[یہ مصنف کی طبع شدہ کتاب ’’اسلامی عبادات: تحقیقی مطالعہ‘‘ کا ایک جزو ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘
کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالاقساط شائع کیے جا رہے ہیں۔]
(۳)
ہر قوم میں عبادت کے کچھ طریقے اور مراسم مقرر ہیں جن کی لوگ دوران عبادت پابندی کرتے ہیں۔ یہ طریقے اور رسمیں مقصود عبادت، یعنی خدا کی یاد اور اس کی اطاعت و بندگی کے اظہار کے لیے مقرر کی گئی تھیں، لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ عبادت کے اشکال و مراسم ہی کو اصل اہمیت حاصل ہو گئی اور مقصود عبادت نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہ بھی ہوا ہے کہ اشکال عبادت کے اختلاف کی وجہ سے مذہبی نزاعات پیدا ہوئے، ایک قوم نے دوسری قوم کو گم راہ قرار دیا اور بسا اوقات نوبت جدال تک پہنچ گئی۔ آج بھی مختلف قوموں کے درمیان مذہبی اختلافات کی ایک بڑی وجہ عبادت کے اشکال و اعمال کا اختلاف ہی ہے۔
ماضی میں یہود و نصاریٰ نے اس معاملہ میں کافی غلو کا مظاہرہ کیا ہے۔ قبلۂ عبادت کے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک نے دوسرے کو گم راہ اور بے دین قرار دیا اور باہم اختلاف و نزاع کی آگ اس شدت کے ساتھ بھڑکی کہ ان کے عبادت خانے بھی اس کے شعلوں سے محفوظ نہ رہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر ان لفظوں میں ہوا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا اُولٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآءِفِیْنَ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.(سورۂ بقرہ: ۱۱۴۔ ۱۱۵)’’اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کے ذکر سے روکیں اور ان کی ویرانی کے درپے ہوں۔ ان کے لیے زیبا نہ تھا کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑی سزا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب دونوں اللہ ہی کے ہیں تو جدھر بھی رخ کرو اسی طرف اللہ موجود ہے۔ اللہ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘
یہود نے اس کوتاہ اندیشی اور ظاہر پرستی کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی اس وقت کیا جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ انھوں نے اس تبدیلی پر کافی شورو غوغا برپا کیا۔ ان نادانوں کو بتایا گیا کہ سمت قبلہ کا اختلاف دین میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اصل اہمیت نیکی کو حاصل ہے اور یہی اس کا مغز و جوہر ہے اس لیے اس کے حصول میں مسابقت کی جائے۔ قرآن کے الفاظ ہیں: ’وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْْرَاتِ‘ (سورۂ بقرہ: ۱۴۸) اسی سورہ میں آگے چل کر اس حقیقت کو ان لفظوں میں مزید واضح کیا گیا ہے:
لَیْْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلآءِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَاٰتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ.(سورۂ بقرہ: ۱۷۷)’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، اور نبیوں پر ایمان رکھے۔ اور مال کی حاجت و محبت کے باوجود اس کو رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے نیز گردن چھڑانے میں خرچ کرتا ہو، اور نماز قائم کرتا ہو اور زکوٰۃ دیتا ہو، اور جو لوگ عہد کر لینے کے بعد عہد کو پورا کرتے ہوں، اور تنگ دستی، بیماری اور جنگ میں ثابت قدم رہتے ہوں۔ ایسے ہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ فی الواقع خدا ترس ہیں۔‘‘
دوسری قوموں کی طرح مشرکین عرب بھی مذہبی اعمال و رسوم کی پیروی کو مقصود عبادت سمجھتے تھے۔ چنانچہ دستور کے مطابق وہ حج سے واپسی پر اپنے گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے اور اس کو ایک بڑی نیکی خیال کرتے تھے۔ قرآن نے اس رسم کو بے فائدہ قرار دیا اور بتایا کہ نیکی دراصل تقویٰ ہے:
وَلَیْْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(سورۂ بقرہ: ۱۸۹)’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ، بلکہ نیکی اس شخص کی ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا، اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ تم کو فلاح حاصل ہو۔‘‘
ایام حج میں عرفات سے واپسی کے بعد حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔ اس قیام کی مدت میں اختلاف ہوا تو فرمایا گیا:
