HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

قبر کا فقیر

پچھلے دنوں مجھے یکے بعد دیگرے دو جنازوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ پہلا جنازہ ایک بہت صاحب حیثیت شخص کا تھا۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے زندگی میں مادی اعتبار سے غیر معمولی کامیابیاں عطا فرمائی تھیں۔ وہ اپنے پیچھے بہت بڑا کاروبار اوروسیع وعریض گھر چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، بچوں کی خوشیاں دیکھیں اور اپنی طبعی عمر پوری کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔جبکہ دوسرا جنازہ ایک ایسے صاحب کا تھا جن کے پاس ملازمت تھی نہ اپنا گھر۔ ڈاکٹروں نے ان کے ایک معمولی مرض کی غلط تشخیص کی۔آپریشن ہوا۔ان کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا اور وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یہ محض میرے جاننے والے دو افراد نہیں، بلکہ دو کردار ہیں جو آزمایش کی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تفویض کیے ہیں۔غربت اور امارت،پانا اور کھونا، خوشی اور غمی ، آزمایش کی اس دنیا میں امتحان کے پرچے ہیں۔اس آزمایش میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اچھے برے حالات پیش آنے پر کیا رویہ اختیار کیا۔ اس نے اللہ اور بندوں کے حقوق کس حد تک پورے کیے۔اس نے حق ، انصاف اور احسان کا رویہ اختیار کیا یا ظلم ،جہالت اور تعصب کا۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شخص کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس پر نہیں کہ دنیا میں اس نے کیا کمایا۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرتے ہیں۔ وہ انسان کی مادی دنیا ، اس کے جسم کی طرح، خود تخلیق کرتے ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ دنیا میں اسے کس قسم کے حالات سے گزرنا ہے۔البتہ ،ایمان واخلاق کی دنیا انسان کو خود تشکیل دینا ہوتی ہے۔یہی وہ روحانی دنیا ہے جو کل قیامت کے دن ابد تک باقی رہنے والی ایک مادی دنیا میں بدل جائے گی۔

انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو پید ایش کے وقت کی طرح، ایک دفعہ پھر غربت و امارت کے سارے فرق مٹ جاتے ہیں۔ہرانسان کے پاس پہننے کو صرف کفن کا اوررہنے کو محض قبر کا گڑھارہ جاتا ہے۔ قبر کا یہ گڑھا پکار پکار کر ہر انسان کو بتاتا ہے کہ مادی دنیا میں خالی ہاتھ آنے والا انسان ،خالی ہاتھ ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ہاں جو چیز ساتھ جاتی ہے، وہ حسنِ عمل کا سرمایہ ہے۔جس کے پاس یہ سرمایہ ہے، وہ قبر میں بھی امیر ہے۔ جس کے پاس یہ نہیں وہ قبر میں فقیر ہے۔اورقبر کا فقیر دنیا کا سب سے بدنصیب فقیر ہوتا ہے۔


مسجد ماحول

مساجد اللہ کا گھر ہیں۔یہاں ہر روز مسلمان دن میں پانچ دفعہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔فرض نمازیں جماعت سے ادا کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے۔ بعض روایات میں جماعت کی نماز کوفرد کی نماز سے ۲۷گنا افضل قرار دیا گیا ہے۔(بخاری،رقم۶۱۹)

مسجد میں پڑھی جانے والی نماز عام نماز سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔یہ انسان کو اس کے مادی ماحول سے کاٹتی ہے اور مسجد کے روحانی ماحول میں لے جاتی ہے۔یہ ماحول مختلف طریقوں سے انسان کی تربیت کرتا ہے۔

انسان اپنے گھر، دکان، دفتر سے اٹھتا ہے اور مسجد کی سمت روانہ ہوتا ہے۔اپنی جگہ چھوڑنا اور مسجد کی طرف جانااپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کا خدا پرستانہ عمل ہے جس میں ہر قدم پر انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ در حقیقت وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسے لوٹ کر اپنے رب کے حضور جانا ہے۔

