HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاقیات

تعویذ گنڈوں کی مناہی اور شفا کی دعا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَاءِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ‘‘، قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ ہَذَا وَاللَّہِ لَقَدْ کَانَتْ عَیْنِی تَقْذِفُ وَکُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَی فُلَانٍ الْیَہُودِیِّ یَرْقِینِی فَإِذَا رَقَانِی سَکَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ إِنَّمَا ذَاکَ عَمَلُ الشَّیْطَانِ کَانَ یَنْخُسُہَا بِیَدِہِ فَإِذَا رَقَاہَا کَفَّ عَنْہَا إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکِ أَنْ تَقُولِی کَمَا کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’أَذْہِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔ (ابوداود،رقم۳۸۸۳)
’’عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: جھاڑ پھونک، گنڈے اور میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کے تعویذسب شرک ہیں۔(عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب نے) کہا تم یہ کیوں کہہ رہے ہو، خدا کی قسم میری آنکھ شدت درد سے نکلی جاتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے جاتی تھی، وہ مجھے دم کر دیتا تھا تو میری آنکھ کو سکون پہنچتا۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا یہ سکون تو شیطان کے عمل سے ہوتاتھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ کو چھوتا (تو اس میں درد ہوتا)، پھر جب دم کیا جاتا تو وہ آنکھ کو چھونے سے باز آ جاتا، (چنانچہ درد ختم ہو جاتا)۔ تیرے لیے یہ کافی تھا کہ تو وہی کلمات کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے۔اے انسانوں کے پروردگار، بیماری کو دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے جو بیماری کو بالکل ختم کر دے۔‘‘
توضیح

عموماً جھاڑ، پھونک، گنڈوں اور تعویذوں وغیرہ کے ساتھ مشرکانہ عقائد و اعمال وابستہ ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب چیزوں کے بارے میں اہل عرب کے عقائد و اعمال کی بنا پر انھیں شرک قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو بیماری سے شفا پانے کے لیے درج بالا عظیم دعا سکھائی ہے۔

غیر اللہ کی قسم کھانے کی نفی

عَنِ ابْنِ عُمَرَ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللَّہِ فَقَدْ أَشْرَکَ۔ (ابوداود،رقم۳۲۵۱)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی ، اُس نے شرک کا ارتکاب کیا۔‘‘
توضیح

انسان جس کی قسم کھاتا ہے اسے اپنی بات، اپنے احوال یا اپنے معاملے پر گواہ بناتا اور اس پر اپنے توکل و اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی انسان اپنے ارادے یا اپنے کسی مؤقف میں جھوٹا ہے یا سچا ہے، اس بات کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، چنانچہ ہم اپنی نیت اور اپنے دل کے ارادے پر جب غیراللہ کو گواہ بناتے ہیں تو ہمارا یہ عمل اس میں بعض خدائی صفات ماننے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہذا، غیراللہ کی قسم کھانے کو مشرکانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔

شرکت سے اللہ کی بے نیازی

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنْ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیہِ مَعِی غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ۔ (مسلم، رقم ۲۹۸۵، رقم مسلسل ۷۴۷۵)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے: میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرکت سے بے نیاز ہوں، لہٰذا جس نے اپنے کسی کام میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا، میں اُس سے الگ ہو ں اوروہ اُسی کا ہے جس کو اُس نے میرا شریک بنایا ہے۔
توضیح:

وہ عمل جس میں خدا کے ساتھ اس کے غیر کو شریک بنایا گیا ہو، وہ غیر اللہ کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کا اپنا وجود ہی مشرکانہ ذہن کی پیداوار ہے، لیکن خدا جو اصلاً شرکت سے بے نیاز ہے، وہ کسی مشرکانہ عمل کو کیسے قبول کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی ایسے عمل کو قبول نہیں کرتا جو خالصتاً اسی کے لیے نہ کیا گیا ہو۔

