HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: المائدہ ۵: ۴۴-۵۰ (۱۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ، فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ، یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ، وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ، فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ، وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً، وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ{۴۴} وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ، فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ، وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ{۴۵} 
وَقَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰۃِ، وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ، وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ{۴۶} وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ، وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ{۴۷}
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ، وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ، فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ، وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ۔ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا، وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً، وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ، فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ، اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ{۴۸} وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ، وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ{۴۹} اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ، وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ{۵۰}
یہ تورات ہمیں نے اتاری، جس میں ہدایت بھی تھی اور روشنی بھی۔ ۱۰۹؎ اللہ کے فرماں بردار نبی،۱۱۰؎  ربانی عالم اور فقیہ اِن یہودیوں کے فیصلے اِسی کے مطابق کرتے تھے، اِس لیے کہ اُنھیں اِس کتاب الٰہی کا نگہبان اور اِس پر گواہ ٹھیرایا گیا تھا۔۱۱۱؎  پھر (یہ ہدایت بھی اِس کے بارے میں کی گئی تھی کہ) لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچو ۱۱۲؎ اور (یاد رکھو کہ) جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی منکر ہیں۔۱۱۳؎  اور اِسی کتاب میں ہم نے اِن پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اِسی طرح دوسرے زخموں کا بھی قصاص ہے۔ ۱۱۴؎  پھر جس نے معاف کر دیا تو وہ اُس کے لیے کفارہ بن جائے گا۔۱۱۵؎ اور (یہ بھی کہ) جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔۱۱۶ ؎ ۴۴-۴۵
اِنھی (پیغمبروں) کے نقش قدم پر۱۱۷؎ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا، اُس سے پہلے جو تورات موجود تھی، وہ اُس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اُس کو انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی جو اُس سے پہلے موجود تھی، ۱۱۸؎ خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کے طور پر اور اِس فرمان کے ساتھ کہ اہل انجیل بھی اُسی کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے اُس میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی فاسق ہیں۔ ۴۶-۴۷
پھر ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے۱۱۹؎ اور اُس کی نگہبان بنا کر، ۱۲۰؎ اِس لیے تم اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے، اُس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ۱۲۱؎  تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک لائحۂ عمل مقرر کیا ہے۔۱۲۲؎ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر اُس نے یہ نہیں کیا، اِس لیے کہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ ۱۲۳؎ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔۱۲۴؎  تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ (دین و شریعت کے معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے) اور یہ بھی کہ اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور اِن سے ہوشیار رہو کہ مبادا یہ لوگ تمھیں ہدایت کی کسی بات سے بہکا دیں جو اللہ نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔۱۲۵؎ پھر اگر اعراض کریں تو جان لو کہ اللہ اِن کو اِن کے کچھ گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے۱۲۶ ؎ اور حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے زیادہ نافرمان ہیں۔ (خدا کی شریعت کو چھوڑ کر) پھر کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟۱۲۷؎ دراں حالیکہ اُن لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے جو (خدا اور آخرت پر) یقین رکھتے ہیں۔ ۴۸-۵۰

۱۰۹؎ یعنی صراط مستقیم کی ہدایت اور ایک ایسی روشنی جو اِنھیں خواہشات و بدعات اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال دے۔ 

۱۱۰؎ یہ علماے یہود پر ایک لطیف تعریض ہے۔ یعنی اللہ کے وہ پیغمبر جو یہود کے علما و فقہا کی طرح تورات کو صرف دوسروں کے لیے واجب العمل نہیں سمجھتے تھے، بلکہ خود بھی اپنے پروردگار کے فرماں بردار اور اُس کے احکام و قوانین کے پابند تھے۔

۱۱۱؎ یہ ایک آئینہ ہے جو قرآن نے اپنے مخاطبین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں مدعا یہ ہے کہ وہ ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ پاسبان ہو کر اُنھوں نے خدا کے حرم میں کس طرح نقب لگائی ہے اور گواہ ہو کر کس طرح کتمان شریعت میں مہارت دکھائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ آئینہ وقت کے یہود کے سامنے اِس غرض سے رکھا گیا ہے کہ وہ اِس میں دیکھیں کہ تورات سے متعلق اُن پر کیا ذمہ داریاں عائد تھیں، اُن کے صالح اسلاف نے اِن ذمہ داریوں کو کس طرح نبھایا اور اب اُنھو ں نے کس طرح اِس عہد الٰہی کو بچوں کا کھیل بنا رکھا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۵۲۷)

