محمد وسیم اختر مفتی
[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت مقداد کا شجرۂ نسب قحطان سے جا ملتا ہے جو جنوبی یمن کے قبائل کے جد اعلیٰ تھے۔قحطان کی چوتھی نسل میں حمیر اور نویں میں قضاعہ ہوئے۔ بہرابنوقضاعہ کی ایک شاخ تھی، حضرت مقداداسی سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے بہرانی کہلاتے ہیں۔ ان کے والد عمرو بن ثعلبہ(ایک روایت:مقداد) نے اپنی قوم کے ایک آدمی کوقتل کر دیاپھر بھاگ کر حضرموت چلے گئے اور قبیلۂ کندہ کے حلیف بن گئے تب وہ کندی اور حضرمی کی نسبتوں سے مشہور ہو گئے۔ عمرو نے کندہ کی ایک عورت سے شادی کی جس سے مقداد پیدا ہوئے۔مقداد بڑے ہوئے تو ان کا ابوشمر بن حجر کندی سے جھگڑا ہو گیا ۔انھوں نے تلوار مار کر اس کا پاؤں کاٹ دیا اور بھاگ کر مکہ چلے گئے اور بنو زہرہ کے اسود بن عبد یغوث کے حلیف بن گئے۔ اسود نے خط لکھ کر عمرو کو بلایا اور مقداد کو متبنٰی بنا لیا۔چنانچہ وہ مقداد بن اسودزہری کے نام سے مشہور ہو گئے۔یہ روایت بھی موجود ہے کہ مقدادسیاہ فام تھے اورلے پالک بننے سے پہلے اسود کی غلامی میں تھے۔ جب منہ بولے بیٹوں کے بارے میں اﷲ کایہ حکم نازل ہوا،
’’اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ۔ (الاحزاب۳۳: ۵)
انھیں ان کے (حقیقی) باپوں کے نام سے پکارو، یہی اﷲ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔اور اگر تمھیں ان کے آبا کا علم ہی نہ ہو تو تمھارے دینی بھائی اور تعلق دار ہیں۔
تو انھیں مقداد بن عمرو کہا جانے لگاتاہم ان کی پہلی شہرت برقرار رہی۔
مقداد کی کنیت ابو عمر یا ابومعبدیاابو اسودتھی۔ حضرت مقداد ’’السابقون الاولون‘‘ میں سے تھے، لیکن شروع میں انھوں نے اپنا ایمان پوشیدہ رکھا۔ معلوم نہیں کہ پہلے پچاس مسلمانوں میں ان کا کون سا نمبر تھا تاہم، یہ واضح ہے کہ قبول اسلام کے وقت ان کی عمر چوبیس بر س تھی۔ اسلام کی طرف ان کی سبقت اس روایت سے خوب ظاہر ہو جاتی ہے جو عبداﷲ بن مسعود نے روایت کی ،جن اہل ایمان نے سب سے پہلے اپنے ایمان کا اعلان کیا ، سات تھے۔ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم ،ابوبکر،عمار، سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد(دوسری روایت خباب)۔آپ کی حفاظت اﷲ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے کی، سیدنا ابوبکرکے دفاع کا ذریعہ ان کی قوم بنی،باقی پانچوں کو مشرکین لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ کی تپش دیتے ۔ (مقدمۂ ابن ماجہ، رقم ۱۵۰،مسند احمد، رقم ۳۸۳۲)
حضرت مقد ادکی شادی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن ضباعہ سے ہوئی۔وہ زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ ان دونوں کی شادی کا قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے،ایک بار حضرت مقداد اور حضرت عبدالرحمان بن عوف اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عبدالرحمان نے مقداد سے کہا، تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟مقداد نے جواب دیا، آپ اپنی بیٹی مجھ سے بیاہ دیں۔ عبدالرحمان غصے میں آگئے اور مقداد کو برا بھلا کہا۔مقداد نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا، میں تمھارا بیاہ کر دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے ضباعہ سے ان کا نکاح کر دیا۔وہ خوب صورت ہونے کے ساتھ ذہین بھی تھیں۔