سمشرکانہ اوہام کی نفی

عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَّہُمْ بَیْنَمَا ہُمْ جُلُوسٌ لَیْلَۃً مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُمِیَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَاذَا کُنْتُمْ تَقُولُونَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ إِذَا رُمِیَ بِمِثْلِ ہَذَا‘‘ قَالُوا اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ کُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّیْلَۃَ رَجُلٌ عَظِیمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِیمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’فَإِنَّہَا لَا یُرْمَی بِہَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ وَلَکِنْ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَی اسْمُہُ إِذَا قَضَی أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَۃُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَہْلُ السَّمَاءِ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ حَتَّی یَبْلُغَ التَّسْبِیحُ أَہْلَ ہَذِہِ السَّمَاءِ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ الَّذِینَ یَلُونَ حَمَلَۃَ الْعَرْشِ لِحَمَلَۃِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ فَیُخْبِرُونَہُمْ مَاذَا قَالَ قَالَ فَیَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَہْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّی یَبْلُغَ الْخَبَرُ ہَذِہِ السَّمَاءَ الدُّنْیَا فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَیَقْذِفُونَ إِلَی أَوْلِیَاءِہِمْ وَیُرْمَوْنَ بِہِ فَمَا جَاءُ وا بِہِ عَلَی وَجْہِہِ فَہُوَ حَقٌّ وَلَکِنَّہُمْ یَقْرِفُونَ فِیہِ وَیَزِیدُونَ۔ (مسلم، رقم۲۲۲۹، رقم مسلسل ۵۸۱۹)
’’عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ مجھے ایک انصاری صحابی نے بتایا ہے کہ ایک رات جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک تارا ٹوٹا اور خوب روشن ہوا۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا: زمانۂ جاہلیت میں جب اس طرح کوئی تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے عرض کیا: (حقیقت تو) اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں، ہم سمجھتے تھے کہ آج کی رات میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا مرا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تارے کسی کی موت و حیات سے نہیں ٹوٹتے۔ البتہٰ، (اس کی حقیقت یہ ہے کہ ) ہمارا رب جو بہت بابرکت ہے اور جس کا نام بہت بلند ہے، وہ جب کوئی حکم کرتا ہے تو حاملینِ عرش فرشتے (اسے سن کر) اس کی تسبیح کرتے ہیں، پھر ان کی تسبیح سن کر عرش کے قریبی آسمان والے فرشتے اس کی تسبیح کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ تسبیح اس سمائے دنیا کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر عرش سے قریبی آسمان والے فرشتے حاملین عرش فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے، تو وہ انھیں بتاتے ہیں کہ یہ حکم ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اسی طرح سے ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو خبر دیتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ خبر سمائے دنیا تک پہنچ جاتی ہے، تو پھر یہاں سے وہ خبر جنات اچک لیتے اور اپنے دوستوں (کاہنوں وغیرہ) کو سناتے ہیں ، (اس موقع) پر اُنھیں ان (شہابوں) کے ذریعے سے مارا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ (جنات) جو اصل خبر لائے ہوتے ہیں اگر اتنی ہی بیان کی جائے تو وہ سچ ہوتی ہے، مگر یہ (کاہن وغیرہ) اس میں جھوٹ ملاتے اور اضافہ کرتے ہیں۔‘‘
تو ضیح

تاروں کے ٹوٹنے کے بارے میں عربوں میں جو بے بنیاد تصور پایا جاتا تھا، اس کی تردید کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ ان کے اس طرح ٹوٹنے کے اصل اسباب میں سے ایک خاص سبب کیا ہے۔

اشیا کے مؤثر بالذات ہونے کی نفی
عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ صَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَۃِ عَلَی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنْ اللَّیْلَۃِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: ہَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ‘‘ قَالُوا اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ: ’’أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنٌ بِی وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّہِ وَرَحْمَتِہِ فَذَلِکَ مُؤْمِنٌ بِی وَکَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ کَذَا وَکَذَا فَذَلِکَ کَافِرٌ بِی وَمُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ۔ (بخاری،رقم۸۴۶)، (مسلم،رقم۷۱، رقم مسلسل۲۳۱)
’’زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔آپ نے بتایا کہ اللہ فرماتا ہے:میرے بندوں میں کچھ نے مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں۔ پس جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تویہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان رکھتے اور ستاروں (کے مؤثر بالذات ہونے) کا کفر کرتے ہیں اور جنھوں نے یہ کہا کہ یہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے، وہ ستاروں پر ایمان رکھنے والے اور میرا کفر کرنے والے ہیں۔‘‘
توضیح:

عربوں کے ہاں مختلف ستاروں کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ یہ تارے جب آسمان پر فلاں فلاں جگہ پر ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے اثر سے بارش ہوتی ہے، وہ اُس بارش کو خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے اذن کے بغیر براہ راست ان تاروں کا اثر سمجھتے تھے، یعنی وہ ان تاروں کو مؤثر بالذات جانتے تھے۔ ان احادیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ چیز کفر ہے اور یہ خدا پر ایمان کے خلاف ہے۔

 __________________

B