HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

سجدۂ تلاوت اور شیطان

عَنْ أَبِیْ ہُرُیْرَۃَ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَرَأَ بْنُ آدَمَ السَّجْدَۃَ فَسَجَدَ، اعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْکِیْ. یَقُوْلُ: یَا وَیْلَہُ (وَفِیْ رَوَایَۃِ أَبِیْ کُرَیْبٍ: یَا وَیْلِیْ). أُمِرَ بْنُ آدَمَ بِالسَّجُوْدِ فَسَجَدَ فَلَہُ الْجَنَّۃُ وَأُمِرْتُ بِالسَّجُوْدِ، فَأَبَیْتُ فَلِیَ النَّارُ.
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ابن آدم آیت سجدہ تلاوت کرتا ہے اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے الگ ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے: اس کی بربادی، (ابوکُریب کی روایت کے مطابق: میری بربادی)۔ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا اور اس نے سجدہ کیا۔ چنانچہ اس کے لیے جنت ہے۔ مجھے سجدے کا حکم دیا گیا اور میں نے سجدے سے انکار کردیا۔ چنانچہ میرے لیے آگ ہے۔
لغوی مباحث

سجدۃ‘: سجود کی اصل خشوع و خضوع ہے۔ چنانچہ اس کا اطلاق سر جھکانے ، نظریں جھکانے یا نظریں زمین پر ٹکائے رکھنے پر کیا جاتا ہے۔ شرع میں اس کا اطلاق ماتھا زمین پر رکھنے کی اس ہیئت پر ہوتا ہے جو ہم نماز میں اختیار کرتے ہیں۔

ویلہ‘، ’ویلی‘: امام مسلم نے روایت میں ضمیر غائب اور ضمیر متکلم کا فرق اہتمام سے نقل کیا ہے۔ غائب کی ضمیر کو امام مسلم نے ترجیح دی ہے اور متکلم کی ضمیر کو محض روایت کے فرق پر مطلع کرنے کے لیے نقل کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ترجیح ٹھیک ہے۔ اگر چہ عربی میں دوسرے کے کلام کو بیان کرنے میں ضمائر غائب کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، لیکن یہاں لعنت کا کلمہ ہونے کی وجہ سے ضمیر غائب کا استعمال زیادہ موزوں ہے۔

معنی

امام مسلم یہ روایت جس باب میں بطور تمہید لائے ہیں، وہ تارک نماز کے کافر ہونے سے متعلق ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہاں آیت سجدہ پر سجدہ کرنے سے شیطان کے رویے کے بیان سے تارک نماز کی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے۔ آیت سجدہ پر سجدہ امر الٰہی کی تعمیل ہے اور انکار امر الٰہی سے روگردانی ہے۔ چنانچہ جس طرح امر الٰہی سے روگردانی کرکے شیطان خدا کی لعنت کا مستحق ٹھہرا، اسی طرح تارک نماز بھی شیطان کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے اور ایمان سے حاصل ہونے والا امان اسے حاصل نہیں رہتا۔ اگرچہ روایت کا اصل رخ اس موضوع کی طرف نہیں ہے، لیکن نماز اور سجدہ کی دین میں جو معنویت ہے، وہ ضرور اس سے سامنے آتی ہے۔ غالباً اسی پہلو کے پیش نظر امام مسلم اس روایت کو تمہید کی حیثیت سے لائے ہیں۔

شارحین نے اس روایت کے تحت سجدۂ تلاوت کے واجب ہونے پر بحث کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اس روایت کو سجدۂ تلاوت کے واجب ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ شیطان نے یہ اقرار کیا ہے کہ اسے سجدے کا حکم دیا گیا تھا اور اس نے امر الٰہی کا انکار کیا تھا۔ جب سجدۂ تلاوت کو اس سے مشابہ قرار دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سجدہ بھی امر الٰہی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بھی اس روایت سے ایک لطیف استدلال ہے۔ روایت کا موضوع یہ مسئلہ بھی نہیں ہے۔

