HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

میاں بیویوں کے سربراہ ہیں

قرآن مجید کی آیت ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ.(النساء: ۳۴)
’’(میاں اور بیوی کے تعلق میں بھی اِسی اصول کے مطابق) مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کودوسرے پرفضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔پھرجونیک عورتیں ہیں ،وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں،اِس بناپرکہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔‘‘ (البیان ۱/ ۴۸۸)

اگرترکیب کلام کی رعایت رہے اورزبان کی نزاکتیں بھی ملحوظ رکھی جائیں تومذکورہ بالا ترجمہ ، ہمارے نزدیک آیت کے مدعاکاصحیح ترین ابلاغ ہے، لیکن اشراق نومبر۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون نے جو پروفیسر خورشید عالم صاحب کی نگارشات پرمشتمل ہے ،اس ترجمہ پرکچھ سوالات پیداکردیے ہیں۔ان کایہ مضمون اصل میں توایک عالم دین کے مقالے پرتنقیدی نظر سے لکھا گیا تھا اوروہی صاحب اس کاجواب دینے کاحق رکھتے تھے،لیکن اس میں قرآن مجید اور بالخصوص ، مذکورہ آیت کی تفہیم سے متعلق چندمسائل اس طرح زیربحث آگئے ہیں کہ ہم جیسے طالب علموں کے لیے بھی اپنی گزارشات پیش کرنے کاایک حدتک جوازپیداہوگیاہے۔

اس آیت میں ’الرجال‘ کاترجمہ مرد اور ’النساء‘ کاترجمہ عورت کرنے پرپروفیسرصاحب کوکچھ تحفظات ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ مرداورعورت کے الفاظ سے اس مقام پرپیچیدگیاں پیدا ہو جانے کااندیشہ ہے ،اس لیے انھیں چھوڑکریہاں میاں اوربیوی کے الفاظ استعمال کیے جائیں جو آیت کے شان نزول کے مطابق بھی ہوں گے اوراس کے سیاق وسباق کے موافق بھی۔

اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بعض اوقات الفاظ توعموم میں لکھے جاتے ہیں ، مگر ان کاموقع استعمال ان میں ایک نوعیت کی تخصیص پیداکردیتاہے ۔اورعام لفظ کااس طرح تخصیص میں چلے جانے کایہ اسلوب ،کم وبیش ہرزبان میں مسلم قاعدے کی حیثیت رکھتااوراہل زبان کی بول چال اوران کی تحریر وتقریرمیں عمومی طورپرشائع وذائع ہوتاہے۔بولنے والے اسے معمول میں بولتے اورلکھنے والے بے تکلف لکھتے ہیں اوران کے مخاطبین بناکسی الجھن میں پڑے اسے سمجھ لیتے ہیں۔اردوزبان میں بھی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’مردتونان ونفقہ کاباراٹھاکربچوں سے بے پروا ہو جاتے ہیں اور اصل قربانی عورت دیتی ہے‘‘ تواس جملے میں مردسے باپ مرادلینے اورعورت سے ماں مراد لینے میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔اسی طرح مذکورہ آیت میں بھی ’الرجال‘ اور ’النساء‘ کا ترجمہ جب مرد اورعورت کیا جاتا ہے تواس کے بعدکی ہدایات بالکل واضح کردیتی ہیں کہ اس سے مراد بہرحال،میاں اوربیوی ہی ہیں؛اوریہ سب سمجھ لینے میں کسی ’’پیچیدگی ‘‘کے آجانے کاذرہ بھر امکان نہیں رہتا۔لیکن بفرض محال،زبان کایہ سادہ اسلوب اگرکسی کی گرفت میں نہ بھی آسکے تواس مسئلے کا حل بہرحال، یہ نہیں ہے کہ ہم زبان کی بے ساختگی اوراس کے حسن سے بے پروا ہو جائیں اوراس میں سہل ممتنع ٹانکنے لگیں،بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ ہم زبان کو اس کی فطرت ہی پر رکھیں اور اس کے اسالیب کی صحیح پرکھ، زبان ناآشناؤں میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

نیز یہ بھی یادرہے کہ اس طرح کے اسالیب برتنے میں محض زبان کے حسن ہی کالحاظ نہیں ہوتا ، بلکہ کچھ نہ کچھ معنویت بھی ا س کاباعث ہواکرتی ہے کہ جس کاابلاغ متکلم کے پیش نظرہوتا ہے۔ اس آیت میں جولاریب، میاں بیوی کے تعلق سے آئی ہے ،قرآن مجید اگر چاہتا تو ’الرجال‘ و ’النساء‘ کے بجاے وہ الفاظ بھی لاسکتاتھاجوزن وشو کے لیے عربی زبان میں عام مستعمل ہیں۔ مگر اس نے وہ مخصوص الفاظ چھوڑکرجوعمومی الفاظ اپنائے ہیں، اس کی ایک معقول وجہ اگر اس آیت کے سیاق پرنظر ہوتوبآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔

النساء کی اس آیت ۳۴ کی تمہیداصل میں آیت۳۲سے اٹھائی گئی ہے ،یادوسرے لفظوں میں آیت۳۲کی اصل ہے کہ جس پریہ آیت متفرع ہوئی ہے ۔اس میں بیان ہواہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ.
’’اورجوکچھ اللہ نے تم میں سے ایک کودوسرے پر ترجیح دی ہے ،اُس کی تمنانہ کرو،(اِس لیے کہ) مردوں نے جو کچھ کمایاہے ،اُس کاحصہ انھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جوکچھ کمایاہے ، اُس کاحصہ انھیں بھی لازماً مل جائے گا۔‘‘

اس آیت میں جس فضیلت کی تمناکرنے سے روکاگیاہے وہ بلااختلاف ،مردوعورت کی باہمی فضیلت ہے۔ مزید یہ کہ وہ اپنی حقیقت میں کسبی نہیں ،بلکہ خِلقی ہے۔پہلی بات کی دلیل آیت میں مرداورعورت کے الفاظ کا موجود ہونا ہے۔ دوسری بات کی دلیل خلقی کی تمناچھوڑکرکسبی کے حصول کی ترغیب دیناہے۔گویایہ بات تمہیدہی میں واضح ہوگئی کہ مردوزن کوایک دوسرے پرکچھ نہ کچھ خلقی فضیلت ضرورحاصل ہے۔اس کے بعدجب زن وشوکے معاملے میں ہدایات دینے کاموقع آیا کہ جس میں ایک فریق کواس کی خلقی فضیلت ہی کی بنیادپرقوامیت دی جانی ہے توظاہرہے، یہاں میاں اوربیوی کے نہیں ، مرداورعورت کے الفاظ ہی موزوں ہوسکتے تھے جو تخصیص میں جاکر میاں اوربیوی کے رشتے کو بیان کرتے اورعموم میں رہتے ہوئے مردکی وجۂ ترجیح کی طرف ایک ہلکاسااشارہ بھی کردیتے ۔

اس کے بعد پروفیسرصاحب نے لفظ ’قوّام‘ کی تحقیق اوراس کے معنی کی تعیین پرتفصیل سے لکھا ہے ۔وہ بیان فرماتے ہیں کہ ’قام‘ جب عورت کے حوالے سے اور ’علی‘ کے صلے کے ساتھ آئے تو اہل لغت کے مطابق اس کا معنی شوہرکابیوی کوروزی مہیاکرناہوتاہے،اس لیے ’الرجال قوامون علی النساء‘ کامطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ شوہربیویوں کی روزی کابندوبست کرنے والے، یعنی ان کے مالی کفیل ہیں۔

ان کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ ’قام‘ جب عورت کے حوالے سے اور ’علی‘ کے صلے کے ساتھ آئے تواس کا ایک معنی عورت کوروزی مہیاکرنابھی ہوتاہے ،مگراس سے یہ نتیجہ اخذکرلینا کہ یہ اسی ایک معنی کے لیے آتا ہے، اس بات سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل لغت اس ترکیب کامفہوم بیان کرتے ہوئے ’مانھا‘ ہی کہہ دینے پراکتفانہیں کرتے ،بلکہ اس کے ساتھ ’وقام بشانھا‘ کا بھی ذکرکرتے ہیں کہ جس کامعنی مالی کفالت سے آگے بڑھ کرعورت کے جملہ امورکاذمہ دارہوجاناہے ۔اب زبان کے اس قاعدے سے توسبھی واقف ہیں کہ جب لغت میں کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی موجودہوں توان میں سے کسی ایک کوترجیح دینے کی واحد صورت ، اس لفظ کاموقع استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ ’الرجال قوامون علی النساء‘ کے بعدبھی جب یہ جملہ آجاتا ہے کہ وہ مرد اپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں تویہ بات حتمی ہوجاتی ہے کہ اس سیاق میں ’قوام علی‘ کا معنی بہرحال،مال خرچ کرنا نہیں ہے۔اس معنی کی نفی ہوجائے تویہاں دوسرا معنی یعنی، منتظم مرادلینے کاکم سے کم احتمال ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ اوریہ احتمال اس وقت بالکل ہی قطعی۱؂ ہوجاتاہے جب ’’نیک عورتیں شوہروں کی اطاعت گزارہوتی ہیں‘‘کے الفاظ ’قوّام علی‘ میں پائے جانے والے منتظم کے معنی کی طرف انگلی اٹھاکراشارہ کردیتے ہیں ۔نیز،معاملات کا اس طرح ذمہ دار اور منتظم ہو جانا، اپنے اندرایک طرح کا اِستعلابھی رکھتاہے ،اس لیے محتاط مترجمین نے ’قوّامون علی‘ کا مطلب ایسے الفاظ سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جن کے ذریعے اس استعلا کو بھی کسی حدتک نمایاں کیا جا سکے۔

