حضرت صہیب جنھیں صہیب الخیر بھی کہا جاتا ہے، ۵۸۷ء میں عرب قبیلہ نمر بن قاسط میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام سنان، دادا کا مالک (یا خالد) اور پڑدادا کا عبد عمرو تھا۔ربیعہ بن نزار ان کے جد امجد تھے۔۵۹۱ء میں جب ان کی عمر پانچ سال تھی ان کے والد سنان بن مالک کو شاہ ایران خسرو کی طرف سے ابلہ کا عامل مقرر کیا گیا۔ دریاے فرات کے کنارے آباد یہ شہر اب بصرہ میں ضم ہو چکا ہے۔ان کی جاے قیام دجلہ کے کنارے واقع شہر موصل میں تھی ،یہ شہر قدیم سلطنت نینوی کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ ایک روزحضرت صہیب کی والدہ سلمیٰ بنت قعید تمیمی اپنے بیٹے کو سیرکرانے قریبی گاؤں ثنی (لفظی معنی: نہر، نہر کا موڑ اور گھماؤ) لے گئیں۔ اتفاق سے اسی روز روم کی بازنطینی سلطنت کی فوج ثنی پر حملہ آور ہوئی۔ اس کے سپاہی بے شمار لوگوں کو قید کر کے اپنے ساتھ لے گئے، نوعمر صہیب بن سنان بھی انھی میں شامل تھے۔ اس زمانے کا چلن تھا کہ جنگی قیدیوں (POWs) کو بازار غلاماں میں فروخت کر دیا جاتا۔ حضرت صہیب بھی ایک شأ فروختنی کی طرح روم کے بازار میں بک گئے۔ ایک آقا سے دوسرے مالک کے ہاتھ جاتے جاتے ان کے بیس برس بازنطینی سلطنت میں گزرگئے۔اسی اثنا میں انھیں اپنی مادری زبان عربی بھول گئی اور یونانی بولنے لگے۔حضرت صہیب کے اہل خانہ اور ان کی اولاد کا کہنا ہے،اتنا عرصہ گزار لینے کے بعدایک بار ان کو بھاگنے کا موقع مل گیا تو وہ مکہ پہنچ گئے اور قبیلۂ بنو جدعان کے حلیف بن گئے۔یہاں انھوں نے کاروبار کیا اور خوب مال دار ہو گئے۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ وہ خالی ہاتھ آئے تھے، تاہم مصعب بن زبیر کہتے ہیں، صہیب اپنا راس المال روم سے لائے تھے۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق بنو کلب کے لوگوں نے انھیں روم سے خریدا اور مکہ لے آئے پھر عبداﷲ بن جدعان تمیمی نے کلبیوں سے خرید کر حضرت صہیب کو آزاد کر دیا۔ دونوں میں سے جو بات بھی درست ہو ، حضرت صہیب آخری دم تک بنو جدعان ہی میں رہے۔ عبداﷲ بن جدعان نے جلد وفات پائی اور انھیں زمانۂ نبوت پانے کا موقع نہ ملا۔ حضرت صہیب بتاتے ہیں، میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت بھی رہا ہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع نہ ہوئی تھی۔
ابو یحییٰ صہیب کی کنیت تھی، دوسری کنیت ابوغسان بتائی گئی ہے۔ابن حجر کی نقل کردہ ایک روایت کے مطابق ان کا اصل نام عمیرہ تھا، لیکن رومیوں نے بدل کر صہیب کر دیا۔تیسری روایت میں نام عبدالملک ہے۔ممکن ہے ،صہیب ان کا صفاتی نام ہو کیونکہ ’صہب‘ یا ’صہوبہ‘ کا مطلب ہے ،گہرا سرخ یا زرد رنگ ہونا اور ان کا رنگ گہرا سرخ تھا۔
حضرت صہیب اور عمار بن یاسر ایک ہی دن نعمت ایمان سے سر فراز ہوئے۔عمار بتاتے ہیں، دار ارقم کے دروازے پر میری حضرت صہیب بن سنان سے ملاقات ہوئی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے۔میں نے پوچھا ، کیسے آئے ہو؟ انھوں نے مجھ سے سوال کر دیا، کیا ارادہ ہے؟بتایا، میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے مل کر ان کا کلام سننا چاہتا ہوں۔ حضرت صہیب نے کہا، میرا منشا بھی یہی ہے۔ دونوں اندر داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی دیر تھی کہ اسلام کی حقانیت پر یقین آ گیا۔ عمار مزید کہتے ہیں، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ دن ہم نے وہیں گزارا اور رات کے وقت چھپتے چھپاتے واپس لوٹے۔ اس وقت تک ایمان کی طرف سبقت کرنے والے اہل ایمان (السابقون الاولون) کی تعداد تیس سے کچھ اوپر ہو چکی تھی۔ کفار مکہ کوان نوجوانوں کے مسلمان ہونے کی خبرملی تو ان کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔حضرت صہیب بھی ان کمزور مسلمانوں (مستضعفین) میں شامل تھے جنھیں مشرکین نے قبول ایمان کے جرم میں ایذائیں پہنچائیں۔
عبداﷲ بن مسعو د کہتے ہیں، اپنے اسلام کا علانیہ اظہار کرنے والے پہلے سات اہل ایمان یہ تھے۔خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر،عمار،ان کی والدہ سمیہ،صہیب ، بلال اور مقداد(یا خباب)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے ذریعہ کی، سیدنا ابوبکرکے دفاع کا ذریعہ ان کی قوم بنی، باقی پانچوں کو مشرکین لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ کی تپش دیتے ۔(مقدمۂ ابن ماجہ:۱۵۰،مسند احمد: ۳۸۳۲) ابن سعد کہتے ہیں، حضرت عمار بن یاسر پراس قدر تشدد کیا جاتا تھا کہ انھیں پتا نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں، یہی حال حضرت صہیب رومی کا تھا۔
اسلام کے ابتدائی دور میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حرم میں تشریف لاتے تو خباب،عمار، ابوفکیہہ یسار اور صہیب فرط عقیدت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے۔ ان سب کو کسی نہ کسی غارت گر نے غلام بنا لیا تھا۔ قریش کے سر کش سردار ٹھٹھا کرتے اور کہتے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو تودیکھو ،اگر ان کا دین بھلاہوتا تو ہمارے بجاے یہ لوگ اس کی طرف سبقت نہ کرتے۔
۶۲۲ء میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت صہیب نے بھی مکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ سیدنا ابوبکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد انھوں نے کئی بار نکلنے کی کوشش کی، لیکن قریش کے مقررہ نگاہ بانوں کی وجہ سے جا نہ پائے۔اصل میں وہ ان کی دولت ہتھیانا چاہتے تھے جو انھوں نے تجارت کر کے کمائی تھی۔ایک شب حضرت صہیب نے یوں ظاہر کیا کہ ان کا پیٹ خراب ہے، بار بار باہر نکلتے جیسے رفع حاجت کے لیے جا رہے ہیں۔ان کی چوکسی کرنے والے مشرک بے دھیان ہو گئے تو وہ اسلحہ بند ہو کر مدینہ کو چل پڑے۔کچھ ہی دیر میں ان کو علم ہوا تو حضرت صہیب کے پیچھے بھاگے۔وہ مکہ سے نکل رہے تھے کہ مشرکین نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی۔ حضرت صہیب ایک ٹیلے پر چڑھ گئے، کمان کھینچ لی اور چلائے ،قریش کے لوگو! تم جانتے ہو کہ میں بہترین تیر انداز ہوں اور میرا نشانہ خطا نہیں جاتا۔ اﷲ کی مہربانی سے تم مجھے نہیں پا سکتے حتیٰ کہ میں اپنے ترکش کے تمام تیر خالی نہ کر دوں اور پھر اپنی تلوار سونت لوں۔حب تک تلوار میرے ہاتھ میں رہے گی تم مجھ پر قابو نہ پا سکو گے۔پیچھا کرنے والوں نے کہا،تم غربت کی حالت میں مکہ آئے تھے اور یہاں رہ کر بے شمار دولت کمائی ، ہم اسے تمھارے ساتھ جانے نہ دیں گے۔حضرت صہیب نے کہا، اگر میں اپنا مال و متاع تمھیں دے دوں تو مجھے جانے دو گے؟انھوں نے کہا، ہاں۔ حضرت صہیب نے انھیں ساتھ لے جا کر گھر کے دروازے کی دہلیز دکھائی جہاں سونے کی ڈلیاں دفن تھیں ، کسی عورت کا پتا بتایا جس کے پاس ان کے قیمتی کپڑے پڑے تھے اور خودتن کے کپڑوں میں مدینہ کی راہ لی۔مشہور ہے کہ حضرت صہیب نے سیدنا علی کی معیت میں مدینہ کو ہجرت کی۔دونوں اصحاب سب سے آخر میں، ماہ ربیع الاول کے وسط میں پہنچے،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی قبا سے شہرمدینہ منتقل نہ ہوئے تھے۔ (مستدرک حاکم:۵۷۰۶،معجم کبیر،طبرانی:۷۲۹۶)
حضرت صہیب مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں آتے دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابو یحییٰ! تمھاری تجارت پھل لے آئی ،ابو یحییٰ! تمہاری تجارت نفع بخش ہوئی۔حضرت صہیب کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔ کہا، یارسول اﷲ! مجھ سے پہلے تو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں پہنچا،جبریل علیہ السلام ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی ہو گی۔ قرآن مجید کی یہ آیت حضرت صہیب پر خوب منطبق ہوتی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌ بِالْعِبَادِ.(سورۂ بقرہ:۲۰۷)’’کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو بیچ ڈالتا ہے ۔اﷲ بندوں پر انتہائی مہربان ہے۔‘‘
یہ فرمان مخلص اہل ایمان کا بیان کرنے کے ساتھ اہل نفاق کو شرم دلاتا ہے جو معمولی دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے جادۂ دین مستقیم سے ہٹ جاتے تھے۔
حضرت صہیب رومی نے حس مزاح خوب پائی تھی۔ہجرت کے بعد ان کی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے قبا میں ملاقات ہوئی تو سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کی ایک خاص قسم تناول فرما رہے تھے جسے ام جِرذان کہتے ہیں ، یہ کلثوم بن ہدم لے کر آئے تھے۔حضرت صہیب سفر سے تھکے ماندے آئے تھے ، بھوک بھی خوب لگی ہوئی تھی، آتے ہی کھجوروں پر لپک پڑے ۔گرد راہ سے ان کی ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی اور سرخ ہو رہی تھی۔ سیدنا عمر نے کہا، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صہیب کو نہیں دیکھتے، کھجوریں کھا رہے ہیں حالانکہ ان کی آنکھ میں سوزش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،صہیب !تم کھجوریں کھا رہے ہو درآنحالیکہ تمھاری آنکھ آئی ہوئی ہے۔ جواب دیا،یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں جو تندرست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ مسکرانے لگے حتیٰ کہ دندان مبارک نمایاں نظر آنے لگے۔ (مسند احمد: ۱۶۵۹۱) حضرت صہیب نے سیدنا ابوبکر سے شکوہ کیا، آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا ،مجھے ساتھ لائیں گے پھر چھوڑ کر چلے آئے۔قریش نے مجھے روک لیا تو میں اپنا تمام مال و متاع دے کر چُھوٹا۔ پھر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا، یا رسول اﷲ! میرے پاس سیر دو سیرآٹے کے سوا کوئی زاد راہ نہ تھا جو میں نے ابوا میں گوندھا تھا۔
مدینہ میں حضرت صہیب خبیب بن اساف(یا سعد بن خیثمہ) کے ہاں ٹھہرے جو سُنح میں رہتے تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حارث بن صمہ کے ساتھ ان کی مواخات قائم فرمائی۔
