تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں مادی کامیابیوں کو مقصود بنانے کے بعد انسان کا سفر اسے دو ہی منزلوں تک پہنچاتا رہاہے۔ایک غفلت اور دوسری اضطراب۔دنیا کے حسن و جمال اور اس کی مادی رونقوں نے جب کبھی انسان کے لیے اپنا دامن کشادہ کیا، اس نے خواہش کی رنگین بستی میں اپنے لیے غفلت ومستی کے عالیشان گھروندے ہی تعمیر کیے ہیں ۔ وہ گھروندے جن کی کھڑکیوں سے موت کے اُس پار موجود دنیا کا کوئی منظردکھائی دیتا اور نہ کسی دریچے سے آسمانی وحی کے روشن سورج کی کوئی کرن ہی اندر داخل ہوپاتی ہے۔
دوسری طرف جن لوگوں کی خواہشات کے گھروندے حالات کی بے رحم موجوں کے ہاتھوں برباد ہوجاتے یا جن کی حساس طبعیت مادیت کے غبار میں اٹ کر اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کرتی اور اندھی خواہش کے بجاے بینا عقل کی نگاہوں سے زندگی کو دیکھنا چاہتی ہے، وہ ہمیشہ جذباتی بحران، روحانی اضطراب اور عقلی عدم اطمینان کا شکار رہتے ہیں۔بعض لوگوں نے اس صورتحال کا تدارک ترک دنیا سے کرنا چاہا ، مگر یہ مچھلی کو سمندری شکاریوں سے بچانے کے لیے خشکی پر لاڈالنے کا نام ہے۔ یہ حل نہیں ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔
انسانوں کے خالق کی نظر سے اس کی غفلت پوشیدہ ہے اور نہ اس کا اضطراب۔ چنانچہ اس نے ہر دور میں انسانوں کو غفلت سے جھنجوڑنے کے لیے اپنے رسولوں کو انذار کا حکم دیا۔ انہیں قیامت کی پیشی سے خبردار کیا ، خدا سے ملاقات کی یاددہانی کرائی، اس کی جنت کی خوشخبری دی اور اس کے عذاب کی پکڑ کی تنبیہ کی۔
یہ تنبیہ انسان کو خواب غفلت سے بیدار کر کے اس کی روح میں ایک اضطراب پیدا کرتی ہے۔ یہ اضطراب بظاہرسکون کو ختم کرتا ہے، مگر نتیجے کے اعتبار سے یہ اِس دنیا کے ہر غم، دکھ اور درد سے پیدا ہونے والے اضطراب کو ختم کردیتا ہے۔یہ غمِ بندگی انسان کو خدا پرستی کے جس راستے پر ڈالتا ہے ، اس کا ہر قدم انسان کو ختم نہ ہونے والے اطمینان سے روشناس کراتا ہے۔ یہی راہِ بندگی جذبات میں اعتدال، عقل کے اطمینان اور روح کے سکون کی ضامن ہے۔
آج کے دور میں جب انسانوں کی غفلت اور اس کی بے سکونی دونوں اپنے منتہائے کمال پر پہنچ چکے ہیں، روز قیامت خدا کے حضور پیشی سے خبردار کرنا اور اس دنیا میں خدا پرستی اور بندگی کی راہ پر چلنے کی دعوت دینا سب سے بڑا کام بن چکا ہے۔ آج غافلوں میں اضطراب پیدا کرنا اور کرب و اضطراب کے شکار لوگوں کے دلوں کو سکون واطمینان سے بھرنا سب سے بڑی انسانی خدمت ہے۔یہ میری زندگی کی سب سے بڑی دریافت ہے اور اس دریافت کو دوسروں تک پہنچانا میرے لیے اب سب سے بڑا کام ہے۔
پیش نظر تحریر میں اس عظیم کام کے دوسرے جز پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔یعنی بندگی اور خداپرستی کی دعوت کس طرح انسان کے جذباتی، عقلی اور روحانی کرب کو سکون میں بدل سکتی ہے۔ بندگی کس طرح دین اسلام کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، یہ اس تحریر میں میرا موضوع نہیں۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب’’ میزان‘‘ میں ’دین حق‘ کے عنوان سے اس موضوع پر تفصیلی کلام کرکے یہ بتایا ہے کہ بندگی کس طرح اپنا سفر طے کرتی ہوئی تزکیہ و احسان کی اس منزل تک جاپہنچتی ہے جودین کا مطلوب ہے۔