HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

ابو عبیدہ بن جراح رضی ﷲ عنہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حضرت ابوعبیدہ کا اصل نام عامراوران کے والدکا نام عبداﷲ تھا۔جابربن عبدالعزیٰ کی پوتی امیمہ بنت غنم ان کی والدہ تھیں۔جراح بن ہلال دادا اور فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ان کے جد امجد تھے جن کے نام پر ان کا قبیلہ بنو فہر کہلایا،یہ قریش ہی کی ایک شاخ تھی ۔وہ اپنی کنیت ابو عبید ہ اور داداجراح کی نسبت سے زیادہ مشہور ہوئے۔ مصعب زبیری کے اس اصرارکو کہ جراح ان کے دادا نہیں بلکہ والد تھے عام مؤرخین نے نہیں مانا۔ آمد اسلام کے بعدان کے والد عبداﷲ نے دشمنان اسلام کا بھرپورساتھ دیا اور جنگ بدر میں اہل ایمان کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے ہی بیٹے ابوعبیدہ کے ہاتھوں قتل ہوئے جب کہ والدہ امیمہ نے اسلام قبول کر لیا اور صحابیات میں شامل ہوئیں۔واقدی کا کہنا ہے ،ان کے والد آمد اسلام سے قبل ہی وفات پا چکے تھے۔

حضرت ابوعبیدہ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے ہم سن تھے۔ قبول اسلام کے وقت ان کی عمر ۲۸ برس تھی۔سیدنا ابو بکر اسلام کی طرف سبقت کرنے والے پہلے مرد تھے۔اپنے ایمان لانے کے دوسرے ہی روز انھوں نے ابو عبیدہ کو دین ہدایت قبول کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے فوراً لبیک کہا۔ عثمان بن مظعون اور عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ بھی اسی وقت نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر ہی اپنے ہاتھ پراسلام قبول کرنے والے افراد،ابوعبیدہ ،عبدالرحمان بن عوف،عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے کرگئے ۔اس بارے میں واقدی کا بیان مختلف ہے ،وہ کہتے ہیں، عثمان بن مظعون،عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب ،عبدالرحمان بن عوف،ابوسلمہ بن عبدالاسداور ابوعبیدہ بن جراح خودمل کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔آپ نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اوراحکام شرعیہ سے آگاہ فرمایاتو یہ سب بیک وقت مسلمان ہوئے۔(تہذیب الکمال) ابو عبیدہ کا شمار السابقون الاولون(سورۂ توبہ: ۱۰۰) میں ہوتا ہے۔ مکہ کے ابتدائی اسلامی دور میں انھیں بھی مشرکوں کی ایذائیں سہنا پڑیں۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حبشہ کو ہجرت کرنے والے مہاجرین کے دوسرے گروپ میں شامل ہوئے پھر ہجرت مدینہ سے قبل مکہ لوٹ آئے (ابن ہشام، ابن سعد)۔ابن عقبہ اور چنددوسرے اہل تاریخ کا کہنا ہے ، ابوعبیدہ حبشہ نہ گئے بلکہ مکہ ہی میں رہ کر کفار کی اذیتیں برداشت کیں۔ ہجرت مدینہ کا موقع آیا تو ابوعبیدہ بن جراح باقی اہل ایمان کے ساتھ مدینہ پہنچے اور کلثوم بن ہِدم کے ہاں قیام کیا ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصارکو باہم بھائی بھائی قرار دیا تو ابو طلحہ انصاری ابوعبیدہ کے انصاری بھائی قرارپائے۔ دوسری روایتوں کے مطابق آپ نے ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ،بنو اشھل کے سعد بن معاذ(ابن اسحاق) یا محمد بن مسلمہ (تاریخ دمشق) سے ان کی مواخات قائم فرمائی۔

ابوعبیدہ ان ۱۰ جلیل القدر صحابہ میں سے ایک تھے جنہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی ۔انس بن مالک کی روایت ہے،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے ۔ ہماری اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔‘‘ ۔ایک بار نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی،ابو القاسم !اپنے صحابہ میں سے کسی امانت دار شخص کو ہمارے ساتھ بھیج دیں(تاکہ وہ کچھ مالی جھگڑے نمٹا نے میں ہماری مدد کرے)۔آپ نے فرمایا،( شام کے وقت آئیں)’’میں آپ کی طرف ایک امانت دار شخص کو بھیجوں گا جو سچا اور پکا امین ہے ۔‘‘( حضرت عمر بیان کرتے ہیں ،میں مقررہ وقت سے پہلے مسجد میں پہنچ گیا ۔مجھے کبھی کوئی منصب پانے کی اتنی تمنا نہ ہوئی تھی جتنی اس دن تھی کیونکہ میں آپ کی بیان کردہ صفات کا حامل بننا چاہتا تھا۔ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دا ئیں بائیں دیکھنے لگے۔میں آپ کے آگے آگے ہونے کی کوشش کررہا تھالیکن) آپ نے ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ کوبھیج دیا(اور فرمایا، ان کے ساتھ جاؤاور ان کے باہمی اختلافات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔میں نے سوچا یہ فضیلت تو ابو عبیدہ لے گئے)۔ اسی طرح اہل یمن نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آکر درخواست کی ،ہمارے ساتھ ایسا آدمی بھیجیں ہو ہمیں سنت و اسلام سکھائے۔تب بھی آپ نے ابو عبیدہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، ’’یہ اس امت کے امین ہیں۔‘‘