تیراندازی میں مہارت رکھنے کی وجہ سے غزوات میں حضرت صہیب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ۔ جنگ بدر میں انھوں نے عثمان بن مالک اور حارث بن منبہ کو جہنم واصل کیا۔حضرت صہیب نے جنگ احد ، جنگ خندق اورعہد رسالت کی دیگر تمام جنگوں میں شرکت کی۔ خود بیان کرتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی مگر میں موجود تھا، (جہاد کے لیے)کوئی بیعت نہیں لی مگر میں حاضر تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سریہ میں نہیں گئے لیکن میں ساتھ تھا۔کسی غزوہ میں نہیں گئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں یابائیں نہ ہوتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواگلی صفوں سے خطرہ ہوتا تو میں آگے ہوتا ، پچھلی طرف سے خطرہ ہوتا تو میں پیچھے ہو جاتا۔میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اور دشمن کے بیچ میں نہیں آنے دیا۔ (المعجم الکبیر، طبرانی: ۷۳۰۹)
حضرت خباب روایت کرتے ہیں، ایک باربنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنو فزارہ کے لیڈرعیینہ بن حصن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب اہل ایمان ،صہیب ،بلال،عمار اورخباب کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔انھوں نے ان مساکین کو نظر حقارت سے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ لے جا کر کہا،ہم چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ایسی مجلس ترتیب دیں جس سے عربوں کوہماری فضیلت کا احساس ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عربوں کے وفد آ رہے ہیں، ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہم کو ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھیں۔ہم آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے اٹھ جائیں اور جب ہم فارغ ہوجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو ان کے پاس بیٹھ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامی بھر لی تو ان لوگوں نے تحریر کرنے کوکہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ منگوا کر سیدنا علی کو لکھنے کا کہا۔اسی دوران میں جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہو گئے:
وَلَاتَطْرُدِ الَّذِےْنَ ےَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ ےُرِیدُوْنَ وَجْہَہٗ، مَا عَلےْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَےْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِےْنَ.(سورۂ انعام:۵۲)’’(اے نبی!) ان لوگوں کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے لیے صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ ان کے اعمال کے حساب میں سے آپ پر کچھ عائد نہیں ہوتا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے حساب کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کودھتکار کر آپ ظالموں میں سے ہو جائیں۔ ‘‘