حضرت مقداد کو مہاجر الہجرتین کہا جاتا ہے، کیونکہ انھیں حبشہ و مدینہ ،دونوں شہروں کی طرف ہجرت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔۵ نبوی میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود انھیں حبشہ جانے کا مشورہ دیا۔آپ نے فرمایا، وہاں ایسا حکمران ہے جو اپنی سلطنت میں ظلم روا نہیں رکھتا۔مقداد جعفر بن ابو طالب کے ساتھ کشتی میں سفر کرنے والے سڑسٹھ مسلمانوں میں شامل تھے ،یہ ہجرت ثانیہ نہیں بلکہ پہلی ہجرت حبشہ کادوسرامرحلہ تھا۔مقداد ہجرت مدینہ سے قبل ہی حبشہ سے مکہ لوٹ آئے ۔جب یہ افواہ پھیلی کہ قریش اسلام لے آئے ہیں تو تینتیس مسلمانوں کا ایک گروپ مکہ پہنچا۔ سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا زبیربن عوام، سیدنا عبدالرحمان بن عوف، سیدنا مصعب بن عمیر اور سیدنا مقداد بن اسود ان میں شامل تھے۔اس خبر کے غلط ثابت ہونے پر کچھ مہاجرین حبشہ واپس چلے گئے،یہ ہجرت ثانیہ تھی ۔چند اصحاب مکہ ٹھہر گئے،مقداد انھی میں سے ایک تھے۔
جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی ،مقدادنہ جا سکے۔شوال ۱ ھ (دوسری روایت، ربیع الاول ۲ ھ) میں آپ نے عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ساٹھ سے زائدمہاجرین کا سریہ بطن رابغ کی طرف روانہ فرمایا۔یہ جحفہ کے قریب واقع مقام ثنےۃ المرہ تک پہنچا تھا کہ دو سو افراد پر مشتمل قریش کے ایک بڑے قافلے سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی جو ابوسفیان(یاعکرمہ بن ابوجہل) کی قیادت میں سفر کر رہا تھا۔لڑائی تونہ ہوئی تاہم حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک تیر برسایا جو راہ خدا میں چلایا جانے والا پہلا تیر تھا۔مشرکین کے قافلے سے مقداد بن عمرو(مقداد بن اسود) اور عتبہ بن غزوان بھاگ کر مسلمانوں سے آ ملے۔یہ دونوں مسلمان تھے، لیکن مدینہ پہنچنے کے لیے کفار کے قافلے میں شامل ہو گئے تھے۔
مدینہ تشریف لانے کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجر ین کو دس دس کی ٹکڑیوں میں بانٹ دیاپھرہر ٹکڑی کو رہنے کے لیے ایک گھردیا، حضرت مقداد ان صحابہ میں شامل تھے جو آپ کے ساتھ رہ رہے تھے۔خود بیان کرتے ہیں، میں دو اصحاب کی معیت میں ہجرت کر کے مدینہ آیا ۔کسی نے ہماری مہمانی نہ کی تو ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ہمیں اپنے گھر لے گئے، وہاں چار بکریاں(مسلم:تین،مسند احمد،ایک روایت:ایک بکری) بندھی تھیں۔ فرمایا،مقداد !ان کا دودھ دوہ لو اور ہرایک کو اس کا حصہ دے دو۔ چنانچہ دودھ دوہ کر تقسیم کرنامیرا معمول بن گیا۔آپ روزانہ رات کو تشریف لاتے ،مسجد جا کر نماز پڑھتے اوردودھ نوش فرما لیتے ۔ ایک روز میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حصہ نکال کر رکھا اور بستر پر لیٹ گیا۔پھرشیطان نے مجھ پر غلبہ پا لیا، سوچا کہ آپ تو انصار کے ہاں گئے ہوئے ہیں ، آپ کا حصہ میں ہی پی لیتا ہوں ۔دودھ پی چکا تو پریشانی لاحق ہوگئی کہ آپ بھوکے پیاسے آئیں گے اور برتن کو خالی پائیں گے۔میں اپنی اونی چادر منہ پر ڈال کر پڑاتھا کہ آپ آئے، آہستہ سے سلام کیا تاکہ جاگتا ہوا سن لے اور سوئے ہوئے کی نیند خرا ب نہ ہو۔نماز پڑھ کردودھ کا برتن خالی دیکھا تو دعا فرمائی، اﷲ! جو مجھے پلائے، اسے سیر کر دے اور جو کھلائے اس کا پیٹ بھر دے۔آپ کی دعا کو میں نے غنیمت سمجھا، اٹھا ،چھری پکڑی اور بکریوں کی طرف بڑھا۔ ان کو ٹٹولا، کون سی زیادہ فربہ ہے کہ اسے ذبح کر لوں۔ اچانک میرا ہاتھ ایک کے پستان پر پڑا،معلوم ہوا کہ دودھ سے بھرا ہے۔باقی دونوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی پُر تھے چنانچہ دودھ دوہ کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔آپ نے پوچھا ، مقداد! کیا کوئی غلط بات کر دی ہے؟میں نے کہا، آپ پی لیں،پھر بتاتا ہوں۔ آپ نے مجھے بھی لینے کو کہا تو میں نے کہا، آپ ہی نوش فرما لیں۔آپ سیر ہو گئے توباقی دودھ مجھے دے دیا۔ میں نے سارا قصہ سنایا۔ فرمایا، یہ برکت ہے جو اﷲ کی طرف سے آسمان سے اتری ہے۔تم بتاتے توتمھارے دونوں ساتھیوں کو جگا کر ان کو بھی پلا دیتا۔ (مسلم، رقم ۵۴۱۲،مسند احمد، رقم ۲۳۸۱۲)مسند احمد کی روایت ۲۳۸۱۸ میں ہے کہ آپ نے مقداد کو بکری ذبح کرنے سے منع کیا اور اس کے پستان پر ہاتھ پھیرا تو وہ دودھ سے لبا لب بھر گیا۔ عاصم کی روایت کے مطابق مقداد مدینہ میں کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقدادکی مواخات جبار بن صخر (دوسری روایت: ابوذر غفاری ،تیسری روایت:عبداﷲ بن رواحہ)سے قائم فرمائی۔ آپ نے ابی بن کعب کے مشورہ پر مقداد کو بنو حُدیلہ میں زمین عنایت فرمائی،ابی کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔
۲ھ(ذی قعد ۱ھ) میںآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اکیس صحابہ کا ایک سریہ خرار کی طرف روانہ فرمایا۔انھیں قریش کے ایک قافلے کا راستہ روکنا تھا۔ آپ نے حضرت سعدبن ابی وقاص کو امیر بنایا اور حضرت مقداد بن اسود کو سفید پرچم عطا کیا۔ مسلمان پانچ دن کے بعد پیدل سفر کے بعد منزل مقصود پرپہنچے تو پتا چلاکہ مشرکین کا قافلہ ایک روز پہلے یہاں سے جا چکا ہے۔ آپ نے خرار سے آگے نہ جانے کی ہدایت فرمائی تھی اس لیے یہ دستہ لوٹ آیا۔
حضرت مقداد نے جنگ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں بھرپور حصہ لیا۔رمضان ۲ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی قیادت میں شام سے لوٹنے والے قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کا ارادہ کیا۔ابوسفیان نے راستہ بدل لیا اور مدینہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کی طرف نکل گیا۔اسی اثنا میں قریش کاایک بڑا لشکر قافلے کا دفاع کرنے کے لیے مکہ سے چل پڑا ۔آپ نے جوابی کارروائی کرنے کے لیے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ سیدنا ابوبکر و عمر نے حمایت اور جاں نثاری کا خوب یقین دلایا۔ حضرت مقداد نے تقریر کرتے ہوئے کہا،’’یا رسول اﷲ! اﷲ کی طرف سے آپ کو جوحکم ہوا ہے، کر گزریے۔ واﷲ!ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا، ’فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ‘۔ ’’جاؤ!تم اور تمھارا رب مل کر لڑ لو، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں‘‘ (المائدہ۵:۲۴)۔ ہم تو کہتے ہیں،جائیے! آپ اور آپ کا رب مل کر لڑیں۔ہم بھی آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر آپ ہمیں برک غماد ( مکہ سے بھی آگے ساحل سمندر پر واقع ایک مقام یایمن کی دوردراز کی ایک بستی) تک لے جانا چاہیں توبھی ہم آپ کے شانہ بشانہ تلوار زنی کرتے چلیں گے اور آپ کو وہاں تک پہنچا کر دم لیں گے۔ہم آپ کے دائیں بائیں ہو کر قتال کریں گے ، آپ کے آگے پیچھے ہو کر لڑیں گے یہاں تک کہ اﷲ آپ کو فتح دے دے۔‘ ‘آپ نے انھیں خیر و برکت کی دعا دی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں، ’’میں نے اس موقع پر مقداد کا وہ رنگ دیکھا کہ اب یہ حسرت مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو گئی ہے،کاش یہ سب ان کے بجاے میں نے کہا ہوتا۔ میں نے دیکھا کہ مقداد کی تقریر سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مسرت سے دمک اٹھا۔ ‘‘(بخاری، رقم ۳۹۵۲، ۴۶۰۹) انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔
حضرت مقداد کو اﷲ کی راہ میں قتال کرنے والے پہلے گھڑ سوار کا شرف حاصل ہوا۔ سیدنا علی کہتے ہیں، جنگ بدر میں مقداد اکیلے شاہ سوار تھے ،ان کے علاوہ کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا۔ (نسائی، رقم ۸۲۳، مسند احمد، رقم ۱۰۲۳، ۱۳۸) سیدنا علی ہی سے مروی دوسری روایت ہے،(قریش کے سو گھوڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے )ہماری فوج میں دو ہی گھوڑے تھے، سیدنا زبیر کا اور حضرت مقداد بن اسود کا۔ (دلائل النبوہ، بیہقی۳/ ۳۹) مقداد میسرہ پر متعین تھے، ان کا گھوڑا چتکبرا تھا،اس کا نام سبحہ (لمبی سیر)یا بعزجہ تھا۔ زبیر کے پاس اسلامی فوج کے میمنہ کی کمان تھی، ان کے گھوڑے کا نام یعسوب (شہد کی مکھیوں کا سردار، گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی) تھا۔ سعد بن خیثمہ اور مصعب بن عمیر بھی باری باری انھی دو گھوڑوں پرسوار ہوکر لڑتے رہے۔ (دلائل النبوہ، بیہقی۳/۱۱۰) تیسری روایت بیان کرتی ہے ، اس معرکۂ فرقان میں دو گھوڑوں نے حصہ لیا ،ایک ، مقداد بن اسود کا سبحہ ،دوسرا سبل نامی جو مرثد بن ابو مرثد کے پاس تھا۔ (ابن سعد) مقداد نے جنگ بدر میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کٹر دشمن نضر بن حارث کو قید کیا۔آپ نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا تو سیدنا علی نے اثیل لے جا کراس کو قتل کیا۔ایک روایت کے مطابق اس معرکے میں مقداد (دوسری روایت : بلال) نے زید بن ملیص کو قتل کیا۔
