بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ، اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ، تَحْبِسُوْنَھُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلٰوۃِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ، اِنِ ارْتَبْتُمْ، لَا نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی وَلَا نَکْتُمُ شَھَادَۃَ اللّٰہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ{۱۰۶} فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓی اَنَّھُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَھُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ، فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَھَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَآ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ{۱۰۷} ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّھَادَۃِ عَلٰی وَجْھِھَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌ بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ{۱۰۸}
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ: مَا ذَآ اُجِبْتُمْ، قَالُوْا: لَا عِلْمَ لَنَا، اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ{۱۰۹} اِذْ قَالَ اللّٰہُ: یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ، اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ، تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا، وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ، وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ، وَتُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ، وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ، وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ: اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ{۱۱۰} وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ، قَالُوْٓا: اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ{۱۱۱} اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ: یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ، ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ، قَالَ: اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۱۱۲} قَالُوْا: نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ{۱۱۳} قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ: اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ{۱۱۴} قَالَ اللّٰہُ: اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ، فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ{۱۱۵} وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ: یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ، ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، قَالَ: سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ، اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ، تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ، اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ{۱۱۶} مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ، وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ شَھِیْدٌ{۱۱۷} اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ، وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ{۱۱۸} قَالَ اللّٰہُ: ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ، لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۱۱۹} لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِیْھِنَّ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۱۲۰}
۵۔ ایمان والو، ۲۲۰؎ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اُس کے لیے گواہی اِس طرح ہو گی کہ تم میں سے دو ثقہ آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت آ پہنچے تو تمھارے غیروں میں سے ۲۲۱؎ دو گواہ لے لیے جائیں۔ (پہلی صورت میں) اگر کوئی شبہ ہو جائے تو تم اُنھیں نماز کے بعد روک لو گے، ۲۲۲؎ پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اِس گواہی کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہ کریں گے، اگرچہ کوئی قرابت مند ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے۔ ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔ پھر اگر پتا چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اُن کی جگہ دو دوسرے آدمی اُن لوگوں میں سے کھڑے ہوں، جن کی اِن پہلے گواہوں۲۲۳؎ نے حق تلفی کی ہے۔ پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی اِن دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ ہم نے ایسا کیا تو ہم ظالموں میں سے ہوں گے۔ اِس طریقے سے زیادہ توقع ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا کم سے کم اِس بات سے ڈریں کہ اُن کی گواہی دوسروں کی گواہی کے بعد رد ہو جائے گی۔ ۲۲۴؎ اللہ سے ڈرو اور (جو حکم دیا جائے، اُس کو) سنو۔ (ایسا نہیں کرو گے تو یہ صریح نافرمانی ہے) اور اللہ نافرمانوں کو کبھی راستہ نہیں دکھاتا۔ ۱۰۶-۱۰۸