حضرت خباب کہتے ہیں ،ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہو گئے کہ گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا لیے۔ آپ ہمارے پاس ہی بیٹھتے اور جب خود جانا چاہتے تو تشریف لے جاتے۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت صہیب پر بہت مہربان تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’چار افراد(خیر کی طرف) سبقت لے جانے والے(سابقین) ہیں،میں عربوں میں سبقت لے جانے والا ہوں، صہیب رومیوں میں (اسلام کی طرف) سبقت کرنے والے ہیں، سلمان ایرانیوں میں آگے بڑھ جانے والے ہیں اور بلال اہل حبشہ میں سبقت کرنے والے ہیں۔‘‘(مستدرک حاکم: ۵۷۱۵، المعجم الکبیر طبرانی: ۷۲۸۸) ایک بار فرمایا، ’’صہیب روم کا ثمر ہیں۔‘‘ ایک بار سلمان، بلال اور صہیب کا ابو سفیان کے پاس سے گزر ہوا،وہ ابھی اسلام نہ لائے تھے۔ انھیں دیکھ کر تینوں اصحاب بولے ،ابھی تک اﷲ کی تلوار نے اس دشمن خدا کی گردن تن سے جدا نہیں کی۔ سیدنا ابوبکر سن رہے تھے، انھوں نے ان کو ڈانٹا،تم نے قریش کے ایک بڑے سردار کے بارے میں ایسی بات کیوں کی ہے؟پھروہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹا سیدنا ابوبکر سے ناراض ہوئے اور فرمایا،کہیں تم نے ان اصحاب کو ناراض تو نہیں کر دیا ؟ اگر یہ ناراض ہوئے تو اﷲ بھی ناراض ہو جائے گا چنانچہ سیدنا ابوبکر واپس پلٹے اور ان سے معذرت کی۔ (مسلم: ۶۴۹۶،مسند احمد:۲۰۶۴۰)
حضرت صہیب کہتے ہیں،ایک بار میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا۔آپ نماز ادا فرما رہے تھے،میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے انگلی کے اشارے سے جواب دیا۔ (ابوداؤد: ۹۲۵، ترمذی: ۳۶۷) امام مالک اور امام شافعی نے اس روایت کی بنیاد پر نمازی کے لیے جائز قرار دیا ہے کہ وہ اشارے سے سلام کا جواب دے دے، جبکہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے ۔وہ کہتے ہیں ، یہ ایک طرح کا تکلم ہے جس کی نمازمیں مصروف شخص کو اجازت نہیں۔ان کی دلیل ابو سعید خدری کی روایت ہے ،ہم نماز میں سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے لیکن (بعدمیں) ہمیں اس سے منع کردیاگیا۔(شرح معانی الآثار:۲۵۵۶)
عبداﷲ بن عباس بتاتے ہیں،سیدنا عمر بن خطاب کے آخری سفر حج سے واپسی پر میں ان کے ساتھ تھا۔جب ہم بیدا کے مقام پر پہنچے تودیکھا کہ ایک قافلے والوں نے کیکر کے ایک درخت تلے پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔ سیدنا عمر نے مجھے ان کا پتا لینے کے لیے بھیجا۔ میں نے آ کر بتایا کہ یہ حضرت صہیب رومی کا قافلہ ہے تو سیدنا عمر نے ان کو بلا یا اور اپنے قافلے میں شامل ہونے کو کہا۔ابن عباس کہتے ہیں ، میں نے کہا،ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ سیدنا عمر نے کہا، اہل خانہ ساتھ ہیں تو کیا ؟جب ہم مدینہ پہنچے تو کچھ ہی دنوں میں امیرالمومنین کی شہادت کا سانحہ پیش آ گیا۔ (بخاری: ۱۲۷۸،مسلم ۲۱۰۴)
سیدنا عمر حضرت صہیب سے ملنے عالیہ(قبا) میں ان کے باغ میں گئے۔باتوں باتوں میں کہا ، صہیب !مجھے تمہاری تین چیزیں پسند نہیں ۔یہ نہ ہوتیں تو میں کسی کو بھی تم پر ترجیح نہ دیتا۔تم رومی ہو اور عربوں سے نسبت جوڑتے ہو ، اپنی کنیت ابو یحییٰ بتاتے ہو جب کہ اس نام کا تمھارا کوئی بیٹا نہیں اور یحییٰ ایک پیغمبر کا نام ہے۔ خوب دعوتیں کھلاتے ہو جو دولت کا اسراف ہے۔ حضرت صہیب نے جواب دیا کہ یہ کنیت خودنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ( اولاد پیدا ہونے سے پہلے)مجھے عطا کی تھی اس لیے میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ عربوں سے ناتااس لیے جوڑتا ہوں کیونکہ میں اصل میں عربوں کے قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتا ہوں،مجھے اپنی جاے پیدایش اور اہل خانہ خوب یاد ہیں۔ بچپن ہی میں رومیوں نے غلام بنا لیااس لیے عرب لہجے پر قدرت نہ رہی۔کھلانے پلانے کے الزام کا جواب یہ ہے کہ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرناہے،تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے کھانا کھلایا اور سلام کا جواب دیا۔(ابن ماجہ: ۳۷۳۸، مسند احمد: ۲۳۹۲۶) ایک بار عبدالرحمان بن عوف نے بھی حضرت صہیب سے کہا، اﷲ سے ڈرو اور اپنے باپ کوچھوڑ کر کسی اور سے نسبت نہ جوڑو۔ حضرت صہیب نے جواب دیا ، میرے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں کہ میری یہ یہ صفات ہیں اور میں نے یہ کہا ہے۔لیکن صحیح بات ہے کہ مجھے بچپن میں اٹھا لیا گیا تھا (اس لیے میں عربی کے بجاے رومی کہلانے لگا)۔ (بخاری: ۲۲۱۹) سعید بن مسیب کی روایت ہے، سیدنا عمر نے حضرت صہیب سے کہا، کیا بات ہے ،میں تمھیں سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟حضرت صہیب نے کہا، آپ سے بہتر شخص نے یہ انگوٹھی دیکھی اورنظر انداز کیا۔پوچھا، کون؟جواب ملا ، رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم۔ (نسائی: ۵۱۶۶) صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں یہ روایت بیان ہوئی ہے ۔امام نسائی نے اپنے بڑے مجموعۂ حدیث السنن الکبریٰ میں نقل کرنے کے بعد اسے حدیث منکر قرار دیا۔ (السنن الکبریٰ : ۹۴۰۲)شارح نسائی ابو الحسن سندھی کا خیال ہے ، یہ تب کا واقعہ ہے جب مردوں کے لیے سونا پہننا حرام قرار نہ ہوا تھاتاہم، اس پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے ، اگر سونا پہننا مباح تھا تو سیدنا عمر کو نکیر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جب سیدنا عمر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تو حضرت صہیب روتے روتے آئے اور ’’او میرے بھائی !‘‘، ’’او میرے ساتھی!‘‘ کہہ کر بین کرنے لگے۔ سیدنا عمر نے منع کیا، صہیب! تم مجھے دیکھ کر رو رہے ہو؟ حالانکہ رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،میت پر کچھ عذاب اس کے گھر والوں کے رونے سے بھی آتا ہے۔(یعنی یہ عمل مردے کے لیے باعث تکلیف ہوتاہے)۔(بخاری:۱۲۹۰،مسلم :۲۱۰۲)اس روایت کے بارے میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وارثوں کے عمل کی سزا میت کو کس طرح مل سکتی ہے ؟سیدہ عائشہ نے اس اعتراض کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا ،کان سننے میں غلطی کھا جاتا ہے (نسائی:۱۸۵۹)، (اصل میں )آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات مرنے والی ایک یہودی عورت کے بارے میں یوں فرمائی تھی،’’ اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں اور وہ قبر میں عذاب میں مبتلا ہے۔‘‘ (بخاری:۱۲۹۰)
خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق کو مخلص اہل ایمان کی خوب پہچان تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ حضرت صہیب کو بہت چاہتے تھے۔ قاتلانہ حملہ کے بعدانھوں نے حضرت صہیب کی ذمہ داری لگائی کہ تین دن تک اہل ایمان کو نماز پڑھائیں۔ جانشینی کا فیصلہ کرنے کے لیے چھ رکنی مجلس شوریٰ بنائی اور اسے انھی تین ایام میں اپنا کام نمٹانے کی ہدایت کی۔ سیدنا عمر نے ہدایت کی کہ اصحاب ستہ ایک کمرے میں بیٹھ جائیں اور ابو طلحہ انصاری(ایک روایت :صہیب ) ان کی نگرانی کریں۔ نو منتخب خلیفہ لازماً چوتھے دن زمام اقتدار سنبھال لے۔ اپنی تجہیز و تکفین کے لیے انھوں نے حضرت صہیب ہی کو نگران مقرر کیا۔چنانچہ حضرت صہیب تین روز قائم مقام خلیفہ رہے، نمازوں کی امامت کی اور اچھے منتظم ثابت ہوئے۔ تدفین کا وقت آیا تو سیدنا عثمان اور سیدنا علی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے ۔ عبدالرحمان بن عوف نے منع کر دیا اور کہا، یہ حضرت صہیب کی ذمہ داری ہے جنھیں سیدنا عمر نے عام نمازوں کا امام مقرر کیا تھا۔ سب نے اتفاق کیا اور حضرت صہیب ہی نے نمازجنازہ پڑھائی۔
خلیفۂ دوم کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے عبیداﷲ بن عمر نے عبدالرحمان بن ابوبکر سے سنا کہ ہرمزان اور جفینہ ابولؤلؤ کے ساتھ ان کے والد کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ انھوں نے تلوار پکڑی اورجا کر دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ہرمزان نے مرنے سے پہلے کلمۂ طیبہ پڑھا، جبکہ جفینہ نے آنکھوں کے آگے صلیب رکھ لی۔ قائم مقام خلیفہ حضرت صہیب رومی کو معلوم ہوا تو انھوں نے عمرو بن عاص کو بھیجا،سعد بھی ساتھ تھے ۔ عمرو نے سمجھا بجھا کر عبیداﷲ کے ہاتھ سے تلوار لے لی، سعد ڈانٹ ڈپٹ کر، بالوں سے پکڑ کر انھیں حضرت صہیب کے پاس لے آئے۔ ان کے حکم سے عبیداﷲ قید ہو گئے تاہم نو منتخب خلیفہ سیدنا عثمان نے اپنے سامنے پیش ہونے والے پہلے مقدمہ میں صحابہ کے مشورہ سے ان کو چھوڑ دیا۔
واقدی کہتے ہیں، سیدنا علی خلیفہ بنے تو سات اصحاب مہاجرین نے ان کی بیعت نہ کی،عبداﷲ بن عمر،سعد بن ابی وقاص، صہیب رومی،زید بن ثابت،محمد بن مسلمہ،سلمہ بن سلامہ بن وقش اوراسامہ بن زید۔انصار میں سے کوئی پیچھے نہ رہا،ابن اثیر کے مطابق چند انصاریوں نے بھی بیعت نہ کی۔ جنگ جمل سے پہلے ایک موقع ایسا آیا کہ جنگ بند کر کے آئندہ کا لائحہ عمل اس بات کے جاننے پر موقوف کر دیا گیا، آیا طلحہ و زبیر نے خلیفۂ چہارم سیدنا علی کی بیعت خوشی سے کی تھی یا انھیں اس پر مجبور کیا گیا تھا؟ پہلی صورت میں عثمان بن حتیف بصرہ کا اقتدار چھوڑ دیتے اور دوسری صورت میں طلحہ و زبیر کو بصرہ سے چلے جانا تھا ۔قاصد کعب بن سور نے مدینہ پہنچ کر یہ سوال کیا تو لوگ خاموش رہے ،محض اسامہ بن زیدکھڑے ہو کر بولے، ان سے زبردستی بیعت لی گئی تھی۔ سہل بن حنیف اوران کے ساتھی انھیں مارنے کو دوڑ ے تو حضرت صہیب رومی ، ابو ایوب انصاری،محمد بن مسلمہ اور دوسرے اصحاب رسول نے بچایا ،ابن مسلمہ نے تائید کی کہ دونوں صحابۂ کرام کو بیعت پر مجبور کیا گیا تھا ۔اسی اثنا میں حضرت صہیب اسامہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے۔
حضرت صہیب رومی میانہ قد تھے،رنگ گہراسرخ اور سر کے بال موٹے اور گھنے تھے،بھویں ملی ہوئی تھیں۔بڑھاپے میں بالوں پر مہندی لگاتے ۔بچپن رومیوں میں گزارنے کی وجہ سے ان کا لہجہ عجمی تھا اور زبان میں قدرے ہکلاہٹ تھی۔ حضرت صہیب خوش خوراک تھے۔
لبید بن مالک اور زخر بن مالک حضرت صہیب کے چچا تھے۔مالک بن سنان ان کے بھائی اور امیمہ بہن تھیں۔ سیدنا عثمان کے آزاد کردہ حمران بن ابان ان کے چچا زاد تھے۔