قوام علی‘ کی اس تحقیق کے ہوتے ہوئے اب یہ کہناکچھ حیثیت نہیں رکھتا کہ ’’ مالی کفالت کے معنوں کی تائید ’وبما انفقوامن اموالھم‘ کے جملے سے بھی ہوتی ہے‘‘۔کیونکہ ایساکہنا لغت اور سیاق سے کھلاہوااِعراض توہے ہی،جس طریقے سے اس پردلیل لائی گئی ہے وہ عمل بھی کچھ ایسا وقیع نہیں کہ لفظ کامعنی متعین کرنے کے لیے اس پر اعتمادکیا جا سکے۔ کیونکہ ’بما انفقوا‘ کی ’ب‘ تو اصل میں یہ بتاتی ہے کہ یہ جملہ ابتدائی جملے کی وجہ بیان کرنے کے لیے آیاہے ،نہ کہ اُس کی نوعیت واضح کرنے کے لیے۔یعنی قوامیت مردہی کوکیوں دی گئی ہے ’بما انفقوا‘ لاکر اس سوال کا جواب دیا گیا ہے، نہ کہ اس کے ذریعے سے قوامیت کا مفہوم متعین کیا گیا ہے۔اس بات کوسمجھ لینے کے بعد اگر ترجمہ کیا جائے تومسبّب اور سبب کا باہمی رشتہ بالکل واضح ہوجاتا اور معلوم ہو جاتاہے کہ شوہر کو قوامیت دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالی ذمہ داریوں کا باراٹھائے گا۔لیکن پروفیسرصاحب کی تاویل میں مسبّب اورسبب کے ساتھ جوکچھ ہوتاہے اس سے قطع نظر، دیکھیے مدعاکی صورت کیاسے کیا ہو جاتی ہے: ’’شوہر کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے اوپر خرچ کرے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر خرچ کرتا ہے ۔‘‘گویایہ آیت ذمہ داری اوراس کی وجہ کا بیان نہ ہوئی ،کسی سزا کا بیان ہوگئی جو مرد بے چارے کو اپنی ذمہ داری اداکرنے ہی پر سنا دی گئی ہے۔

بہرکیف،اگریہ طے ہوجائے کہ ’قوامون علی النساء‘ مالی کفالت کابیان نہیں ،بلکہ شوہروں کو بیویوں کے اوپر حاصل ایک طرح کی بالادستی کابیان ہے تواس کے بعداس مفہوم کو ترجمے کا جامہ پہنانے میں ہرکوئی دوسرے سے اختلاف کرسکتاہے ،اوراس اختلاف کی بنیادیہاں سے بھی اٹھا سکتاہے کہ ایسے الفاظ جوموجودہ دورمیں توحّش یاتنفّرکاباعث بنتے ہوں، ان سے پرہیز کرنا ازحدضروری ہوتاہے۔ہمارے خیال میں بھی حاکم ،مسیطر اورمتسلط کے الفاظ کامعاملہ یہی ہے کہ انھیں سنتے ہی ذہن میں ایساتاثرپیداہوتاہے جوآج کی دنیا میں کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔لہٰذاہم بھی سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے الفاظ کوچھوڑدینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ محض مترجمین اورمفسرین کے اپنائے ہوئے الفاظ ہیں،لیکن انھیں چھوڑکر جن الفاظ کا چناؤ کیا جائے وہ بہرصورت، قرآن مجید کے مدعاکابیان ہونے چاہییں نہ کہ مرعوبیت کی نفسیات اور خود ساختہ نظریات کاعکس۔

اس اعتبار سے دیکھاجائے تو شروع میں نقل کیے گئے ترجمہ میں ’’سربراہ‘ ‘کالفظ بڑا ہی معنی خیز ہے۔فاضل مترجم کا یہ انتخاب جس طرح قرآن مجیدکے مفہوم کواداکرنے کی اچھی کوشش ہے ،اسی طرح حاکم ومتسلط جیسے الفاظ سے پیداہونے والے توحش اورپھراسی بنیادپر مسلم فکر پر ہونے والے اعتراضات کابھی ایک اچھاجواب ہے ۔

