اس عنوان کے تحت اشراق کے اگست ۲۰۱۲ء کے شمارے میں محترم محمد عمار خان ناصر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار کو اللہ نے کم عمری میں ذہن رسا عطا کیا ہے اور وہ مسئلہ کی گہرائی میں اتر کے اس کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ ان کی نگارشات نے بالعموم اور ’’توہین رسالت‘‘ پر ان کے مضمون نے بالخصوص میرے دل و دماغ پر ان کے علم و فضل کا نقش بٹھا دیا ہے۔ زیر نظر مضمون پر بحیثیت مجموعی میں ان کی اس سوچ سے متفق ہوں کہ مرد اور عورت کے درمیان اللہ نے تقویٰ اور اعمال صالحہ کا معیارقائم کیا ہے اور یہ کہ محض مرد ہونے کے ناتے سے مرد کو کوئی فضیلت نہیں۔ ان کے قول کے مطابق دو چیزیں ایسی ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق روا رکھا گیا ہے، یعنی ان میں مرد کو صرف مرد ہونے کے اعتبار سے برتری ہے۔ میں صرف ان دو چیزوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کروں گا۔
سب سے پہلے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۳۴ ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ.
آیت مبارکہ کو ہمارے مذہبی پیشوا عورت پر مرد کی مطلق فضیلت کے سلسلہ میں نص قطعی تسلیم کرتے ہیں اور اسی سوچ کے تحت اس کا اردو ترجمہ کرتے ہیں۔ فاضل محترم اس سوچ کی تائید تو نہیں کرتے، مگر کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نکاح کے رشتے میں یہ چاہتے ہیں کہ مرد ایک بالادست شریک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے جبکہ عورت اس کے سامنے فرماں برداری کا رویہ اختیار کرے۔‘‘ میں ایسا نہیں سمجھتا، کیوں؟
آیت مبارکہ کے تین الفاظ ’قَوّٰمُوْنَ‘، ’بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ اور ’قٰنِتٰتٌ‘ تشریح طلب ہیں۔
اردو کے زیادہ تر مفسرین نے ’اَلرِّجَالُ‘ اور ’اَلنِّسَآء‘ کا ترجمہ مرد اور عورت کیا ہے، نہ کہ میاں بیوی۔ غالباً وہ ’اَلرِّجَالُ‘ اور ’اَلنِّسَآء‘ سے پہلے ’ال‘ کو جنس کا تصور کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا ترجمہ میاں بیوی صحیح ہے، کیونکہ آیت کا شان نزول اور سیاق و سباق اس بات کی تائید کرتا ہے۔ عام مرد اور عام عورتیں ترجمہ کرنے سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جن کا جواب دینا ممکن نہ ہو گا۔
’قَوّٰمُوْنَ‘: اس کا ترجمہ ’’حاکم‘‘ نہ لغوی طور پر مناسب ہے، نہ معنوی طور پر۔
’قَوّٰمُوْنَ‘ جمع ہے ’قَوّٰم‘ کی جو ’قِیَام‘ سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ ’قوم‘ ہے۔
احمد بن فارس کی ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں ق + و + م کے دو بنیادی معنی ہیں: پہلا لوگوں کی جماعت اور دوسرا کھڑا ہونا یا عزم کرنا۔ پہلے کو قیام حتم اور دوسرے کو قیام عزم کہتے ہیں۔ اس مادے کا فعل ’قَامَ‘ حرف جار (preposition) ’ب‘، ’ل‘، ’علی‘، ’الی‘ اور ’من‘ سے مل کر مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح انگریزی زبان میں preposition لگنے سے یا تو معنی میں تخصیص ہو جاتی ہے یا معنی بالکل بدل جاتے ہیں، بعینہٖ اسی طرح عربی زبان میں بھی صلہ (preposition) لگنے سے یا تو معنی کی تخصیص ہو جاتی ہے یا معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ مثلاً ’قَامَ بِ‘ (اس نے کام کا ذمہ لیا)، ’قام لِ‘ (وہ کسی کے احترام میں کھڑا ہوا)، ’قام علی‘ (اس نے خیال رکھا)، ’قام اِلی‘ (وہ گیا) اور ’وقام من نومہ‘ (وہ بیدار ہوا)۔ لفظ ’قوام‘ میں مطلقاً بھی حفاظت اور معاشی کفالت کے معنی موجود ہیں۔ جوھری نے ’’صحاح‘‘ میں عربی کا محاورہ بیان کیا ہے: ’فلان قوام أھل بیتہ وقیام أھل بیتہ‘ یعنی فلاں شخص اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔ بالکل انھی معنوں میں اس بات کا مصدر ’قیام‘ قرآن کریم میں دو جگہ استعمال ہوئی ہے: ایک تو سورۂ نساء (۴) کی آیت ۵ میں، اللہ کا ارشاد ہے: ’’اور تم کم عقلوں کو ان کا وہ مال نہ دوجسے اللہ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت (قیام) بنایا ہے۔