[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ایساہواکہ ملک و قوم کو درپیش ایک اہم مسئلے کے سامنے معاشرے اور ریاست ،دونوں نے اعتراف عجز کر لیا۔ مذہبی راہنما ،سیاسی جماعتیں اور اہل دانش اس کا کوئی حل نہ دے سکے۔ ان کی طرف سے کوئی حل سامنے آیا بھی ہے تو اس کی جلو میں اتنے سوال محوسفرہیں کہ ان کا کوئی جواب موجودنہیں۔ ریاست کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مذاکرات سے طاقت تک، ہر حربہ آزما چکی لیکن کسی اقدام کا نتیجہ حسب منشا سامنے نہیں آیا۔ تا دمِ تحریر فو جی آپریشن جا ری ہے۔ بے گھرکب تک واپس جا سکیں گے،آپریشن کس حد تک نتیجہ خیز ہو گا،عسکریت پسندی کا مستقبل کیا ہے۔۔۔سوالات باقی ہیں اور ابہام بھی :
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو ایک عالمی معرکہ آرائی کے لیے بطور میدانِ جنگ منتخب کر لیا گیاہے ۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا نے جب اپنے عالمی اثر ورسوخ اوراقتدار کو توسیع دینے کاارادہ کیا تو اس بار اس کا ہدف مسلمان ملک تھے ۔اس پر مسلمانوں میں سے بعض گروہوں نے غیر ریاستی سطح پر مسلح مزاحمت کا فیصلہ کیا ۔ انھوں نے نظری سطح پر اس کی ایک دینی توجیہہ کرتے ہوئے ، اپنی حکمت عملی کا شرعی جواز فراہم کیا اور اس کے ساتھ یہ چاہا کہ ایک ایسا خطہ ء زمین حاصل کیا جا ئے جہاں سے وہ آزادانہ طور پر عملی اقدام کر سکیں۔تدریجاً ان کی نظرِ انتخاب افغانستان پر پڑی جسے انھوں نے اپنی جدوجہد کا مرکز بنالیا۔ ان کو آسانی یہ ہو ئی کہ یہاں طالبان کو اقتدار حاصل تھا جو نظری طور پر اس نقطہ نظر کو درست سمجھتے تھے اور جن کے ساتھ ان کی تب سے شنا سائی تھی جب وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف بر سر پیکا ر تھے۔ امریکا نے ا س مرکز کے خاتمے کے لیے جب افغانستان پر فوج کشی کی تو اس غیر ریاستی گروہ نے اپنا مرکز پاکستان منتقل کر دیا ۔ اب افغانستان میں اقتدار سے ہٹائے جانے والے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل تھے ۔ فاٹا وغیرہ کے علاقے میں ان لوگوں کے روابط ۱۹۸۰ء کی دہائی سے موجود تھے جب انھیں سوویت یونین کے خلاف جاری مسلح جدو جہد میں پاکستانی حکومت اور فی الجملہ معاشرے کی تائید حاصل تھی ۔ پاکستان کے ان علاقوں میں اپنا مرکز قائم کرتے وقت انھیں مقامی لوگوں نے خوش آمدید کہااور یوں ابتدائی مرحلے میں بغیر کسی مزاحمت کے انھیں ایک متبادل ٹھکانا میسر آگیا۔ اس کے لازمی اور ناگزیر نتیجے کے طور پراب امریکا کا اگلا قدم یہ تھا کہ پاکستان سے ان مراکز کو ختم کیا جائے۔اس عرصے میں افغانستان میں بھی امریکی حملے کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز ہو چکا تھا ، جس کے بارے میں امریکا کا خیا ل تھا کہ اس مزاحمت کو پاکستان سے مدد مل رہی ہے جہاں یہ مرکز منتقل ہوا ہے۔اب ایک طرف اگر اہل مزاحمت کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں بے معنی ہو گئیں تو دوسری طرف امریکا اور نیٹو کے لیے بھی ان کی کوئی عملی حیثیت باقی نہ رہی۔تاہم امریکا نے افغانستان اورپاکستان میں بظاہرکچھہ فرق باقی رکھنے کی کوشش کی ۔پاکستان میں اس نے علانیہ اپنی فوجیں نہیں اتاریں اور بڑی حد تک پاکستانی فوج اور حکومت کو اعتماد میں لیا اور یہ کو شش کی کہ وہ جو اقدام کرنا چاہتا ہے ، وہ پاکستانی حکومت اور فوج ہی کے ہاتھوں انجام پائے۔ عملاً صورت حال یہ پیش آئی کہ اس جنگ کے فریقین ،مسلح مزاحمتی عناصر اور امریکا ، دونوں نے ہماری مرضی کے برخلاف پاکستان کو بطور میدان جنگ منتخب کر لیا اور دونوں پاکستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔
مسلح جدوجہد کرنے والے اپنے اس مؤقف کا دینی استدلال پیش کرتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے :
۱۔مسلمان ممالک کے مابین موجود سرحدوں کی کو ئی شرعی حیثیت نہیں ۔ ان کا یہ دینی حق ہے کہ وہ افغانستان ، پاکستان یا کسی مسلمان ملک میں داخل ہوں اور کوئی حکومت یا قانون انھیں اس سے روک نہیں سکتا۔
۲۔پاکستانی حکومت اور معاشرے کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں ۔ حکومت نہ صرف یہ ذمہ داری ادا کرنے سے گریزاں ہے ،بلکہ عملاً مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس طرح ایسی حکومت کی اطاعت پاکستانی مسلمانوں پر واجب نہیں رہی اور انھیں اس کے احکام ماننے سے انکار کر دینا چاہیے۔یہ عالمی جنگجو کسی ریا ستی حکومت کے بجاے اس نظم کے پا بند ہیں جسے انھوں نے اپنی مسلح جد وجہد کے لیے تر تیب دیا ہے۔
۳۔پاکستانی مسلمانو ں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مجاہدین کاساتھ دیں اور اپنی حکومت کی اطاعت سے انکار کر دیں۔جو ایسا نہیں کر تے وہ منا فقین ہیں یا پھر غیر مسلمو ں کے ساتھی۔ان کی جان لینے میں شریعت کا کو ئی حکم ما نع نہیں۔
۴۔اس وقت دنیا میں کہیں اسلامی حکومت موجود نہیں ۔ ماضی قریب میں یہ حیثیت طالبان کی حکومت کو حاصل تھی۔ یہ حکومت ناجائز طریقے سے ختم ہوئی ، لیکن ملا عمر بدستور اہل ایمان کے لیے امیرالمومنین ہیں۔
امریکا اور اس کے حواریوں کا مؤقف کچھ اس طرح ہے۔
۱۔بین الاقوامی قوانین کے تحت ، ایک ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی، لہٰذا پاکستان کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی سر زمین امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ ہو۔
