HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حب انصار اور بغض انصار

عَنْ أَنَسٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: آیَۃُ الْمُنَافِقِ بُغْضُ الْاَنْصَارِ، وَآیَۃُ الْمُؤْمِنِ حُبُّ الْاَنْصَارِ.
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی نشانی انصار کی دشمنی ہے اور مومن کی نشانی انصار کی محبت ہے۔
عَنْ اَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: حُبُّ الْاَنْصَارِ آیَۃُ الْاِیْمَانِ وَبُغْضُہُمْ آیَۃُ النِّفَاقِ.
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی نفاق کی علامت ہے۔
عَنِ البَرَّاءِ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ فِی الْاَنْصَارِ: لَا یُحِبُّہُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلاَ یُبْغِضُہُمْ اِلَّا مُنَافِقُ. مَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اللّٰہُ.
حضرت براء (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے حوالے سے فرمایا: ان سے وہی محبت کرتا ہے جو مومن ہے اور ان سے وہی دشمنی کرتا ہے جو منافق ہو۔ جس نے ان سے محبت کی، اللہ نے اس سے محبت کی، اور جس نے ان سے دشمنی کی، اللہ نے اس سے دشمنی کی۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یُبْغِضُ الْاَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ.
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار سے وہ شخص دشمنی نہیں کرتا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔
عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَا یُبْغِضُ الْاَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ.
حضرت ابو سعید (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انصار سے وہ شخص دشمنی نہیں رکھتا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔
لغوی مباحث

حُبُّ الْاَنْصَارِ‘: ’حُبّ‘ کے لفظ کا ترجمہ ہم نے محبت کیا ہے۔ لفظ کی حد تک تو ترجمہ ٹھیک ہے، لیکن اس سے بات پوری بیان نہیں ہوتی۔ کسی گروہ یا فرد سے محبت اور دشمنی سے مراد اس کی حیثیت اور کردار کو دل سے قبول کرنا یا اسے دل سے رد کرنا ہے۔ پھر یہی داخلی حالت ہے جو کچھ عملی اقدامات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دینی پہلو بھی موجود ہے۔ چنانچہ یہ محبت ایک دینی معنی بھی رکھتی ہے۔ انصار کا دینی کردار اور دین کی راہ میں ایثار واستقامت وہ چیزیں ہیں جس کی قدر شناسی درحقیقت دین کی قدر شناسی ہے۔

الْاَنْصَار‘: ’انصار‘ کا لفظ ’ناصر‘ کی جمع بھی ہو سکتا ہے اور ’نصیر‘ کی جمع بھی۔ مراد یہ ہے کہ افعال کے وزن پر جمع فاعل سے بھی بنتی ہے اور فعیل سے بھی۔ یہاں انصار سے مراد مدینہ کے دوبڑے قبائل ہیں، جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کی اور جان اور مال کی قربانیاں پیش کیں اور اس طرح انصار (یعنی مددگار) کہلائے۔

معنی

ان روایات میں لفظ کے فرق کے باوجود ایک ہی بات بیان ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ساتھ بغض رکھنے کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ زمانۂ نبوت حق اور باطل کی کش مکش کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں حضور پر ایمان لانا اور آپ کی حمایت کرنااور اس حمایت میں اپنے جان ومال کی پروا نہ کرنا ایمان کا تقاضا تھا۔ ایسا تقاضا کہ اگر پورا نہ کیا جائے تو ایمان ہی قابل قبول نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد مدینہ کے لوگوں نے یہ تقاضا ہر اعتبار سے پورا کیا۔ ایسے لوگوں سے محبت درحقیقت ایمان کے محرک سے پیدا ہوتی اور ایمان کے تقاضوں کے شعور سے طاقت پکڑتی ہے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے عداوت دین کی دشمنی کے محرک سے پیدا ہوتی اور دین کی دشمنی کے تقاضے پورے کرنے میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایمان کی نفی اور نفاق کی موجودگی کے تقابل سے یہی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ منافقین اہل ایمان پر برے وقت کے آنے کے منتظر رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار کی نصرت دین کے استحکام اور فروغ میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی۔ ظاہر ہے، اہل نفاق کی نفرتوں کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی لوگ ہونے چاہییں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اسی طرح کے حالات سے متعلق ہے۔

