HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاقیات

فضائل اخلاق


اتمام اخلاق مقصد بعثت
(۱) عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاق.(احمد، رقم ۸۹۵۲)
’’ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیاہوں۔‘‘
توضیح

ہر مسلمان سے دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیۂ اخلاق ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان خالق اور مخلوق، دونوں کے ساتھ اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ پاکیزہ عمل ہی کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔تمام شریعت اسی کی فرع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کر دیں۔

اخلاق نبوی اور آپ کا معیار فضیلت
(۲) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ یَقُوْلُ:إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا.( بخاری، رقم ۳۵۵۹)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد گوئی کرنے والے تھے نہ بدزبانی۔ آپ فرمایا کرتے تھے:تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں۔‘‘
(۳) عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو حِیْنَ قَدِمَ مُعَاوِیَۃُ إِلَی الْکُوْفَۃِ فَذَکَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا.( مسلم، رقم۶۰۳۳ )
’’مسروق سے روایت ہے کہ جب معاویہ (رضی اللہ عنہ) کوفہ آئے تو ہم (ان کے ساتھ آنے والے صحابی) عبداللہ بن عمرو سے ملنے گئے۔ انھوں نے (دوران گفتگو میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیڑا اور یہ بتایا کہ آپ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی اور یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں۔‘‘
(۴) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ:إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَیَّ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا. (بخاری، رقم ۳۷۵۹)
’’عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ کا ارشادہے: مجھے تم میں سے وہی لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں جو دوسروں سے بہتر اخلاق والے ہیں۔‘‘
توضیح

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے: ’اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘، ’’بے شک، آپ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں‘‘(القلم ۶۸: ۴)۔

یہ احادیث آپ کے اخلاق عالیہ ہی کے اس پہلو کو بیان کرتی ہیں کہ آپ تلخ و شیریں، غصہ و محبت، اچھے اور برے کسی حال میں بھی بد گوئی اور بد زبانی کرنے والے نہ تھے۔ آپ خود بھی اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے اور آپ کے نزدیک وہی لوگ زیادہ پسندیدہ تھے جو اخلاق میں دوسروں سے بہتر ہوتے تھے۔


اخلاق حسنہ کی حیثیت
(۵) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ شَیْءٍ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ.(ابوداؤد، رقم۴۷۹۹)
’’ابو درداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن میزان میں کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی۔‘‘
(۶) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا شَیْءٌ أَثْقَلُ فِیْ مِیزَانِ الْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللّٰہَ لَیُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِیْءَ.(ترمذی، رقم ۲۰۰۲)
’’ابو درداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کی میزان میں کوئی چیز بھی اُس کے اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی اور بے شک، اللہ تعالیٰ بے حیا بد گو شخص کودشمن رکھتا ہے۔‘‘
توضیح

وہ اعلٰی سے اعلٰی عمل جوا نسان کر سکتا ہے، وہ اس کا اچھا اخلاق ہی ہے۔ چنانچہ یہی عمل اس کی میزان میں سب سے زیادہ وزنی ہو گا۔ بے حیائی اور بد گوئی، ان دونوں صفات کو وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلاًعاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ہے۔


اخلاق حسنہ کا درجہ
(۷) عَنْ عَاءِشَۃَ رَحِمَہَا اللّٰہُ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہِ دَرَجَۃَ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ. (ابو داؤد، رقم ۴۷۹۸)
’’عائشہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’بندۂ مومن حسن اخلاق سے وہی درجہ حاصل کرلیتا ہے جو دن کے روزوں اور رات کی نمازوں سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
(۸) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَا مِنْ شَیْءٍ یُوْضَعُ فِی الْمِیزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَیَبْلُغُ بِہِ دَرَجَۃَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ.(ترمذی، رقم۲۰۰۳)
’’ ابو درداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔‘‘
توضیح

اللہ کی رضا کے لیے دن بھر روزے رکھنا اور رات بھر نماز پڑھنا یقیناًیہ دونوں بہت بڑے اعمال ہیں اور انسان ان سے بہت بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہی درجہ انسان اچھے اخلاق سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔


نیکی اور بدی اچھا اور برا اخلاق
(۹) عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ: الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ.(مسلم، رقم۲۵۵۳، رقم مسلسل۶۵۱۶)
’’نواس بن سمعان الانصاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹک پیدا کردے اورتم یہ پسند نہ کرو کہ دوسرے لوگ اُسے جانیں‘‘۔
توضیح

دوسروں کے ساتھ نیکی اور اچھے برتاؤ ہی کا نام حسن اخلاق ہے۔ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کی جانب سے اپنے لیے حسن اخلاق کا طالب ہوتا اور بدی کو ناپسند کرتا ہے اور اگر وہ خود کسی برائی میں مبتلا ہو تو دوسروں کے سامنے اس کا افشا ہوناپسند نہیں کرتا۔

______________

B