۲۔پاکستانی حکومت کے اقدامات اس معاملے میں فیصلہ کن ثابت نہیں ہو سکے ،اس لیے اگر حالات میں بدستور بہتری نہیں آتی تو امریکا کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر خود کارروائی کرے ۔
۳۔امریکا نے یہ کارروائی کیسے کرنی ہے اور کب کرنی ہے، اس کا فیصلہ وہ اپنی صوابدیداوراپنے حواریوں کے مشورے سے کرے گا۔ اس کے لیے سفارتی کوششوں، پاکستانی حکومت پر تدریجاً دباؤ میں اضافہ،اقتصادی امداد اور فوجی اقدام سمیت ہر طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ا س وقت پاکستانی حکومت اور معاشرہ اس صورت حال کوکس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
حکومت ایک مخمصے کا شکار ہے۔ فریقین میں سے کوئی اس کی بات ماننے اور سننے کو تیار نہیں۔ مجاہدین اس کی حیثیت اور رٹ دونوں قبول نہیں کرتے اور امریکا بھی ہر طرح کے دباؤ اورلالچ سے یہ چاہتا ہے کہ حکومت پاکستان اس کے مفادات کو ترجیح بنا کر حکمت عملی اختیار کرے ۔اس معاملے میں واقفانِ حال کا کہنا یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین وہ اعتماد موجود نہیں جو یک سوئی کے لیے ضروری ہے ۔امریکیوں کا یہ خیال بھی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اظہارِ وابستگی تو کرتی ہے، لیکن اسے ریاستی اداروں کا مکمل تعاون میسر نہیں۔ریاستی ادارے امریکا کے ساتھ تصادم نہیں چا ہتے ،لیکن ان کے نزدیک افغانستان میں طالبان کے مکمل خاتمے کا مطلب ایک ایسے گروہ کا تسلط ہو گا جو پاکستان کا مخالف اور بھارت سے قریب ہے۔ہماری سرحد کے ایک طرف بھارت ہے جو ہماری سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ افغانستان میں بھی ایک پاکستان دشمن حکومت قائم ہوجائے۔ان اداروں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں مزاحمت کر نے والوں اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر نے والوں کے مابین امتیاز عملاًمشکل ہو گیا ہے۔امریکا کے خلاف عالمی مزاحمت کا روں اور افغانستان کے طالبان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکا۔
فوجی آپریشن کے بعدبظاہر یہ لگتاہے کہ امریکا اور پاکستان کے اربابِ حل و عقد میں اعتماد کا رشتہ بحال ہو گیا ہے۔اس کی ایک شہادت امریکا کی اقتصادی امداد میں اضافہ ہے۔بایں ہمہ امریکی قیادت کے بعض بیانات سے بھی اندازہ ہو تا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ادراک کر نے لگی ہے۔ لیکن یہ فضا کب تک قائم رہتی ہے،اس وقت کچھ کہنا مشکل ہے۔اگر ما ضی کے تجربات پیش نظر رہیں تو خو ش گما نی کا جواز کم ہو جا تا ہے۔ علاقائی حوالے سے جب تک امریکی اور پاکستانی مفادات کا تصادم باقی ہے ،شک اور ابہام کے پردے حائل رہیں گے۔
پاکستانی معاشرے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ فی الجملہ اہل مزاحمت کے مؤقف کو درست سمجھتا ہے۔ اہل الرائے اور تجزیہ کار اسی کی تائید میں حسبِ توفیق دلائل فراہم کرتے ہیں۔ اہل مذہب اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس وقت معاشرے میں امریکا مخالف جذبات کا غلبہ ہے اور لوگ امریکی تناظر ہی میں معا ملات کو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔وہ طالبان کو امریکا کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتے ہیں۔پاکستانی فوج جب ان کے خلاف اقدام کرتی ہے تو یہ سوال سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث آتا ہے کہ اس معرکے میں کام آنے والے فوجی اہلکار کیا شہید قرار دیے جا سکتے ہیں ؟ لوگ معاملے کو امریکی عزائم کے تناظر میں دیکھتے ہیں توانھیں مجاہدین سے ہمدردی ہوتی ہے۔ جب ریاستی مفادات کوپیش نظر رکھ کر سوچتے ہیں تو حکومتی مؤقف درست لگتاہے۔ یہ تناظر بدلتا رہتا ہے اور اس طرح معاشرتی سطح پرکوئی یکسوئی پیدا نہیں ہوتی۔
اگر چہ حکومتی اداروں کی حد تک بظاہریک سوئی ہے، لیکن معاشرتی سطح پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابہام میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے کچھ اسباب ہیں۔
۱۔’’طالبان ‘‘ کے نام سے اس وقت جن لوگوں کو موسوم کیا جاتا ہے، ان میں یہ یکسانیت تو بلا شبہ موجود ہے کہ وہ سب تشدد، طاقت اور بندوق کے زور پر ریاست اور معاشرے ، دونوں سے اپنا “مؤقف“ منوانا چاہتے ہیں ، لیکن اس” مؤقف” کے بارے میں ان کے درمیان یکسوئی نہیں ہے۔
۲۔ایک گروہ وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ افغانستان میں اس وقت طالبان امریکی قبضے کے خلاف جو جدوجہد کر رہے ہیں ، ہمیں ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرنی چاہیے۔اگر کوئی حکومتی پالیسی یا ادارہ انھیں اس سے منع کرتا ہے تو وہ اس کی بات ماننے کے پابند نہیں ہیں ۔ یہ گروہ حکومت پاکستان سے براہ راست تصادم کا قائل نہیں ہے لیکن اس راہ میں اگر یہ مرحلہ آجائے تو اس سے گریز بھی نہیں کرتا۔