حضرت ابو عبیدہ بن جراح بڑے دلیر اور قوی تھے۔ تمام غزوات میں وہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ جنگ بدر میں انھوں نے بڑی جواں مردی دکھائی،تب ان کی عمر ۴۱ برس تھی۔کفار قریش ان سے خوف زدہ تھے اور جنگ میں ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ۔ حضرت ابوعبیدہ بھی ایک شخص پر وار کرنے سے پرہیز کرتے رہے لیکن وہ بار بار ان کے سامنے آجاتا۔یہ ان کا باپ عبداﷲ بن جراح تھا۔جب اس نے جنگ میں ابوعبیدہ کی حرکت مسدود کر دی توانھوں نے تلوار چلا کر اس کاسر قلم کر دیا۔

جنگ احد کی ابتدامیں اہل ایمان کو ہزیمت اٹھانا پڑی اور ان میں سے بیشتر تتر بتر ہو گئے۔ مشرکین آپ پر حملہ کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ان میں سے ایک چلا رہا تھا ،مجھے محمدﷺکے بارے میں بتاؤ، مجھے محمد ﷺکی پہچان کراؤ۔ ابوعبیدہ ان ۱۰(یا ۱۴)فداکار صحابہ میں شامل تھے جنھوں نے آپ کا دفاع کیا۔ ان جاں نثاروں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا اور آپ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے سینوں پر روکنے کے لیے تیار ہو گئے۔اس جنگ میں آپ کا ایک دانت شہید ہوااور جبین مبارکہ پر زخم آیا۔کفار نے آپ کے چہرے پر تیر اندازی کی جس سے زرہ کے دو حلقے رخسارمبارک میں دھنس گئے۔حضرت ابوبکر بیان کرتے ہیں،یہ دیکھ کر میں آپ کی طرف لپکا ہی تھا کہ ایک شخص مشرق کی جانب سے اڑتا ہوا آیا۔یہ ابوعبیدہ بن جراح تھے جو مجھ سے پہلے آپ تک پہنچ گئے۔انھوں نے کہا،ابوبکر!میںآپ کو اﷲ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رخسار مبارک سے یہ کڑے مجھے نکالنے دیں۔پھر اس ڈر سے کہ اس کوشش میں آپ مزیدزخم نہ آ جائے انھوں نے اپنے دانت ان میں سے ایک کڑے پر جما ئے اوراسے زور سے کھینچ باہر کیا۔اس تگ و دو میں وہ پیٹھ کے بل جاپڑے اور ان کا اپنا دانت ٹوٹ گیا۔اب انھوں نے دوسرے کڑے کو لیا اور اسے بھی زور لگا کر کھینچ لیا۔ اس بار ان کا دوسرا دانت بھی جاتا رہا۔ سید نا ابوبکر ان کا ایثار دیکھ کر دنگ رہ گئے اور کہا،ابوعبیدہ بوڑوں(ٹوٹے ہوئے دانت والوں) میں سے بہترین ہیں۔

ربیع الثانی۶ھ میں آپ نے محمد بن مسلمہ کو ۱۰۰ افراد دے کر مدینہ سے ۲۴ میل دور بنوثعلبہ اور بنو عوال کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ ان قبائل کے تیراندازوں نے پورا دستہ شہید کر ڈالا،صرف محمد بن مسلمہ بچ پائے ۔وہ زخموں سے چور چورپڑے تھے کہ ایک راہ گزرتے مسلمان نے اٹھا کر مدینہ پہنچایا۔نبئ اکرم نے حملہ آوروں کی خبر لینے کے لیے فوراً ابوعبیدہ کوبھیجا لیکن وہ منتشر ہو چکے تھے۔ پھر آپ نے ابوعبیدہ کو ۴۰ اشخاص کے ہم راہ ذو القصہ بھیجاجہاں بنومحارب، بنوثعلبہ اوربنو انمارمدینہ پر غارت گری کے ارادہ سے جمع تھے۔ ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہنے علی الصباح ان پر چھاپا مارا تو یہ پہاڑوں میں منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔محض ایک شخص ان کے ہاتھ آیا،اس نے اسلام قبول کر لیا اور چھوٹ گیا۔

۶ ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی،ابوعبیدہ معاہدۂ صلح کی دستاویز پر بطور گواہ دستخط کرنے والے۷ کبار صحابہ میں سے ایک تھے۔