(اللہ کی گواہی جن لوگوں نے چھپائی ہے، وہ) اُس دن کو یاد رکھیں جب اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا، پھر پوچھے گا کہ (تمھاری امتوں کی طرف سے) تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ وہ کہیں گے: ہمیں کچھ علم نہیں، تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ ۲۲۵؎ جب اللہ کہے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، میری اُس عنایت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری ماں پر کی تھی، (اُس وقت) جب میں نے روح القدس سے تمھاری مدد کی، تم گہوارے میں بھی (اپنی نبوت کا) کلام کرتے تھے اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔ ۲۲۶؎ اور یاد کرو، جب میں نے تمھیں قانون اور حکمت سکھائی، یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دی۔ ۲۲۷؎ اور یاد کرو، جب تم میرے حکم سے پرندے کی ایک صورت مٹی سے بناتے تھے، پھر اُس میں پھونکتے تھے اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے۔ اور یاد کرو، جب تم مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے۔ اور یاد کرو، جب میں نے بنی اسرائیل کے ہاتھ تم سے روک دیے، ۲۲۸؎ جب تم کھلی ہوئی نشانیاں لے کر اُن کے پاس آئے اور اُن کے منکروں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔۲۲۹؎ اور یاد کرو، جب میں نے حواریوں کو ایما کیا ۲۳۰؎ کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لائو تو اُنھوں نے کہا:ہم ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ یاد کرو، جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ ابن مریم، کیا تمھارا پروردگار یہ کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) ایک خوان اتارے؟ ۲۳۱؎ عیسیٰ نے کہا: خدا سے ڈرو، اگر تم سچے مومن ہو۔ اُنھوں نے جواب دیا: ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اِس خوان سے کھائیں اور (اِس کے نتیجے میں) ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم یہ جان لیں کہ تونے ہم سے سچ کہا اور ہم اِس پر گواہی دینے والے بن جائیں۔ اِس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے اللہ، اے ہمارے پروردگار، تو ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر دے جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک یادگار بن جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو۔ (پروردگار)، ہم کو عطا فرما اور تو بہترین عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ نے فرمایا: میں اِس کو تم پر ضرور نازل کر دوں گا، مگر اِس کے بعد جو تم میں سے منکر ہوں گے، اُنھیں ایسی سخت سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی۔۲۳۲؎ اور یاد کرو، جب (یہ باتیں یاد دلا کر) اللہ پوچھے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو۔ وہ عرض کرے گا: سبحان اللہ، یہ کس طرح روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، (اِس لیے کہ) آپ (تو وہ بھی) جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور آپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔ تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ ۲۳۳؎ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے اُٹھا لیا تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ اب اگر آپ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔۲۳۴؎ اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی ۲۳۵؎ اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔۲۳۶؎ زمین و آسمان اور اُن کے اندر تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۱۰۹-۱۲۰
۲۲۰؎ یہ پانچویں اور آخری سوال کا جواب ہے۔ انبیا علیہم السلام کی گواہی سے متعلق جن حقائق کی یاددہانی اِس جواب کے آخر میں کی گئی ہے، اُس سے واضح ہے کہ جس سوال کا یہ جواب ہے، وہ کس طرح پیدا ہوا ہے۔
۲۲۱؎ یعنی غیر مسلموں میں سے۔
۲۲۲؎ یعنی کسی نماز کے بعد۔ نماز کا لفظ یہاں اسم جنس کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد کوئی مخصوص نماز نہیں ہے۔
۲۲۳؎ اصل میں ’الْاَوْلَیٰنِ‘ کا لفظ ہے۔ یہ ’اَوْلٰی‘ کا مثنیٰ ہے جس کے معنی احق کے ہیں، یعنی’الاولٰی بالشہادۃ‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِن سے مراد وہ دونوں گواہ ہیں جو وصیت کے ابتدائی گواہ بنائے گئے۔ چونکہ اپنے منصب کے اعتبار سے گواہی کے اصل حق دار وہی ہیں، اِس وجہ سے اُن کو ’الْاَوْلَیٰن‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ یہاں اِس میں اِس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ جب وہ اولیٰ بالشہادۃ ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ وہ اپنے اِس منصب کی لاج رکھیں اور کسی ایسی بدعنوانی کے مرتکب نہ ہوں کہ اولیٰ بالشہادۃ ہوتے ہوئے بھی اُن کی شہادت دوسروں کی قسم سے باطل ہو جائے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ / ۶۰۵)
