْعَفْوَ‘ سے مراد مال کا فضل یعنی بڑھوتری ہے۔۸؂

اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ آیت میں ’عفو‘ کا مطلب یہ ہو گا کہ جو مال ضرورت سے زائد ہو اس کو حاجت مندوں پر خرچ کیا جائے۔ ایک روایت سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس شخص کے پاس طاقت و قوت کا کوئی سامان اپنی ضرورت سے زائد ہو وہ اس فاضل سامان کو کم زور کو دے دے، اور جس شخص کے پاس کھانے پینے کا سامان حاجت سے زائد ہو وہ یہ فاضل سامان ضرورت مند کو دے دے۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح مختلف قسم کے اموال کا ذکر فرماتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہم میں سے کسی شخص کو اپنے فاضل سامان پر کوئی حق نہیں ہے۔‘‘(المحلیٰ، علامہ ابن حزم ظاہری۶/ ۱۵۷۔ ۱۵۸)

اس سلسلے میں بعض اصحاب رسول کا خیال تھا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنا حرام ہے۔ مشہور صحابی حضرت ابوذر غفاری کا یہی مسلک تھا، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی حاجتوں کو پورا کرنے اور زکوٰۃ نکال دینے کے بعد بھی اگر مال بچ جائے تو اولیٰ یہی ہے کہ یہ فاضل مال حاجت مندوں کو دے دیا جائے۔۹؂

معاشی نابرابری

سماج میں معاشی نابرابری کے پیدا ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب افراد کے درمیان جسمانی اور عقلی صلاحیتوں کا فرق ہے۔ اسی فرق کی وجہ سے معاشی نابرابری اور پھر اس کے نتیجے میں متعدد سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن کا ازالہ ایک ناگہانی سماجی ضرورت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کا ازالہ کس طرح ہو۔ اسلام نے اس کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہیں وہ دوسرے معاشی نظاموں کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ ہیں۔ وہ اصولی حیثیت سے معاشی نابرابری کو سماج کی ایک اٹل حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے، کیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ فرمایا ہے:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا.(سورۂ زخرف۴۳: ۳۲)
’’ہم نے اس دنیا کی زندگی میں لوگوں کی روزی ان کے درمیان تقسیم کر دی ہے، اور ایک کا درجہ دوسرے سے بلند رکھا ہے تاکہ وہ باہم ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔‘‘

اس آیت میں ایک کا درجہ دوسرے سے بلند کرنے کا مطلب ان کا سماجی درجہ بلند کرنا نہیں، بلکہ علم و ہنر میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا مراد ہے۔ اللہ نے اس دنیا میں ہر شخص کو الگ الگ صلاحیت اور قوت کار دی ہے۔ اگر وہ ایک کام کے لیے موزوں ہے تو دوسرے کام کے لیے غیر موزوں۔ اس لیے وہ مجبور ہے کہ دوسرے سے مدد لے۔ اس طرح سب لوگ مل کر سماج کی مختلف النوع ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا مفوضہ کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر سب کو ایک ہی طرح کا علم و ہنر دے دیا گیا ہوتا تو انسان کی بہت سی سماجی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔

جب صورت واقعہ یہ ہے کہ یعنی لوگوں میں جسمانی اور عقلی صلاحیتوں کا فرق فطری طور پر موجود ہے تو لازماً معاشی نابرابری پیدا ہو گی۔ اسلام اس معاشی فرق کو جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تسلیم کرتا ہے، لیکن وہ اس معاشی نابرابری کو تسلیم نہیں کرتا جو ظلم و استیصال کے مختلف طریقوں کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک طرف ظلم و استیصال کی راہ مسدود کی اور دوسری طرف حقیقی معاشی نابرابری کو اس کے فطری حدود میں قائم رکھنے کے لیے متعدد تدابیر اختیار کیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ سب سے پہلے لوگوں کو اللہ کے قانون کسب سے آگاہ کیا گیا کہ ہر شخص روزی کمانے میں جدوجہد کرے تاکہ اللہ نے اس کے حصے میں جو روزی رکھی ہے وہ اس کو مل جائے:

وَاَنْ لَّیْْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی.(سورۂ نجم۵۳: ۳۹)
’’اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا۔‘‘

اس کسب و سعی کے باوجود جو شخص بھی معاشی اعتبار سے دوسروں سے کم تر ہے وہ رنجیدہ نہ ہو اور نہ ہی اس کمی کو دور کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کرے۔ اس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہو گا کہ وہ سابقہ کوشش میں جو کمی رہ گئی ہے اس کو مزید کوشش سے دور کرنے کے لیے جائز اقدامات کرے اور ساتھ ہی اللہ سے کشادگی رزق کے لیے دعا بھی کرے۔ فرمایا ہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْءَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمًا.(النساء۴: ۳۲)
’’اللہ نے جس چیز میں تم میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اس کی خواہش نہ کرو، مردوں کے لیے ان کی کمائی کے لحاظ سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی کے لحاظ سے حصہ ہے، اور اللہ سے ان کا فضل مانگو، بے شک اللہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔‘‘

۲۔ حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ فرمایا ہے:

وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۸)
’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ اور اس کو حکام تک پہنچنے کا ذریعہ نہ بناؤ (یعنی ان کو رشوت نہ دو) تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کر کے کھا جاؤ اور جانتے ہو (کہ تم حق تلفی کر رہے ہو)۔‘‘

حرام طریقوں سے مال کھانے کی متعدد صورتیں ہیں جن کا ذکر حدیث و فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔ ان ہی باطل طریقوں میں ایک رشوت بھی ہے، جس کا اوپر کی آیت میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، یعنی حکام کو مال و متاع دے کر دوسروں کے اموال و املاک کو ہڑپ کر جانا۔ کسب مال کا ایک اور ناجائز طریقہ ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کرنا ہے، تاکہ چیزوں کے دام بڑھ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

من دخل فی شئ من اسعار المسلمین لیغلیہ علیہم، فان حقًا علی اللّٰہ تعالٰی ان یقعدہ یعظم من النار یوم القیامۃ.(مسند احمد)
’’جس نے چیزوں کے بھاؤ بڑھانے کے لیے مسلمانوں کے بازار میں دخل اندازی کی (یعنی اشیاے ضروریہ کو بازار میں آنے سے روک لیا) تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہو جائے گا کہ وہ قیامت کے دن ایک بڑی (یعنی ہولناک) آگ کو اس کا ٹھکانا بنا دے۔‘‘

۳۔ انسان کی فطرت میں خودغرضی موجود ہے، اس لیے وہ ہر کام میں اپنے ذاتی فائدے کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اگر فائدے کی توقع ہو تو آگے بڑھتا ہے ورنہ رک جاتا ہے۔ انسان کی اس فطرت کا لحاظ کر کے صاحب ثروت اہل ایمان کو بکثرت اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ انفاق کریں اور یہ نہ سوچیں کہ اس سے ان کے مال میں کمی ہو گی، وہ جو بھی خرچ کریں گے وہ ان کو واپس لوٹا دیا جائے گا۔ اور آخرت میں اس انفاق کے صلے میں ان کو امن و سکون کی زندگی حاصل ہو گی۔ فرمایا ہے:

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْْکُمْ وَاَنتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ.(البقرہ۲: ۲۷۲)
’’اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے وہ تمھیں واپس مل جائے گا اور تمھاری ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا ہے:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بِالَّیْْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ ۲:۲۷۴)
’’جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے طور پر اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔‘‘

اسلام کے نظام معیشت میں معاشی نابرابری کو ایک مناسب حد کے اندر رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ بہت مناسب اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس نظام میں اخلاقی تعلیمات کے ذریعے سے ایک ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ سب لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے ایک دوسرے کے غم گسار ہوتے ہیں اور ہر شخص خواہ امیر ہو یا غریب آگے بڑھ کر حسب حیثیت خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے تاکہ مسلم سماج کے نادار لوگوں کی معاشی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ خدا کے مزید لطف و کرم کے مستحق ٹھہریں۔

انفرادی ملکیت

اصولی طور پر اسلام انفرادی ملکیت کا حامی ہے، یعنی ہر شخص کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جائز ذرائع سے مال و جائداد حاصل کرے اور اس کو اس پر تصرف کا اختیار حاصل ہو، بشرط یہ کہ اسلامی ریاست کا مطالبہ پورا کر دیا جائے یعنی مال کی زکوٰۃ نکال دی جائے۔ انفرادی ملکیت کی حمایت کی وجہ یہ ہے کہ مال و جائداد کی محبت اور ان کے حصول کا جذبہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ اس لیے انفرادی ملکیت کی ممانعت کا مطلب اس فطرت سے چشم پوشی ہو گی اور ایسا کر کے کوئی معاشی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا ہے، جیسا کہ روس میں اجتماعی ملکیت کے نظام کی ناکامی سے ثابت ہو چکا ہے۔

انفرادی ملکیت کا تصور دراصل ذرائع پیداوار کی آزادی سے وابستہ ہے، یعنی ہر شخص کو یہ موقع اور آزادی حاصل ہو کہ وہ کسب مال کے لیے جس ذریعۂ معاش کو پسند کرتا ہے اس کو آزادانہ اختیار کرے اور اگر ایک سے زیادہ ذرائع پیداوار کو قانونی حد کے اندر اپنے زیرتصرف لانا چاہے تو اس میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔

لیکن حصول ملکیت کی اس آزادی میں یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ سماج کے چند لوگ اپنی کاروباری ذہانت اور مادی وسائل کی کثرت سے فائدہ اٹھا کر ذرائع پیداوار کے زیادہ حصے پر قابض ہو جائیں اور سماج کا ایک بڑا حصہ اس کے فوائد سے محروم ہو جائے۔