مسجد میں نماز کے انتظا رمیں اسے بیٹھنا پڑتا ہے۔یہ تنہائی اور خاموشی کا وقت ہوتا ہے۔ انسان اپنے روٹین کی روزمرہ زندگی اور معمولات میں غور و فکر کا کوئی وقت نہیں پاتا۔مگر مسجد میں اسے نماز کی عبادت کے ساتھ غور و فکر کی عظیم عبادت بھی نصیب ہوجاتی ہے۔وہ اس دوران میں اللہ کا ذکر کرتا اور کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں پر غور کرتا ہے۔اسے احساس ہوتا ہے کہ جس طرح اس لمحے لوگ بظاہر بے مصرف اورخاموش بیٹھے ، مگر درحقیقت اللہ کی یاد میں مشغول ہیں، اسی طرح کائنات میں موجود مخلوقات کا ہجوم اپنی خاموش زبان میں رب کی حمد اور تسبیح بیان کرتا ہے۔اسے اپنے رب کی عظمت کا احساس ہوجاتاہے جو ان تمام مخلوقات کا خالق ہے۔

مسجد میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ جس میں ہر شخص ایک امام کی پیروی کرتا ہے۔اس سے نمازی کو یہ سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اپنے اپنے اختلافات کے باجود ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب لوگ اپنے آپ کو ایک ڈسپلن کے حوالے کردیں۔

مسجد سے واپسی پر وہ یہ احساس لے کر جاتا ہے کہ وہ ابھی سر سے پاؤں تک جسم کے ہر حصے کو خدا کے سامنے جھکا کر اس سے اطاعت کا عہد کرکے آیا ہے ۔ اس لیے مسجد سے باہر آتے ہی وہ اطاعت کا یہ عہد نہیں توڑ سکتا۔ اس طرح نماز اسے مسجد سے باہر بھی رب کا بندہ بنائے رکھتی ہے۔

 

قبر کی پکار

نماز جنازہ میں شرکت کرنا ہماری روایت ہے۔یہ مرنے والے کے حقوق میں سے ایک حق ہے جو ہر قریبی شخص پر عائد ہوجاتا ہے۔اس روایت کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا سے جانے والے ایک بھائی کو عزت و احترام سے رخصت کیا جائے اور رب کے حضور پیشی کے وقت دعاؤں کی سوغات اس کے ہم رکاب کی جائے۔

مرنے والے اور اس کے لواحقین سے گہرا تعلق رکھنے والے لوگ نمازِ جنازہ کے بعد قبرستان تک ساتھ جاتے ہیں۔ وہ جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔ اپنے بھائی کو قبر میں اتارتے وقت موجود رہتے ہیں۔اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہیں اور واپسی سے پہلے ایک دفعہ پھر رب کے حضور اس کی خطاؤں پر در گزر کی درخواست کرتے ہیں۔

اس پورے عمل کا ایک بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو جنازے کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ انسان زندگی کی گہما گہمی میں موت کی تلخ حقیقت کو فراموش کیے رہتا ہے۔ مگر جنازے میں شرکت کا یہ عمل اسے موت کے ناگزیر سامنے کی یاددہانی کرادیتا ہے۔اسے یاد آجاتا ہے کہ یہ مرنے والااسی طرح پیدایش، نکاح، معاش اور زندگی کے دیگر معاملات سے گزرا جس طرح وہ گزررہا ہے۔مگر ان سب کے باجود جس طرح موت نے مرنے والے کو آدبوچا ، اس کا وقت بھی جلد ہی آنے والا ہے۔

مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ عین جنازہ اور دفن کے مناظر کے وقت بھی ان کی توجہ دنیا کی طرف لگی رہتی ہے۔ کوئی میت کے حالات پر گفتگو کرتا ہے،کوئی سیاست کو موضوع بحث بناتا ہے۔کسی کو قبرستان میں امریکی سازشیں یاد آجاتی ہیں اور کوئی قبرستان کی حالت زار کا رونا رونے لگتا ہے۔بہت سے لوگوں کے لیے یہ عزیزوں ، رشتہ داروں سے ملنے کا نادر موقع ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے کاروباری حالات اور خاندانی معاملات پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔

جو لوگ بہت زیادہ بولتے ہیں، وہ سنتے نہیں ہیں۔ ورنہ اگر سننے والے کان ہوں تو اُس وقت وہ قبر کی پکار کو ضرور سنیں گے جو چیخ چیخ کر لوگوں کو بتاتی ہے کہ اے غافلو! میرے پاس آئے ہو تو لمحہ بھر کے لیے سہی، اِس دنیا کو چھوڑ کراُس دنیا کو یاد کرلو۔میں آخرت کا دروازہ ہوں۔ یہ دروازہ آج تمھارے بھائی پر کھلا ہے، بہت جلد یہ تمھاارے لیے کھول دیا جائے گا۔


سکندر جب گیا دنیاسے۔۔۔

سکندرِ اعظم (۳۵۶۔۳۲۳ق م)کا شمار دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں کیا جاتا ہے۔وہ سائرس (جسے قرآن ذوالقرنین کہتا ہے ) کے بعد پہلا شخص تھا جس نے تمام قدیم دنیا کو فتح کرکے اس پر اپنی حکومت قائم کی ۔اس کا باپ فلپ، یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا، مگر سکند ر نے صرف چند برسوں میں اُس تمام دنیا کو زیر وزبر کرڈالا جو یونان سے ہندوستان تک لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔اس کی عظیم یوریشیائی سلطنت میں چین ہی واحد متمدن خطہ تھا جو اس کی قلمرو میں شامل نہ تھا۔

سکندر کی یلغار اتنی شدید تھی کہ دارا کی عظیم ایرانی سپر پاورخس و خاشاک کی طرح اس کے سامنے بکھر کر رہ گئی۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ رواں دریا، فلک بوس پہاڑ، عظیم صحرا،وسیع و عریض میدانی علاقے، بپھرے ہوئے سمندر، اندھیری راتیں، موسلادھار بارش، کچھ بھی اس کا راستہ نہ روک سکے۔ قدیم دنیا کے سارے خزانوں اور سارے علاقوں کا یہ مالک، صرف بتیس سال آٹھ ماہ کی عمر میں ملیریا کا شکار ہوکر ،عراق کے قدیم شہر بابل میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد جلد ہی اس کا بارہ سالہ بیٹا مارڈالا گیا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔

سکندر کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس میں قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے۔ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے سینے میں خواہشات کا ایک طوفان لیے پھرتا ہے۔وہ دولت ،شہرت، حکومت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے۔کبھی وہ نامراد رہ جاتا ہے اور کبھی مقدر کا سکندر بن کر اپنی ہر خواہش پالیتا ہے۔ مگر ایک عظیم حقیقت ایسی ہے جو کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ وہ یہ کہ ایک روز بہرحال اسے مرنا ہے اور اپنی آرزوؤں کی سلطنت کو چھوڑ کر اسے حقیقت کی اُس دنیا میں جانا پڑتا ہے جس کا نام آخرت ہے۔

انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں۔وہ گاڑی ، بنگلہ اور سوناچاندی کو اپنا مقصود بنالیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ایک روز موت کو آنا ہے۔ وہ آکر رہے گی۔ ۳۲۳ق م میں یہ سکندر کو آئی تھی اورایک صدی کے اندر اِس وقت تک زندہ ہر انسان کو آجائے گی۔

انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس نے اِس دنیا میں کیا حاصل کیا۔ اسے توہر چیز سکندر کی طرح چھوڑ کر جانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی کے لیے کیا لے کر جارہا ہے۔

 

تیری مانند کون ہے؟

ایک برتر ہستی سے محبت کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان چاہے نہ چاہے ، وہ کسی نہ کسی کو اپنا معبود بنانے پر مجبور ہے۔ مگر معبود بننے کے لائق صرف ایک ہی ہستی ہے۔ اللہ ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