۲۲۴؎ اِس حکم کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ کسی شخص کی موت آجائے اور اُسے اپنے مال سے متعلق کوئی وصیت کرنی ہو تو اُسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لے۔
۲۔ موت کا یہ مرحلہ اگر کسی شخص کو سفر میں پیش آئے اور گواہ بنانے کے لیے وہاں دو مسلمان میسر نہ ہوں تو مجبوری کی حالت میں وہ دو غیرمسلموں کو بھی گواہ بنا سکتا ہے۔
۳۔ مسلمانوں میں سے جن دو آدمیوں کو گواہی کے لیے منتخب کیا جائے، اُن کے بارے میں اگر یہ اندیشہ ہو کہ کسی شخص کی جانب داری میں وہ اپنی گواہی میں کوئی ردو بدل کر دیں گے تو اِس کے سدباب کی غرض سے یہ تدبیر کی جا سکتی ہے کہ کسی نماز کے بعد اُنھیں مسجد میں روک لیا جائے اور اُن سے اللہ کے نام پر قسم لی جائے کہ اپنے کسی دنیوی فائدے کے لیے یا کسی کی جانب داری میں، خواہ وہ اُن کا کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی گواہی میں کوئی تبدیلی نہ کریں گے اور اگر کریں گے توگناہ گار ٹھیریں گے۔
۴۔ گواہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ گواہی ’شَہَادَۃُ اللّٰہِ‘، یعنی اللہ کی گواہی ہے، لہٰذا اِس میں کوئی ادنیٰ خیانت بھی اگر اُن سے صادر ہوئی تو وہ نہ صرف بندوں کے، بلکہ خدا کے بھی خائن قرار پائیں گے۔
۵۔ اِس کے باوجود اگر یہ بات علم میں آجائے کہ اِن گواہوں نے وصیت کرنے والے کی وصیت کے خلاف کسی کے ساتھ جانب داری برتی ہے یا کسی کی حق تلفی کی ہے تو جن کی حق تلفی ہوئی ہے، اُن میں سے دو آدمی اٹھ کر قسم کھائیں کہ ہم اِن اولیٰ بالشہادت گواہوں سے زیادہ سچے ہیں۔ ہم نے اِس معاملے میں حق سے کوئی تجاوز نہیں کیا اور ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو خدا کے حضور میں ہم ظالم قرار پائیں گے۔
۶۔ گواہوں پر اِس مزید احتساب کا فائدہ یہ ہے کہ اِس کے خیال سے، توقع ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے۔ ورنہ اُنھیں ڈر ہو گا کہ اُنھوں نے اگر کسی بدعنوانی کا ارتکاب کیا تو اُن کی قسمیں دوسروں کی قسموں سے باطل قرار پائیں گی اور اولیٰ بالشہادت ہونے کے باوجود اُن کی گواہی رد ہو جائے گی۔
۲۲۵؎ اِس سے واضح ہے کہ یہ سوال و جواب ہر پیغمبر سے ہوں گے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے سوال و جواب کا ذکر آگے بالخصوص اِس لیے ہوا ہے کہ اُن کے ماننے والے جس گمراہی میں مبتلا ہوئے، وہ غیرمعمولی ہے۔ اُن کے سوا کسی پیغمبر اور اُس کی ماں کو اِس طرح معبود بنا کر اُن کی پرستش نہیں کی گئی۔
۲۲۶؎ مسیح علیہ السلام کے معاملے میں یہ غیرمعمولی واقعہ اِس لیے ہوا کہ یہود پر اتمام حجت ہو اور سیدہ مریم پر کسی تہمت کی گنجایش نہ رہے۔
۲۲۷؎ تورات میں زیادہ تر شریعت اور انجیل میں ایمان و اخلاق کے مباحث بیان ہوئے ہیں۔ پہلی چیز کے لیے قرآن نے یہاں ’الْکِتٰبَ‘ اور دوسری کے لیے ’الْحِکْمَۃَ‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ، اگر غور کیجیے تو اِس تعبیر کو ہر لحاظ سے واضح کردیتا ہے۔
۲۲۸؎ اِس کی صورت یہ ہوئی کہ جب یہود آپ کے قتل کے درپے ہو گئے تو اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کا جسم مبارک بھی اپنی طرف اٹھا لیا۔ چنانچہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے آپ کو ہاتھ لگانا بھی یہود کے لیے ممکن نہیں ہوا۔
۲۲۹؎ اللہ تعالیٰ یہ تمام باتیں جو یہاں تک بیان ہوئی ہیں، نصاریٰ پر اتمام حجت اور اُن کی فضیحت کے لیے فرمائے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح کے سامنے اور خود اُن کے اعترافات سے یہ حقیقت نصاریٰ پر واضح کر دی جائے گی کہ اُنھوں نے جو کچھ کیا، وہ صریح گمراہی تھی۔ مسیح علیہ السلام کے کسی قول و فعل یا اُن کی تعلیمات سے اِس کا کوئی تعلق نہ تھا۔
۲۳۰؎ مسیح علیہ السلام کی دعوت میں حواریوں کو جو اہمیت حاصل ہے، یہ واقعہ اُسی کے پیش نظر نصاریٰ کو سنایا جائے گا۔ اتمام حجت کے جو پہلو اِس میں ملحوظ ہیں، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں:
’’۔۔۔ایک یہ کہ حواریین نے جس دین کو قبول کیا، وہ نصرانیت و مجوسیت نہیں، بلکہ اسلام ہے۔
دوسرا یہ کہ حواریین حضرت عیسیٰ کو عیسیٰ ابن مریم کہتے تھے۔ اُن کی الوہیت کا کوئی تصور اُن کے ذہن میں نہیں تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو حضرت عیسیٰ اور تمام کائنات کا رب مانتے تھے۔
تیسرا یہ کہ وہ حضرت عیسیٰ کو بالذات معجزات کا دکھانے والا نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اُن کو صرف اُن کے ظہور کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے مائدہ کے اتارے جانے کے لیے جو درخواست کی، وہ حضرت عیسیٰ سے نہیں کی کہ آپ ہمارے لیے مائدہ اتاریں، بلکہ یہ درخواست کی کہ اگر یہ بات آپ کے خداوند کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو آپ اُس سے درخواست کیجیے کہ وہ ہمارے لیے مائدہ اتارے تاکہ اِس سے ہمارے دلوں کو طمانیت حاصل ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۶۰۸)