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ أیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْْہِ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْْہِ لِمَنِ اتَّقٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْْہِ تُحْشَرُوْنَ.(سورۂ بقرہ: ۲۰۳)’’اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرو، جو شخص دو دنوں میں اٹھ کھڑا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ رعایت ان کے لیے ہے جو تقویٰ کا لحاظ رکھتے ہوں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور جان لو کہ تم اس کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ اسلام عبادت کے اشکال و مراسم کی بجا آوری کا حکم تو دیتا ہے کہ ان کے بغیر عبادت کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، لیکن وہ اس میں غلو کو پسند نہیں کرتا کہ یہ چیز عبادت گزار کو مقصود عبادت سے، جو دراصل نیکی اور تقویٰ ہے، غافل کر سکتی ہے۔ اگر مقصد عبادت حاصل نہ ہو تو مجرد عبادت کے ظاہری اعمال و رسوم کی ادائیگی سے کوئی فائدہ نہ تو اس دنیا میں حاصل ہو گا اور نہ ہی آخرت میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی واضح کیا کہ ظواہر عبادت میں غلو کوئی پسندیدہ چیز نہیں، بلکہ منافی عبادت ہے۔ عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ کے پاس اس حال میں دیکھا کہ لوگ آپ سے مسائل پوچھتے جاتے تھے۔ ایک شخص نے کہا، یا رسول اللہ میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ نے فرمایا، اب رمی کر لو، اس میں کچھ حرج نہیں (رم ولا حرج فیہ) دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا۔ آپ نے فرمایا، اب قربانی کر لو، اس میں کچھ حرج نہیں (انحر ولا حرج) پس آپ سے جس چیز کی بابت پوچھا گیا، خواہ وہ مقدم کی گئی ہو یا موخر، تو آپ نے یہی فرمایا کہ اب کر لو کوئی حرج نہیں (افعل ولا حرج فیہ)۔۴۵
مناسک حج میں تقدیم و تاخیر سے متعلق ایک دوسری روایت ملاحظہ ہو:
عن اسامۃ بن شریک، قال خرجت مع رسول اللّٰہ حاجّا فکان الناس یاتونہ، فمن قال یارسول اللّٰہ سعیت قبل ان اطوف او اخّرت شیئا، فکان یقول لا حرج الاعلی رجل افترض عرض مسلم وھو ظالم فذالک الذی حرج وھلک.(مشکوٰۃ، کتاب المناسک)’’اسامہ بن شریک کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلا۔ پس لوگ آپ کے پاس آتے، کوئی کہتا یا رسول اللہ، میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی، کوئی کہتا، میں نے فلاں چیز پہلے کر لی اور فلاں چیز بعد میں کی۔ آپ ان کو جواب دیتے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج کی بات اور ہلاک کرنے والی بات تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت پر حملہ کرے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر جو عبادات فرض کی ہیں ان میں اصل اہمیت اعمال و رسوم کو نہیں، بلکہ اس کی روح یعنی تقویٰ کو حاصل ہے۔
اسلام میں جو چار عبادتیں (نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج) فرض ہیں ان کا مقصود، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، تقویٰ ہے، یعنی دل کی کامل رضامندی سے اللہ کی فرماں برداری۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود آدمی کا نفس اور اس کی متلون خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات بڑی سرکش اور منہ زور واقع ہوئی ہیں۔ اگر آدمی ہمہ وقت بیدار اور ہشیار نہ ہو اور ان بے عناں خواہشات کو مغلوب کر کے نہ رکھے تو یہ نہایت آسانی کے ساتھ قلب و دماغ پر اپنا غلبہ و تسلط جما لیتی ہیں۔ اس غلبہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود اس کا نفس ہی اس کا معبود بن جاتا ہے اور وہ خواہشات نفسانی کی پیروی میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
اَفَرَاَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ.(سورۂ جاثیہ: ۲۳)’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات نفس کو ہی اپنا معبود بنا لیا ہے۔‘‘
اسلامی عبادات کی سب سے بڑی غرض یہی ہے کہ مومن ہواے نفس پر قابو یافتہ ہو اور خواہشات کی اطاعت و غلامی کے بجائے خدائے واحد کی دل سے فرماں برداری کرے اور کسی حال میں اس کے حکم سے روگردانی نہ کرے، دوسرے لفظوں میں تقویٰ کی زندگی گزارے۔ مختلف عبادات کے ذکر میں اس حقیقت کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً نماز کے ذکر میں ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا.(سورۂ مریم: ۵۹)’’پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشات نفس کی پیروی کی۔ یہ لوگ عنقریب اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ترک نماز کا لازمی نتیجہ اتباع شہوات ہے اور اسی سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ قیام نماز کا ایک بڑا مقصد نفس کے غلبے کو توڑنا ہے۔ فرمایا گیا ہے:
اِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.(سورۂ عنکبوت: ۴۵)’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
زکوٰۃ کے ذکر میں ارشاد ہوا ہے:
وَسَیُجَنَّبُہَا الْأَتْقَی، الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی.(سورۂ لیل: ۱۷۔۱۸)’’اس (نار جہنم) سے اس خداترس کو محفوظ رکھا جائے گا جو اپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔‘‘
اوپر کی آیت میں جس پاکیزگی کا ذکر ہے اس سے مراد بخل اور حرص مال کی گندگی سے نفس کا پاک ہونا ہے:
وَمَنْ یُوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(سورۂ تغابن: ۱۶)’’اور جو شخص حرص نفس کی آلودگی سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح پائیں گے۔‘‘
روزہ کے بیان میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(سورۂ بقرہ: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وہ فرض تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
حج کے ذکر میں ہے:
لَنْ یَنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.(سورۂ حج: ۳۷)’’اور اللہ کو نہ جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، اس کے پاس جو چیز پہنچتی ہے وہ صرف تمھارا تقویٰ ہے۔‘‘
مشرکین عرب کے یہاں یہ دستور تھا، اور یہود میں بھی یہ رسم مروج تھی، کہ وہ جانوروں کی قربانی کر کے اس کا خون عبادت گاہ پر چھڑکتے اور اس کے گوشت کو مذبح پر جلا کر اس کی خوشبو کو خدا تک پہنچاتے اور یہ گمان کرتے کہ خدا اس عمل سے خوش ہوتا ہے اور ان کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ انھیں بتایا گیا کہ قربانی کا مقصد ان ظاہری اعمال و رسوم کی انجام دہی نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد تقویٰ ہے، یعنی اللہ نے جانوروں کی شکل میں جو نعمت ان کو بخشی ہے اس پر اس کا شکر بجا لائیں اور اس کے نام پر ان کو ذبح کریں تاکہ دلوں سے مال کی محبت نکلے اور فاقہ کشوں کی بھوک مٹانے کا سامان ہو۔
اسلام کے تصور عبادت کی اس تفصیل و توضیح سے قارئین کو معلوم ہو گیا کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اس کا تصور عبادت زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ ایک موحدانہ تصور عبادت ہے جس میں شرک کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس میں عبادت کے اشکال و مراسم کے بجاے اس کی روح و کنہ (تقویٰ) کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں عبادت کے راہبانہ تصور کی مکمل طور پر نفی کی گئی ہے اور دین و دنیا کی تفریق کے قدیم مذہبی تصور کو ختم کر کے ہر اس کام کو، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، عبادت قرار دیا گیا جو خدا کے حکم کے مطابق اس کی رضا کے لیے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر عبادت کا اطلاق کیا گیا اور ان کو مناسب اہمیت دی گئی ہے۔
لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسلام کا یہ وسیع تصور عبادت اب خود مسلم معاشرہ میں ایک اجنبی چیز بن چکا ہے۔ مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی پیروی میں عبادت کو رسمی پرستش اور اس کے چند ظاہری اعمال و رسوم کی انجام دہی تک محدود کر دیا ہے۔
معاملات زندگی میں خدا کی فرماں برداری اس کے دائرہ سے خارج ہے۔ غربا و مساکین کی خبرگیری سے، جسے اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے، اکثر مسلمان بالکل غافل ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات ان کا غیر موحدانہ رویہ ہے۔ بہت سے مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں، مگر بزرگان دین کے مزارات پر جا کر وہاں سجدے بھی کرتے ہیں اور ان کو کارساز سمجھ کر حاجت روائی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس سے بڑی توہین عبادت اور کیا ہو گی۔ مختصر یہ کہ عبادت اب ایک رسمی عمل ہے اور اس کا مقصد صرف حصول ثواب ہے نہ کہ تقویٰ اور تزکیۂ نفس۔
_______________
۴۵ بخاری و مسلم، مزید دیکھیں، کتاب العلم لابن عبدالبر، ج ۱، ص ۲۴ (حدیث نمبر ۱۲۷)۔
_______________