‘‘ دوسرے سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۹۷ میں، ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے کعبہ عزت والے گھر کو لوگوں کے لیے قیام، یعنی مایۂ زندگی (maintenance) بنایا ہے۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ زیر نظر آیۂ مبارکہ میں ’قَوّٰمُوْنَ‘ کا لفظ ’علی‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ عربی کی کم و بیش ساری بڑی لغات میں مرد اور عورت یا میاں بیوی کی تخصیص کے ساتھ ایک محاورہ بیان کیا گیا ہے: ’قام الرجل علی المرأۃ‘ اور اس کے معنی ہیں: ’مانہا‘ مرد نے عورت کو یا میاں نے بیوی کو روزی مہیا کی۔
’’لسان العرب‘‘ نے یہ محاورہ بیان کرنے کے بعد ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کو بطور حوالہ پیش کیا ہے۔
’’تاج العروس‘‘ نے اس محاورے اور ’قام علیہا‘ کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کے معنی ہیں: ’مانہا وقام بشانہا متکفّلا بأمرھا‘ یعنی اس مؤنث کو روزی مہیا کی اور اس کی کفالت کرتے ہوئے اس کی حالت کو قائم کیا۔ اور ’قوّام لہا‘ کے معنی ہیں: ’مائن لہا‘، روزی فراہم کرنے والا۔
ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ صرف عربی لغت کی رو سے قرآنی الفاظ کے معنوں کا تعین درست نہیں۔ میں نے پہلے بھی داخلی شہادت کے طور پر قرآن کی دو آیات کو پیش کیا ہے۔ لفظ ’قَوّٰمُوْنَ‘ زیر نظر آیت کے علاوہ قرآن کریم کے دو اور مقامات پر نصبی حالت، یعنی ’قوامین‘ کی شکل میں وارد ہوا ہے۔ اور ’ب‘ اور ’ل‘ کے حرف جار کے ساتھ آیا ہے۔ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۳۵ ’کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ‘ (انصاف کے محافظ اور نگران بن جاؤ)، اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۸ ’کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہ‘ (اللہ کے لیے قائم رہنے والے ہو جاؤ)۔ قرآن میں کسی جگہ بھی ’قَوّٰمُوْنَ‘ مطلقاً حاکم کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ مالی کفالت کے معنوں کی تائید ’بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ‘ (کیونکہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں) کے جملے سے بھی ہوتی ہے۔
مولانا آزاد نے ’قَوّٰمُوْنَ‘ کا اردو ترجمہ یوں کیا ہے: ’’مرد عورتوں کی زندگی کے بندوبست کرنے والے ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی مالی کفیل کے ترجمہ کی تائید کی ہے، لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ معنی مرد کی برتری کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں، جس پر تبصرہ بعد میں ہو گا۔
مولانا احمد علی لاہوری نے یوں ترجمہ کیا ہے: ’’مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ عربی کے قدیم مفسرین نے ’قَوّٰمُوْنَ‘ کا ترجمہ ’تسلطون‘ اور ’مسیطرون‘ کیوں کیا؟
اس سے حاکم کا تصور ابھرا ہے۔ عورت کے بارے میں وہ اسرائیلی روایات سے متاثر ہیں۔ چنانچہ وہ عورت کو برائی کی جڑ مانتے ہیں اور مرد کو نیکی کا سرچشمہ اور یہ کہ حوّا نے آدم کو بہکایا اور سانپ والا قصہ بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ قرآنی ہدایات کے منافی ہے، مگر ان کی تفسیروں میں موجود ہے۔ میں نے قرآنی آیت ’خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘ ’’وہی جس نے تمھارے لیے زمین کی سب چیزیں پیدا کیں‘‘ (البقرہ ۲: ۲۹) کے ضمن میں امام رازی کے پایہ کے مفسر کے عورت کے بارے میں خیالات پڑھے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ لفظ ’’حاکم‘‘ کی سند کے لیے میں کتاب مقدس (Bible) کے باب تکوین (Genesis) کا حوالہ پیش کرتا ہوں:
“To the woman he said: I will greatly multiply your sorrow your conception: pain ..... you shall bring forth children your desire shall be for your husband and he shall rule over you.”(3:16)
یہ اللہ کے الفاظ ہیں اور سانپ والے قصے کا تسلسل گویا عورت کو جو حمل ٹھہرتا ہے اور درد سے جو وہ بچے جنتی ہے، یہ آدم کو بہکانے کی سزا ہے۔ فطری عمل نہیں، اسی سزا کے طور پر وہ اپنے شوہر کے لیے تڑپتی رہتی ہے اور وہ اس پر حاکم ہو گا۔ یہ ہے لفظ ’’حاکم‘‘ کی سند۔ آیت زیر نظر کے تحت مفسرین نے عورت کی خامیوں کی اور مرد کی خوبیوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست دے ڈالی ہے، گویا عورت برائی کی جڑ ہے اور مرد نیکی کا سرچشمہ اس لیے مرد محض مرد ہونے کے ناتے سے برتر ہے اور عورت محض عورت ہونے کے ناتے سے کم تر۔ اس میں اعمال صالحہ کا کچھ دخل نہیں۔
لغوی پہلو پر بحث کرنے کے بعد میں واضح کر چکا ہوں کہ لغوی طور پر ’قَوّٰمُوْنَ‘ کا ترجمہ ’’حاکم‘‘ اس آیت میں قطعی غیر موزوں ہے۔ معنوی طور پر میاں بیوی کے تعلقات حاکم و محکوم کے نہیں، بلکہ ایک ساتھی اور شریک حیات کے ہیں۔ جس میں ایک کی حکومت اور دوسرے کی فرماں برداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حاکم و محکوم کے تعلق سے پیار، محبت، سکون اور اطمینان کی وہ فضا قائم رہ سکتی ہے جو قرآن پیدا کرنا چاہتا ہے؟ ہاں، رفاقت اور باہمی رضا مندی اور مشورہ خاندانی نظام کا ضامن ہے۔ قرآن نے مرد اور عورت، میاں اور بیوی کے لیے بہت ہی خوب صورت لفظ ’زوج‘ استعمال کیا ہے۔ مرد عورت کا زوج ہے اور عورت مرد کی زوج۔ زوجہ جیسا لفظ قرآن نے استعمال نہیں کیا۔ مرد عورت کے بغیر ناقص ہے اور عورت مرد کے بغیر، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ لفظ ’زوج‘ میں یکسانیت، ہم رنگی اور پیوستگی کے جو معنی پائے جاتے ہیں، وہ فاضل مقالہ نگار کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوں گے۔ یہ دونوں اللہ کی اطاعت کرنے والے ایک دوسرے کے زوج ہیں۔ یہ مفہوم کہ مرد صرف حکومت کرنے کے لیے ہیں اور عورتیں مردوں کی فرماں برداری کے لیے، اس اعتبار سے غلط ہے کہ رفاقت میں ایک کی حکومت اور دوسرے کی فرماں برداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن نے بیوی کے لیے ’صاحبہ‘ کا لفظ استعمال کر کے رفاقت کے تعلق کو واضح تر کر دیا ہے۔ اس تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے قرآن نے ’عَنْ تَرَاضٍ‘ اور ’وَ تَشَاوُرٍ‘ (البقرہ۲: ۲۳۳) یعنی باہمی مشورہ اور باہمی رضامندی کی مفید نصیحت کی ہے۔ لغوی بحث میں میں نے اس کھینچا تانی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جس کی طرف فاضل محترم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اشارہ کیا ہے۔
’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘: آیت کا یہ ٹکڑا بھی تشریح طلب ہے، کیونکہ اس میں مرد کی مطلق فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے اچھی خاصی کھینچا تانی کی گئی ہے۔ ’بَعْضَہُمْ‘ میں ’ہُمْ‘ کی ضمیر واضح طور پر مردوں اور عورتوں کی طرف راجع ہے۔ اور صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے‘‘، یعنی کچھ باتوں میں مرد کو فضیلت ہے اور کچھ میں عورت کو، مگر ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے، کیونکہ مرد پر عورت کی فضیلت ان کے ذہن سے لگا نہیں کھاتی۔ مرد کی جس فضیلت کا ذکر یہاں ہے، اس کا تعلق صرف قوّامیت سے ہے، یہ مطلق فضیلت نہیں۔ آیۂ مبارکہ میں مرد اور عورت کی مطلق فضیلت کا مسئلہ زیربحث نہیں ہے۔ اس کے فوراً بعد اللہ کا قول ہے: ’وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ (اور کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں)، یعنی یہ فضیلت مالی کفالت سے تعلق رکھتی ہے اور بس۔