حضرت صہیب رومی شوال ۳۸ھ (یا۳۹ھ)میں مدینہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں د فن ہوئے۔ انھوں نے تہتر برس کی عمر پائی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک گھر ام المومنین ام سلمہ کوعطا کر رکھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انھوں نے یہ حضرت صہیب رومی کو ہبہ کر دیا۔اموی دور حکومت میں اس مکان کی ملکیت کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت صہیب کے بیٹوں نے دعویٰ کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ گھر حضرت صہیب کو عطیہ کیا تھا۔گورنر مدینہ مروان بن حکم نے پوچھا، کون اس بات کے لیے تم دونوں مدعیوں کے حق میں گواہی دے گا؟ انھوں نے عبداﷲ بن عمر کا نام لیا۔انھیں بلایا گیاتو انھوں نے گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کوٹھڑیاں اور ایک کمرہ حضرت صہیب رومی کو ہبہ کیا تھا۔تب مروان نے ابن عمر کی شہادت پر اس گھر کا حضرت صہیب کی اولاد کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ (بخاری:۲۶۲۴)
اکثر اصحاب رسول کی طرح حضرت صہیب روایت حدیث سے کتراتے تھے۔کہتے، آؤ! میں تمھیں اپنے غزوات کی باتیں بتاؤں، یہ نہ کہوں گا، ’قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘ ۔اس کے باوجود انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابوطالب سے تیس کے قریب احادیث روایت کی ہیں۔ان میں سے چند طویل بھی ہیں ،تین صحیح مسلم میں شامل ہیں۔حضرت صہیب سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں، جابر بن عبداﷲ،عبداﷲ بن عمر،کعب احبار،سعید بن مسیب،عبید بن عمیر،ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ، شعیب بن عمرو،عبدالحمان بن حاطب،مجاہد بن شہاب،مصعب بن سعد،عمر کے غلام اسلم، حضرت صہیب کے بیٹے، جبیب ،حمزہ ، سعد، صالح، صیفی، عباد،عثمان،محمد اور ان کے پوتے زیاد بن صیفی ۔حضرت صہیب کا شمار مدنیوں میں ہوتا ہے۔
حضرت صہیب کی بیان کردہ چند روایات: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ سے جھوٹی بات منسوب کی، اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ‘‘ ۔ (المعجم الکبیر،طبرانی :۷۳۰۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے،اس کے لیے ہر کام خیر ہی ہے۔یہ بات کسی اور کے لیے نہیں، مومن ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اسے خوشی ملے اور وہ اﷲ کا شکر ادا کرے تو بھی اس کے لیے خیر ہے۔اگر اسے مصیبت لاحق ہو اور وہ صبرکرے تو یہ بھی اس کے لیے ایک خیر ہے۔‘‘ (مسلم:۷۶۱۰)
حضرت صہیب اسلامی معاشرے میں رچ بس گئے اورایک بلندمقام پایا۔اس سے معلو م ہوتا ہے کہ کس طرح اسلام نے جغرافیائی سرحدوں کو پاش پاش کر کے، ذات پات اور رنگ و نسل کی تمیزکو ختم کر کے راست بازی اور تقویٰ کو سماج کی بنیاد بنا دیا۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، الجامع المسند الصحیح (بخاری)، المسند الصحیح المختصر من السنن(مسلم)،معجم الصحابہ(ابن قانع)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،سیراعلام النبلا (ذہبی)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، فضائل اعمال (زکریا سہارن پوری)، Hadrat Suhaib bin Sinan(منیر احمد مغل)، Wikipedia۔
___________