اس کے بعدپروفیسرصاحب نے آیت کے اگلے حصے ’بما فضل اللّٰہ بعضھم علی بعض‘ کے ذیل میں کچھ وضاحت فرمائی ہے ۔ان کی بیان کردہ وضاحت میں سے اس بات کے توہم بھی مؤیدہیں کہ یہ الفاظ مرد کی مطلق فضیلت کابیان نہیں ہیں،لیکن ان کایہ فرماناکہ یہ فضیلت مالی کفالت کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے ،اس بات کے ہم قائل نہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگریہی کہنا مقصود ہوتا تو اصل عبارت یوں ہوتی: ’فضل اللّٰہ بعضھم علی بعض بما انفقوا من اموالھم‘۔ لیکن دیکھ لیجیے،یہ عبارت ’بما‘ سے شروع ہوئی ہے اوراس کے دونوں حصے ایک واؤکے ذریعے سے ملے ہوئے ہیں۔ یعنی اس میں ’وبما انفقوامن اموالھم‘ کے الفاظ ’بما فضل اللّٰہ بعضھم علی بعض‘ پر عطف ہو کر اور حرف جر کے اعادے سے آئے ہیں جواس چیزکی بین دلیل ہیں کہ یہ دونوں فقرے آپس میں مسبب اور سبب کارشتہ نہیں رکھتے ،بلکہ یہ دونوں مل کرپہلے جملے کا سبب ہوتے ہیں۔آسان ترالفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میںیہ بیان نہیں ہواکہ مرد چونکہ خرچ کرتے ہیں ،اس لیے صاحب فضیلت ہوجاتے ہیں، بلکہ یہ بیان ہواہے کہ ان کی خِلقی فضیلت اور ان کاخرچ کرنا،یہ دو وجوہ ہیں کہ جن کی بنیادپریہ قوّا م ہوجاتے ہیں۔

’’اس لیے کہ اللہ نے ایک کودوسرے پرفضیلت بخشی ہے ‘‘یہ الفاظ اس معاملے میں توواضح ہیں کہ یہ مرد کی کلی فضیلت کااظہارنہیں ہیں، کیایہ شوہرکی جزئی فضیلت کو بیان کرتے ہیں ،اس بات کو سمجھنے میں اکثراوقات تسامح ہوجاتاہے ۔لہٰذا ہم آیت کے اس جز کوکسی سوال کے جواب میں بیان کرنے کے بجائے ایجابی انداز میں بھی بیان کیے دیتے ہیں۔

زیر بحث آیت میں فضیلت کے بیان کی تین ممکنہ صورتیں ہوسکتی تھیں۔پہلی یہ کہ اللہ نے عورت کومردپرفضیلت دی ہے ،دوسری یہ کہ اللہ نے مردکوعورت پرفضیلت دی ہے ،اورتیسری یہ کہ اللہ نے دونوں کوایک دوسر ے پرفضیلت دے رکھی ہے ۔ان میں سے پہلی صورت کایہاں آجانا تو ہر گزروانہیں ہے، کیونکہ جب مردکوسربراہ بنا دیاگیاتواس کی دلیل میںیہ کہنے کاکوئی موقع نہیں رہا کہ عورت مرد پربرتری رکھتی ہے ۔رہی دوسری صورت ،تووہ قیاس کے عین مطابق ہے کہ جب مرد کی سربراہی کا اعلان ہو تواس کی دلیل میں مردکی جزوی فضیلت کا بیان آئے تاکہ اس کے سربراہ ہونے کی وجہ بالکل واضح ہوجائے۔ لازمی بات ہے کہ قرآن مجیداسی صورت کواختیارکرتااگراس میں پائی جانے والی حکمت آسمانوں پر بننے کے بجاے زمین پر اور پھر منطق کے اصولوں پر بنی ہوتی ۔ لیکن اس نے اس قیاسی اسلوب کوبھی چھوڑا اور ’بعضھم علی بعض‘ کی تیسری صورت کو اختیار کرلیاہے۔اب سوال صرف یہ رہ جاتاہے کہ اُسے چھوڑنے اوراِسے اختیار کرنے کی آخروجہ کیاہے ؟ہمارے خیال میں اس احتراز وانتخاب کی وجہ یہ ہے:

آیت میں ’الرجال قوامون علی النساء‘ کاجملہ شوہرکے لیے بیوی پر ایک طرح کی بالا دستی کا اظہارہے ، اس سے یہ گمان کیاجاسکتاتھا کہ شوہرکوحاصل ہونے والی یہ قوامیت شایداس کی کسی مطلق فضیلت کی بناپرہے ۔اس کے بعداگریہ بھی کہہ دیاجاتاکہ یہ بالادستی اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اس کوعورت پرفضیلت بخش رکھی ہے تویہ جملہ اس کی مطلق فضیلت پرمہر تصدیق ثبت کر دیتا، حالاں کہ ایسی فضیلت مردکوحاصل نہیں ہے ۔چنانچہ یہاں کوئی ایساجملہ ہی موزوں ہوسکتاتھا جو ممکنہ غلط فہمی۲؂ کا ازالہ کرتااوریہ بھی بیان کردیتاکہ خاندان کے دائرے میں جوفضیلت مرد کو حاصل ہو گئی ہے اس کی گنجایش اسی اصول پرپیداہوئی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پرکچھ نہ کچھ فضیلت ضرور رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے ، یہ بات ’بعضھم علی بعض‘ کے عمومی اسلوب کوچھوڑکرکسی اورطرح سے کہہ دینا، ممکن ہی نہیں ہے۔

