HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

گالی فسق اور قتل کفر ہے

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ.
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا نافرمانی اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔
لغوی مباحث

سباب المسلم‘: ایک راے یہ ہے کہ ’سباب‘، ’قتال‘ کے وزن پر ’سابّ‘ سے مصدر ہے، یعنی اس کے معنی ایک دوسرے کو گالی دینے کے ہیں۔دوسری راے یہ ہے کہ مجرد سے بھی اس وزن پر مصدر آتا ہے۔ لفظ کے موقع استعمال سے ظاہر ہے کہ یہاں محض گالی دینا مراد ہے، ’باہم‘ کا پہلو یہاں پیش نظر نہیں ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب مصدر کی اضافت ہو تو مضاف الیہ فاعل بھی ہو سکتا ہے اور مفعول بھی۔ ہمارے نزدیک یہ اضافت مفعول کی طرف ہے۔

فسوق‘:’ فسق ‘ کا فعل کسی دائرے سے نکلنے ، انحراف کرنے اور نافرمانی کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اسی سے یہ لفظ گناہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ اس کا تقابل کفر سے ہے، اس لیے یہاں اس کے معنی خدا کی نافرمانی اور گناہ ہی کے ہیں۔ قرآن مجید میں ’فسق ‘ کا لفظ بالعموم اللہ کی طاعت کا قلادہ اتارنے کے معنی میں آیا ہے اور یہ اس لفظ کا اصل رخ ہے۔

معنی

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے احکام کی نافرمانی کے کئی درجے ہیں۔ اس کے لیے قرآن مجید میں سوء بجہالت، اثم، بغی، استہزا اور کفر جیسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں طلاق کے احکام پر عمل کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ وَلاَ تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ.(۲: ۲۳۱)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے تو یا تو بھلے طریقے سے ان کو روک لو یا بھلے طریقے سے ان کو رخصت کردو۔ محض ستانے کی غرض سے انھیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہو گی، اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ۔ اور یاد رکھو اللہ کی اس عنایت کو جس سے اس نے تمھیں سرفراز کیا ہے۔ اور کتاب وحکمت کو یاد رکھو جواس نے تمھاری نصیحت کے لیے اتاری اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں طلاق دینے کے قانون کو عورت پر ظلم کرنے کے لیے استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسا طریقہ اختیار کرنے کو اللہ کی آیات کا مذاق بنانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نافرمانی کی بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں آدمی قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجاے اس کی اصل مصلحت کے خلاف اسے اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے لیے آڑ بنا لیتا ہے۔ اس آیت کے مطابق ایک خاص رویے کے باعث جس طرح ایک نافرمانی اللہ کی آیات کا استہزا قرار پائی ہے، اسی طرح بعض جرم اس نوعیت کے ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والا ایمان اور اطاعت سے دوری کے اس مقام پر چلا جاتا ہے، جہاں کفر اور فسق کے لفظ اس کے لیے موزوں ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید میں انفرادی رویوں کے بعض پہلو سورۂ حجرات میں زیر بحث آئے ہیں۔ عیب لگانے اوربرے نام رکھنے کی شناعت بیان کرنے کے لیے فرمایا:

وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ بِءْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ.(۴۹: ۱۱)
’’اور اپنے لوگوں پر الزام نہ لگاؤ اورنہ ایک دوسرے کو برے القاب دو ، ایمان کے بعد تو فسق کا نام ہی برا ہے۔‘‘

الزام تراشی اور برے نام دینا گالی دینے کے خاندان ہی کی برائیاں ہیں۔ اس آیت میں واضح طور پر ان دونوں برائیوں کو فسق قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ حجرات کے اس مقام سے واضح ہے کہ یہاں اسے فسق قرار دینے کی وجہ اس ضابطۂ اخلاق سے انحراف ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے صادق بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے اور ایمان کے بعد فسق کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے رویے کی کوئی مناسبت ایمان کے ساتھ نہیں ہے۔

دوسری برائی مسلمان کا قتل ہے۔ قرآن مجید میں قتل کا جرم واضح کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(النساء ۴: ۹۳)
’’اور جو جانتے بوجھتے کسی مسلمان کو قتل کرتا ہے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس نے ان کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘

اس آیت میں قتل کی وہی سزا بیان ہوئی ہے جو سزا کفر کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ ایمان جیسی بڑی نیکی اور اسی طرح کی دوسری نیکیوں کو کھا جاتا ہے اور مسلمان ہونے کے باجود قاتل کا انجام وہی ہے جو کافر کا انجام ہے۔

قرآن مجید کے اس بیان کے بعد کفر کے لفظ کی وہ تمام توجیہات بے معنی ہیں جو اس روایت کی شرح کے تحت کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ قتل جیسے شنیع فعل کو جائز کرنے پر کہا گیا ہے یا یہ کہ کفران نعمت کے معنی میں آیا ہے یا یہ کہ کفار کے مسلمانوں کو قتل کرنے سے مشابہت کا بیان ہے یا یہ کہ یہ مسلمان کے مسلمان پر قائم ہونے والے حق کے انکار کے لیے آیا ہے یا یہ کہ یہ تحذیر میں مبالغہ ہے وغیرہ۔

ترمذی نے اپنی سنن میں اس روایت کے ساتھ ایک توضیح بھی رقم کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ قصاص میں عفو اور دیت کا حق واضح کرتا ہے کہ یہ حقیقی کفر نہیں ہے۔ دراں حالیکہ دیت یا عفو کا تعلق سزا سے ہے اور اگر کوئی قاتل قصاص، دیت اور عفو کو توبہ وتلافی کا ذریعہ نہیں بناتا تو وہ قرآن کی بیان کردہ سزا سے محفوظ نہیں ہے۔ کفر کا لفظ یہاں قانونی معنی میں نہیں، حقیقی معنی میں ہے۔ کتنے ہی قانونی مسلمان ہیں جو قیامت کے دن ایمان سے عاری قرار دیے جائیں گے۔

متون

امام مسلم نے اس حدیث کا ایک ہی متن نقل کیا ہے۔ یہ متن دو جملوں پر مشتمل ہے: ایک جملے میں مسلمان کو گالی دینے کو فسق قرار دیا گیا ہے۔ اس بات کو ادا کرنے کے لیے زیر بحث روایت میں ’ سباب المسلم فسوق‘ کے الفاظ آئے ہیں۔دوسرے متون میں ’ المسلم‘ کی جگہ ’ المؤمن ‘ اور ’ فسوق‘ کی جگہ ’ فسق‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ ’قتال‘ والا جملہ تمام روایات میں ایک ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کچھ راویوں نے اسے مقدم کر کے ’ قتال المسلم کفر ‘ کی شکل دے دی ہے۔ تمام متون میں دو ہی جملے نقل ہوئے ہیں، لیکن ایک روایت میں ’ حرمۃ مالہ کحرمۃ دمہ ‘ کا اضافہ بھی منقول ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اختلافات محض لفظی ہیں کوئی اضافی بات ان سے معلوم نہیں ہوتی۔

کتابیات

بخاری، رقم۴۸، ۵۶۹۷، ۶۶۶۵؛ مسلم، رقم۶۴؛ ابن حبان، رقم۵۹۳۹؛ ترمذی، رقم۱۹۸۳، ۲۶۳۵؛ نسائی، رقم ۴۱۰۵۔ ۴۱۱۱؛ ابن ماجہ، رقم۶۹، ۳۹۳۹۔۳۹۴۱؛ سنن کبریٰ، رقم ۳۵۶۸۔ ۳۵۷۷؛ سنن بیہقی، رقم۱۵۶۳۰، ۲۰۶۹۷؛ مسند احمد بن حنبل، رقم۳۶۴۷، ۳۹۰۳، ۴۱۲۶، ۴۱۷۸، ۴۳۴۵؛ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۴۰۰؛ مسند ابو یعلیٰ، رقم۴۹۹۱، ۵۲۷۶، ۶۰۵۲؛ مسند طیالسی، رقم۲۴۸، ۲۵۸؛ مسند حمیدی، رقم۱۰۴؛ المعجم الکبیر، رقم۳۲۵، ۱۰۱۰۵، ۱۰۳۰۸، ۱۰۳۱۶، ۱۰۳۸۰؛ المعجم الاوسط، رقم۷۳۴؛ الآحاد والمثانی، رقم۱۰۸۷؛ مسند ابن الجعد، رقم ۲۷۱۵؛ الادب المفرد، رقم۴۲۹، ۴۳۱۔

________________

B