جمادی الثانیہ ۸ھ سمیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص کو۳۰۰ افراد کا دستہ دے کر شام کے پہاڑی علاقوں بلی و عذرہ کی طرف بھیجا۔وہاں بنو قضاعہ کے لوگ مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے جمع تھے۔عمرو کی سپاہ چھپتے چھپاتے پہنچی تو دیکھا کہ ایک بڑا لشکر جمع ہے چنانچہ انھوں نے کمک طلب کر لی ۔ آپ نے مدینہ میں رضاکار (volunteers)مانگے تو ۲۰۰ صحابہ جانے پر تیار ہو گئے، حضرت ابوبکر و عمر نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔آپ نے ابوعبیدہ کو امیر جیش مقرر کیا اور انھیں نصیحت فرمائی، عمر اور تم آپس میں مت جھگڑنا۔وہاں پہنچ کر ابوعبیدہ نے مشترکہ لشکر کی کمان لینا چاہی تو عمرو نہ مانے حالانکہ مغیرہ بن شعبہ نے ان سے کہا ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ کو ہمارا امیر مقرر کیا ہے۔ابوعبیدہ نے فرمان نبوی پر عمل کرتے ہوئے کہا، اگر تو میری بات نہیں مانتا تو میں تیری اطاعت کر لیتا ہوں اس طرح انھوں نے عمرو کی متابعت (subordination)قبول کر لی۔ دشمن کی فوج مشکل سے گھنٹا بھر لڑی اور منتشر ہو گئی۔اس جنگ کا نام سرےۂ ذات سلاسل ہے کیونکہ اس جگہ پر سلسل نامی کنواں تھا ۔دوسری وجۂ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ غنیم نے اپنے سپاہیوں کو فرار سے روکنے کے لیے زنجیروں (سلسلوں)سے باندھ رکھا تھا۔

رجب ۸ ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کوساحل سمندر پر آباد قبیلۂ جہینہ کی مہم پر روانہ کیا۔۳۰۰ مہاجرین و انصار کا سریہ (دستۂ سپاہ) جس میں سیدناعمر بن خطاب بھی تھے،ان کے ہم راہ تھا۔ لشکر کازاد راہ راستے ہی میں ختم ہو گیا تو حضرت ابو عبیدہ نے تمام سپاہیوں کابچا کھچا توشہ اکٹھا کیا۔مشکل سے کھجوروں کی دو تھیلیاں جمع ہوئیں۔ وہ ہر شخص کو ایک ایک کھجور دیتے رہے جسے چوس کر وہ پانی پی لیتا ۔کھجوریں بھی ختم ہوئیں تو اہل سپاہ درختوں کے پتے توڑ توڑ کر پھانکتے اور پانی نوش کرتے۔ اس طرح اس دستے کا نام ہی جیش الخَبَط (پتے جھاڑنے والی فوج)پڑ گیا۔آخر کار انھیں ساحل سمندر پر ایک ٹیلے جتنا بڑا مچھلی نما جانورعنبر ملا۔ابوعبیدہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا،یہ مردار ہے ،اسے نہ کھاؤپھر خود ہی کہا،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فوج اﷲ کی راہ میں کھانے سے ناچار ہو گئی ہے ۔ اس فوج نے اگلے ۱۸ دن عنبر ہی سے اپنا پیٹ بھرا، انھوں نے اس کاتیل نکالااور گوشت سکھا کر کھایا۔ بارگاہ رسالت میں واپس پہنچے تو سوال ہوا، اتنی دیر کیوں لگی؟ بتایا، ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ جب عنبر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا،یہ رزق تھا جو تمہیں اﷲ کی طرف سے عطا ہوا، کیا اس میں سے کچھ بچا ہے؟اس جنگ کو سریۂ سیف البحر (ساحل سمندر والی جنگ )یاسرےۂ ابوعبیدہ کہا جاتا ہے۔

رمضان ۸ ھ میں ابوعبیدہ بن جراح غزوۂ فتح مکہ میں شریک ہوئے ،تب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں پیادہ دستے کی کمان سپرد فرمائی جو شہر میں داخلہ کے وقت آپ کے آگے آگے چل رہا تھا۔۸ھ میںآپ نے ان کو تبلیغ اسلام کے لیے نصاریٰ کے ایک وفد کے ساتھ نجران بھیجا۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ نے انھیں امینِ امت کے لقب سے نوازا۔ ۹ھ ہی میں وہ جزیہ کی وصولی کے لیے بحرین گئے جہاں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے علا بن حضرمی کو عامل مقررکر رکھا تھا۔سیدنا ابوعبیدہ فجر کی نماز کے وقت واپس پہنچے تو انصار جمع ہو گئے۔آپ مسکرائے اور فرمایا،’’تم نے سن لیا ہے ، ابوعبیدہ کچھ لے کر آیا ہے۔اﷲ کی قسم! مجھے تمہاری محتاجی کا کوئی اندیشہ نہیں۔میں تو ڈرتا ہوں کہ تم پر پہلی امتوں کی طرح دنیا کشادہ کر دی جائے گی پھر تم اس کے پیچھے بھاگ کر ویسے ہی ہلاک ہو جاؤ گے جیسے پہلی قومیں ہوئی تھیں۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اہل ایمان خلیفۂ اول کا انتخاب کرنے کے لیے سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔اس موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح بھی موجود تھے۔تب انصار و مہاجرین میں نزاع پیدا ہوا۔ انصار مدینہ نے اپنی قربانیوں کا حوالہ دے کر خلافت پر اپنا حق جتایاجب کہ مہاجرین نے اپنی سبقت و ہجرت کو استحقاق کے طور پر پیش کیا۔ حضرات ابوبکر و عمر انصار کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے،ایک موقع پر شور وشغب بڑھ گیا تو ابوعبیدہ نے اٹھ کر کہا،اے گروہ انصار!تم نے سب سے پہلے دست اعانت بڑھایا تھا،اب افتراق و اختلاف میں پہل نہ کرو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں قریش کا حق حکم رانی ثابت ہو گیا تو حضرت ابوبکر نے اہل ایمان سے درخواست کی کہ عمر بن خطاب یا ابوعبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کے ہاتھ پربیعت کر لیں۔ ادھرسیدنا عمر نے ابوعبیدہ سے کہا ،اپنا ہاتھ بڑھاؤ ،میں تمہاری بیعت کر لیتا ہوں۔میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد سن رکھا ہے، ’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ ہے ۔‘‘ابو عبیدہ نے جواب دیا،میں اس شخص سے کس طرح آگے بڑھ سکتا ہوں جسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خودنماز کی امامت کے لیے مامور فرمایا اور آپ کی وفات تک اس کے علاوہ کسی نے نماز نہ پڑھائی ہو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسد مبارک کی تدفین کا مرحلہ آیا تو دو آدمیوں کے نام سامنے آئے ۔سیدنا ابوعبیدہ جو اہل مکہ کی طرز پر سیدھی قبر کھودتے تھے اور زید بن سہل جومدینہ میں مروجہ لحدبنانے میں مہارت رکھتے تھے۔آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے دونوں کو بلایا اور کہا، جو پہلے مل گیا اسی سے تربت مبارک کھدوا لی جائے گی۔اتفاق سے ابوطلحہ (زید ) پہلے آ گئے اور انھوں نے یہ فریضہ انجام دیا۔

حضرت ابوعبیدہ خلیفۂ اول کے بہترین خیرخواہ اور معاون ثابت ہوئے۔اپنی خلافت کے اگلے روز سیدناابوبکر کندھے پر کپڑے کے تھان رکھ کر بیچنے نکلے۔راستے میں سیدناعمر ملے اور کہا ، آپ کے کندھوں پر مسلمانوں کی سرداری کا بار آن پڑا ہے۔یہ کام اس کے ساتھ نہیں نبھ سکتا۔چلیے،ناظم بیت المال ابوعبیدہ سے مل کر بات کرتے ہیں۔ابوعبیدہ نے کہا،ہم آپ کے لیے ایک عام مہاجر کی آمدنی کے بقدر وظیفہ معین کر دیتے ہیں ۔اس طرح سیدناابوبکر کے لیے ۴ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔ ۳ھ کے آغاز میں حضرت ابوبکر نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو ۷ ہزار کا لشکر دے کر شام کے جہاد پر روانہ کیا اور حمص فتح کرنے کا حکم دیا۔ خلیفۂ اول کچھ دور پیدل ان کے ساتھ گئے ۔ابوعبیدہ یرموک سے گزرے ،انھوں نے ایک پرانے شہربُصری کا محاصرہ کیا۔جزیہ وصول کرنے کی شرط پر صلح کی اور دمشق کی طرف بڑھے۔وہاں قیصر روم سے مقابلہ درپیش تھا۔ پہلے اجنادین کی جنگ ہوئی جس میں ابو عبیدہ اور خالد بن ولید دونوں شریک ہوئے۔ رومیوں کو اس میں شکست فاش ہوئی ۔۱۳ھ میں اسلامی افواج نے دمشق کا محاصرہ کیا ،اسی محاصرے کے دوران میں ۲۲ جمادی الثانی کو حضرت ابو بکر کی وفات ہو گئی۔ ابتدائے عہد فاروقی (۱۴ھ)میں جب کہ محاصرہ جاری تھا ، خالد بن ولید کمند کے ذریعے فصیل پھلانگ کر شہر میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ کھول دیا۔ ابو عبیدہ بن جراح نے جو تیارفوج لے کرباہر کھڑے تھے اچانک شہر پر دھاوا بول دیا ۔ رومیوں نے شکست ہوتے دیکھی تو باقی دروازے بھی کھول دیے اور اطاعت تسلیم کر لی۔