جنگ احد میں حضرت زبیر بن عوام گھڑ سواروں کے قائد تھے، حضرت مقدادبن اسود ان کے ساتھ تھے۔دوسری روایت کے مطابق مقداد کے پاس پیادہ فوج کی کمان تھی۔
جنگ احد اور جنگ خندق میں مقداد نے خوب تیر اندازی کی۔
۶ھ غزوۂ ذی قرد:آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مال فے کے اونٹ بنو غفار کے گلہ بان کی نگرانی میں جنگل میں چر رہے تھے،اس کی بیوی ساتھ تھی۔بنو فزارہ کے عیینہ بن حصن ( طبری:عبدالرحمان بن عیینہ)نے بنو غطفان کے کچھ گھڑ سواروں کے ساتھ مل کر غارت گری کی، چرواہے کو مارڈالا،اس کی بیوی کو پکڑ لیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ اتفاق سے سلمہ بن اکوع اور طلحہ بن عبیداﷲ کا غلام وہاں سے گزرے اور کفار کے گھوڑوں کو جاتے دیکھ لیا۔وہ مدینہ کے قریب واقع جبل سلع پرچڑھ گئے اور مدد کی پکاردی، وا صباحاہ!ہائے صبح کی غارت گری!پھر لٹیروں کا پیچھا کیا اور بے مثال تیر اندازی کر کے اونٹ چھڑا لیے۔سلمہ کی پکار سن کر مدینہ کے شہ سواربھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے۔سب سے پہلے مقداد بن اسود پہنچے ،پھر عباد بن بشر، سعد بن زید، اسید بن ظہیر،عکاشہ بن محصن، محرز بن نضلہ،حارث بن ربعی اورعبید بن زید آ گئے۔(ابن ہشام)آپ نے سعد بن زید کو امیر مقرر کر کے اس دستے کو حملہ آوروں کے پیچھے بھیجا۔اونٹ مدینہ پہنچے تو آپ نے صحابہ میں بانٹ دیے۔ غزوہ کے بعد حسان بن ثابت نے مقداد کی مدح میں اشعار کہے تو قائد سریہ سعد بن زید ان سے ناراض ہو گئے۔ تب انھوں نے سعد کے لیے الگ شعر کہے۔سلمہ بن اکوع کہتے ہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے دستے میں سے اخرم اسدی سب سے پہلے پہنچے پھر ابوقتادہ انصاری اور مقداد بن اسود آئے۔ (مسلم، رقم ۴۷۰۲، مسند احمد، رقم ۱۶۵۳۹)
۷ھ حضرت مقداد نے جنگ خیبر میں حصہ لیا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر سے حاصل ہونے والے غلے میں سے ازواج مطہرات اور فاطمہ زہرا کے حصے لکھوائے تو مقداد اور اسامہ کے حصے بھی تحریر کیے گئے۔عثمان اور عباس نے گواہی ثبت کی۔مال غنیمت میں سے مقداد کو ملنے والے پندرہ وسق (ایک وسق: ساٹھ صاع،پندرہ وسق:پندرہ اونٹوں پرآنے والا غلہ)جومعاویہ نے ایک لاکھ درہم میں خرید لیے۔
۸ھ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کی مہم پر جانے کا ارادہ کیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے اطلاع کاخط لکھ کر ایک باندی کے ذریعے قریش کوبھیج دیا۔ آپ کو فوراًوحی سے خبر ہوگئی،آپ نے علی ،زبیر اور مقدادکو روانہ کیا اور فرمایا،’’ مدینہ و مکہ کے مابین واقع جگہ روضۂ خاخ پہنچو گے تو تمھیں اونٹ کے ہودے میں سوارایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس خط ہوگا ،وہ لے لینا۔ ‘‘دونوں اصحاب وہ خط لے کر آپ کے پاس پہنچے تو عمر نے حاطب کا سر قلم کرنا چاہا، لیکن آپ نے بدری ہونے کی وجہ سے انھیں چھوڑ دیا۔حاطب نے بھی کہا کہ انھوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے بلکہ مشرکوں کے ہاں موجود اپنی والدہ اور دوسرے اعزہ کو بچانے کے لیے ایسا کیا۔ (بخاری، رقم ۳۰۰۷، مسلم، رقم ۶۴۸۵)
۸ھ ،فتح مکہ کے موقع پر مقدادکے پاس جیش نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے میمنہ کی کمان تھی۔
۹ ھ ،عام الوفود: تیرہ ارکان پر مشتمل قبیلۂ بہرا کا وفد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے مدینہ آیا تو اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے مقداد بن عمرو(اسود) کا مہمان ہوا۔