آیت میں ’فالصالحات قانتات‘ کے الفاظ بیوی کوواضح طورپرترغیب دیتے ہیں کہ وہ شوہر کی فرماں بردار بن کررہے کہ یہ اس کے سربراہ ہونے کالازمی تقاضاہے، لیکن شوہرکے اس حق اطاعت کومان لیاجائے توہمارے ممدوح کاسارااستدلال اپنی بنیادہی کھودیتاہے ،اس لیے انھوں نے اس پربھی خاصی تفصیل سے بحث فرمائی ہے۔ انھیں پہلے تواس بات پراصرارہواہے کہ ’’’قنت ‘کالفظ صرف اور صرف دین کے بارے میں اطاعت اورنیکی پر دلالت کرتاہے ‘‘۔پھراس کی تائیدمیں شرعی دلیل انھوں نے کچھ یوں بیان فرمائی ہے :’’اس لیے قرآن کریم میں یہ لفظ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے خاص ہے ۔‘‘ اورآخرکاریہ فیصلہ بھی فرمادیاہے ’’ کسی شخص کی اطاعت کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں [ہے]۔‘‘

ہم طالب علم جس عربی زبان کی شدبدہونے کاگمان رکھتے ہیں،اس میں تو ’قنت‘ کے لفظ کو ہر گزکوئی اعتراض نہیں ہے کہ اسے دینی معاملات میں استعمال کیاجائے یاپھردنیوی امور میں۔ یہ بے چارا خداکے سامنے بچھ جانے میں جس طرح فخرمحسوس کرتاہے ،اسی طرح شوہرکی بھی کچھ نہ کچھ مان لینے میں اسے ’’عار‘‘نہیں ہے ۔جیسے ’قنت للّٰہ‘ اہل زبان کامحاورہ ہے ایسے ہی ’قنت المراۃ لزوجھا‘ بھی انھی کامحاورہ ہے ۔اور پھر ’امراۃ قنوت‘ کی اصطلاح جو ہو سکتا ہے ’رجال قنوت‘ کی نازک طبیعتوں پر بہت ہی گراں بارہو،بہرحال، اہل عرب کی وضع کی ہوئی اصطلاح ہی ہے، نہ کہ پنجاب کے کسی زورآورمجازی خدا کی ۔

اسی طرح ان کی یہ بات بھی کہ لفظ ’قنوت‘ قرآن مجیدمیں اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ خاص ہے ،ہمارے لیے کچھ قابل فہم نہیں ہے۔اس لیے کہ لفظ کااس طرح خاص ہوجانا، خودزبان کی شہادت کی بنیادپرہوگایاپھرکسی شرعی دلیل کی بنیادپر۔زبان میں اس لفظ کے خاص ہو جانے کی نہیں، الٹا اس کے عام ہونے کی شہادت پائی جاتی ہے ،جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ اسی طرح شرعی مصادر میں بھی ایسی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی جویہ بتاتی ہوکہ اللہ اور رسول نے اس لفظ کو اپنی اطاعت کے لیے خاص کررکھاہے۔

دراصل،آیت کے اس جزومیں اصل مسئلہ ’قانتات‘ کے متعلق کی تعیین کاہے کہ وہ ’الرجال‘ ہے ،یاپھر لفظ ’اللّٰہ‘۔ کیونکہ ’قانتات‘ کو ’الرجال‘ سے متعلق کریں گے تومعنی ہوگاکہ نیک بیویاں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کی اطاعت گزارہیں ،اوراگراسے لفظ ’اللّٰہ‘ سے متعلق کردیں گے تومطلب ہو جائے گاکہ وہ بیویاں اللہ کی اطاعت گزارہیں۔سیاق کلام میں مفعول کی اس تعیین کے جو ممکنہ وجوہ ہوسکتے ہیں ،ان کا ذکرہم ذیل میں کیے دیتے ہیں:

اول ،بڑی سادہ سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہرکوسربراہ بنایاتوپہلے اس تقرر کے دلائل دے دیے اور پھراُس کی سربراہی کالازمی تقاضا،یعنی بیوی کی اطاعت گزاری کابیان کردیااور بس۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تودرمیان میں آجانے والے جملے معترضہ قرارپاتے اور ’قانتات‘ اور ’حافظات‘ کے الفاظ براہ راست ’الرجال‘ سے متعلق ہو جاتے ہیں۔