۳۔تحریک طالبان پاکستان کے نام سے بھی ایک گروہ موجود ہے جس کا ایجنڈا پاکستان میں امریکی مداخلت کو روکنا ہے اور یہاں ان لوگوں کی حکومت قائم کرنا ہے جو امریکا کے خلاف مسلح جدوجہد کے قائل ہیں ۔ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عدم استحکام پیدا کیا جائے اور مسلح جدوجہد کے نتیجے میںیہاں اپنا اقتدار قائم کیا جائے۔ بیت اﷲ محسود اس گروہ کے رہنما ہیں ۔ یہ گروہ پاکستان میں علانیہ دھماکے کرتا اور خود کش حملوں کو جائز سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص واجب ا لقتل ہے جو ان کے نظریات سے اختلاف کرتا ہے۔ یہ کسی سرحد کو نہیں مانتے اور ملا عمر کو امیر المومنین قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ اظہار وفاداری کرتے ہیں ۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ فاٹا کے علاقے کو اپنا مرکز بنا کر آگے بڑھیں اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے عملاً حکومت کومفلوج کر دیں تا کہ اقتدار پر ان کے قبضے کے امکانات روشن ہو جائیں۔
۴۔عالمی مزاحمتی تحریک کے وہ افرادجو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان منتقل ہو ئے ہیں ،وہ اس حکمت عملی کے لیے نظریاتی اور عملی حمایت و نصرت فراہم کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کواس سے پہلے عراق اور پھر افغانستان میں اختیار کیا جا چکا ہے۔
۵۔ایک مسلح گروہ وہ ہے جو فضل اﷲ صاحب کی قیادت میں سوات میں منظم ہوا۔ ابتداً اس کا ایجنڈا مقامی تھا۔ انھوں نے اپنے فہم کے مطابق سوات میں نفاذ اسلام کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ ان کے تصور اسلام کے مطابق خواتین کی تعلیم غیر اسلامی ہے، اس لیے انھوں نے ایک طرف لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بچیو ں کو سکول سے اٹھا لیں۔ دوسری طرف قوت کے ساتھ لڑکیوں کے سکول بند کرنا شروع کر دیے۔ اسی طرح انھوں نے جس گاؤں کے نام کو غیر اسلامی سمجھا ، اسے بدل دیا۔ جب انھوں نے ان معاملات میں حکومت کی عملداری قبول نہیں کی تو ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس موقع پر فاٹا وغیرہ میں موجود تحریک طالبان پاکستان اور عالمی مزاحمتی تحریک کے افراد ان کی مدد کو پہنچ گئے۔ اس سے جہاں فضل اللہ صاحب کے ایجنڈے میں توسیع ہوئی، وہاں عملاً وہ تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بن گئے۔ اب وہ پورے ڈویژن میں نفاذِ شریعت کامطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس مرحلے پر ان کا اور صوفی محمد صاحب کاایجنڈا ایک ہو گیا۔
۶۔مولانا صوفی محمد’’تحریک نفاذِ شریعت محمدی‘‘ کے نام سے مالا کنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے لیے کئی سالوں سے مصروف جدوجہدہیں۔ وہ کبھی طالبان سے وابستہ نہیں رہے اور نہ کبھی سوات میں اٹھنے والی فضل اللہ صاحب کی تحریک سے متعلق رہے۔صوفی محمد صاحب کے بارے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کے فہم کے مطابق اس وقت دنیا میں کہیں اسلامی حکومت موجود نہیں ۔ ۱۹۹۶ء میں افغانستان میں طالبان کی جو حکومت قائم ہوئی ، وہ اسے اسلامی حکومت سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب امریکی حملے کے نتیجے میں یہ حکومت ختم ہوئی تو اس کے دفاع کے لیے اٹھنا ان کے نزدیک فرض عین تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ہزاروں متأثرین کو لے کر امریکی فوج سے لڑنے افغانستان پہنچ گئے۔ اس کے نتیجے میں ان کے بہت سے کارکن امریکی ڈیزی کٹرز کی غذا بن گئے۔ مولانا صوفی محمد واپس آئے تو حکومت پاکستان نے انھیں گرفتار کر لیا۔ چند سالوں بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ ان کے بارے میں دوسری بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے تشدد یا طاقت کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر انھوں نے فضل اﷲ صاحب سے اعلان برأت کیا تھاجو تحریک نفاذ شریعت محمدی میں شامل تھے اور ان کے داماد ہیں۔
جب سوات میں سرحد حکومت نے فضل اﷲصاحب سے معاملہ کر نا چاہا تو مولانا صوفی محمدنے ثالث کا کردار اداکیا۔ اس دوران میں،جیسا کہ واضح کیا گیا، تحریک طالبان پاکستان اور فضل اﷲ صاحب میں روابط قائم ہوچکے تھے۔ اس سے جہاں طالبان نے سوات کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، وہاں فضل اﷲ صاحب کے ایجنڈے میں بھی توسیع پیدا ہوئی اور وہ بڑی حد تک طالبان سے ہم آہنگ ہو گئے۔ مولانا صوفی محمد کی یہ ثالثی اب ایک طرح سے تحریک طالبان اور سرحد حکومت کے مابین تھی۔ اس کے نتیجے میں مالا کنڈ ڈویژن میں عدل ریگولیشن کانفاذ ہوا اور اس کی ناکامی پر وفاقی حکومت نے وہاں ایک بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے کے جو سیاسی اور سماجی اثرات ہیں ، ہم بطور قوم مدتوں ا س کے اثر سے نکل نہیں پائیں گے۔