ایک بار اقرع بن حابس تمیمی اورعیینہ بن حصن فزاری رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو دیکھا کہ چند غریب اہل ایمان آپ کے ہم نشین ہیں۔ اپنے اپنے قبیلے کے ان سرداروں نے ان مسکینوں کو نظر حقارت سے دیکھ کر مطالبہ کیا،ہم آئیں تو آپ ان کے پاس سے اٹھ جائیں۔ آپ اس بات پر آمادہ ہوئے تھے کہ جبریل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوئے:
وَلَاتَطْرُدِ الَّذِینَ یدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یرِیدُوْنَ وَجْہَہٗ، مَا عَلیکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِینَ. (الانعام۶:۵۲)
(اے نبی!)ان لوگوں کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ ان کے حساب میں سے آپ پر کچھ عائد نہیں ہوتا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ایسا نہ ہو کہ انھیں دھتکار کر آپ ظالموں میں شامل ہو جائیں۔‘‘
مشہور روایت ہے کہ یہ غرباصہیب،بلال،عمار اورخباب تھے، لیکن ابن ماجہ کی روایت(۴۱۲۸) میں خباب کی بجاے مقداد بن اسود کا ذکر ہے ،اس میں سعد اورعبداﷲ بن مسعود کا اضافہ بھی ہے۔
ایک بار مقداد رفع حاجت کے لیے مدینہ کے غیر آباد مقام بقیع خبخبہ (خبجبہ یا جبجہ )گئے ۔انھوں نے دیکھا کہ ایک چوہا ایک بل سے دینار باہر نکال رہا ہے۔ وہ ایک ایک کر کے دینار نکالتا رہاحتیٰ کہ سترہ دینار ہو گئے۔پھر اس نے ایک سرخ کپڑا(تھیلی) نکالا جس میں ایک دینار بچا تھا۔اٹھارہ دینار ہو گئے تو وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور کہا، اس کی زکوٰۃ لے لیجیے۔آپ نے پوچھا ، کیا تو سوراخ میں جھکا تھا(یا اس میں ہاتھ ڈالا تھا)؟مقداد نے جواب دیا، نہیں۔ فرمایا، اﷲ تمھیں اس مال میں برکت دے،تم پر صدقہ واجب نہیں۔(ابوداؤد، رقم ۳۰۸۷،ابن ماجہ، رقم ۲۵۰۷)
۲۵ ذی قعد ۱۰ھ کونبی صلی اﷲ علیہ وسلم سفر حجۃ الوداع پر روانہ ہوئے ۔(مدینہ سے چھ میل باہر) مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے ارشاد فرمایا، جو حج (قران) کا احرام باندھنا چاہتے ہیں،حج کی نیت کر لیں اور جو عمرہ (کر کے حج تمتع )کرنا چاہتے ہیں،عمرہ کی نیت کر لیں۔ اسماء بنت ابو بکر کہتی ہیں،میں ، عائشہ، مقداد اور زبیر ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے عمرہ( حج تمتع) کی نیت سے احرام باندھا ۔ (مسند احمد، رقم ۲۲۹۶۲)اس حدیث کی سند میں ضعف ہے۔
۱۱ ھ، یعقوبی کے بیان کے مطابق مہاجرین میں سے عباس ،فضل بن عباس،زبیر بن عوام ، خالد بن سعید، مقداد بن اسود،سلمان فار سی،ابو ذر غفاری ، عمار بن یاسر،برا بن عازب اور ابی بن کعب نے خلیفۂ اول ابوبکر کی بیعت نہ کی۔ اہل سنت علما کا اصرار ہے ، سیدنا علی اور سیدنا زبیر سمیت تمام صحابہ نے بالاتفاق ابو بکر کی بیعت کرلی ۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد علی کی جس بیعت کا ذکر آتا ہے ،وہ ان کی بیعت ثانیہ ہے جو میراث کے مسئلہ پر ابو بکر اور فاطمہ میں ہونے والی شکررنجی دور کرنے کے لیے کی گئی۔
حضرت مقداد بن اسود نے جنگ یرموک(۱۳ھ:طبری، ابن کثیر،رجب ۱۵ ھ: ابن عساکر) میں بھی شرکت کی۔وہ ہر فوجی کے پاس جاتے اور سورۂ انفال اور جہاد کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پڑھ کر سناتے۔وہ حمص کے محاصرہ (۱۵ھ)میں ابوعبیدہ بن جراح کے ساتھ تھے۔محاصرہ ختم ہونے کے بعد ابوعبیدہ نے انھیں بلی بھیج دیا۔۲۰ھ میں انھوں نے فتح مصر کی مہم میں حصہ لیا۔ ابو راشد حرانی کہتے ہیں،میں نے رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے پہرے دار مقداد بن اسود کو حمص میں سنارکے ایک بکس پر اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھاکہ لحیم شحیم ہونے کی وجہ سے ان کا جسم لٹک رہا تھا۔وہ جنگ میں جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔میں نے کہا، اﷲ نے آپ کو صاحب عذر قرار دیا ہے۔ جواب دیا،مجھے سورۂ بحوث (سورۂ توبہ) کی اس آیت نے بیٹھنے نہیں دیا، ’انفروا خفافاً و ثقالاً و جاہدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اﷲ‘۔ نکل آؤ،تھوڑا مال رکھتے ہو یا زیادہ اور اﷲ کی راہ میں اپنے مال اور جانوں سے جہاد کرو۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۴۸۷)