انسان کا المیہ دیکھیے کہ وہ اپنی تاریخ میں کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ ہر دور میں اس نے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا ہے۔ پھر خدا کو غیر اہم جان کرا نھی کی حمد کی ہے ۔ انھی کی عظمت کے گن گائے ہیں۔ انھی سے مدد مانگی ہے۔ انھی کے سامنے سر جھکایا ہے۔انھی سے محبت کی ہے۔ انھی کے لیے رویا ہے۔انھی کے لیے تڑپاہے۔انھی کا اعتراف کیا ہے۔انھی کا شکر گزاربنا ہے۔انھی کے لیے محبت اور انھی کے لیے نفرت کی ہے۔انھی کے نام کو آنکھوں کی روشنی اور انھی کی یادکو زبان کی مٹھاس بنایا ہے۔

یہ سب تو اللہ کا حق ہے ۔ ہر دور میں تھا ۔ ہر دور میں رہے گا۔ غیر اللہ کی عبادت اور حمد کرنے والے یہ لوگ، انبیائے بنی اسرائیل کے الفاظ میں ، اُس عورت کی مانند ہیں جو اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے ساتھ بدکاری کرتی ہے۔اس کے برعکس اللہ کے رسولوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا جینا مرنا، سب اللہ کے لیے ہوتا ہے۔وہ ہر مشکل میں اسی پر بھروسا کرتے اور ہر کامیابی پر اسی کی حمد کے ترانے پڑھتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے عرب پر غلبہ کے بعد صفا پہاڑ پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی جو حمد کی، اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہاہے، اس کا کوئی شریک نہیں،بادشاہی اسی کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔(مسلم،رقم ۱۲۱۸)

اللہ تعالیٰ نے فرعون کو جب غرق کیا اور حضرت موسی ٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو سمندر سے سلامتی کے ساتھ گزاردیا تو اس موقع پر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی انتہائی خوبصور ت انداز میں حمد و ثنا کی ۔ اس حمد کا ایک جملہ یہ ہے:

’’معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے‘‘۔ (خروج ۱۵:۱۱)

ان دونوں پیغمبروں کی ذات رہتی دنیا تک اس بات کا بھی نمونہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے کیسے ہوتے ہیں اور ا س بات کا بھی کہ ایسے وفاداروں کو وہ کس طرح نوازتا ہے۔مگر اس کی عطااسی پر بس نہیں ،وہ تو ایسا کریم ہے کہ لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش کرتے دیکھتا ہے، پھر بھی ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔

وفاداروں کو دینے والے تو بہت ہوتے ہیں،مگر بے حیا اور بے وفا لوگوں پر رحم کرنے والی ایک ہی ہستی ہے؛اللہ جس کے سوا کوئی رب نہیں۔وہ جب اپنے وفاداروں کو نوازے گا تودنیا دیکھے گی۔ سواب جو جس کو چاہے اپنی وفا کا مرکز و محور بنالے۔نبیوں کے طریقے پر چلنے والے، مرتے دم تک خد اکی محبت سے سرشار،یہی کہتے رہیں گے:

معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے؟


آئیڈیل زندگی

’’اورجو لوگ ایمان لائے اورا چھے عمل کیے، ہم ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن میں نہریں بہتی ہیں،اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور ہم ان کو گھنی چھاؤں میں رکھیں گے‘‘۔(النسا۴: ۵۷)