۷۔طالبان، وہ افغانی ہوں یا پاکستانی ، ان کا ایجنڈا مقامی ہو یا بین الاقوامی، اپنے دینی فہم کے اعتبار سے دیوبند مکتبِ فکر سے متعلق ہیں۔یہ مکتبِ فکر کئی مذہبی رحجانات کا مجموعہ ہے۔ مثال کے طور پر پنج پیر(سرحد )سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد طاہر کاتوحید پر اصرار نسبتاً زیادہ ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے جمعیت اشاعت التوحید والسنہ قائم کی ۔ اس حوالے سے ان کا ہدف بریلوی مکتبِ فکر اور ان کے مظاہر رہے ،جن میں مزارات وغیرہ شامل ہیں۔اس نقطہ نظر کے حامل جب ’’طالبان‘‘ بنے تو انھوں نے اپنے تشدد کا ہدف ان افراد اور رسوم کو بھی بنانا ضروری سمجھا جو ان کے فہم کے مطابق مظاہر شرک و بدعت تھے۔اسی طرح دیوبند مکتب فکر ہی میں بعض لوگ وہ ہیں جو اہل تشیع کے بارے میں اسی طرح کی شدت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے ملک بھر میں شیعہ مذہب کے مظاہر پر حملوں کواپنے جہاد کا حصہ سمجھا۔ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کے ساتھ بھی ان طالبان کا تصادم ہو تا رہا۔ ایسے ہی ایک واقعے میں اہل حدیث کمانڈر شاہ خالد اور ان کے ساتھیوں کی جان کام آئی۔ یہ بات البتہ قابل غور ہے کہ افغانستان میں طالبان اورالقاعدہ سے وابستہ عرب مجاہدین میں،جن کی اکثریت مذہب کے اعتبار سے غیرمقلد اور اہل حدیث ہے، مسلک کی بنیاد پر کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے اسباب شاید مذہبی سے زیادہ معاشی و سیاسی ہیں۔
۸۔پاکستان کے اہل تشیع نے ان طالبان کے خلاف کئی مرتبہ اپنے غصے اور تشویش کا اظہار کیا، لیکن شاید آبادی کے اعتبار سے اقلیت میں ہونے کے باعث اس پر معاشرے نے فی الجملہ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ تاہم جب طالبان نے مزاروں اوربریلوی علماء کو نشانہ بنایا تو اس کا ایک ملک گیر رد عمل ہوا۔ یہ چونکہ ایک مسلکی عصبیت کے تحت جنم لینے والا رد عمل ہے ، اس لیے نتائج کے اعتبار سے ملکی یکجہتی کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ بریلوی مسلک کے اعتبار سے سواد اعظم کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اگر وہ جواباً مسلح ہو گئے تو صورت حال بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔
ان سب عوامل نے مل کر حالات کو گھمبیر اور مبہم بنا دیاہے۔ یہی سبب ہے کہ ریاست اورمعاشرہ یکسوئی کے ساتھ یہ طے نہیں کرسکا کہ انھیں طالبان کے اس مسئلے سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ معاشرہ جب دینی حمیت اور امریکی مظالم کے حوالے سے دیکھتا ہے تو طالبان کا حامی بن جاتا ہے۔ جب زمینی حقائق اور ملک و قوم کے مفادات اسے اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تو پھر ان کا ناقدبن جاتا ہے ۔ دل و دماغ کی اس کشمکش میں چونکہ فتح عام طور پر دل کی ہوتی ہے ، اس لیے معاشرے کا عمومی رحجان طالبان کے حق میں ہے۔اس طرح عوام اور حکومت کے مابین اعتماد کا وہ رشتہ استوار نہیں ہو سکا جو اس نازک مرحلے پر بہت ضروری تھا۔ اس بنا پر یہ لازم ہے کہ ہم چند سوالات کو قومی سطح پرمکالمے کا موضوع بنائیں اور اس بات کی شعوری سطح پر کوشش کی جائے کہ معاشرے کے سب طبقات میں ان کے جواب پر ممکن حد تک یک سوئی پیدا ہو ۔ یہ سوالات کچھ اس طرح ہیں۔
۱۔طالبان جس مذہبی نقطہ نظر کو پیش کر رہے ہیں ، کیا قرآن و سنت اور انسان کا تاریخی اورعمرانی تجربہ اس کی تائید کرتا ہے؟
۲۔ہم اس وقت جس عالمی برادری کے فرد ہیں ، اس سے وابستگی کا تقاضا کیا ہے؟ دوسرے لفظوں میں اخلاقاً اور قانوناً ہماری بین الاقوامی ذمہ داری کیا ہے؟
۳۔بطور ایک ملک ہمارے مفادات ہم سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں؟
۴۔مسلمان قوم کے طور پر ہم درپیش جارحیت کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
۵۔پاکستانی قومیت اورمسلم ملت کے مفادات میں اگر تضاد ہو تو اسے کیسے حل کیا جا سکتاہے؟
۶۔کیا کسی ایک اقلیتی گروہ کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے طور پر امت کو درپیش مسئلے کی نشاندہی کرے ، ،اس کا حل پیش کرے اور اس کے لیے عملی اقدام بھی کرے جس کے اثرات پوری امت پر مرتب ہو رہے ہوں؟
۷۔قومی سلامتی کا جو تصور اس وقت ہماری دفاعی اور خارجی پالیسی کی نظریاتی اساس ہے،کیا کسی نظر ثانی کا متقاضی ہے؟
سب سے پہلے ہم طالبان کے دینی استدلال کا جائزہ لیتے ہیں۔
مسلمان اہل علم کے ما بین اس باب میں کبھی دو آرا نہیں رہی ہیں کہ مسلمانوں کی بالفعل حکومتیں جب کسی دوسری قوم یا اقوام کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتی ہیں تو اس کی پاسداری ریاست کے ایک ایک شہری پر واجب ہے۔ اس کا یہ حق باقی نہیں رہتا کہ وہ انفرادی یا گروہی حیثیت میں اس سے مختلف مؤقف اختیار کرے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ حکومت اسلامی حوالے سے مثالی ہو۔ اگر حکومت مسلمانوں کی ہے اور حکمران کسی مثالی کردار کے حامل نہیں ، اس کے باوجود ان کی اطاعت سے انکار نہیں ہو سکتا الا یہ کہ وہ کسی کھلے کفر کے مرتکب ہوں یا معصیتِ خالق کا حکم دیں۔۔ آج جو بین الاقوامی سرحدیں موجود ہیں ، یہ اقوام عالم کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ ہم شرعاً پابندہیں کہ ان کا احترام کریں۔ وعدوں کے معا ملے میں قرآن مجید اتنا واضح ،حساس اور دو ٹوک ہے کہ وہ کسی مسلمان ریاست کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے اور پھر اس سے رو گردانی کرے۔ سورہ الا نفال میں کہا گیا:
’’ وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کرکے نہ آ جائیں۔ ہاں دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے دیکھتا ہے۔‘‘ (الانفال ۸: ۷۲، ترجمہ: تفہیم القرآن)