۲۰ھ، عہد فاروقی میں عبداﷲ بن عمر،زبیر بن عوام اور مقداد بن اسود غنیمت میں ملنے والے مال مویشیوں کی خبر لینے خیبر گئے۔اس موقع پر یہودیوں نے بد عہدی کی ،انھوں نے عبداﷲ بن عمر پر اس وقت حملہ کیا جب وہ سوئے ہوئے تھے۔مار پیٹ کر ان کے کہنیوں کے جوڑ اتار دیے۔تب یہودیوں کی اس مسلسل عہد شکنی پر سیدنا عمر نے انھیں مدینہ سے نکال باہر کیا۔ (مسنداحمد، رقم ۹۰)
خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب کی تدفین کے بعدنئے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ان کی مقرر کردہ مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔عمر کی وصیت کے مطابق مقداد بن اسود نے اراکین شوریٰ کو مسور بن مخرمہ کے گھر جمع کیا ۔پھر وہ چلے گئے اور سیدنا عمرہی کی ہدایت کے مطابق ابو طلحہ انصاری اور ان کے ساتھیوں نے پہرہ دیا۔ انتخاب عثمان اور علی کے بیچ معلق ہوا اور عبدالرحمان بن عوف پر فیصلے کی ذمہ داری آئی تو انھوں نے عامۃ المسلمین سے فرداً فرداًمشورہ کیا۔مقداد بن اسود سے پوچھا تو انھوں نے علی کے حق میں ووٹ دیا ۔شیعہ محدث کلینی کا کہنا ہے ،مقداد نے خلافت اہل بیت کو د ینے پرزور دیا۔
قبرص عہد عثمانی میں۲۷ھ(دوسری روایت :۲۸ھ)میں فتح ہوا۔قبرص پر حملے میں مقداد بھی شریک تھے۔
ایک شخص خلیفۂ سوم سیدنا عثمان کے پاس آکر ان کی مدح سرائی کرنے لگا۔ حضرت مقداد پاس تھے،آگے بڑھے، گھٹنے موڑ کر بیٹھ گئے اور اس کے منہ پر مٹی کنکر ڈالنے لگے۔ سیدنا عثمان نے پوچھا ،یہ کیا؟مقدادنے جواب دیا، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں کثرت سے تعریف کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈالنے کاحکم دیا ہے۔ (مسلم، رقم ۶۷۱۶) حضرت مقداد سیدنا علی کے بہت قریب تھے، دونوں کی آرا اور خیالات ملتے تھے۔ سیدنا علی کہتے ہیں، میں ایسا شخص تھا جسے مذی (pre-seminal fluid) بہت آتی تھی، ہر بار غسل کرتا جس سے میری کمر دکھنا شروع ہو گئی۔ (ابوداؤد، رقم ۲۰۶) نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا داماد ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ آپ سے پوچھ نہ سکتا تھا،اس لیے مقداد(عمار بن یاسر، نسائی، رقم ۱۵۵) کو کہا۔ ان کے سوال پر آپ نے ارشاد فرمایا، ’’یہ مردکا پانی ہے ،ہر مرد کو مذی آتی ہے۔ ذکر اور خصیوں(testicles & penis) کو دھو لو اور وضو کر لو۔‘‘(بخاری، رقم ۲۶۹، مسند احمد،ر قم ۱۲۳۸ ) خلیفۂ سوم حضرت عثمان حج قران (ایک ہی احرام سے عمرہ و حج کرنا) کرنے سے منع کرتے تھے ۔مقداد بن اسود اس بات کی شکایت لے کر سیدنا علی کے پاس آئے۔ وہ مدینہ کے کنویں سقیا پر اپنے اونٹوں کوپتے کھلا رہے تھے اور آٹا ملا پانی پلا رہے تھے۔مقداد نے کہا، دیکھیں!یہ عثمان بن عفان حج و عمرہ میں قران کرنے سے روکتے ہیں۔ سیدنا علی اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں اور بازوؤں پر آٹا اور پتے لگے ہوئے تھے، حضرت عثمان کے پاس چلے آئے اور کہا، آپ حج قران سے روکتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا ، یہ میری فقہی راے ہے۔ سیدنا علی غصے سے یہ پکارتے ہوئے لوٹ آئے، ’لبیک اللّٰہم لبیک بحجۃ وعمرۃ معا‘۔(موطا امام مالک، رقم ۲ ۶۹)
حضرت مقدادکا حلیہ ان کی بیٹی کریمہ نے یو ں بیان کیا ہے ،مقداد لانبے ، گندم گوں اور سرخی مائل تھے۔سر کے بال گھنے اور ابرو ملے ہوئے تھے۔ان کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ڈاڑھی بہت بڑی تھی نہ چھوٹی ، اس پرزرد رنگ لگاتے۔