رجب ۱۳ھ میں زمام خلافت سنبھالتے ہی سیدنا عمر بن خطاب نے حضرت خالد بن ولید کو کمانڈر ان چیف کے عہدے سے معزول کر دیا۔حضرت ابوعبیدہ شام کے سالار اعظم مقرر ہوئے۔انہی کی سربراہی میں یرموک فتح ہوا اور بے شمار فتوحات ہوئیں،ان کی اعلیٰ کارکردگی سے ثابت ہو گیا کہ وہ بحیثیت جرنیل خالد سے کسی طرح کم نہیں۔ابوعبیدہ نے یزید بن ابو سفیان کو فلسطین،شرحبیل بن حسنہ کو اردن،خالد بن ولید کو دمشق اورحبیب بن مسلمہ کو حمص کے کمانڈرمقرر کر رکھا تھا،اسی لیے انہیں امیر الامرا(کمانڈر ان چیف) بھی کہا جاتا ہے۔ابوعبیدہ نے فحل میں جمع ہونے والی رومی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔مرج الروم فتح کرنے کے بعد حمص کا رخ کیا۔سخت سردی کے باوجودابوعبیدہ نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔رومی ایک گرم ملک سے آئے ہوئے حملہ آوروں کو جاڑے کی مار دینا چاہتے تھے اس لیے قلعہ بندہو گئے ۔ ان کی توقع کے برعکس اسلامی فوج پوراموسم سرما ٹھنڈ میں پڑی محاصرے پر ڈٹی رہی تو وہ مایوس ہو گئے ۔اس لیے بہار کا موسم شروع ہوتے ہی جزیہ ادا کرنے کی شرط قبول کر کے صلح کر لی۔ یہاں سے فارغ ہوکر ابوعبیدہ لاذقیہ گئے اور ایک مختصرجنگ کے بعد اسے فتح کیا۔ انھوں نے ایرانی پائے سلطنت پرحملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن حضرت عمر نے اجازت نہ دی۔ابوعبیدہ حمص واپس آ گئے اور یرموک کا معرکہ پیش آنے تک وہیں رہے۔ادھر رومی شکست پر شکست کھاکر انطاکیہ آئے اور شاہ روم ہرقل سے فریاد کی،مسلسل پیش قدمی کرنے والے عربوں کو روکا جائے ۔ شاہ نے جملہ اطراف سلطنت سے فوجیں طلب کر لیں تو ابوعبیدہ باہمی مشورے سے دمشق روانہ ہوئے۔ حمص خالی کرتے ہوئے انھوں نے وصول کردہ جزیے کی تمام رقم شہریوں کو واپس کردی کیونکہ طے شدہ شرائط کے علی الرغم وہ مقبوضہ شہر کوبے حفاظت چھوڑ کر جا رہے تھے۔ جب اسلامی دریائے یرموک پر صف آرا ہو گئیں اور جنگ شروع ہو گئی تب مدینہ سے کمک پہنچی۔ ہرقل کو شکست کا سامناکرنا پڑا ،وہ شام کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر قسطنطینیہ روانہ ہو گیا۔ابوعبیدہ نے حذیفہ بن یمان کے ہاتھ نامۂ فتح مدینہ ارسال کیا۔ یرموک کے بعد قنسرین،حلب اور انطاکیہ فتح ہوئے اور ابوعبیدہ بن جراح بیت المقدس پہنچ گئے جہاں عمرو بن عاص محاصرہ کیے ہوئے تھے۔بیت المقدس کے پادری نے اصرار کیا ،خلیفۂ مسلمین خود آئیں تو کنجیاں ان کمے حوالے کی جا ئیں گی توعمر مدینہ سے روانہ ہوئے ۔یہ ان کا شام و فلسطین کی طرف یہ پہلا سفر تھا۔جابیہ میں یزید بن ابو سفیان، ابوعبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید نے ان کا استقبال کیا۔تینوں جرنیل ریشمی قبائیں پہنے ہوئے تھے،عمر ان کو دیکھتے ہی بھڑک اٹھے اور پتھر لے کر مارنے کودوڑے۔انھوں نے لجاجت سے کہا ،یہ جنگی لباس ہے تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔۱۷ ھ میں عیسائیوں نے حمص پر دوبارہ حملہ کیا لیکن منہ کی کھائی۔یہ آخری معرکہ تھا جو ابوعبیدہ کو پیش آیا۔جابیہ اورسرغ کے شہربھی انھی کے ہاتھوں فتح ہوئے۔

۱۸ھ میں ملت اسلامیہ میں قحط پھیلا تو حضرت عمر نے تمام گورنروں کو غلہ اکٹھا کر کے مدینہ بھیجنے کا حکم دیا۔ابوعبیدہ نے سب سے پہلے ان کی آواز پر لبیک کہااور غلے سے لدے ہوئے ۴ہزار اونٹ لے کر خود مدینہ پہنچے ۔سیدناعمر نے اس غلے کو مدینہ کے نواحی قبائل میں تقسیم کرایا اور ابوعبیدہ کو۴ ہزار درہم ادا کرنے کا حکم دیا۔وہ یہ رقم لینا نہیں چاہتے تھے لیکن امیر المومنین کے اصرارپر لینا پڑے ۔۱۸ھ ہی میں(ابن کثیر)،(طبری: ۱۷ھ) میں حضرت عمر تیسری بار شام پہنچے تو مہاجرین و انصار کا ایک دستہ ان کے ہم راہ تھا۔ سرغ پہنچے تو ابوعبیدہ اور دوسرے کمانڈروں یزید بن ابوسفیان اور شرحبیل بن حسنہ نے ان کا استقبال کیااور شام میں طاعون پھیلنے کی خبر دی۔یہ وہ وقت تھاکہ پورا خطہ خلافت اسلامیہ کے زیرنگیں آ چکا تھا۔ عمر نے اپنے رفقا سے مشورہ کیا ،اکثریت نے رائے دی کہ مدینہ واپس چلے جائیں لیکن ابوعبیدہ نے کہا، کیاآپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں ؟حضرت عمر نے کہا،ابوعبیدہ، کاش تمہارے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔تم بتاؤ!اگر تمہارے پاس کچھ اونٹ ہوں اور تم کسی ایسی وادی میں جا اترو جس کے دو کنارے ہوں ، ایک سرسبز وشاداب اور دوسرابے آب و گیاہ ۔کیا سرسبز حصے میں جانور چراناقضائے الٰہی کے موافق نہ ہوگا؟عبدالرحمان بن عوف نے کہا،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کو فرماتے سنا ہے ، ’’جب ایک شہر میں کوئی وباپھیل جائے اور تم وہاں موجود نہ ہو تو وہاں نہ جاؤ۔ اور اگر وبا اس جگہ پھوٹے جہاں تم ہو تووہاں سے نہ بھاگو۔ ابوعبیدہ اس کے باوجود اپنی رائے پر قائم رہے تو سیدناعمر مدینہ چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے ان کو خط لکھا،مجھے تم سے انتہائی ضروری کام آن پڑا ہے۔اگر یہ خط رات کو ملے تو صبح ہونے سے پہلے ہی چل پڑنااور اگردن چڑھے موصول ہو تو میری طرف سے تاکید ہے کہ روانہ ہونے کے لیے شام کا انتظار نہ کرنا۔ابوعبیدہ نے خط پڑھتے ہی کہہ دیا،امیرالمومنین اس شخص کو بچانا چاہتے ہیں جو اب بچنے والا نہیں۔ انھوں نے جواب تحریر کیا، مجھے آپ کے کام کا پتا چل گیا ہے۔ اسلامی فوج کا ایک حصہ میری کمان میں ہے ، میں اپنے سپاہیوں پر آنے والی آفت سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔ میں ان سے جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ میرے اور ان کے بارے میں اﷲ کا فیصلہ آ جائے لہٰذامجھے اپنے حکم کی تعمیل سے بری الذمہ کر دیں۔یہ ان کی پہلی اور آخری نافرمانی تھی حالانکہ وہ ہر طرح کے حالات میں امیر المومنین کی اطاعت کر چکے تھے۔سیدناعمر کو جواب ملا تو رونے لگ گئے ،آنسو ان کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ان کا گریہ دیکھ کر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے پوچھا، کیا ابوعبیدہ رحلت کر گئے ہیں؟ سیدناعمر نے کہا، نہیں لیکن موت ان کے قریب آچکی ہے۔ اب انھوں نے ایک اور خط بھیجا،تم نے لوگوں کونشیبی اور مرطوب (damp)سرزمین میں ڈال رکھا ہے۔انہیں اونچائی والے علاقے کی طرف لے جاؤ جہاں آب وہوا خوش گوار ہو۔ابوعبیدہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے کہا،لشکر لے کریہاں سے کوچ کر جاؤ۔تب تک سیدناابوموسیٰ کی اہلیہ طاعون کا شکار ہو چکی تھیں۔ انھوں نے قصد سفر کیا تھاکہ ابوعبیدہ بھی اس موذی مرض کا نشانہ بن گئے۔ابن اثیر کہتے ہیں ، ابوموسیٰ اس سال شام میں نہیں بلکہ بصرہ میں تھے۔ابوعبیدہ کی تکلیف شدید ہوئی تو کھڑے ہو کر خطبہ دیا،لوگو! یہ درد تمہارے رب کی رحمت ،تمہارے نبیﷺ کی دعا اور تم سے پہلے گزرنے والے نیک لوگوں کی موت ہے۔دم آخریں اپنے فوجیوں کو وصیت کی ، نماز پڑھو،رمضان کے روزے رکھو،صدقہ و خیرات کرو ،حج وعمرہ ادا کرواور اپنے حکم رانوں سے خیرخواہی کرو۔تمہیں دنیا ہلاکت میں ڈالنے نہ پائے ۔پھر حضرت معاذ بن جبل کواپنا قائم مقام مقرر کیا اور انھیں نماز کی امامت کرنے کو کہا۔سیدنامعاذ ہی نے تجہیز و تکفین کی۔ان کی جائے تدفین معین طور پر معلوم نہیں۔ اہل تاریخ کے اختلاف کے مطابق ان کی آخری آرام گاہ اردن کے نواحی قصبہ فحل میں، فلسطین کے قریہ بیسان میں یا رملہ سے بیت المقدس کی طرف ساڑھے تیرہ میل کی دوری پر واقع عمواس میں ہے۔ یہ وہی قصبہ ہے جہاں طاعون کی وبا پھوٹی تھی۔حضرت ابوعبیدہ کی وفات کے بعد ان کا لشکر جابیہ پہنچا تو وبا کا زور ٹوٹا اور باقی مسلمانوں کی جانیں بچ پائیں ۔۳۶ ہزار سپاہیوں میں سے صرف ۶ ہزارزندہ رہے۔ عام روایتوں میں طاعون سے مرنے والوں کی تعداد ۲۵ ہزار بتائی جاتی ہے۔

ابو عبیدہ آخری وقت تک اپنی رائے پر قائم رہے۔وفات سے کچھ دیر پہلے کہا،اﷲ عمر بن خطاب کو معاف فرمائے کہ سرغ سے واپس چلے گئے۔میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،’’طاعون سے مرنے والا شہید ہے،پیٹ کی تکلیف سے مرنے والا شہید ہے ، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے،جل کر مرنے والا شہید ہے،دیوار تلے دب کرمرنے والا شہید ہے،جو عورت حالت حمل میں مر جائے شہید ہے،ذات الجنب (pleurisy)سے مرنے والی عورت شہید ہے۔‘‘(کنز العمال:) ابوعبیدہ بن جراح کی عمر ۵۸ برس ہوئی۔سن وفات ۱۸ھ ۶۳۹ ھ ہے۔ ان کی وفات کے بعد معاذ بن جبل نے ان کی جگہ سنبھالی،وہ بھی طاعون کا شکار ہوئے تو یزید بن ابوسفیان جانشین بنے۔یزید بھی طاعون کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنے تو ان کے بھائی معاویہ امیر شام بن گئے۔حضرت عمر نے ان کی تقرری کی تصدیق کر دی تو ان کی طویل گورنری کا آغاز ہوا۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح انتظامی وفوجی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ اپنے زیراثر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت سے ہر گز غافل نہ رہے۔ ان کی ترغیب سے بعض مفتوحہ شہروں میں درس و تدریس کے حلقے قائم ہوئے۔ یہاں صحابۂ کرام قرآن پاک کی تعلیم دیتے اورفقہی مسائل حل کرتے تھے۔سیدنا ابوعبیدہ کی نمایاں خصوصیات تقویٰ،سادگی و انکسار ،زہد و تواضع ،شجاعت و ہمت ،ایثار و رحم دلی او ر خوش خلقی و زندہ دلی ہیں۔وہ اطاعت الٰہی،حب رسول اور اتباع سنت میں پیش پیش تھے۔انھوں نے اپنے زمانۂ امارت میں اسلامی مساوات ،اخوت و رواداری ،رعایاپروری اور خیر کوشی کا خاص خیال رکھا۔

ابوعبیدہ بن جراح اپنی فوج میں راؤنڈ (round)کرتے اور کہتے ،سن رکھو! اجلے کپڑے پہننے والے بہت سے لوگ دین کے میلے ہوتے ہیں۔سن لو! عزت نفس کا خیال کرنے والے بے شمار لوگ کل کو رسوا ہوں گے۔پرانے گناہوں کو نئی نیکیاں کر کے ختم کر ڈالو۔ایک بارحضرت عمر فاروق شام پہنچے تو مقامی کمانڈروں نے ان کا استقبال کیا۔انھوں نے پوچھا میرا بھائی ابو عبیدہ کہاں ہے؟ابوعبیدہ آئے تو عمر ان کی جائے قیام پر پہنچے ۔انھوں نے دیکھا کہ وہاں تلوار، ڈھال اور کجاوے کے علاوہ کچھ نہیں، پوچھا ،تم نے کوئی اور سامان نہیں رکھا؟ابوعبیدہ نے کہا،امیر المومنین ! اس قدر سامان ہی ہمیں راحت پہنچانے کے لیے کافی ہے ۔ حضرت عمر نے کہا،دنیا( کے مال و دولت )نے سب کو بدل ڈالا ہے مگر ابوعبیدہ !تو نہیں بدلا۔

حضرت ابوعبیدہ لمبے ،دبلے ، چھریرے اور روشن رو تھے۔ان کی ڈاڑھی لمبی اور ہلکی تھی،کندھے کچھ جھکے ہوئے تھے۔سر اور ڈاڑھی کے بالوں پر مہندی یا وسمہ لگاتے۔بالوں کی دو گتیں (چوٹیاں ) بنا کر رکھتے۔ عام زندگی میں نرم خو ،منکسر المزاج اور شرمیلے تھے لیکن جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتاتو گرجتے ہوئے شیر بن جاتے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی زوجہ ہند بنت جابر سے ان کے دو بیٹے یزید او ر عمیر پیدا ہوئے۔آگے ان کے بیٹے بے اولاد رہے اس لیے ان کی نسل منقطع ہو گئی۔

سیدہ عائشہ سے سوال کیا گیا،اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خود خلیفہ مقرر فرماتے تو کون ہوتا؟انھوں نے کہا،سیدناابو بکر ۔پوچھا گیا،ابو بکر رضی اﷲ عنہکے بعد کون ہوسکتا تھا؟ فرمایا،عمر ۔پھر سوال ہوا،عمر کے بعد کس کی باری آتی ؟ تو حضرت عائشہ نے جواب دیا،ابوعبیدہ بن جراح۔حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ابوبکر اچھے آدمی ہیں،عمر عمدہ آدمی ہیں،ابوعبیدہ بن جراح اچھے آدمی ہیں،اسید بن حضیر عمدہ شخص ہیں،ثابت بن قیس اچھے آدمی ہیں،معاذ بن جبل اچھے انسان ہیں،معاذ بن عمرو بن جموح اچھے آدمی ہیں۔‘‘ایک بار حضرت عمر بن خطاب نے (جوکسی حویلی میں بیٹھے ہوئے گفتگو کر رہے تھے،باتوں باتوں میں ) اہل مجلس سے کہا ،اپنی اپنی آرزوئیں بیان کرو۔ ایک شخص نے کہا،میری تمنا ہے ، یہ گھر درہموں سے بھرا ہو اور میں ان سب کواﷲ کی راہ میں خرچ کردوں۔ دوسرے نے کہا، میرا دل چاہتا ہے ،یہ مکان سونے سے معمور ہو اورمیں سارا سونا اﷲ کی راہ میں لٹا دوں۔ان کے اصرار پر تیسرے مسلمان نے اپنی یہ آرزو بتائی، یہ حویلی جواہرات سے لب ریز ہو اور میں انھیں راہ خدا میں انفاق کر دوں۔ سیدنا عمر نے تب بھی کہا، اپنی تمنائیں بتاؤتوحاضرین نے کہا،یہ خواہشات رکھنے کے بعد ہم کیا تمناکریں گے؟ اب انھوں نے خود اپنی دلی خواہش کا اظہار اس طرح کیا،میں تمنا کرتا ہوں، یہ گھر ابوعبیدہ بن جراح،معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو اور میں ان کو اطاعت الٰہی کی تکمیل کرنے کے لیے عامل مقرر کر دوں۔ سیدناعمر نے اپنی وفات سے قبل کہا،اگر ابو عبیدہ بن جراح زندہ ہوتے تو کوئی مشورہ کیے بغیر میں انھیں اپنا جانشین مقرر کردیتا ۔ اگر میرا رب مجھ سے بازپرس کرتا تو کہتا، میں نے تیرے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، ’’یہ (ابوعبیدہ ) اس امت کے امین ہیں۔‘‘خلیفۂ ثانی نے ایک بار ۴ سو دینارتھیلی میں ڈال کراپنے غلام کودیے اور کہا، ابوعبیدہ کے پاس لے جاؤ اور کچھ دیر ٹھہر کردیکھنا ،وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں؟ابوعبیدہ نے اسی وقت اپنی باندی کو بلایااور پان سات کر کے سب دینار تقسیم کرادیے۔پھرحضرت عمر نے اتنی ہی رقم معاذ بن جبل کی طرف بھیجی۔انہوں نے بھی اپنی کنیز کو بلاکر کہا ،جاؤ!اتنی اتنی رقم فلاں فلاں کو دے آؤ۔اتنی دیر میں میں ان کی اہلیہ بولیں،بخدا!ہم بھی مسکین ہیں ،کچھ ہم کو بھی دے دو۔۲ دینار بچے تھے ،انھوں نے ان کو تھما دیے ۔سیدنا عمر بہت خو ش ہوئے اورکہا ،یہ سب بھائی بند ہیں ۔سیدنا ابوبکر صدیق اور ابوعبیدہ بن جراح دونوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ قریش کے زیرک ترین آدمی ہیں۔عبداﷲ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں ،قریش کے تین اشخاص بہت خوب صورت ،بہترین اخلاق والے اور انتہائی حیادار ہیں۔ اگر تم سے بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں اور اگر تم ان سے گفت گو کر و تو تمہیں نہ جھٹلائیں۔یہ ابوبکر ،عثمان اور ابوعبیدہ ہیں۔

سیدنا ابوعبیدہ نے حدیث براہ راست نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے سن کریا حضرت عمر سے روایت کی۔حضرت عمر کے آزادکردہ غلام اسلم ،جابر بن عبداﷲ، سمرہ بن جندب،ابوامامہ باہلی،عبداﷲ بن سراقہ،عبدالرحمان بن غنم،عرباض بن ساریہ،عیاض بن غُطیف،غُضیف بن حارث،قیس بن ابی حازم،میسرہ بن مسروق، ناشرہ بن سمی اور ابو ثعلبہ خشنی نے ان سے روایت کی۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)،الطبقات الکبری(ابن سعد)،التاریخ الصغیر (امام بخاری) ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، صورمن حیاۃ الصحابہ (عبدالرحمان رافت پاشا)، محمد رسول اﷲ(محمد رضا)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: سعید انصاری)

__________________

B