سید ابولاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ آیت میں معاہدہ کے لیے’’ میثاق‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ ’’وثوق‘‘ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہدو پیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ معاہدہ ہو‘‘ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارلاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں ،بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاقی ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ،ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومتِ دارالاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف ان مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں۔‘‘ ( تفہیم القرآن،۲ ۔۱۶۲)
مولانا امین احسن اصلاحی ’’واﷲ بما تعملون بصیر‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ یہ معاہدہ کے احترام کو مؤکد کرنے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ معاہدہ کے احترام کے منافی خفیہ یا علانیہ جو قدم بھی تم اٹھاؤ گے خدا اس سے بے خبر نہیں رہے گا۔‘‘
سورہ انفال، واضح ہے کہ غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی اور اس میں جنگ کے مابعدحالات پر تبصرہ ہے۔ اس میں بھی ، جب کشیدگی اور معرکہ آرائی کا ماحول ہے۔ مسلمانوں کوجو آداب سکھائے جا رہے ہیں ، ان میں معاہدوں کی پاسداری کو ہر بات پر مقدم رکھا جا رہا ہے۔ اگر ہم اس ہدایت کو دورِ حاضر کے تناظر میں دیکھیں تو ہم نے بطورِ قوم بین الاقوامی برادری کے ساتھ کچھ معاہدے کر رکھے ہیں ، جن کے ہم شرعاً پابند ہیں ، حکومتی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔ اگست ۱۹۴۸ء مولانا مودودی سے سوال کیا گیا :” آپ تو اس حکومت کو شرعی حکومت ہی نہیں ما نتے پھرمسلمانوں پر ایک غیر شرعی حکومت کے طے کر دہ معا ہدات کی پا بندی کیوں لازم قرار دیتے ہیں؟جواباً ان کا کہنا تھا:
’’ پاکستان کی حکومت خواہ شرعی ہو یا غیر شرعی،بہر حال وہ سب مسلمانوں کے اپنے منتخب کر دہ نما ئندوں پر مشتمل ہے۔ایسی حکومت جو بھی کام کر تی ہے وہ قوم کی طرف سے کر تی ہے اور اس کے اعمال کے لیے پو ری قوم خدا اور خلقِ خدا دونوں کے سامنے ذمہ دار ہے۔اسی بنا پر تو میں کہتا ہوں اگر مسلمانوں کے اپنے منتخب کر دہ نما ئندوں کے ہاتھوں ایک غیر شر عی حکومت قا ئم ہو اور چلتی رہے تو پو ری قوم خدا کے ہاں جواب دہ ہو گی اور اسی بنا پر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ دوسری قوموں کے ساتھ جو معا ہدات پا کستانی حکومت طے کرے ،ان کی شر عی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے پاکستان کے با شندے آزاد نہیں ہو سکتے۔فرض کیجیے، یہ حکو مت کسی دوسری قوم سے کو ئی قرض لے یا کو ئی نیاتجا رتی معا ملہ کرے جس میں ہمارے ملک پر کو ئی رقم واجب الادا ہو تی ہے توکیاہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ چونکہ یہ حکومت غیر شرعی ہے، لہذا ہم ا س کے لیے ہو ئے قرضے اور اس کے ما لی مطا لبات کوادا کر نے کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ ‘‘
پاکستان آج جس بین الاقوامی معاہدے کا پابند ہے، اس کے تحت یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اس کے شہری بھی اس کے پابند ہیں۔ اگر کچھ غیر ملکی امریکا کے خلاف پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو حکومت پاکستان اس کا حق رکھتی ہے کہ وہ انھیں طاقت سے روک دے اور پاکستانی شہریوں پر لازم ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی پالیسی درست نہیں تو وہ اس پر تنقید کر سکتے ہیں ،لیکن اس کے دائرہ اطاعت سے نکل نہیں سکتے۔
اسی طرح کوئی گروہ یہ حق بھی نہیں رکھتا کہ وہ حکومت سے بندوق کے زور پر یہ مطالبہ کرے کہ فلاں علاقے میں اس کی مرضی کی شریعت نافذ کی جائے بصورت دیگر وہ حکومت کی قوت نافذہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان ہر فقہی تعریف کے مطابق ’’ دارالاسلام ‘‘ہے۔ یہاں ہم ایک معایدۂ عمرانی کے تحت رہ رہے ہیں۔ وہ ۱۹۷۳ء کا آئین ہے جو ریاست کوقرآن و سنت کا پابند کرتا ہے ۔ حکمرانوں میں خرابیاں موجود ہیں اور عوام میں بھی ، تاہم ان میں سے کوئی گروہ اجتماعی سطح پر اسلام کا باغی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں خلافت راشدہ کے بعد کبھی مثالی حکمران نہیں رہے ۔ ان کی شخصی خرابیاں کسی طرح موجودہ حکمرانوں سے کم نہیں تھیں، لیکن اس کے باوجود تمام فقہااور اہل علم نے اسے ’’ دارالاسلام ‘‘ہی کہااور مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کو ضروری قرار دیا۔
سماجی اور عمرانی حوالے سے دیکھیے تو عملاً یہ ممکن نہیں ہے کہ اقوام عالم کوکسی معاہدے کا پا بند کیے بغیر بین الاقوامی سطح پر امن قائم رکھا جا سکے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طاقت ور اکثر ایسے معا ہدوں کا لحاظ نہیں رکھتے، لیکن اس کے باوجود ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج ہر ملک کی متعین سرحدیں ہیں ، اس کی فوج ہے، تجارت ہے، اس کے بحری جہاز دنیاکے سمندروں میں سفر کرتے ہیں ، اس کے ہوائی جہاز دنیا کی فضاؤں میں پرواز کرتے ہیں۔یہ سب امور ایک بین الاقوامی معاہدے کے پابند ہیں اور اس سے دنیا میں ایک نظم قائم ہے۔ اگر کوئی قوم ان کا احترام نہ کرے تو دنیا فساد کا گھر بن جائے اور ہم اس قبائلی معاشرے میں پہنچ جائیں جب صرف تلوار اور طاقت کے زور پر فیصلے ہوتے تھے۔
