بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْئٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٓٗ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ، فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌَ{۹۴} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ، وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ، عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ، وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ، وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ{۹۵} اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ، وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا، وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ{۹۶} جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ، وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَالْھَدْیَ وَالْقَلَآئِدَ۔ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ{۹۷} اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ، وَاَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۹۸} مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ{۹۹} قُلْ: لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ، یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۱۰۰}
۳۔ ایمان ۲۰۵؎ والو، اللہ کسی ایسے شکار ۲۰۶؎ کے ذریعے سے تمھیں آزمایش میں ڈالے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا تاکہ اللہ دیکھ لے کہ تم میں سے کون بن دیکھے اُس سے ڈرتا ہے (اور کون نہیں ڈرتا)۔ ۲۰۷؎ پھر جس نے اِس تنبیہ کے بعد بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، اُس کے لیے ایک درد ناک سزا ہے۔ ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، (یہ ممنوع ہے) اور (یاد رکھو کہ) تم میں سے جس نے جانتے بوجھتے اُسے مارا، اُس کا بدلہ (تمھارے مواشی میں سے) اُسی کے ہم پلہ کوئی جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ یہ نیاز کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اِسی کے برابر روزے رکھنا ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا، اُسے اللہ نے معاف کر دیا ہے، لیکن اب اگر کسی نے اُسے دہرایا تو اللہ اُس سے بدلہ لے گا۔ اللہ زبردست ہے، وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔۲۰۸؎ تمھارے لیے دریا کا شکار اور اُس کا کھانا جائز ہے، تمھارے اور تمھارے قافلوں کے زادراہ کے لیے۔ جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، خشکی کا شکار، البتہ حرام کیا گیا ہے۔ (اِس کے قریب نہ جاؤ) اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب حاضر کیے جاؤ گے۔۲۰۹؎ اللہ نے حرمت والے گھر، کعبہ کو لوگوں کے لیے مرکز بنایا ہے۲۱۰؎ اور حرمت کے مہینوں،۲۱۱؎ قربانی کے جانوروں اور اُن سب جانوروں کو شعیرہ ٹھیرا دیا ہے۲۱۲؎ جن کے گلے میں (نذر کی علامت کے طور پر) پٹے ڈال دیے گئے ہوں۔ یہ اِس لیے (شعیرہ ٹھیرائے گئے ہیں) کہ تم پر واضح رہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔۲۱۳؎ خبردار ہو جاؤ، اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔ پیغمبر پر تو صرف پہنچا دینے کی ذ مہ داری ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ چھپاتے ہو۔ کہہ دو کہ پاک اور ناپاک، دونوں یکساں نہیں ہیں، اگرچہ ناپاک کی کثرت تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ سو اللہ سے ڈرتے رہو، عقل والو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔۲۱۴؎ ۹۴-۱۰۰
۲۰۵؎ یہ تیسرے سوال کا جواب ہے۔ احرام کی حالت میں اچانک کوئی شکار نظر آجانے سے جو آزمایش، بالخصوص عرب کے لوگوں کو پیش آسکتی تھی، اُس سے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان و تقویٰ کو جانچنا چاہتا ہے، اِس لیے خبردار رہو، سبت کے دن جس طرح مچھلیاں دریا سے سر اُٹھا اُٹھا کر بنی اسرائیل کو دعوت شکار دیتی تھیں، وہی صورت تمھیں بھی پیش آسکتی ہے۔ یہ تنبیہ جس اہمیت کی حامل ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے بعض پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’اِس تنبیہ کی اہمیت اچھی طرح سمجھنے کے لیے چند باتیں ذہن میں مستحضر کر لیجیے۔ ایک تو یہ کہ شکار بجاے خود بڑی رغبت کی چیز ہے، بالخصوص اہل عرب کے لیے جن کی تفریح اور معاش، دونوں چیزوں کا انحصار بڑی حد تک اُس زمانے میں شکار ہی پر تھا۔ دوسری یہ کہ جب کسی مرغوب چیز پر کوئی پابندی عائد ہو جائے تو اُس کی رغبت اور زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔ عربی میں مثل ہے: ’الانسان حریص علٰی ما منع‘ انسان جس چیز سے روک دیا جائے، اُس کا بڑا حریص ہو جایا کرتا ہے۔ اِس حرص کا نفسیاتی اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جس طرح ساون کے اندھے کو ہر جگہ ہراہرا نظر آتا ہے، اِسی طرح اُس کو بھی ہر جگہ وہی چیز نظر آتی ہے جس سے وہ اپنے کو محروم پاتا ہے۔ تیسری یہ کہ یہ مناہی جب اصلاً امتحان کے لیے ہوئی ہے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا فرمائے کہ اِس امتحان کا مقصد پورا ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۵۹۴)