دوم، ’فالصالحات قانتات‘ کے ساتھ ایک ’ف‘بھی آگئی ہے جوبہرحال ،زائد نہیں ہے۔ اگر اس کا حق صحیح طورپرادا کیاجائے تویہ الفاظ اصل میں ان عورتوں کے صالح ہونے کابیان ہیں جو اپنے شوہروں کی سربراہی کالازمی تقاضامان لیتی ہیں۔یعنی ان میں یہ بیان ہواہے کہ شوہر چونکہ سربراہ ہیں اور بیویوں پراس وجہ سے ان کی اطاعت لازم ہے ،چنانچہ نیک بیویاں وہی ہیں جوان کی اطاعت گزارہیں ۔سو اس طرح بھی واضح ہوجاتاہے کہ یہاں ’الرجال‘ کالفظ ہی ’قانتات‘ کامفعول ہے۔

سوم،آیت کے اسی حصے میں ’حافظات للغیب‘ کے الفاظ بھی قابل غورہیں۔ان کا مفہوم کوئی بھی یہ نہیں بیان کرتاکہ وہ عورتیں اللہ کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں ،بلکہ سب کے نزدیک اس کا مفہوم یہی ہے کہ وہ شوہروں کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں ،اورایک دوسری تاویل کے مطابق ، وہ شوہروں کی غیرموجودگی میں حفاظت کرتی ہیں۔ یعنی ہردوصورت میں اس کامتعلق ’الرجال‘ ہی قرارپاتاہے۔اب یہ بھی طے ہے کہ ’حافظات‘ کا یہ لفظ ’فالصالحات‘ کی دوسری خبرہے اوراس طرح ’قانتات‘ میں، جوکہ پہلی خبرہے ، اوراس میں ایک واضح مناسبت بھی ہے ۔ان دونوں چیزوں کے ہوتے ہوئے جب ہم ’قانتات‘ کامفعول طے کریں گے تووہ بھی ظاہرہے ،وہی ہوگا جو ’حافظات‘ کا ہے ۔تالیف یہ ہو گی: ’قانتات للرجال وحافظات لغیبھم‘۔

چہارم ،ہماری علمی تربیت کے لیے قرآن مجیدنے بہت سے مقامات پریہ طریقہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ ایک مشفق استادکی طرح پہلے توکچھ چیزوں کو اجمال میں ذکرکرتا ،پھران کی طرف کچھ اشارے کرتاچلاجاتااورآخرکارانھیں بالکل کھول کربیان کردیتاہے۔یہاں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اس نے پہلے تو ’قانتات‘ کے مفعول کوحذف کیا ہے ، پھر ’حافظات للغیب‘ میں اس کی طرف کچھ اشارہ کردیاہے ،اوراس کے بعد ’فان اطعنکم‘ کے الفاظ میں ’اطعن‘ سے ’قانتات‘ کامعنی اور ’کم‘ کی ضمیر مخاطب سے اس کے مفعول کو بالکل ہی واضح کر دیاہے کہ یہ کوئی اور نہیں، بلکہ ’الرجال‘ ہی ہے۔

مزیدیہ کہ قرآن مجیدکے مدنظربھی اگریہی بیان کرناہوتاکہ بیویاں اللہ کی فرماں بردار ہیں، جیسا کہ ہمارے ممدوح کی راے ہے ،توسوال پیداہوتاہے کہ وہ ’قانتات‘ کے لفظ کو ’فالصالحات‘ کی خبر بناکرکیوں لاتا؟پھرتو ’فالصالحات القانتات حافظات‘ کا اسلوب زیادہ موزوں ہوتا۔یعنی ’’جو نیک عورتیں ہیں ،وہ فرماں بردار ہوتی ہیں ، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘، اس کے بجاے یہ کہاجاتاکہ جونیک فرماں بردارعورتیں ہوتی ہیں ، وہ رازوں کی حفاظت کرتی ہیں۔

پروفیسرصاحب نے اپنی راے کو مؤکد کرنے کے لیے لغوی اورشرعی دلائل ہی پراکتفانہیں کیا ، بلکہ کچھ معنوی دلائل بھی فراہم کیے ہیں ۔وہ فرماتے ہیں کہ میاں اوربیوی کے باہمی تعلقات ایک ساتھی اورشریک حیات کے ہوتے ہیں نہ کہ حاکم اورمحکوم کے ۔اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حاکم ومحکوم کے تعلق میں محبت ،سکون اوراطمینان کی فضا کبھی قائم ہی نہیں ہوسکتی ،ہاں، رفاقت،مشورہ اور باہمی رضامندی اس کی ضامن ضرورہے۔پھرقرآن میں بیوی کے لیے استعمال کیے گئے ’صاحبہ‘ اور ’زوج‘ کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے میاں بیوی میں پائی جانے والی یکسانیت، ہم رنگی اور پیوستگی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔

اس ضمن میں اگرذیل کی چند گزارشات پربھی نظررہے توامیدہے کہ ہم افراط وتفریط کے بجاے راہ اعتدال پرقائم رہ سکیں گے :

پہلی یہ کہ اس بات میں کس کوشک ہوسکتاہے کہ مردوعورت کانکاح اصل میں رفاقت کے پیمان ہی کا دوسرانام ہے اوران کے باہمی تعلقات کی خوش گواری اسی میں ہے کہ وہ حاکم اورمحکوم کی حیثیت سے نہیں،بلکہ اچھے دوستوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کریں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نکاح محض مردوعورت کی رفاقت ہی نہیں ہے ،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک خاندان کے ادارے کی بنیادرکھنے کا اعلان بھی ہے ۔اورادارے کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ اس کی نوعیت خود اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ اس کاکوئی نہ کوئی منتظم( نہ کہ حاکم) بھی ضرور ہو۔ مزیدیہ کہ یہ منتظم ہوبھی صرف ایک ہی کہ ادارے کی بقااس کی دوئی کابار اٹھالینے سے قطعی طور پر قاصرہواکرتی ہے۔ غرض یہ کہ بحث اس میں نہیں ہے کہ نکاح کے بعد خاندان کاادارہ وجودمیں آتاہے یانہیں اوراس ادارے کاایک سربراہ بھی ہوناچاہیے یانہیں ،بلکہ بحث صرف اس میں ہے کہ مرد اورعورت میں سے وہ کون ہے جس کواس ادارے کاسربراہ بنایاجائے۔اس کاجواب دین کی تعلیم میں یہ ہے کہ یہ ذمہ داری مرد کوسونپی جائے۔مرد ہی کوکیوں سونپی جائے ،اصل میں ’بما فضل اللّٰہ بعضھم علی بعض وبما انفقوامن اموالھم‘ کے الفاظ اسی بات کی دلیل میں آئے ہیں کہ مرد میں چونکہ قوامیت کی خلقی صلاحیت دوسرے فریق سے زیادہ موجود ہے اور گھردرکی مالی ذمہ داریوں کابوجھ بھی اسی کے اوپرلاداگیا ہے،اس لیے مناسب یہی ہواہے کہ اسے ہی سربراہ بنایاجائے۔

دوسری یہ کہ ادارے کاایک سربراہ وہ ہے جوسرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لیتا،کسی کے نفع ونقصان سے بے پروا ہوتا،ہرجگہ ذاتی مفادسامنے رکھتااوراپنے ماتحتوں کے جسم سے آخری قطرہ خون بھی چوس لینے کوبے قرار ہوتا ہے۔ اس کے مقابل میں دوسرا وہ ہے جوکسی غیرکانہیں ،اپنے گھر اورخاندان ، اپنی بیوی اوراپنے ہی بچوں کی ماں کاسربراہ ہوتا ہے۔اورپھرصرف سربراہ ہی نہیں ، اس کا زوج اورصاحب ہوتا،اس کے نفع ونقصان میں شریک، اس کے دکھ سکھ کا ساتھی اور اس کی جلوت وخلوت کاہم نشین بھی ہوتاہے ۔مزید یہ کہ پہلا سربراہ اوراس کے متعلقین، یہ سب ذاتی مفادات کے اسیر ہوتے ہیں ،اس لیے ان میں باہمی الفت پیداہوجانا انتہائی مشکل امر ہوجاتا ہے؛مگر یہ تووہ ہیں کہ ان کا ہر مفاد جس قدرذاتی ہے، اتناہی مشترک بھی ہے ،چنانچہ یہی وجہ ہوتی ہے کہ مشترک مفادکے حصول کی کوشش بالعموم، ان میں محبت بنائے رکھتی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے سربراہوں میں کیاذرہ بھربھی نسبت ہے کہ ہم ایک کی مادّہ پرستی کا ہوّا دکھائیں اور دوسرے کو جی بھرکرمطعون کریں ؟ایک کی خودغرضی کااشتہاردیں اور دوسرے کے خلوص کو یک سر رد کردیں ؟یاپھرایک کی زیردستوں کے ساتھ بے اعتنائی کو دلیل بنالیں اور اسی بنا پردوسرے کی حساسیت اور محبت کی بھی نفی کردیں؟اورستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس طرز کو علم اور تحقیق کا عنوان بھی دے ڈالیں!

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہردورمیں کچھ خام باتیں علم وعرفان کی معراج خیال کرلی جاتی ہیں۔بعد کے دنوں میں انھی کی بنیادپرباقاعدہ نظام فکروجودمیںآجاتے اورآخرکاروہ وقت آتاہے کہ ہر سو انھی کا رواج ہوجاتااورہردم انھی کی تقدیس گائی جانے لگتی ہے۔عمومی قبولیت کایہ عمل ہوتابھی اتنازور آور ہے کہ اس کے مقابلے میں کھڑے ہونااوراس سے متضاد بات کہنا،انتہائی مشکل اور جان لیواہوجاتاہے۔ مرد و زن کی غیرفطری مساوات کاآج کل جوغلغلہ ہے ،یہ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے ۔اس میں بھی پہلے تویہ فرض کرلیا گیا کہ مرد اورعورت ہرحیثیت میں برابرہوتے ہیں۔پھر اس مفروضے کو فلسفیانہ بنیادیں فراہم کی گئیں اورعقلی انحرافات کے ذریعے سے مسلسل اس کی آبیاری کی گئی۔اوراس کے بعدمساوات کابہت ہی پرکشش عوامی نعرہ ایجادکردیاگیاکہ جودلوں کوفریب دینے اورعام درجے کی دانش کوگم راہ کردینے کے لیے بڑاہی کارگرحربہ ثابت ہوا۔ ۳؂ جن کے دل اس نعرے نے لبھا لیے ہیں اورجن کی عقلیں اپنے دام میں لے رکھی ہیں،انھیں اب لاکھ سمجھایاجائے وہ نہیں سمجھتے کہ جب انسان ہونے کے باوجود،مردوعورت اپنی حقیقت ہی میں مختلف ہیں تواسی قدرتی تقسیم کی بنیاد پر اگران میں حقوق اور فرائض کی تقسیم بھی مان لی جائے تواس پر آخر اعتراض کیاہے ؟اورزیربحث مسئلے میں بھی کیارتی بھراس سے زیادہ کچھ ہواہے کہ مرد وعورت کے مابین حقوق و فرائض کوکچھ وجوہ کی بنیادپرتقسیم کردیاگیاہے ،اوریہ تقسیم بھی کسی جانب داری کے تحت نہیں ، بلکہ فطری اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کے تحت ہی کی گئی ہے ؟

———————

۱؂ اوریہ معنی کیااس وقت بھی قطعی نہیں ہوگاجب عورت کے نشوزکی صورت میں مردکواسے سزادینے کا حق بھی اسی سیاق میں بلکہ متصل بعد ہی بیان کردیاجائے گا۔

۲؂ ممکنہ شبہات کورفع کرنے کایہ انداز،قرآن مجیدکاعام طریقہ ہے ۔اس کی مثال میں وہ آیت بھی دیکھ لی جاسکتی ہے جومیاں بیوی کے حوالے ہی سے آئی ہے۔ سورۂ بقرہ ۲۲۸ میں ارشاد ہوتا ہے: ’وللرجال علیھن درجۃ‘ کہ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ ترجیح کاہے۔ یہ ترجمہ ’درجۃ‘ کی تنوین کوتنکیرکی تنوین سمجھ کر کیاگیاہے۔ہوسکتا تھا کوئی دوسرااِسی کو تفخیم کی تنوین مان کر اس کا ترجمہ ’بہت بڑادرجہ‘ کرتااوراس طرح مردصاحب کوجاعرش پربٹھاتا۔لیکن قرآن مجیدنے اس متوقع احتمال کو ’ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف‘ کہہ کریک سر مستردکردیاہے ۔اس لحاظ سے دیکھاجائے تواس آیت اورزیربحث آیت میں فرق بس یہی ہے کہ یہاں ممکنہ شبے کاردپہلے ہی سے کردیاگیاہے اور وہاں یہی عمل بعد میں ادا کیا گیا ہے۔

۳؂ ہم سمجھتے ہیں کہ مردوزن کی غیرفطری مساوات کاجواس قدر شورہوگیاہے ،اس میں اس مثل کا بھی بڑا دخل ہے جوکہتی ہے کہ میاں اوربیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ۔یہ صحیح ہے کہ یہ گاڑی کے دو پہیے ہی ہیں،مگر اگلے زمانوں میں یہ پہیے چونکہ یکے کے خیال کرلیے گئے تھے کہ جس سے یہ سب مسائل پیدا ہو گئے ہیں ،اس لیے ہم یہ اصلا ح تجویز کریں گے کہ نئے زمانے کی رعایت سے اس مثل میں یکے کی جگہ اب بائیسکل برت لینی چاہیے۔ پہیے اس کے بھی دوہی ہوں گے ،مگراس فرق کے ساتھ کہ ایک آگے ہو گا اور ایک پیچھے۔وگرنہ یکے کے پہیے برابری کے جذبات میں ’’آمنے سامنے ‘‘ تو ضرورآجائیں گے ، مگرگھوڑا آگے جت جانے سے یہ دونوں پیچھے بھی رہ جائیں گے۔

——————————

B