دنیا میں طاقت ور ان معاہدوں کو پامال کرتے رہے ہیں ،لیکن ایک قدرتی نظام کے تحت ان کے اس تجاوز کا علاج بھی ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پردونوں عالمی جنگوں کے بعد طاقت کا ایک نیا توازن سامنے آیا۔ اس کے بعد روس نے جب حدود کو پامال کیا تو اسی قدرتی نظام سے اس کے سدِ باب کا اہتمام ہوا۔ اب امریکا جب طاقت کے زعم میں بین الاقوامی قوانین کو توڑتا ہے تو اس پر ایک عالمی ردِعمل ہے اور دنیا ایک نئے توازن کی تلاش میں نکل پڑی ہے۔یہ سب اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون موجود ہے جو بڑی طاقتوں کو بھی من مانی سے روکتا ہے۔ اس سے کمزوروں کے لیے یہ مواقع موجود ہیں کہ وہ فطرت کی قوتوں کو مسخر کریں اور اپنی کمزوری کا مداوا کریں۔ یہ کام امریکا نے کیا ، جاپان نے کیا، اقوام مغرب نے کیا اور ہمارے لیے بھی اسی طرح امکانات موجود ہیں جیسے دنیا کے لیے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک نہ کرنا اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کمزوری پر بین الاقوامی قانون نے جو پردہ ڈال رکھاہے ،اسے ہم اپنے ہاتھو ں سے اتار پھینکیں اور طاقت ور کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ ہماری سرزمین پر قبضہ کرے اور ہمیں سیاسی و معاشی طورپر محکوم بنائیں ۔پھر داخلی اعتبار سے دیکھیں تو یہ رویہ لازماً معاشرے کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتا ہے ۔ اگر ایک ملک کے اندر کسی ایک علاقے میں ایک گروہ عددی طاقت جمع کرے اور پھر مطالبہ کرے کہ وہاں اس کی مرضی کا قانون ہو گایایہ کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر اقوام سے دوستی و دشمنی کا فیصلہ اس کی خواہش کے تحت کرے تو اگلے دن کسی دوسرے علاقے سے ایسا گروہ اُ ٹھ سکتا اور اپنے انداز کی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ کیا اس کے بعد یہ ممکن رہے گاکہ ملک کو کسی ایک نظام کے تحت چلایا جا سکے۔ شریعت بھی اس بارے میں واضح ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی حکمران کی اطاعت کی جائے گی اور اجتماعیت کے باب میں فیصلہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ہی کرے گا۔ان فیصلوں میں اعلانِ جہاد اور نفا ذِ حدود وغیرہ سب شامل ہیں۔ ایک حکمران کی مو جو دگی میں اگر کوئی دوسرااطاعت کا مطالبہ لے کر کھڑا ہوتا ہے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ مثال کے طور پر مسلم کی روایت ہے:
’’ جو اس حالت میں تمہارے پاس آئے کہ تم ایک شخص کی حکومت پر متفق ہو اور وہ تمہاری جمیعت توڑنا چاہے یا تم میں پھوٹ ڈالے اسے قتل کر دو‘‘ ( باب خیار الائمہ و شرار ھم)
اس طرح فرمایا گیا:
’’ جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (مسند احمد)
شریعت کا یہ واضح حکم موجود ہے کہ نظم اجتماعی کے خلاف اقدام یا بغاوت کرنا جرم ہے۔ اس کا یقینی نتیجہ فساد ہے جوشریعت کو کسی صورت گوارا نہیں۔ایسے حالات میں ریاستیں اس کا اختیار رکھتی ہیں کہ وہ موقع و محل کی مناسبت سے کوئی اقدام کریں۔ کبھی وہ ایسے باٖغی گروہ کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہیں تاکہ انھیں نظم اجتماعی کا پابند بنایا جاسکے اور کبھی وہ طاقت کے استعمال سے بھی حکومت کی رٹ قائم کر سکتی ہیں ۔ شریعت نے اس باب میں حکومت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے آخری قدم اُٹھا سکتی ہے۔
اب ایک نظر ان نتائج پر بھی ڈالنی چاہیے جو اس حکمت عملی کے باعث مسلمانوں پر مرتب ہوئے۔ یہ حکمت عملی اس سے پہلے عراق اور افغانستان میں اختیار کی گئی ۔انجام یہ ہوا کہ دونوں ملک معاشی وسماجی اعتبار سے تباہ ہو ئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا یا خلاف؟ اب یہی کچھ پاکستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان بھی خاکم بدہن تباہی کے دہانے پر کھڑاہے۔ معیشت، سماج ۔۔ کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ کیا یہی نتیجہ ہمیں مطلوب تھا؟
اس نقطہ نظر کے برخلاف عام طور پر یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ جب بیرونی قوت حملہ آور ہو تو کیا ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھ جانا چاہیے یا کسی خارجی قوت کا تسلط قبول کر لینا چاہیے؟ اس باب میں ہمارے سامنے دو رویے ہیں ۔ ایک وہ جو عراق پر امریکی حملے کے بعد صدر صدام حسین کے حامیوں اور سنی مسلمانوں نے اپنایا ۔ یہ مسلح مزاحمت کا راستہ ہے ۔ دوسرا وہ جو اہل تشیع نے اختیار کیا ۔ عراق اس معاملے میں اس لحاظ سے بد ترین مثال ہے کہ جس طرح امریکا نے وہاں بالفعل قبضہ کیا، ویسا قبضہ افغانستان یا پاکستان پر نہیں کیا گیا ۔عراق میں اہل تشیع نے امریکا کا دیا ہوا انتخابی نظام قبول کیااور اس بات کے مواقع پیدا کیے کہ امریکا جلد از جلد وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لے۔ جس بین الاقوامی قانون کا ہم نے ذکر کیا ہے ، اس کی اہمیت یہاں بھی واضح ہو رہی ہے۔ جب عراق میں حالات معمول کی طرف لوٹنے لگے تو امریکی حکومت پر عالمی برادری اورامریکی عوام دونوں طرف سے یہ مطالبہ بڑھنے لگا کہ امریکا عراق سے واپس جائے۔ اگر عراق میں شیعہ قیادت یہ فیصلہ نہ کرتی اور مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی تو جہاں امریکی فوجوں کی مدت قیام میں اضافہ ہوتا، وہاں عراق کے عوام مزید اضطراب و انتشار میں مبتلا رہتے۔
ہمارے نزدیک طالبان اگر افغانستان میں انتخابی عمل کا حصہ بن جاتے تو جہاں افغانستان میں زندگی معمول کی طرف لوٹتی ،وہاں امریکا کا قیام مختصر ہوتااور اس پر واپسی کے لیے بین الاقوامی دباؤبھی بڑھ جاتا۔اس مفروضے کومان لینے کے باوجود کہ یہ انتخاب منصفانہ نہ ہوتے،اس سے طالبان کے لیے امکانات کی یہ کھڑکی ضرور کھل جاتی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کوپرامن طور پر بڑھائیں اور دوسری طرف افغان عوام اس عذاب سے نکلیں جس میں و ہ مدت سے مبتلا چلے آتے ہیں۔ امن سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ انتخاب طالبان کی قیادت کو کرنا تھا کہ وہ امریکا کے زیر اثر کرزئی جیسے افراد پر مشتمل ایسا افغانستان قبول کریں جس میں عوام کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہویا ایسے افغانستان کا انتخاب کریں جس میں روز افغان عوام مرتے ہوں اور ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہو۔ افسوس یہ ہے کہ طالبان کا انتخاب دوسرا رہا۔
جو لوگ پاکستان میں اس حکمت عملی کو اختیار کیے ہوئے ہیں، انھیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سے پہلے عراق اورافغانستان میں اس سے مسلمانوں کے لیے کیا خیر برآمد ہوا ؟ کیا پاکستانی عوام اور ملک کو انتشار میں مبتلا کرنا اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے؟ یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دنیا میں کوئی حل مثالی نہیں ہوتا۔ ہم حالات میں موجود امکانات کو دیکھتے اور پھر ان سے آغاز کرتے ہوئے مثالی حل کی طرف بڑھتے ہیں ۔ یہ بات قانون قدرت کے خلاف ہے کہ کسی کے لیے امکانات کادروازہ بند ہو جائے۔ بصیرت اسی چیز کا نام ہے کہ ہم امکانات کو تلاش کریں اور پھر منزل کی طرف پیش قدمی کریں۔
اس کے ساتھ ہمیں ملت اور قو می ریا ست کے فرق کو بھی سمجھناہو گا۔اسلام نے مسلمانوں کو کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ وہ لا زماًایک ہی نظمِ اجتماعی کے تحت رہیں۔ایک وقت میں مسلمانوں کی کئی حکو متیں ہوسکتی ہیں اور ہر حکومت اپنے دائرے میں ا ن احکام کی پا بند ہو گی جو اسلام نے اجتماعیت کے باب میں دیے ہیں۔یہ مسلمان حکو متیں باہمی طور پر کوئی بھی معا ہدہ کر سکتی ہیں۔جب وہ کو ئی معا ہدہ کر لیں تو اس کی پاس داری ان پر شرعاً واجب ہو گی۔ مثال کے طور پر آج او آئی سی ایسے ہی ایک معا ہدے کا مظہر ہے۔مو جو دہ حالت میں مسلمانوں کی قو می ریاست اور ملت مسلمہ کے مفادات میں تضاد کو دور کر نے کی یہی واحد صورت ہے کہ اس معا ہدے کو مضبوط بنا یا جا ئے اور اس میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے۔
مو جو دہ حا لات اس بات کے بھی متقاضی ہیں کہ ہم اس بنیادی تصور (Doctrine)پر نظر ثانی کریں جسے ہم قومی سلامتی کی اساس مانتے رہے ہیں۔بین الاقوامی تعلقات میں کو ئی دشمنی دائمی ہے نہ کو ئی دوستی۔تاریخ میں اس کی اتنی مثالیں مو جو د ہیں کہ ان کا بیان محال ہے۔اس پسِ منظر میں یہ گمان کر نا کہ پاکستان اور بھارت کی دشمنی دائمی ہے شاید منطقی طور پر درست نہ ہو۔ہماراخیال ہے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی قوت بننے کے بعد اس بات کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں کہ باہمی اختلافات کسی بڑی جنگ پر منتج ہوں ۔ اگر دونوں ممالک کی علمی و سیاسی قیادت اس بات کو سمجھ سکے کہ جب تک ہم دوسرے کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتے رہیں گے، ہم میں سے کو ئی بھی خوف کی فضا سے نکل کر ترقی کے را ستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔جب ہم علا قائی مفاد میں سوچنا شروع کریں گے تو اس پر امن مسا بقت کا آغاز ہوگا جس کا میدان اقتصادیات اور سماج و تہذیب ہوں گے۔اس مسا بقت میں ہم ایک دوسرے کے حریف بننے کے بجاے دیگر اقتصادی و تہذیبی قوتوں کا مقا بلہ کر سکتے ہیں جو بڑی حد تک،پہلے ہی علاقائی مفادات کے تحت جمع ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد یقیناًً ہم اس پو زیشن میں ہو سکتے ہیں کہ اس خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کے اثر ورسوخ کو کم کرسکیں جو دونوں میں سے کسی کے مفا د میں نہیں ہے۔پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ یک طرفہ طور پر اس جانب قدم بڑ ھائے۔اس کا آغاز قومی سلامتی کے اس تصور پر نظر ثانی سے ہو نا چاہیے جو اس وقت ہماری خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیا د ہے۔یہ کام ظاہر ہے کہ ایک دن میں ہو گا نہ بیک جنبشِ قدم۔یہ تدریجاٍ ہو گا لیکن ہمیں اس سوال پر غور و فکر سے ابتدا کر نا ہو گی کہ اس حکمت عملی نے ہمیں کیا دیا ؟ مو جو دہ ریا ستی و سماجی خلفشار کیا اس حکمت عملی کا بالوا سطہ نتیجہ نہیں ہے؟
اس تجزیے کی روشنی میں ان سوالات کے جواب بڑی حد تک واضح ہوگئے ہیں جو ہم نے سطور بالا میں اٹھائے تھے۔ا س بنیاد پر ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہر طرح کے طالبان نے جو نقطہ نظر اور حکمت عملی اپنائی ہے ، اس کے لیے نہ کوئی شرعی دلیل موجود ہے نہ تاریخی و عمرانی حقائق ان کی تائید میں کھڑے ہیں۔