اوپر مندرج متون میں سے ایک متن میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس نے ان سے محبت کی، اللہ نے اس سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اللہ نے اس سے دشمنی کی۔ اس سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ انصار سے محبت درحقیقت دین وایمان سے محبت ہے۔ قرآن مجید میں بیان ہواہے کہ حضور اہل ایمان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے ہی کا نتیجہ اللہ کی محبت کا حصول ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ انصار سے محبت اللہ کی محبت پانے کا سبب ہے، تو قرآن کی روشنی سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ محبت درحقیقت دین وایمان سے محبت کا ایک مظہر ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے دین سے محبت کریں، اللہ کے رسول کی پیروی کو اپنی زندگی بنائیں اور ان کے دلوں میں ان لوگوں سے محبت نہ ہو جنھوں نے دین کے یہ تقاضے کماحقہ پورے کیے ہوں اور بطور خاص جن کی مساعی کی تعریف کائنات کے پروردگار کی کتاب میں موجود ہو۔ یہ دراصل ان کے مقام ومرتبے کا ادراک ہے۔ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، وہ صحابہ سے بھی محبت کرتا ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہاں وہ بغض اور نفاق زیر بحث ہے جو دین دشمنی کے جذبے سے پیدا ہوتا ہے۔ روز مرہ کے معمول کے معاملات میں پیدا ہونے والے اختلاف اور شکر رنجی ان روایات میں زیر بحث نہیں ہیں۔ صحابہ کے باہمی اختلافات اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

متون

امام مسلم نے (مسلم ،رقم ۷۴۔۷۷ میں) اس روایت کے وہ متون جمع کر دیے ہیں جو معمولی فرق کے ساتھ کتب روایت میں موجود ہیں۔ وہ فرق بھی اس نوعیت کے ہیں کہ کسی میں دو روایتیں ایک ہو گئی ہیں اور کسی میں ایک لفظ کا ایک مترادف آیا ہے اور کسی میں دوسرا۔

تمام متون کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے کسی روایت میں ایک اورکسی میں دوسرا اسلوب اختیار کیا گیا ہے: ’ان شأن الایمان حب الانصار‘، ’الانصار لا یحبہم الا مؤمن‘، ’من احب الانصار فبحبی أحبہم‘، ’لا یبغض الانصار رجل یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر‘۔ اسناد کا مطالعہ کریں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضور ہی نے مختلف موقعوں پر مختلف انداز سے بات کہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر حضور کے ارشاد کو سمجھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ بہرحال ان متون سے یہ واضح ہے کہ اس روایت کا مطلب کیا ہے۔ ان متون سے واضح طور پر انصار سے محبت کا محرک بھی سامنے آتا ہے اور اس محبت کی دینی اہمیت بھی۔

کتابیات

بخاری، رقم۱۷، ۳۵۷۲، ۳۵۷۳؛ مسلم، رقم ۷۴۔۷۷؛ ابن حبان، رقم۷۲۷۲۔۷۲۷۴؛ ترمذی، رقم۳۹۰۰، ۳۹۰۶؛ نسائی، رقم۵۰۱۹؛ ابن ماجہ، رقم۱۶۳؛ السنن الکبریٰ، رقم۸۳۲۳، ۸۳۳۱۔ ۸۳۳۳، ۱۱۷۵۰؛ بیہقی، رقم ۱۴۱۷۴؛ احمد، رقم۲۸۱۹، ۹۴۲۴، ۱۰۵۱۵، ۱۰۸۳۲، ۱۱۳۱۸، ۱۱۴۲۵، ۱۱۷۱۰، ۱۱۹۰۳، ۱۱۶۸۶، ۱۲۳۳۸، ۱۲۳۹۲، ۱۳۶۳۲، ۱۶۹۱۷، ۱۶۹۶۳، ۱۶۹۶۴، ۱۷۹۶۶، ۱۸۵۲۳، ۱۸۵۹۹، ۲۷۱۹۰؛ مسند ابو یعلیٰ، رقم۱۰۰۷، ۲۶۹۸، ۴۱۷۵، ۴۳۰۸، ۷۳۶۷؛ مسند طیالسی، رقم۲۴۲، ۷۲۸، ۲۱۰۱، ۲۱۸۲؛ المعجم الکبیر، رقم۷۱۸، ۳۳۵۷، ۳۳۵۸، ۵۷۱۰، ۱۲۳۳۹؛ المعجم الاوسط، رقم۱۳۱۷؛ الآحاد والمثانی، رقم۱۷۰۳، ۱۷۰۵۔ ۱۷۰۸، ۱۷۷۳۔ ۱۷۷۸، ۱۹۶۹؛ مسند ابن الجعد، رقم ۴۷۹؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۳۵۵، ۳۲۳۵۶؛ فضائل صحابہ، رقم۱۴۱۱، ۱۴۱۴، ۱۴۱۷، ۱۴۱۸، ۱۴۲۲، ۱۴۴۷، ۱۴۵۴، ۱۴۵۹۔

_______________

B