سجدۂ تلاوت کی آیات کو سامنے رکھیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی تین قسمیں ہیں: ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات پر سجدہ کیا ہے جن میں براہ راست سجدے کا حکم موجود ہے۔ دوسرے وہ جن میں اہل کفر کے سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے۔ تیسرے وہ مقامات ہیں جہاں اہل حق کے سجدے میں پڑ جانے کا ذکر ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں امتثال امر میں سجدہ کیا ہے، کہیں اتباع حق میں سجدہ کیا ہے اور کہیں منکرین کے رویے سے مخالفت کا اظہار مقصود ہے۔ ان تینوں موقعوں پر سجدہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کے ساتھ زندہ تعلق کا مظہر ہے۔ آپ کا یہ اسوہ بندگی میں کما ل کا اسوہ ہے۔ امتثال اور اتباع کی یہ صورت اسی آدمی کے ہاں نظر آسکتی ہے جو بندگی کے رنگ میں رنگا ہوا ہو اور کیفیت بندگی اس پر ہر وقت طاری رہتی ہو۔ یہاں تقابل کا مطلب ایک مومن کی خدا کی اطاعت شعاری اور شیطان کی سرکشی اور اطاعت سے انحراف کو نمایاں کرنا ہے۔ ایک طرف بندۂ مومن ہے جو اطاعت اور اتباع کے لیے مستعد ہے اور دوسری طرف شیطان ہے جو خدا کے صریح حکم پر بھی محض تکبر کی وجہ سے تعمیل پر تیار نہیں ہوا۔ یہ سراپا عجز ونیاز ہے اور بندگی کے اظہار کے سب سے بڑے عملی مظہر سجدے اس کی پیشانی سے ٹپکے پڑتے ہیں اور وہ ایسا سرکش ہے کہ براہ راست حکم بھی اس کی جبیں میں نیاز پیدا نہیں کر سکا۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا قُرِءَی عَلَیْھِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَ. (الانشقاق۸۴: ۲۱)
’’ اور جب انھیں قرآن سنایا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘

بعض شارحین نے اس آیت کریمہ کو وجوب سجدہ کی دلیل کے طور پیش کیا ہے، دراں حالیکہ یہ آیت کفار کے حوالے سے ہے اور ان کے قرآن کے کلام اور پیغام کی عظمت کے عدم اعتراف کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ اس میں درحقیقت اسی طرح کے سجدے کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں آئے ہوئے ساحروں نے کیا تھا، جب ان کے سامنے موسیٰ علیہ السلام نے معجزہ پیش کیا تھا۔ جس طرح انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی غیر معمولی عظمت کا اعتراف سجدے کی صورت میں کیا تھا، اسی طرح عربوں کو بھی اس غیرمعمولی پیغام اور کلام کے سامنے سرنگوں ہونا چاہیے تھا۔ یہاں یہ بات اگر سامنے رہے کہ لبید کے ایک شعر کی عظمت کے اعتراف میں اس کے سامنے سجدہ کرنے کا واقعہ مکہ ہی میں پیش آچکا ہے تو اس آیت کی بلاغت مزید واضح ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہاں آیات سجدہ سے متعلق حضور کے عمل کواس آیت سے متعلق کرنا متن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سجود تلاوت، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے، عبودیت کا مظہر ہیں، جبکہ قرآن کا یہ تقاضا خود قرآن کے حوالے سے ہے۔ ہمارے نزدیک ان فقہا کی راے قرین صواب ہے جو سجود تلاوت فرض نہیں سمجھتے، لیکن یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا اسوہ ہے جس کی پیروی ہونی ہی چاہیے۔

متون

’’المعجم الکبیر‘‘ کے علاوہ اس روایت کے متون ایک ہی طریقے کے ہیں۔ ان متون میں چند فرق ہیں۔ مثلاً مسلم میں ’إذا قرأ بن آدم السجدۃ‘ کے بعد ’فسجد‘ ہے۔ بعض روایات، مثلاً ’’مسند احمد‘‘ میں نہیں ہے۔ اسی طرح شیطان کے سجدے سے انکار کو بیان کرنے کے لیے کسی نے ’فأبیت‘، کسی نے ’فعصیت‘ اور کسی نے ’فلم أسجد‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ البتہ ’’المعجم الکبیر‘‘ کی روایت میں سجدۂ تلاوت کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے مطابق شیطان یہ تبصرہ ابن آدم کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ کر کرتا ہے۔ روایت میں جس طرح امر سجدہ کا ذکر ہے، اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ متن معنی کے لحاظ سے زیادہ مربوط ہے۔

کتابیات

احمد، رقم۹۷۱۱؛ مسلم، رقم۸۱؛ ابن ماجہ، رقم ۱۰۵۲؛ ابن خزیمہ، رقم۵۴۹؛ ابن حبان، رقم۲۷۵۹؛ المعجم الکبیر، رقم ۹۴۶۳؛ سنن بیہقی، رقم۳۵۱۶۔

 __________________

B