حضرت مقداد کی وفات عہد عثمانی (۳۳ھ)میں مدینہ سے تین (یا آٹھ )میل دور واقع مقام جرف میں ان کی اراضی پر ہوئی۔ مقداد کا پیٹ بڑا تھا۔ان کے رومی غلام نے ان سے کہا،میں آپ کا پیٹ کاٹ کر اس میں سے چربی نکال دیتا ہوں تو وہ ہلکا ہو جائے گا۔اس نے چربی نکالنے کا آپریشن کیا اور پیٹ سی دیا، لیکن اسی سے ان کی وفات ہو گئی۔ غلام بھاگ نکلا۔میت کوکندھوں پر رکھ کر مدینہ لایا گیا، نماز جنازہ عثمان نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔ان کی عمر ستر برس ہوئی۔ دوسری روایت کے مطابق ان کی وفات خروع کا تیل ( ارنڈی کا تیل،castor oil) پینے سے ہوئی۔مقداد کی وفات کے بعد عثمان ان کی مدح کرتے رہے۔
حضرت مقداد نے زبیر بن عوام کو اپنا وصی بنایا۔انھوں نے حسن و حسین کے لیے اٹھارہ اٹھارہ ہزار درہم اور امہات المومنین میں سے ہر ایک کے لیے سات سات ہزارکی وصیت کی۔ان سب نے یہ رقوم قبول کر لیں۔
حضرت مقداد کے بیٹوں نے علی و معاویہ کشمکش میں سیدنا علی کا ساتھ دیا۔ ان کی ایک بیٹی کا نام کریمہ تھا جنھوں نے ان سے کئی روایات نقل کی ہیں۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،اﷲ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا اور کہا، میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔’’علی،مقداد،ابوذراور سلمان فارسی۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۷۱۸،ابن ماجہ، رقم ۱۴۹، مسند احمد، رقم ۲۲۹۶۸) مسند احمد کی یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ اسے سات معزز رفقا و وزرا نہ دیے گئے ہوں جبکہ مجھے چودہ نقیبوں(سات قریش سے اور سات باقی مہاجرین میں سے) کی معیت حاصل ہے۔ان کے نام یہ ہیں، حمزہ، جعفر، علی، حسن، حسین، ابوبکر،عمر، مقداد،عبداﷲ بن مسعود، حذیفہ، سلمان، عمار، بلال اور ابوذر۔‘‘ (رقم ۶۶۵،۱۲۶۳) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت مقداد کو کسی مہم کا سربراہ بنا کر بھیجا۔ لوٹے تو دریافت فرمایا، تو نے امارت کیسی پائی؟مقداد نے جواب دیا، مجھے یہی خیال آتا رہا کہ سب ماتحت میرے غلام ہیں۔واﷲ!جب تک میں زندہ ہوں ،کوئی منصب نہ سنبھالوں گا۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۴۸۸، حلےۃ الاولیا ۵۶۴) یہ خیال ان میں اتنا پختہ ہو گیا کہ نمازکی امامت کرنے کو کہا جاتا تو بھی انکار کر دیتے۔ (تہذیب التہذیب) انس بتاتے ہیں، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلند آواز سے تلاوت کرتے سنا تو فرمایا، خشیت الٰہی رکھنے والا ہے،وہ صحابی حضرت مقداد بن اسود تھے۔
ایک تابعی نے حضرت مقداد سے کہا،خوش بخت ہیں وہ آنکھیں جنھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ وہ کچھ دیکھ لیتے جو آپ لوگوں نے دیکھااور ان مواقع پر، ان معرکوں میں موجود ہوتے جہاں آپ رہے۔ حضرت مقداد کو غصہ آ گیا،بولے،کیا معلوم ،یہ آرزو رکھنے والا اس وقت ہوتا تو کس مقام پر ہوتا؟ ایسے لوگوں نے بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ پایا جنھیں اﷲ نے مونہوں کے بل دوزخ میں جھونک دیا، کیونکہ انھوں نے آپ کو مانا نہ تصدیق کی۔تم اﷲ کا شکر ادا نہیں کرتے کہ تمھاری آزمایش پہلوں نے جھیل لی ،تم اﷲ ہی کو مانتے ہو اور اس کے انبیا کو سچا جانتے ہو۔آپ کے زمانے کا حال یہ تھا کہ آپ کے لائے ہوئے ،حق و باطل کو ممیز کرنے والے فرقان نے باپ بیٹے میں تفریق پیدا کر دی تھی۔ایک شخص کا دل اﷲ نے ایمان کے لیے کشادہ کر دیا ہوتا تھا، لیکن وہ دیکھتا تھا کہ اس کا باپ ، بیٹا یا بھائی کفر میں مبتلا ہیں۔ اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک کیسے مل سکتی تھی جب اس کے پیارے جہنم میں جانے والے تھے۔(مسند احمد، رقم ۳۳۸۱۰)