عرب کے صحراؤں میں جہاں پانی وسبزہ کمیاب اور دھوپ کی شدت ناقابل برداشت ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا اور کرم کا اس سے اچھا بیان ممکن نہیں۔جنت کا لفظی مطلب باغ ہے۔ صحرا میں رہنے والے لوگوں کے لیے بہترین مقام کا تصور یہی ہے کہ وہ ایک باغ میں مقیم ہوں جس میں نہریں بہتی ہیں۔ یہ باغ اتنا گھنا ہو کہ صحرا کی تپتی دھوپ اور جھلسادینے والی ہوا ،دونوں اس کی چھاؤں میں غیر موثر ہوکر رہ جائیں۔ اس باغ کا پھل اس کی خوارک بنے، اس کے سبزے میں اس کے مویشی چرتے پھریں، اس کے پانی سے اس کی کھیتی سیراب ہو اور وہ ان سب کے درمیان پاکیزہ اہل خانہ کے ہمراہ اپنی زندگی کے دن گزارے۔سب سے بڑھ کر اسے یہ یقین ہو کہ زمانے کی رفتاراور ماہ و سال گردش اسے اس کی کائنات سے محروم نہیں کریں گے اور وہ ہمیشہ اس جگہ مقیم رہے گا۔

یہ عرب کے صحرا نشین ہی نہیں، عام انسان کی زندگی بھی حالات کی دھوپ چھاؤں میں کیا جانے والے ایک سفر ہے۔انسان فطری طور پر سہولت پسند واقع ہوا ہے۔ وہ لذت کو پسند کرتا، آسانی کی خواہش کرتااور سکون کی تمنا کرتا ہے۔ مگر زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ناگوار واقعات اس کی پرسکون زندگی میں خلل ڈال د یتے ہیں۔ حالات کی تپش ا س کے وجود کو جھلسادیتی ہے۔محرومی کی آگ اس کے نشیمن کوراکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے۔

ایسے میں یہ آیت انسان کو یقین دہانی کراتی ہے کہ وہ اپنی جنت کا جو نقشہ چاہے بنالے ، اللہ تعالیٰ اس نقشے میں زندگی کی روح پھونک کر کل قیامت کے دن اس کے حوالے کردیں گے۔ یہاں وہ اندیشوں کی ہر دھوپ اور پچھتاووں کی ہر جلن سے محفوظ رہ کر سکون کی چھاؤں میں زندگی گزارے گا۔وہ زندگی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔

اس جنت کے خواہش مند انسان کے لیے البتہ، یہ ضروری ہے کہ وہ اس عارضی دنیا کی ہر دھوپ اور ہر چھاؤں میں اپنے رب کی پسند کے اعمال کرتا رہے۔وہ ایک ایسا درخت بن جائے جس کی ہر شاخ ایمان و اطاعت کے ساتھ رب کے سامنے جھکی رہنے والی ہو. پاکیزہ اخلاق و اعمال کے پھل اس سے پھوٹتے رہیں اور اور مخلوق خدا کے لیے اپنی ذات میں ایک سایہ دار درخت ہو۔یہی وہ درخت ہے جسے آنے والے کل میں جنت کے باغ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لگادیا جائے گا۔


پوزیٹو کرکٹ

کرکٹ کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔اس کھیل کی اہمیت کی بنا پرکسی ملک کی قومی ٹیم میں بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔مگر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک باصلاحیت کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر آکر خود کو منوا نہیں پاتا۔اس کا سبب یہ ہے کہ کرکٹ کا کھیل جسمانی کھیل ہونے کے ساتھ ایک ذہنی کھیل بھی ہے۔یہاں ہر کھلاڑی خود کو قسمت اور حالات کے رحم و کرم پر پاتا ہے۔یہ دونوں مل کر ایک دباؤ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس دباؤ میں آکر بہترین کھلاڑی بھی اپنی صلاحیت کا مظاہر نہیں کرپاتا ۔ مثلاََکسی وقت اگر ایک ساتھ چند وکٹ گرجائیں تو نیا آنے والا بہترین بیٹسمین بھی صرف دباؤکی وجہ سے آؤٹ ہوجاتا ہے۔