اس امکانی خطرے کے تدارک کی ایک صورت تو یہ ہے جیسا کہ اشتراکیت نے تجویز کیا ہے، کہ ذرائع معاش کو حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے، دوسرے لفظوں میں اجتماعی ملکیت کا نظام نافذ کر دیا جائے۔ اس اقدام سے بلاشبہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے، لیکن اس میں نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسانی فطرت کے بہت سے محاسن، مثلاً ایثار و سخاوت اور ہمدردی اور اخوت کے جذبات کو نشوونما کا موقع نہیں ملے گا۔ اس کے علاوہ انسان کی فطرت میں خود غرضی کا جو مادہ ہے اور اس کے لیے سب سے بڑا محرک عمل ہے اور اسی پر بڑی حد تک انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر و ترقی منحصر ہے، وہ اس صورت میں دب کر رہ جائے گا۔ اس لیے ذرائع ۱۰؂پیداوار کو آزاد رکھنے میں ہی انسان اور اس کے معاشرے کی بھلائی ہے۔

انفرادی ملکیت کے نظام سے پیدا ہونے والے مذکورہ خطرے کے ازالے کی دوسری صورت یہ ہے کہ حق ملکیت کو باقی رکھتے ہوئے ایسی تدابیر کی جائیں جن سے ارتکاز مال و زر کا خطرہ دور ہو جائے اور انسان کی معاشی زندگی میں کوئی خلل بھی واقع نہ ہو۔ اسلامی نظام معیشت میں اس آخری صورت کو اختیار کیا گیا ہے۔

ام الفساد

کسی بھی نظام معیشت میں جو چیز ام الفساد ہے وہ ارتکاز مال ہے، یعنی چند افراد یا گروہوں کے پاس مال کی کثیر مقدار کا اکٹھا ہو جانا۔ نظام سرمایہ داری میں یہ خرابی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے اور اس سے معاشرے میں سخت معاشی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس خرابی کو محض قانون بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسلام نے اس خرابی کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ نہایت کارگر ہے کیوں کہ وہ انسانی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مال پر خواہ وہ کسی شکل میں ہو، جس طرح سماج کے خوش حال طبقہ کا حق ہے، اسی طرح غربا و مساکین کا بھی حق ہے ’حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘ (سورۂ ذاریات۵۱: ۱۹) اس لیے اسلامی ریاست کے ارباب حل و عقد کا اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے کہ وہ غربا و مساکین کے اس حق کا تحفظ کریں اور وہ تمام تدابیر عمل میں لائیں جن سے سماج میں ارتکاز زر کی صورت پیدا نہ ہو، یعنی چند افراد یا گروہوں کی مٹھی میں مال و زر کا بند ہو کر رہ جانا۔ فرمایا ہے:

مَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.(سورۂ حشر۵۹: ۷)
’’اللہ جو مال بستی والوں سے لڑائی کے بغیر اپنے رسول کو دلا دے، اس میں اللہ کا، رسول کا، قرابت والوں کا، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے، تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی میں نہ گردش کرتا رہے۔‘‘

                                                 [باقی]

————

* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔

۱؂ ایک دوسری روایت میں ’’القوی المکتب‘‘ (قوی کمانے والے) کے الفاظ آئے ہیں۔

۲؂ غنی سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے روز مرہ مصارف کے علاوہ دو سو درہم، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کے مساوی ملکیت رکھتا ہو۔

۳؂ تفسیر المنار، ج۱، ص ۸۷، مزید دیکھیں، تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص ۲۰۳۔

۴؂ کنز العمال، عن ابن عمر۔

۵؂ تفسیر ابن کثیر ۶/ ۶۳۔

۶؂ تفسیر ابن کثیر ۶/ ۶۳۔

۷؂ تفسیر ابن کثیر ۶/ ۶۳۔

امام ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے ’مبذّرین‘ کا مال ان سے بالجبر حاصل کر کے سماج کے غربا و مساکین پر خرچ کرے۔ دیکھیں، المحلیٰ، علامہ ابن حزم۶/ ۱۵۶۔

۸؂ دیکھیں، لسان العرب، تحت کلیہ ’عفو‘۔

۹؂ یہ اولیٰ بات اس وقت مطلوب ہو گی جب صحیح معنی میں اسلامی ریاست قائم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ناگہانی ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست نہیں ہے تو ان ضرورتوں کو کون پورا کرے گا؟ اس لیے موجودہ دور میں ہر صاحب مال سے بس اتنا ہی مطلوب ہے کہ وہ خدا کی راہ میں حتّی المقدور انفاق کرتا رہے، خواہ زکوٰۃ کی شکل میں اور خواہ صدقہ نکال کر۔

۱۰؂ ذرائع پیداوار سے ہماری مراد زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت ہیں۔ رہے قدرتی ذرائع، مثلاً معدنی کانیں، جنگل اور پہاڑ اور سمندر وغیرہ تو حکومت مفاد عامہ میں انھیں اپنے قبضہ میں لے سکتی ہے۔

——————————

B