۲۳۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ‘۔ اِن میں سوال خدا کی قدرت سے متعلق نہیں، بلکہ اُس کی حکمت سے متعلق ہے، یعنی کیا یہ بات اُس کی حکمت کے مطابق ہے کہ وہ اِس طرح کی کھلی ہوئی نشانی دکھائے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔معجزات ہر چند خارق عادت ہوتے ہیں، تاہم وہ اسباب کے پردے ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ تمام پردے اٹھا دیے جائیں۔ اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کے مطالبات کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی جن میں خواہش اُن حدود سے متجاوز ہو جائے جو معجزات کے ظہور کے لیے سنت اللہ میں مقرر ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۶۰۸)
۲۳۲؎ اِس کے بعد ظاہر ہے کہ حواری اِس درخواست سے باز آگئے ہوں گے۔ چنانچہ انجیلوں میں اِس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اِس طرح کا خوان اتارا گیا تھا۔
۲۳۳؎ یہ قرآن نے اُس تعبیر کی تصحیح کر دی ہے جو انجیل میں میرا باپ اور تمھارا باپ کے الفاظ میں آئی ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جو بات کہی، وہ یہ تھی، مگر عبرانی زبان میں ’اب‘ اور ’ابن‘ کے الفاظ چونکہ باپ اور بیٹے اور رب اور بندے کے معنی میں مشترک تھے، اِس لیے نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا عقیدہ ایجاد کیا تو اِس اشتراک سے فائدہ اٹھا کر اِنھیں وہ صورت دے دی جو اب ہم انجیل میں دیکھتے ہیں۔
۲۳۴؎ سیدنا مسیح علیہ السلام کا یہ فقرہ غیر معمولی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس فقرے کی بلاغت کی تعبیر نہیں ہو سکتی۔ بظاہر دل چاہتا ہے کہ فقرہ یوں ہوتا: ’اِنْ تَغْفِرْلَھُمْ، فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ، وَاِنْ تُعَذِّبْھُمْ، فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘، لیکن اگر یوں ہوتا تو یہ نہایت واضح الفاظ میں نصاریٰ کے لیے شفاعت بن جاتا اور انبیا علیہم السلام کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ مشرکین کے لیے سفارش نہیں فرمائیں گے۔ اِس وجہ سے سیدنا مسیح بات ایسے اسلوب میں فرمائیں گے کہ بات سچی بھی ہو، دربار الٰہی کے شایان شان بھی ہو، درد مندانہ بھی ہو اور اُن پر اُس سے مشرکین و محرفین دین کی سفارش کی کوئی ذمہ داری بھی عائد نہ ہو۔ چنانچہ ’اِنْ تُعَذِّبْھُمْ، فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ، وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ، فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘ کے الفاظ پر غور فرمائیے تو معلوم ہو گا کہ اِس فقرے میں وہ تمام خوبیاں بھی موجود ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا اور ساتھ ہی یہ پہلو بھی موجود ہے کہ سیدنا مسیح اپنے آپ کو اُن کی شفاعت کی ذمہ داری سے بری کر لیں گے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۶۰۹)
۲۳۵؎ اصل میں لفظ ’صدق‘ آیا ہے۔ یہ قول و فعل اور ارادہ، تینوں کی مطابقت اور استواری کی تعبیر کے لیے آتا ہے۔ آدمی کے منہ سے کوئی حرف صداقت کے خلاف نہ نکلے، اُس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو اور وہ اپنی ہر بات کو نباہ دے تو یہ زبان اور عمل کی سچائی ہے، لیکن اِس کے ساتھ نیت اور ارادے کی سچائی بھی لازماً شامل ہونی چاہیے۔ قرآن نے اِس کے ضد کردار کو نفاق اور اِسے اخلاص سے تعبیر کیا ہے، پھر جگہ جگہ وضاحت فرمائی ہے کہ خدا کے نزدیک عمل کا اصلی پیکر وہی ہے جو کارگاہ قلب میں تیار کیا جائے۔ لہٰذا صدق کا درجۂ کمال قول و فعل اور ارادے کی اِسی مطابقت سے حاصل ہوتا ہے۔ سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۲۳: ’صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ‘ (اللہ سے جو عہد اُنھوں نے باندھا، اُسے پورا کر دکھایا) کے الفاظ اِسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی زبان کا حرف، دل کا ارادہ اور عمل کی ہر جنبش حق و صداقت کا مظہر بن جائے۔
۲۳۶؎ مطلب یہ ہے کہ تمھارے پیرووں میں سے جو لوگ اپنے قول و قرار اور عہدو میثاق میں سچے ثابت ہوئے اور اُنھوں نے جانتے بوجھتے کسی گمراہی پر اصرار نہیں کیا، بلکہ جو کچھ سمجھا، دیانت داری کے ساتھ سمجھا، اُس میں دانستہ کوئی تبدیلی یا تحریف نہیں کی، پھر اپنی استطاعت کے مطابق اُس پر عمل پیرا رہے، اُن کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ مگر جنھوں نے جانتے بوجھتے بدعہدی اور خیانت کا ارتکاب کیا اور خدا کی طرف سے بار بار کی تنبیہات کے باوجود اپنے عقیدہ و عمل کی اصلاح کے لیے تیار نہیں ہوئے، اُن کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ وہ اپنے جرائم کی سزا لازماً بھگتیں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــ