HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانفال ۸: ۶۷- ۷۱ (۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٓٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الْدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۶۷} لَوْلاَ کِتٰبٌٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ{۶۸}
فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۶۹}
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۷۰} وَاِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْھُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۷۱}
(اِنھیں اعتراض ہے کہ تم لوگوں نے یہ سب خون ریزی قیدی پکڑ کر اُن سے فدیہ لینے کے لیے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ) کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اُس کو قیدی ہاتھ آئیں، یہاں تک کہ (اِس کے لیے)وہ ملک میں خون ریزی برپا کر دے۱۱۱؎۔(قریش کے لوگو)، یہ تم ہو جو دنیا کا سروسامان چاہتے ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۱۱۲؎۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا (کہ ابھی تمھیں کچھ اور مہلت دینی ہے) تو جو طریقہ تم نے اختیار کیا تھا، اُس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم نازل ہو جاتا۱۱۳؎۔۶۷-۶۸
سو (مسلمانو، تم اِن کے اعتراضات کی پروا نہ کرو اور فدیہ لے کر) جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے، اُس کو حلال و طیب سمجھ کر کھائو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۱۱۴؎۔۶۹
اے پیغمبر، تمھارے قبضے میں جو قیدی ہیں، اُن سے کہہ دو کہ اللہ تمھارے دلوں میں کوئی خیر دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے، اُس سے بہتر تم کو عطا فرمائے گا۱۱۵؎ اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اور اگر یہ بد عہدی کرنا چاہتے ہیں (تو اِن سے بعید نہیں ہے)، اِس لیے کہ اِس سے پہلے اِنھوں نے خدا سے بد عہدی کی ہے۱۱۶؎۔ چنانچہ (اِسی کا نتیجہ تھا کہ ) اللہ نے تم کو اِن پر قابو دے دیا اور اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۱۱۷؎۔ ۷۰-۷۱

۱۱۱؎ آیت کی ابتدا ’مَا کَانَ‘سے ہوئی ہے۔ یہ اسلوب بیان الزام اور رفع الزام ، دونوں کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ رفع الزام اور پیغمبر کی تنزیہہ شان کے لیے ہے۔ قریش اِس بہانے سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے کہ مسلمان اُن کے قافلۂ تجارت کو لوٹنا چاہتے ہیں۔ جب بدر میں شکست ہو گئی تو اپنی قوم کو اُس کے اثرات سے بچانے کے لیے اُنھوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ دیکھ لو، ہمارا اندیشہ غلط نہیں تھا، اِنھیں جب قافلہ لوٹنے کا موقع نہیں ملا تو اب قیدی پکڑ کر اُن سے فدیہ وصول کر رہے ہیں۔ یہ وہی طریقے ہیں جو ہمیشہ سے دنیا داروں کے رہے ہیں۔ اِس طرح کے کام خدا کے پیغمبر نہیں کرتے۔ قرآن نے یہ اُن کے اِس پروپیگنڈے کا جواب دیا ہے کہ یقینا خدا کے پیغمبر قیدی پکڑنے اور اُن سے مال حاصل کرنے کے لیے خون ریزی نہیں کرتے، مگر کسی مقصد حق کے لیے خون ریزی پر مجبور ہو جائیں تو قیدی بھی پکڑتے ہیں اور مال غنیمت بھی حاصل کرتے ہیں تاکہ اُن مجرموں کو سزا دیں جن کے خلاف وہ جنگ کرنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ چنانچہ اِس موقع پر بھی جو خون ریزی ہوئی ہے، وہ قیدی پکڑ کر اُن سے فدیہ لینے کے لیے نہیں ہوئی، بلکہ قریش کے لیڈروں کو اُن کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے ہوئی ہے اور اُس وقت تک ہوتی رہے گی، جب تک فتنہ باقی ہے اور دین اِس سرزمین میں سب اللہ کے لیے نہیں ہو جاتا۔ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اب وہ اِسی کے مستحق ہیں۔

۱۱۲؎ یہ نہیں فرمایا کہ نبی اور اُس کے پیرو اہل ایمان آخرت کے طلب گار ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ آخرت چاہتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس سے مقصود اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ نبی اور اہل ایمان کے ہاتھوں جو کچھ یہ ہو رہا ہے، یہ اُن کی اپنی مرضی سے نہیں ہو رہا ہے، بلکہ اللہ کی مرضی اور اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔ نبی اور اہل ایمان کی حیثیت اِس سارے کام میں محض آلہ اور واسطہ کی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، یہی عین اللہ کا ارادہ اور اُس کی مرضی ہے۔ اللہ کی مرضی اپنے بندوں کے لیے یہ ہے کہ وہ ہر کام آخرت کو اپنا نصب العین بنا کر کریں تو نبی اور اُس کے ساتھیوں کا کوئی اقدام اللہ کی مرضی کے خلاف کس طرح ہو سکتا ہے۔ گویا بدر اور اِس سلسلہ کے تمام اقدامات کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لے لی۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ عزیز و حکیم ہے۔ وہ جو ارادہ فرماتا ہے، اُس کو کوئی روک نہیں سکتا اور اُس کا ہر ارادہ عدل و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اب تم جو ژاژخائی کرنا چاہتے ہو، کرتے رہو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۱۱)

۱۱۳؎ اشارہ ہے اُس طریقے کی طرف جو پیغمبر اور اُس کے ساتھیوں کو گھروں سے نکالنے، اُنھیں تعذیب کا نشانہ بنانے اور مدینہ میں اُن کا تعاقب کرکے اُنھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی صورت میں قریش نے اختیار کر رکھا تھا۔ اِس کے لیے اصل میں لفظ ’اَخْذ‘ آیا ہے۔ یہ لینے، پکڑنے، اختیار کرنے، کسی ڈھب کو اپنانے وغیرہ سب مفاہیم کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ تمھارے قیدی پکڑے گئے اور اُنھیں فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا، ورنہ حق تو یہ تھا کہ تمھارے جرائم کی پاداش میں تم پر وہ فیصلہ کن عذاب اِسی موقع پر نازل کر دیا جاتا جو پیغمبروں کے منکرین پر نازل کیا جاتا ہے اور تمھاری پوری قوم اِس طرح مٹا دی جاتی کہ اُس کا نام و نشان بھی زمین پر باقی نہ رہتا۔

۱۱۴؎ یعنی جو چیز حلال و طیب ہے، اُسے بغیر کسی تردد کے کھائو برتو، لیکن اِس بات سے ڈرتے رہو کہ کسی ایسی چیز میں آلودہ نہ ہو جائو جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ اِس کے باوجود چھوٹی موٹی کوئی غلطی یا کوتاہی ہو گئی تو مطمئن رہو، اللہ غفور و رحیم ہے۔

۱۱۵؎ یعنی حق و انصاف کی نگاہ سے اِس سارے معاملے پر غور کرنے کا رجحان اور قبول حق کے لیے آمادگی دیکھے گا تو اُس کی رحمت اور توفیق تمھاری طرف متوجہ ہو گی اور اِس فدیے سے کہیں بڑھ کر، جو تم سے لیا گیا ہے، وہ تمھیں اسلام کی نعمت عطا فرمائے گا جس کا صلہ خدا کی ابدی جنت ہے۔

۱۱۶؎ یہ اُس بد عہدی کی طرف اشارہ ہے جو قریش نے ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کیے ہوئے حرم اور اُن کی ملت کے معاملے میں کی۔ وہ اِس گھرکے متولی اور ملت ابراہیمی کے داعی اور علم بردار بنائے گئے تھے، مگر اُنھوں نے توحید کے بجاے شرک اختیار کیا اور اُس معبد کو جو دنیا والوں کے لیے توحید کے مرکز کی حیثیت سے بنایا گیا تھا، اپنے سیاسی مفادات کے لیے بت کدے میں تبدیل کر دیا۔

۱۱۷؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور بدر کے قیدیوں کو دھمکی ہے کہ بدعہدی کریں گے تو خدا پھر اِنھیں تمھارے قابو میں دے دے گا اور جو سزا اِس وقت اِنھیں دی گئی ہے، یہ اُس سے بڑی سزا پائیں گے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B