حضرت مقداد بن اسود کا قول ہے،’’ میں کسی شخص کے بارے میں اچھا برا کچھ نہیں کہتا یہاں تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لوں، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد سن رکھا ہے، ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ الٹتا پلٹتا ہے جو خوب جوش کھا رہی ہوتی ہے۔‘‘ (مسند احمد، رقم ۲۳۸۱۶، حلےۃ الاولیا۵۶۶)
مشہور تابعی سائب بن یزید کہتے ہیں،میں طلحہ بن عبیداﷲ، سعد بن ابی وقاص،مقداد بن اسوداور عبدالرحمان بن عوف کی صحبت میں رہا ہوں۔میں نے کسی کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے نہیں سنا سواے اس کے کہ طلحہ جنگ احد کی باتیں بتاتے تھے۔ (بخاری، رقم ۲۸۲۴)صحابہ کا یہ طرز عمل احتیاط پر مبنی تھاتاہم مقداد نے بے شمار روایات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے براہ راست روایت کیں۔ان میں سے ایک بخاری میں اور چار مسلم میں شامل ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں،علی،عبداﷲ بن مسعود،عبداﷲ بن عباس،انس، مستورد بن شداد،ابو ایوب انصاری،طارق بن شہاب، عبیداﷲ بن عدی،ہمام بن حارث، عبدالرحمان بن ابولیلیٰ،میمون بن ابو شبیب ،سلیمان بن یسار،سلیم بن عامر،عمر بن اسحاق ،جبیر بن نفیر،شریک بن سمی،حارث بن سوید،سائب بن یزید، سعید بن عاص، عبداﷲ بن سخبرہ،ان کی اہلیہ ضباعہ بنت زبیراور بیٹی کریمہ بنت مقداد۔
مقداد سے مروی چند احادیث:میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی لکڑی ، ستون یا پتھر کی طرف رخ کر کے نمازپڑھی ہو۔آپ اسے اپنے بائیں یا دائیں ابرو کے مقابل کر لیتے ،بالکل سامنے نہ رکھتے۔ (ابوداؤد، رقم ۶۹۳) ایک بار مقداد نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا،ایک کافر مجھ سے جنگ کرتے ہوئے میرا ایک ہاتھ کاٹ دے پھر ایک درخت کی اوٹ لے کر کہے ، میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ آپ کا کیا ارشاد ہے، میں اسے قتل کر دوں؟ فرمایا، نہیں۔مقداد نے پھر پوچھا،یا رسول اﷲ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے،میں اسے نہ ماروں؟ آپ نے فرمایا، اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ ایمان کی حالت میں مرے گا جو اس نے قتل ہونے سے پہلے قبول کیا تھا، لیکن تم ویسے کافر ہو جاؤ گے جیسے وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔ (بخاری، رقم ۴۰۱۹،مسلم، رقم ۱۸۷) مقداد نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا،’’خوش بخت ہے جو فتنوں سے محفوظ کر دیا جائے، خوش بخت ہے جو فتنوں سے دور کر دیا جائے،سعادت مند ہے جو فتنوں میں پڑنے سے بچ جائے۔جو ان میں مبتلا ہوا اور صبر کیا،اس کے کیا کہنے۔ (ابودؤد، رقم ۴۲۶۳)
شیعہ سیدنا علی اوراہل بیت کے علاوہ صرف تین (دوسری روایت :کل سات،عمار بن یاسر،جابر بن عبداﷲ انصاری اور بلال) صحابہ سلمان،مقداد اور ابوذر کو مخلصین میں شمار کرتے ہیں۔ امام محمد باقر سے یہ روایت منسوب کی گئی ہے کہ (سیدنا علی کا آخر تک ساتھ دینے والے) عمار بھی( معاذ اﷲ) دین سے پھر گئے تھے البتہ مقداد ارتداد سے بالکل پاک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ مورخین مقداد کی مدح میں رطب اللسان ہیں۔’اختصاص‘ میں امام جعفر صادق کا قول نقل کیا گیا ہے،امت میں مقداد کا رتبہ وہی ہے جو قرآن مجید میں لفظ ’الف‘ کا ہے۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح (بخاری ، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن(مسلم، شرکۃ دار الارقم)الموسوعۃ الحدیثیۃ (مسند امام احمد بن حنبل)، تاریخ الامم والملوک (طبری)،معجم الصحابۃ(ابن قانع)،حلےۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء (ابونعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب(ابن عبدالبر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)،البداےۃ والنہاےۃ(ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیر اعلام النبلاء(ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)،تہذیب التہذیب(ابن حجر)، Wikipedia۔
____________