آخری سوال کے جواب میں بھی اب کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ عقل عام کا تقاضا ہے کہ جس اقدام کے اثرات کسی اجتماعیت پر مترتب ہو رہے ہوں، اس کا فیصلہ بھی اجتماعی بصیرت سے ہوناچاہیے۔ فرد واحدیا کسی گروہ کو یہ حق کسی طرح نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ایک ارب سے زیادہ افراد کے مقدر کا فیصلہ کرے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ہم خیال لوگوں نے جو اقدام کیا، آج پوری امت اس کی گرفت میں ہے ۔ یہی معاملہ طالبان کا بھی ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ اس کا فیصلہ او آئی سی اور مسلمان اہل اقتدار پر چھوڑ دیں ۔ ممکن ہے یہ بھی کوئی مثالی حل نہ ہو، لیکن اس وقت اس کا کوئی متبادل یا بہتر حل ہمارے پاس موجو د نہیں ہے۔شرعی اعتبار سے بھی اجتماعی امور میں کسی فردِ واحد یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کو ئی اقدام کرے۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے تو ضروری ہے کہ معاشرہ پوری یک سوئی کے ساتھ ایک نقطہ نظر اختیار کرے اور ملک و قوم کو درپیش اس بحران سے نکالنے کی سعی کرے۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر گروہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
۱۔ علما کو ہر مسلکی عصبیت اور ہر خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے واضح کرنا ہوگاکہ جو لوگ ریاست کی عمل داری کے منکر ہیں ، ان کے بارے میں قرآن و سنت کی راہنمائی کیا ہے اور اس باب میں دین ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔وہ عوام کو یہ بھی بتا ئیں کہ جہاد کا حق صرف ریاست کو ہے۔اگر یہ حق افراد اور گروہوں کو تفویض کر دیا جا ئے تو ہر کو ئی اپنے طور پر ہدف کا تعین کرے گا اور اس کا نتیجہ اس کے سوا نہیں ہو سکتا کہ مسلمان معا شرے فساد سے بھر جا ئیں۔ہم تیس سال سے عملاً یہ بھگت رہے ہیں۔
۲۔ اہل دانش کو بھی قوم کی راہنمائی کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنا ہو گی کہ امریکی ظلم و نا انصافی کی مذمت اور مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی مخالفت دو الگ الگ معاملات ہیں ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے رائے ساز اگر اس گروہ کی مذمت کرتے ہیں تو ساتھ ہی اسے امریکی مظالم کا رد عمل قرار دے کر سند جواز فراہم کرتے ہیں۔اس وقت امریکا کے غیر منصفانہ کردار کے بارے میں مسلمانوں میں دو آراء نہیں ، لہٰذا اس پر زورِ استدلال صرف کرنا تحصیلِ حاصل ہے۔اہل دانش لوگوں کی یہی راہنمائی کریں کہ امریکا دشمنی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ہی گھر کو آگ لگا دیں۔ ہم نے اگر عزت کے ساتھ جینا ہے تو اس کی واحد صورت تعمیر ہے ۔ تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہم رد عمل کی نفسیات سے نکلیں اور تصادم سے گریز کریں کیونکہ تعمیر کے لیے مہلت عمل ناگزیر ہے ۔ہماری قوت ہی دراصل سدِ جارحیت (Deterrence)ہے۔ قوت علم سے آتی ہے، اس لیے ہمیں قومی تعمیر کی اساس علم کو بنانا ہو گا۔
۳۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے ساتھ اعتما دکا رشتہ بہتربنائے اور ان کے سامنے حالات کی صحیح تصویر رکھے۔ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکن حد تک شفاف بنائے اور اس باب میں جو بھی پالیسی اپنائے ، اسے پارلیمنٹ کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔ حکومت عوام میں امید پیدا کرے اور خود انحصاری کے ایک تدریجی پروگرام کی اس طرح آبیاری کرے کہ عوام اور حکومت میں اعتماد کا رشتہ مستحکم ہو ۔ عوام اس حوالے سے ابہام کا شکار ہیں کہ پاک امریکا تعلقات اور طالبان کے معاملے میں ریاستی سلامتی کے ذمہ داراداروں کا کردار کیا ہے اور کس حد تک قومی مفادات سے ہم آہنگ اور عوامی حکومت کے تابع ہے۔ یہ ابہام دور کیے بغیرعوام اور حکومت کے مابین اعتماد کا رشتہ قائم ہونا مشکل ہو گا۔
۴۔ سول سوسائٹی کو بھی عوامی شعور کی بیداری کے لیے ایک مہم منظم کرنا چاہیے۔ اسے درپیش سوالات کے جواب فراہم کرتے ہوئے معاشرے کی قوت کو مجتمع کرنا ہو گاتاکہ وہ اس بحرا ن کا اعتماد کے ساتھ سامنا کر سکے۔
آج ہمیں اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہے۔ آج بھی اگرہم اپنے اپنے تعصبات اور گروہی مفادات سے بلند نہ ہو سکے اور ہم نے قرآن و سنت کے احکام اور انسان کے عمرانی تجربے کو نظر انداز کیا تو تاریخ ہم سے کوئی مختلف سلوک نہیں کرے گی۔ اس کے اصول کسی امتیاز کو قبول نہیں کرتے۔ریا ست نے اگر مسلح گروہوں کی مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے تو حکومت اورعوام دونوں کو سمجھنا ہو گا کہ اس مہم کا ایک منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے۔اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ بہت سے مخلص لوگ اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں ۔ہمیں اس پر بھی سوچنا ہو گا کہ اپنی نئی نسل کے اخلاص کو ہم کیسے ایک مثبت رخ دے سکتے ہیں اور ان کی جان اور جذ بہ دونوں کو محفوظ کر سکتے ہیں۔
_________________