۲۰۶؎ اصل میں ’بِشَیْئٍ مِّنَ الصَّیْدِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’شَیْئ‘ کا لفظ، بالخصوص اِس کی تنکیر اشارہ کرتی ہے کہ ہر چند یہ آزمایش پیش آئے گی، مگر یہ بہت سخت نہیں، بلکہ ہلکی ہوگی۔
۲۰۷؎ اِس سے واضح ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کی حرمت کا حکم اپنی نوعیت کے لحاظ سے ابتلا کے احکام میں سے ہے، یعنی وہ احکام جو محض بندوں کی وفاداری کا امتحان کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ بندوں کے مصالح کے نقطۂ نظر سے وہ چونکہ بے حکمت نظر آتے ہیں، اِس لیے خدا کو بن دیکھے ماننے اور اُس سے بن دیکھے ڈرنے والوں کو دوسروں سے الگ کر دینے کے لیے ایک کسوٹی بن جاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یہ آزمایش اِس لیے پیش آئے گی کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ممیز کر لے جو غیب میں رہتے ہوئے اُس سے ڈرتے ہیں۔
۲۰۸؎ یہ تنبیہ نہایت سخت ہے۔ ابتلا کے احکام چونکہ بندوں کی وفاداری کا امتحان ہوتے ہیں، اِس لیے اُن کی خلاف ورزی یا اُن سے بے پروائی کی سزا بھی نہایت سخت ہوتی ہے۔ خدا کے ماننے والوں کو اِس پر ہمیشہ متنبہ رہنا چاہیے۔
۲۰۹؎ اِس پورے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ حالت احرام میں شکار کی ممانعت صرف خشکی کے جانوروں کے لیے ہے، دریائی جانوروں کا شکار کرنا یا دوسروں کا کیا ہوا خشکی کا شکار کھا لینا، دونوں جائز ہیں۔ دریائی جانوروں کے معاملے میں یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ خشکی کے سفر میں اگر زادراہ تھڑ جائے تو اُسے کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن دریائی سفر میں اِس طرح کے موقعوں پر شکار کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لوگ اِس رخصت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ خشکی کا شکار ہر حال میں ممنوع ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اِس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اُسے کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اِس کی تین صورتیں ہیں:
جس طرح کا جانور شکار کیا گیا ہے، اُسی قبیل کا کوئی جانور گھریلو چوپایوں میں سے قربانی کے لیے بیت اللہ بھیجا جائے۔
اگر یہ ممکن نہ ہو تو اُس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔
یہ بھی دشوار ہو تو اتنے روزے رکھے جائیں، جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا کسی شخص پر عائد ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ جانوروں کا بدل کیا ہے یا اگر جانور کی قربانی متعذر ہے تو اُس کی قیمت کیا ہو گی یا اُس کے بدلے میں کتنے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے گا یا کتنے روزے رکھے جائیں گے تو اِس کا فیصلہ مسلمانوں میں سے دو ثقہ آدمی کریں گے تاکہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنے نفس کی جانب داری کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
۲۱۰؎ اصل میں لفظ ’قِیٰمًا لِّلنَّاسِ‘ آیا ہے۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۲۵ میں یہی مفہوم لفظ ’مثابۃ‘ سے ادا کیا گیا ہے، یعنی ایک ایسی جگہ جو لوگوں، بالخصوص ذریت ابراہیم کے لیے اُسی طرح دینی سیادت کا مرکز ہے، جس طرح مختلف قوموں کے دارالحکومت اُن کی سیاسی قیادت کا مرکز ہوتے ہیں۔
۲۱۱؎ اصل میں ’الشَّھْرَ الْحَرَامَ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِس سے مراد یہاں کوئی مخصوص مہینا نہیں، بلکہ تمام اشہر حرم کے لیے یہ لفظ ایک اسم جنس کے طور پر آیا ہے۔
۲۱۲؎ لفظ ’شعائر‘ اِس جملے میں حذف ہے، اِس لیے کہ سیاق کلام سے یہ صاف واضح ہو جاتا ہے۔
۲۱۳؎ آیت میں جن شعائر کا ذکر ہوا ہے، وہ نذر کی تمثیل ہیں۔ انسان جب اِس تمثیل کا حصہ بن کر بیت الحرام کا سفر کرتا ہے تو قدم قدم پر جس حقیقت کی یاددہانی حاصل کرتا ہے، وہ یہی ہے کہ اللہ علیم و خبیر ہے اور وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ تمام خشیت و تقویٰ اِسی سے پیدا ہوتا ہے اور یہی ایمان و اسلام کی روح ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو فعلاً بھی بیان کیا ہے اور صفتاً بھی، اِس لیے کہ خدا کا علم ماضی، حاضر، مستقبل، ظاہر، باطن، غائب، موجود، مضمر، سب پر محیط ہے اور انسان کا خدا کے علم کے متعلق یہی عقیدہ ہے جو اُس کے اندر خشیت بالغیب پیدا کرتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲ / ۵۹۸)
۲۱۴؎ یہ تنبیہ کے بعد تنبیہ کا اسلوب جس چیز کو واضح کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جب اللہ ہر چیز کو جانتا ہے تو خبردار رہو، تمھارا کوئی عمل بھی اُس سے پوشیدہ نہ رہے گا اور وہ جس طرح بخشنے والا اور مہربان ہے، اُسی طرح سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ ہمارے پیغمبر نے یہ حقیقت تم پر واضح کر دی ہے۔ اب آگے تمھاری ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو، خدا خیر مطلق اور سراپا حق و عدل ہے۔ وہ برائی اور بھلائی کے ساتھ یکساں معاملہ نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ برائی کی کثرت تمھیں فریفتہ کر لے، مگر خدا کے ہاں یہ کثرت کوئی وزن نہیں رکھتی۔ وہ صرف پاکیزگی کو قبول کرے گا اور اُس کے حضور میں وہی لوگ فلاح پائیں گے جو نیکی اور خیر کو اختیار کریں۔ علم و عمل کی ناپاکی اور خباثت کے لیے اُس کے ہاں دوزخ کی آگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