قرآن کریم نے مرد اور عورت یا میاں بیوی کے باہمی تعلقات کو بیان کرنے کے لیے متعدد مقامات پر ’بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ‘ کی بلیغ ترکیب استعمال کی ہے۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے:
’’بے شک، میں تم میں سے کسی شخص کے عمل کو اکارت نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا جز ہو‘‘ (۳: ۱۹۵) ۔
سورۂ نساء میں ارشاد ہے:
’’اور جو شخص تم میں آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت نہیں رکھتا تو وہ مومن باندیوں سے جو تمھارے زیردست ہیں، نکاح کر لے اور تمھارے ایمان کی پوری حالت اللہ ہی کو معلوم ہے۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا جز ہو‘‘ (۴: ۲۵)۔
اس آیت میں بھی یہی بلیغ ترکیب ’بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ استعمال ہوئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا جز ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح بدن کے مختلف اعضا ہیں۔ سب اعضا مل کر بدن کی مصلحت کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح مرد اور عورت مل کر سوسائٹی کی مصلحت کے لیے کام کرتے ہیں، سوسائٹی میں اکیلے مرد یا اکیلی عورت کے لیے بقا ممکن نہیں۔
اللہ نے انسان کا ڈھانچا تخلیق کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی۔ یہ روح جس طرح مرد کے ڈھانچے میں پھونکی گئی بالکل اسی طرح عورت کے ڈھانچے میں پھونکی گئی۔ روح سے مراد استعداد اور صلاحیت ہے۔ استعداد ات کو عطا کرنے میں اللہ نے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ تربیت اور ماحول کی وجہ سے یہ استعدادات گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہیں۔ آیۂ مبارکہ میں جس فضیلت کا ذکر ہے، اس سے مراد یہی استعداد اور صلاحیت ہے، یعنی بعض باتوں میں مرد کی استعداد اور صلاحیت زیادہ ہے اور بعض باتوں میں عورت کی استعداد زیادہ ہے۔ کسب رزق کی صلاحیت مرد میں اس لیے زیادہ ہے کہ اسے عورت کے مانند حمل، ولادت، رضاعت اور تربیت کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا۔ اس کے پاس فارغ وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور مواقع بھی زیادہ، جبکہ عورت کے لیے اپنے فرائض منصبی کی وجہ سے کسب رزق مشکل ہے۔ اسی بات کو سید قطب نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں بڑے خوب صورت الفاظ میں یوں بیان کیا ہے ’’انصاف کا تقاضا تھا کہ مرد کے ذمے ضروریات زندگی کو فراہم کرنے کا کام سونپا جائے تاکہ عورت فارغ ہو کر اپنے فرائض منصبی ادا کر سکے۔ یہ مناسب نہ تھا کہ وہ حمل، ولادت، رضاعت اور تربیت کا بوجھ بھی اٹھائے اور ضروریات زندگی بھی فراہم کرے۔‘‘ جس خدا نے عورت پر حمل، ولادت، رضاعت اور تربیت کا بوجھ ڈالا ہے، کیونکہ وہ اس کی استعداد رکھتی ہے اور اس استعداد میں وہ مرد سے افضل ہے، اس خدا نے مرد پر نان و نفقہ کا بوجھ ڈال کر حساب برابر کر دیا ہے۔
یہ قوّامیت گھر کے اندر تقسیم کار کا ایک نظام ہے تاکہ خاندان حسن و خوبی سے چلتا رہے۔ اسے عمرانیات کے ماہر “Instrumental gaurdianship” کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ معاشرتی نظام کا تقاضا ہے۔ یہ قوامیت گھر کے اندر ہے۔ اگر کسی دفتر اور ادارے کی سربراہ عورت ہے تو کیا اس میں کام کرنے والے مرد محض اس لیے اس کا حکم نہیں مانیں گے کہ اللہ نے قوامیت کا حق مرد کو دیا ہے اور جس کرسی پر وہ بیٹھی ہے، وہ مرد کے لیے خالی کر دے۔ حضرت عمر نے شفا بنت عبداللہ عدویہ کو مدینے کے بازار کا نگران مقرر کیا۔ ان کا حکم مردوں اور عورتوں سب پر چلتا تھا۔