اس وجہ سے کرکٹ کے میدان میں اترنے والے کھلاڑیوں کو اکثر یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ پوزیٹو رہیں۔ کرکٹ میں پازیٹو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی صور ت حا ل کا اثر لیے بغیر اپنی صلاحیت کا استعمال کرے۔وہ دباؤ کو نظر انداز کرکے ایک ایک بال کو میرٹ پر کھیلے۔روکنے والی گیند کو روکے اور مارنے والی کو مارے۔یہی کرکٹ میں کامیابی کا راز ہے۔

یہی پوزیٹو رویہ زندگی کے میدان میں بھی کامیابی کاراز ہے ۔اس دنیا میں ہر انسان کوئی نہ کوئی صلاحیت لے کر آتا ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ زندگی بہت سے ایسے مسائل سے عبارت ہوتی ہے جو انسان پر ایک دباؤ اور ٹینشن پیدا کرتے ہیں۔ایسے میں انسان صرف مشکلات، مسائل اور دباؤ پر نظر رکھے گا تو وہ کبھی زندگی میں بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ بڑی کامیابی صرف اس شخص کو ملتی ہے جو حالات کے دباؤ اور پریشانیوں کے باجود ملے ہوئے مواقع کو استعمال کرے۔ جو مسائل کے باجود مواقع کی تلاش میں رہے اور موقع ملنے پر اپنی بہترین صلاحیت کو استعمال کرے۔

اسی طرح زندگی کی کسی ایک اننگز میں ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر جگہ ناکام ہوگیا ہے۔ اسے زندگی کی اگلی اننگز اور اگلے موقع کا انتظار کرنا چاہیے۔ قدرت اپنے قانون کے تحت اسے یہ موقع لازماً دے گی۔ اسے مایوس ہوئے بغیر اس موقع کا انتظار کرنا چاہیے اور جیسے ہی موقع ملے، اپنی پوری صلاحیت اس میں لگاکر اسے استعمال کرنا چاہیے۔

زندگی کا میدان کرکٹ کے میدان سے زیادہ مختلف نہیں۔مثبت اندازِ فکر دونوں میدانوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔

 

انسان اور جانور کا فرق

انسانوں کو جانوروں پر جو فضیلت حاصل ہے اس کے کئی پہلو ہیں۔مگر شرف ا نسانی کا سب سے بڑا پہلو غالباََ یہ ہے کہ انسان جس تیزی کے ساتھ سیکھتا ہے کوئی اور جان دار اس استعداد کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔

جانور اور انسان ،دونوں کو بہت سے کام جبلت سکھاتی ہے۔ بہت سے افعال حواس سے حاصل شدہ علم سے اختیار کیے جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں دونوں ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔لیکن یہ صرف انسان کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے علم کے خزانے کو الفاظ کی صورت دیتا اور اسے کتاب کی تجوری میں محفوظ کردیتا ہے تاکہ دوسرے لوگ علم کے اس خزانے سے استفادہ کرسکیں۔قلم وکتاب کا یہی وہ میدان ہے جہاں انسان نے سب سے بڑھ کر سیکھنے اور سکھانے کی اپنی اس استعدادکا مظاہرہ کیا ہے۔

کتاب پڑھنا صرف انسان اور جانور ہی کا فرق نہیں، بلکہ ایک قوم اور دوسری قوم کا بھی فرق بن جاتا ہے۔ جس قوم میں قلم و کتاب کی حکومت ہو، وہ قوم دوسری اقوام پر اسی طرح حکومت کرتی ہے جس انسان جانوروں پر حکومت کرتے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیر معمولی ذوق پیدا کردیاتھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا ،مگر جب ایک دفعہ پیدا ہوگیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا، وہ یہی تھا کہ بغداد اور اسپین میں مسلمانوں کے کتابوں کے ذخیرے یا تو جلادیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔یہی کتابیں یورپ پہنچیں تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا کے حکمران بن گئے۔آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہ راہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے، اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔اورجس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہوجائے ،وہاں علم کی پیداوار ختم ہوجاتی ہے۔جس قوم میں علم نہ ہو، اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔

 ______________

B