۱۱۲؎ مطلب یہ ہے کہ جنھیں گواہ بنایا گیا تھا، اُنھیں یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ اِس گواہی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے صرف خدا سے ڈریں، دوسروں کا خوف اور رعب اپنے سینے سے نکال دیں اور اپنے دنیوی اغراض کے لیے خدا کی اِس امانت میں کوئی خیانت نہ کریں۔ یہ ہدایت تورات کے اُن تمام مقامات پر بڑی تاکید کے ساتھ کی گئی ہے، جہاں یہود سے احکام شریعت کی پابندی کا عہد لینے کا ذکر ہوا ہے۔ اِس کو غائب کے صیغے سے بیان کرنے کے بجاے حاضر کے صیغے میں اِس لیے فرمایا ہے کہ کلام کا تنوع اِسے سامعین کے لیے زیادہ موثر بنا دے۔

۱۱۳ ؎ یہی حکم اُن مسلمانوں کا بھی ہو گا جو آزادی و اختیار رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کتاب الہٰی کے مطابق نہیں کرتے۔

۱۱۴؎ یہ اُس قانون کا حوالہ دیا ہے جس سے بچنے کے لیے یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ یہ خدا کی شریعت اور اُس کا ابدی حکم ہے۔ اِسے تورات میں اِسی طرح ثبت کیا گیا تھا۔ اِس سے فرار کی کوشش کرو گے تو خدا کی بارگاہ میں ظالم اور فاسق قرار دیے جائو گے۔

۱۱۵؎ یہ مجروح یا مقتول کے اولیا کے لیے ترغیب ہے کہ وہ مجرم کو معاف کر دیں تو اُن کی یہ نیکی اُن کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی اور جس درجے کی یہ معافی ہو گی، اُسی کے بقدر اُن کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ آیت کا انداز بیان دلیل ہے کہ یہی حکم ہمارے لیے بھی ہے۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۷۸ سے اِس کی تائید ہوتی ہے۔ 

۱۱۶؎ اِس لیے کہ جو خدا کے قانون کو نظرانداز کرتا ہے، وہ اپنے اوپر خدا کے سب سے بڑے حق کو تلف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ جن و بشر سب اِس کے پابند ہیں کہ اُس کے بندے بن کر رہیں۔ یہ بندگی خدا کا حق اور اطاعت و فرماں برداری اِس کا لازمی تقاضا ہے۔ خدا کے ماننے والوں میں سے اگر کوئی اِس سے انحراف کرتا ہے تو یقیناً ظالم ہے۔

۱۱۷؎ یعنی بعینہٖ اُسی مقصد کے ساتھ جس کے لیے اُن سے پہلے کے نبی آئے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ ’عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ‘ کے لفظ سے انبیا کی دعوت، اُن کے مقصد، اُن کے مزاج، کردار اور طریق کار کی یکسانی اور اُن کی باہمی مشابہت کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ چیز من جملہ علامات نبوت کے ہے۔ جس طرح ایک ہی شجرۂ طیبہ کے برگ و بار میں مماثلت ہوتی ہے، اِسی طرح اُس مقدس گروہ کے افراد میں مماثلت ہوتی ہے کہ جو اُن میں سے ایک کو پہچان گیا، وہ گویا سب کو پہچان گیا۔ اُن کی شناخت کے معاملے میں التباس اُنھی کو پیش آتا ہے جو یا تو اندھے ہوتے ہیں یا اندھے بن جاتے ہیں۔ جن کے اندر بصیرت ہوتی ہے، وہ کبھی دھوکا نہیں کھاتے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۳۱)

۱۱۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰۃِ‘۔ اِس سے پہلے ’فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ‘ کا جملہ حال واقع ہوا ہے۔ اِس کا عطف اُسی پر ہے۔ ’ھُدًی وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ‘ کے الفاظ بھی اِس کے بعد اِسی محل میں ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تورات و انجیل میں اور سیدنا موسیٰ اور سیدنا مسیح میں منبع و ماخذ اور علم و ہدایت کے لحاظ سے کوئی فرق نہ تھا اور مسیح علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ اُنھوں نے اُسی شریعت کی تصدیق کی جو اُن سے پہلے تورات میں موجود تھی۔

۱۱۹؎ اِس سے تورات مراد ہے۔ انجیل کا ذکر اِس لیے نہیں ہوا کہ قرآن سے پہلے اصل کتاب کی حیثیت تورات ہی کو حاصل تھی۔ زبور، انجیل اور انبیا علیہم السلام کے دوسرے صحائف درحقیقت اُسی کے فروع ہیں۔

۱۲۰؎ اصل میں لفظ ’مُہَیْمِن‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ہیمن فلان علی کذا‘ سے بنا ہوا اسم صفت ہے جو محافظ اور نگران کے معنی میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کتاب الہٰی کا اصل قابل اعتماد نسخہ اب قرآن ہی ہے۔ تورات اور دوسرے صحائف سے متعلق بھی کسی چیز کے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ہو تو اُس کے لیے کسوٹی اور معیار یہی ہے۔ جو بات اِس پر کھری ثابت ہو گی، وہ کھری ہے اور جو اِس پر کھری ثابت نہ ہو سکے، وہ یقینا کھوٹی ہے جسے ہر حال میں رد ہو جانا چاہیے۔