آیۂ کریمہ میں نہ تو مرد کی فطری برتری زیربحث ہے، نہ عورت کی فطری کہتری۔ یہ محض ایک گھریلو نظام کے بارے میں ہے، اس لیے اس سے مرد کی مطلق فضیلت کو اخذ کرنا درست نہیں۔
سید محمد قطب فرماتے ہیں: ’’اس قوامیت کا مقصد عورت کی شان کو گھر کے اندر اور معاشرے میں گھٹانا نہیں، یہ ایک خاندانی نظام ہے۔ اس میں شریک مرد اور عورت مستقل شخصیت کے مالک ہیں، دونوں کے حقوق یکساں ہیں۔ دوسرے مقامات پر اس قوامیت کے خدو خال کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں سے کس قسم کا سلوک کرے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘، میاں بھی راعی نگرانی اور حفاظت کرنے والا ہے اور بیوی بھی، دونوں اپنی زیرکفالت لوگوں کے لیے جواب دہ ہیں۔ گھر کے نظم میں میاں اور بیوی کا اشتراک ہے۔ میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف عورت ہی کی ہمت ہے کہ وہ اپنا فرض منصبی بھی ادا کرتی ہے اور رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ بھی کرتی ہے۔ دیہات میں کھیت کھلیان میں کام کرتی ہے، چارہ بناتی ہے اور گٹھا سر پر اٹھاتی ہے، دو دو تین تین کوس سے پانی کے دو دو گھڑے سر پر اٹھا کر لاتی ہے۔ شہروں میں سڑکوں پر روڑی کوٹتی ہے، سر پر دس دس اینٹیں اٹھا کر تیسری منزل پر چڑھتی ہے، گھروں میں جھاڑ پونچھ کرتی ہے۔ یہ ہمت مرد میں کہاں؟ فضیلت تو اسے دینی چاہیے۔
آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے تفسیر البحر المحیط میں امام قرطبی کے قول کا ذکر بے جا نہ ہو گا، فرماتے ہیں: ’’جمہور علما نے اللہ کے قول ’وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کہ اگر مرد نان و نفقہ کی ادائیگی سے عاجز آجائے تو وہ عورت کا محافظ یا نگران نہیں رہے گا اور جب معاہدے کی شرط ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے نکاح کو جواز ملا تو معاہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔ نکاح کے ٹوٹنے کا ثبوت وہ تنگ دستی ہے جس کی وجہ سے وہ روٹی، کپڑا اور مکان مہیا نہ کر سکا۔ یہی امام مالک اور امام شافعی کا مذہب ہے۔‘‘
آج کل ہمارے گھروں میں جو لڑکیاں کام کرتی ہیں، ان کے والد اور شوہر اکثر و بیش تر نشہ کرتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے۔ وہ لڑکیوں کی کمائی پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ کیا وہ بھی قوّامون ہیں اور عورتوں سے برتر ہیں؟
’قٰنِتٰتٌ‘: آیت کو سمجھنے کے لیے یہ لفظ بھی تشریح طلب ہے، کیونکہ اسرائیلی روایات کی روشنی میں عورت کے بارے میں دل و دماغ پر نقش خیالات کو ثابت کرنے کے لیے اس کے معنوں میں خاصی کھینچا تانی کی گئی ہے۔ فاضل محترم بھی اپنے ترجمے سے اس کھینچا تانی سے متاثر لگتے ہیں۔
’’مقاییس اللغہ‘‘ میں ہے کہ ’قنت‘ صرف اور صرف دین کے بارے میں اطاعت اور نیکی پر دلالت کرتا ہے۔ پھر دین کے راستے میں ہر استقامت کو قنوت کہا گیا۔ نماز میں طول قیام اور سکوت کو بھی قنوت کہا گیا ہے۔
’’مفردات‘‘ میں قنوت کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام ہے، یعنی فروتنی، خشوع و خضوع اور دوام اس اطاعت کے عناصر ترکیبی ہیں۔ جس اطاعت میں یہ عناصر مفقود ہوں، اسے قنوت نہیں کہا جا سکتا، اسی لیے قرآن کریم میں یہ لفظ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے خاص ہے۔ کسی شخص کی اطاعت کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں۔ اللہ کا قول ہے: ’وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِ‘، ’’جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار ہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۳۱)۔ بعض آیات میں اسے صرف اللہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، کیونکہ رسول کی اطاعت بھی دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ جیسے ’قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ‘ (اللہ کے سامنے فرماں بردار بن کر کھڑے رہا کرو)، ’کُلٌّ لَّہُ قَانِتُوْنَ‘ ’’سب اس کے فرماں بردار ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۱۶)۔ اس آیۂ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قنوت (فرماں برداری) صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ اور یہ حکم ساری کائنات کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں یہ صفت مردوں کی بھی بیان کی گئی ہے اور عورتوں کی بھی، جیسے ’اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا‘، ’’بے شک، ابراہیم لوگوں کے امام اور اللہ کے فرماں بردار تھے‘‘ (النحل ۱۶: ۱۲۰)۔ پھر ارشاد ہے : ’وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ‘، ’’فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘‘(۳۳: ۳۵) ۔ اگر عورتوں کو مردوں کی فرماں بردار کہا جائے تو مردوں کو بیویوں کا فرماں بردار کہنا چاہیے۔ حقیقت میں دونوں اللہ کے فرماں بردار ہیں۔ حضرت مریم کے بارے میں ارشاد ہے: ’وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ‘، ’’اور وہ فرماں برداروں میں سے تھیں‘‘(التحریم ۶۶:۱۲) ۔ یہاں دو باتوں کو مدنظر رکھا جائے: ایک تو وہ بے شوہر تھیں۔ دوسرے اللہ نے ان کے بارے میں مذکر کا صیغہ استعمال کر کے مرد اور عورت کا فرق مٹا دیا ہے۔
اگر بیوی کا شوہر بدقماش ہو تو کیا اس کی بھی فروتنی کے ساتھ ہمیشہ اطاعت کی جائے گی؟ اور اس اصول کو بالاے طاق رکھ دیا جائے گا کہ ’لا طاعۃ فی معصیۃ الخالق‘، خالق کی نافرمانی کر کے کسی کی فرماں برداری کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے صحیح ترجمہ یہ ہو گا کہ صالح عورتیں اللہ کی فرماں بردار ہیں اور بہت سچے مرد کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہیں، کیونکہ اللہ نے ان کی یا ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔
فاضل مقالہ نگار کی خدمت میں گزارش ہے کہ میں نے آیت کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے، مجھے تو کہیں بھی مرد بالادست نظر نہیں آتا، بلکہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ سے اس سوچ کی تردید صاف نظر آ رہی ہے۔ اب آتے ہیں سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۸ کی طرف ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘ (مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ ہے)۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ درجہ مطلق ہے یا مقید۔ یہ درجہ فضیلت کا ہے یا ذمہ داری کا؟ فاضل محترم نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ درجہ گھر کے اندر مقید ہے اور مطلق نہیں۔ گھر گرہستی کے نظام کا اطلاق عام حالات پر نہیں ہوتا۔
امام ابن جریر طبری نے ’’جامع البیان‘‘ (۲: ۴۵۴) میں درجہ کے بار ے میں جو کچھ کہا ہے، وہ قول فیصل کا حکم رکھتا ہے۔ پہلے وہ درجہ کے بارے میں مختلف آرا نقل کرتے ہیں، کسی نے اسے حق مہر کی ادائیگی کا درجہ کہا، مجاہد نے اسے داڑھی کا درجہ کہا۔ کسی نے جہاد اور میراث کا درجہ کہا۔ امام طبری عکرمہ کی روایت سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہیں، جنھوں نے کہا: ’لا أحب أن أستنظف جمیع حقّی علیہا لأن اللّٰہ تعالٰی ذکرہ قال للرجال علیہن درجۃ‘ (میں نہیں چاہتا کہ عورت سے اپنے تمام حقوق حاصل کر لوں کیونکہ اللہ کا قول ہے کہ مردوں کو ان پر درجہ ہے)۔ امام طبری فرماتے ہیں کہ آیت کی تفسیر میں دوسرے اقوال کے مقابلے میں ابن عباس کا قول زیادہ مناسب اور مفید ہے۔ اس موقع پر اللہ نے جس درجہ کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ مرد عورت پر اپنے حق کے کچھ حصے کو معاف کرے اور چشم پوشی سے کام لے اور اس کے تمام حقوق کو پوراکرے، کیونکہ اللہ نے ’لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ‘ کے فوراً بعد فرمایا ’لِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘ ۔ اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا ہے کہ مرد نہ تو تین طہر میں رجوع کرنے کے بعد اور نہ ہی دوسرے حقوق میں عورت کو ضرر پہنچائے اور عورت کو چاہیے کہ وہ نہ تو اپنے رحم میں بچے کو چھپا کر اور نہ ہی دوسرے حقوق میں مرد کو ضرر پہنچائے۔ اس کے بعد مردوں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اگر عورت سے کسی قسم کی کوتاہی ہو جائے تو وہ وسعت قلبی سے کام لیں اور یہی مقصد ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا۔
امام بیضاوی نے ’’انوار النتزیل و اسرار التاویل‘‘ (۱/ ۱۵۶) میں درجہ سے حق مہر اور نان و نفقہ کا درجہ مراد لیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مراد ترک ایذا ہے۔
ابن حبان اندلسی نے ’’البحر المحیط‘‘ (۲/ ۲۰۰) میں امام قرطبی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس کا قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عورت سے حسن سلوک کرنا چاہیے، نیز مال اور اخلاق میں وسعت قلبی سے کام لینا چاہیے، یعنی فضیلت اس میں ہے کہ گراں باریوں کے باوصف مرد ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے۔
سید قطب ’’فی ظلال القرآن‘‘ (۱/۲۴۶) میں لکھتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ یہ درجہ مقیّد ہے۔ آیت کے سیاق کی رو سے اس سے مراد عدت کے دوران رجوع کا حق ہے۔‘‘
ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ (۱/ ۱۸۸) میں یہ بات ذرا کھول کر بیان کی ہے، ان کا قول ہے: ’’درجہ کے بارے میں علما کی راے کی وجہ سے کئی اقوال مروی ہیں ... لیکن آیۂ مبارکہ میں مطلق درجہ کا کوئی ذکر نہیں جس کی وجہ سے ہم عورتوں پر مردوں کی فضیلتیں گنوانے بیٹھ جائیں۔‘‘
یہ درجہ مقید ہے، اس لیے اللہ کے قائم کیے ہوئے فضیلت کے معیار پر یہ قطعی اثر انداز نہیں ہوتا۔
بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ درجہ مقید ہے اور ذمہ داری کا ہے، نہ کہ فضیلت کا۔
حیران ہوں محترم مقالہ نگار نے اللہ کے قائم کیے ہوئے معیار سے استثنا کی دوسری مثال وراثت کے حصہ کی دی ہے اور کہا ہے کہ مرد کا دگنا حصہ بھی مرد کی برتری ثابت کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو اس لیے وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا کہ وہ قبیلے پر مالی لحاظ سے ایک بوجھ تھے۔ نہ غارت گری میں حصہ لیتے تھے اور نہ کوئی اور کمائی کرتے تھے۔ چنانچہ لڑکیوں کو یا تو زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا یا اون کا لمبا چغہ پہنا کر اونٹوں کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو وراثت کا حصہ دے کر اسے اعزاز بخشا ہے اور حمل، ولادت اور رضاعت کی بھاری ذمہ داریوں کو ایک مفید کام سمجھ کر مرد کو ان کے نان و نفقہ کا ذمہ دار قرار دیا تاکہ وہ آرام سے اپنے فرائض منصبی ادا کر سکیں۔
امام رازی نے ’’التفسیر الکبیر‘‘ میں اس حکمت کو بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ وجہ بیان کی ہے کہ ’’عورت کو کم خرچ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کے نان و نفقہ کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے۔ مرد زیادہ خرچ کرتا ہے، کیونکہ اپنے علاوہ اسے اپنے بیوی بچوں پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ امام صاحب نے اور بھی وجوہات بیان کی ہیں، مگر سب سے زیادہ منطقی وجہ وہی ہے جسے انھوں نے پہلے نمبر پر بیان کیا ہے۔ مرد اپنے آپ پر بھی خرچ کرتا ہے اور اپنے بیوی بچوں پر بھی، اس لیے اس کا حصہ دگنا رکھا گیا ہے۔ اس میں مرد کی برتری کا کوئی دخل نہیں۔ یہ ایک معاشی بندوبست ہے، کیونکہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بعد عورت کے پاس اتنا فارغ وقت نہیں ہوتا جتنا مرد کے پاس ہوتا ہے۔ عورت کے پاس جو مال حق مہر کی صورت یا جائداد کی صورت میں ہوتا ہے، وہ اسے اپنے گھر پر خرچ کرنے کی مکلف نہیں۔ اگر وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی ملازمت کرتی ہے تو اس کی تنخواہ پر بھی اس کے گھر والوں کو کوئی حق نہیں وہ جیسے چاہے، اس میں تصرف کر سکتی ہے۔ مرد اس میں دخل دینے کا مجاز نہیں۔ اگر مالی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھا جائے تو عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ عادل بھی ہے اور حکیم بھی، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ جہاں مالی ذمہ داریوں کا مسئلہ نہ ہو، وہاں عورت اور مرد کو برابر کا حصہ ملتا ہے۔ مثلاً اگر مرنے والا صاحب اولاد ہو تو ماں اور باپ کو مساویانہ طور پر چھٹا حصہ ملے گا، لیکن اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ ملے گا اور باپ کو دو تہائی۔ باپ ہونے کی حیثیت سے اسے ایک تہائی ملے گا، دوسرا تہائی اسے عصبہ ہونے کی صورت میں ملے گا نہ کہ باپ کی حیثیت سے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اولاد کی موجودگی میں برابری اس لیے ہے کہ وہ ان کا برابر کا احترام کریں۔ مالی ذمہ داریوں کے پیش نظر ورثہ میں والدین کا حصہ اولاد سے کم ہے، کیونکہ والدین کو اس عمر میں مال کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، وہ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ اول تو ان کے پاس اپنے گزارے کے لیے اثاثہ ہوتا ہے، دوسرے ان کی اولاد پر ان کا نان و نفقہ واجب ہوتا ہے۔ رہی اولاد وہ یا تو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ کما نہیں سکتے، لیکن اگر بڑے ہوں تو بچوں کی تربیت اور شادی بیاہ کے لیے ان کو مال کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ان کا حصہ والدین کے مقابلہ میں زیادہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح کلالہ (لاولد متوفی) کے ورثا میں بھی تذکیر و تانیث کا کوئی فرق نہیں۔ اگر اس کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر بھائی زیادہ ہوں تو ۳/۱میں سب برابر کے شریک ہوں گے۔
اس طرح اسلام نے عورت کے فرائض منصبی کی قدر و قیمت (evaluate) کی ہے اور مرد پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اس کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرے اور اس کی ذاتی آمدنی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ہاں، عورت کی رضا مندی سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ عورت کا حصہ ورثے میں بھی مقرر کر دیا ہے، ورثہ کی آیات میں عورت کے حصے کو بنیادی طور پر تسلیم کر کے مرد کے حصے کو اس پر قیاس کیا گیا ہے، ارشاد ہے: ’للذکر مثل حظ الانثین‘، یعنی عورتوں کا حصہ تو طے شدہ ہے، مرد کا حصہ اس پر قیاس کر کے مقرر کیا جائے گا، کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں سارا حصہ مرد کو ملتا تھا، قرآن نے قرار دیا کہ اصل حصہ عورت کا ہے، اس سے بڑھ کر عورت کی کیا عزت افزائی ہو سکتی ہے؟ اور ہم چلے ہیں اس حصہ سے مرد کی برتری ثابت کرنے، برتری کا معیار وہی ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے، یعنی تقویٰ اور اعمال صالحہ باقی سب شاونزم (chauvinism) ہے۔ شکر ہے کہ فاضل محترم نے روایتی مذہبی پیشواؤں کی طرح شہادت اور دیت کو برتری کے لیے پیش نہیں کیا۔
مجھے امید ہے نوجوان فاضل محترم خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ سن کر اس بوڑھے کے دلائل کی طرف دھیان دیں گے۔ شکریہ۔
___________