۱۲۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ‘۔ اِن میں ’لَا تَتَّبِعْ‘ کے بعد ’عن‘ دلالت کرتا ہے کہ یہ ’لاتنحرف‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اپنے مقدمات لے کر یہ آپ کے پاس آئیں توآپ کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا ہے۔ آپ اُسی کے پابند ہیں۔ اُس سے منحرف ہو کر اِن کی خواہشات و بدعات کی پیروی میں آپ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ اگر اپنے فقہا کے پاس جائیں تو جس طرح اُن کا فرض ہے کہ تورات و انجیل کے مطابق فیصلہ کریں، اِسی طرح آپ کے پاس آئیں تو آپ کو قرآن کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ اِسے چھوڑ کر کسی دوسرے قانون کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرنا اُسی طرح کفر، ظلم اور فسق ہے، جس طرح اوپر تورات و انجیل سے متعلق ذکر ہوا ہے۔

۱۲۲؎ اصل میں ’شِرْعَۃ‘ اور ’مِنْہَاج‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں دوسرا پہلے کے لیے بمنزلۂ تفسیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے جو شریعت دی ہے، وہ اُس کے ماننے والوں کے لیے زندگی گزارنے کا دستور، لائحۂ عمل اور طریق کار ہے جس سے دین کے حقائق زندگی کے احوال سے متعلق ہوتے ہیں۔

۱۲۳؎ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو الگ الگ شریعت کیوں دی؟ یہ اِس کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں: 

’’جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ سے غیر متغیر ہیں اور غیر متغیر ہی رہیں گے، لیکن شریعت کے ظواہر و رسوم ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقرر فرمائے تا کہ یہ چیز امتوں کے امتحان کا ذریعہ بنے اور وہ دیکھے کہ کون ظواہر و رسوم کے تعصب میں گرفتار ہو کر حقائق سے منہ موڑ لیتا ہے اور کون حقیقت کا طالب بنتا ہے اور اُس کو ہراُس شکل میں قبول کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے جس میں وہ خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے اُس کے سامنے آتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۵۳۵)

۱۲۴؎ مطلب یہ ہے کہ تم اِن یہود و نصاریٰ کی طرح لکیر کے فقیر اور رسوم و ظواہر کے غلام بن کر نہ رہ جائو، بلکہ دین کی اصل حقیقت کو سامنے رکھو اور اللہ کے پیغمبر نے نیکی، خیر اور حصول قرب الہٰی کے لیے جدوجہد کی جو راہ تمھارے لیے کھول دی ہے، اُس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ کا قانون جس صورت میں بھی آئے، تمھارے لیے زیبا یہی ہے کہ اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور شرائع میں اختلاف کو بنیاد بنا کر دین کی اصل حقیقت، یعنی خدا کی بندگی سے روگردانی نہ کرو۔ 

۱۲۵؎ اِس کا عطف ایک جملے پر ہے جو ’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ‘ سے مفہوم ہوتا ہے۔ اِس سے اوپر دیکھیے تو یہی بات بیان ہو چکی ہے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر اُس کا حوالہ دے کر تنبیہ فرمائی ہے کہ ’وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ‘۔ استاذ امام نے اِس کی وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس مزید تنبیہ کی ضرورت اِس لیے تھی کہ یہ مرحلہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ مخالف قوتیں آسانی سے سپرانداز ہونے والی نہیں تھیں۔ فتنہ کا لفظ خود اشارہ کر رہا ہے کہ وہ پیغمبر اور مسلمانوں کو میثاق الٰہی سے ہٹانے کے لیے اپنا پورا زور لگا دیں گی۔ اِس خطرے سے بچانے کے لیے آگاہ فرما دیا کہ وہ خواہ کتنا ہی زور لگائیں اور کتنا ہی دبائو ڈالیں، تمھیں بہرحال اللہ کی اتاری ہوئی شریعت ہی کی پیروی کرنی ہے۔ اِس کو چھوڑ کر اِن کی خواہشات و بدعات کی پیروی نہیں کرنی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۵۳۶)

۱۲۶؎ مطلب یہ ہے کہ حق کے اِس طرح واضح ہو جانے کے بعد بھی اعراض کریں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب یہ توفیق ہدایت سے محروم ہیں۔ چنانچہ اُس سنت الہٰی کی زد میں آ چکے ہیں جو ذریت ابراہیم کے لیے مقرر ہے کہ اُن کے گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ اُنھیں دنیا ہی میں دیتا ہے۔

۱۲۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ‘۔ یہ ’مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ‘ کے بالمقابل استعمال ہوئے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ ہر وہ قانون جو خدا کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اختیار کیا جائے، وہ جاہلیت کا قانون ہے، خواہ وہ قدیم زمانے میں بنایاگیا ہو یا دور جدید میں، اور اُسے وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جنھیں خدا اور آخرت، کسی چیز پر بھی یقین نہیں ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B