اس تحریر میں میرے پیش نظر اسلام کی دعوت بندگی کے اُس پہلو کو سامنے لانا ہے جسے اختیار کرنے میں فرد و اجتماع کی زندگی کا اطمینان پنہاں ہے۔ بندگی کی دعوت، اللہ کے بندوں کو اللہ کے قدموں میں لا ڈالنے کا نام ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہر دو جہاں کا سکون پوشیدہ ہے۔ یہی ہر نبی اور ہر رسول کی دعوت رہی ہے ۔ اگلے صفحات میں اسی دعوت کو دور جدید کے پس منظر میں اور دور قدیم کی غلط تعبیرات سے بچتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ میری یہ تحریر دین کے مقاصد اور اس کی تعلیمات کے مطابق رہے۔یہ کوشش اگر کامیاب رہی ہے تو اس کی وجہ استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کا فیضِ تربیت ہے۔یہ اُنھی کے علم کا فیضان ہے کہ میں دین کے جز و کل، اصل و فرع، اصول و مقاصد اور احکام و علل کودین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت کے مطابق سمجھنے کے قابل ہوا ہوں۔ اس لیے میں اپنی یہ تحریر استاذ گرامی کے نام معنون کرتا ہوں۔اللہ رب العزت کی بارگارہ میں التجا ہے کہ وہ اس کام کو اپنی بارگاہ میں قبولیت عطا فرمائے۔
انسان ہر دور میں جس چیز کو سب سے بڑھ کر تلاش کرتا رہا ہے وہ سکون و اطمینان کی دولت ہے۔صدیوں سے انسان لذت و راحت، مال و دولت، طاقت و اقتدار، جاہ و حشم جیسے مادی اور مذہب و روحانیت، عبادت و ریاضت، اخلاق و خدمت جیسے غیر مادی راستوں سے جس منزل پر پہنچنے کی سعی کرتا رہا ہے وہ یہی سکون و اطمینانِ قلب کی منزل ہے۔
کچھ لوگ سکون و اطمینان کی اس حیثیت کا حقیقی شعورنہیں رکھتے۔وہ عام طور پر اسے ایام فراغت کا ایک نتیجہ اور ہنگا م زندگی کے تناؤسے نجات کا ایک ثمرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ انسانی شخصیت کے اندرونی تقاضوں کو ان کا مکمل جواب ملنے کا عمل ہے۔یہی پوری انسانی سعی و کاوش کا مقصود ہوتا ہے۔اس بات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ اپنے ہر عمل کے بارے میں اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ یہ میں کیوں کرتا یا کرتی ہوں؟ جو جواب ملے اس کے بارے میں پھر یہی سوال کردیں۔تھوڑی ہی دیر میں واضح ہوجائے گاکہ ہمارے ہر کام کے پیچھے آخری مطلوب سکون کا حصول یا حاصل اطمینان کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
انسانیت کے تمام مادی ، اخلاقی،عقلی اور روحانی اعمال اور رویوں کا آخری مقصود اطمینان و سکون کا حصول اور اس کو ختم کردینے والی چیزوں سے بچنا ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے جب جنت کی کامیابی کو بیان کرنا چاہا تو اس کے لیے وہ تعبیر اختیار کی جو اطمینان کا سب سے مکمل بیان ہے یعنی ’لا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘ ۔اس آیت کا درست ترین ترجمہ وہی ہے جو فکر فراہی کے اہل علم کرتے ہیں کہ ’جنت میں مستقبل کا کوئی اندیشہ ہوگا نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ‘۔ خوف کا تعلق مستقبل میں پیش آنے والے کسی مسئلے اور حزن کا تعلق ماضی کے کسی حادثے سے ہوتا ہے۔ یہی دو چیزیں مل کر انسانی سکون کو غارت کردیتی ہیں۔ خدا کے بندے جنت میں اس چیز سے محفوظ ہوں گے اور اسی لیے جنت میں داخلے کے وقت انہیں’نفس مطمئنۃ ‘کہہ کر بلایا جائے گا۔اور اس تحریر میں ہم یہ بتائیں گے کہ دنیا میں بھی جس قدر سکون ممکن ہے ،وہ خدا ئے واحد کی بندگی کے راہ میں پوشیدہ ہے۔
عام طور پر لوگ خوشی و مسرت کو وہ حیثیت دیتے ہیں جو انسانی زندگی میں سکون و اطمینان کوحاصل ہے، لیکن یہ بات ٹھیک نہیں۔ خوشی ایک وقتی کیفیت کا نام ہے جو عام طور پر مادی مقاصد میں کامیابی کا ایک ضمنی نتیجہ ہوتی ہے۔یہ سکون کے مستقل احساس کا بدل نہیں بن سکتی۔ جو لوگ خوشی کی تلاش کرتے ہیں دراصل ان کا مقصود بھی سکون ہوتا ہے کیونکہ خوشی دراصل سکون ہی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔انسان خوشی کی تمنا اس لیے کرتا ہے کہ یہ آخر کار سکون کو جنم دیتی ہے۔سکون خوشی کے مقابلے میں ایک برتر چیز ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا اورمستقل طور پر انسانی شخصیت کا احاطہ کیے رہتا ہے۔یہ احساس مادی ذرائع اور کامیابی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ غیر مادی ذرائع سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔
دور جدید کا انسان اس اعتبار سے بڑا بدقسمت ہے کہ تمام تر سائنسی اور سماجی ترقیوں کے باوجود وہ زمانۂ قدیم کے انسان کے مقابلے میں سکون سے زیادہ محروم ہے۔ قدیم زمانے کا انسان دور جدید کی سہولیات سے محروم تھا، اس کی آزادی؛ جاگیرداری، غلامی اور آمریت کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی تھی، مگر اس کے باوجود اس کا ذہن آج کے انسان کی طرح بے سکونی اور اس کی روح ایک اضطرابِ مسلسل کا شکار نہ تھی۔ یہ زمانہ جو پری موڈرن ازم (Pre Modernism) کہلاتا ہے ، عقیدے کی بنیاد پر استوار تھا اور یہی عقیدہ بڑی حد تک انسانی سکون کا ضامن تھا۔
موڈرن ازم (Modernism) کے آغاز پر جب علوم کا ارتقا ہو ا تو عقیدے کی جگہ عقل کوافکار انسانی میں بنیادی مقام حاصل ہوگیا۔اس دور میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مروجہ عقیدہ اور اس کے بہت سے عملی پہلو دور جدید کے عقلی سوالات کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔یوں مشرکانہ اور متصوفانہ مذاہب کی عقلی کمزوری تو واضح ہوگئی ، مگر جدید عقلی علوم خود بھی ان سوالات کے واضح جواب نہ دے سکے جن کے برے بھلے جواب مروجہ مذاہب بہرحال پیش کیا کرتے تھے۔تاہم اس دور میں علوم کے ارتقا نے انسانی زندگی کو اجتماعی طور پر بہت بہتر کردیااور فرد کے لیے بھی بڑی آسانیاں اور سہولیات میسر کردیں۔ لیکن انسانی زندگی میں یہ بہتری اس کے قلب کو سکون نہ دے سکی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ انسان بظاہر ایک مادی وجود ہونے کے باجود اپنی اساس میں ایک نفسی یا روحانی وجود ہے اور محض مادی بنیادوں پر اس کے مکمل اطمینان کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی تفصیل ہم آگے کریں گے ، لیکن سر دست یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ سائنسی ترقیاں جن کا مرکز و محور انسان کا مادی وجود تھا ، اس کے نفسی یا روحانی وجود کی تسکین کا کوئی اہتمام نہ کرسکیں بلکہ الٹا مشرکانہ عقیدے کی بے اعتباری واضح کرکے، اس برے بھلے انتظام سے انسانوں کو محروم کرنے کا سبب بن گئیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مادی وجود کی تسکین کو جب مقصود بنالیا جائے تو اس کے نتیجے میں خیر و شر سے بے نیاز انسان اوراخلاقی اقدار کو پامال کرنے والے شیطان جنم لیتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کے لوگ کچھ ہی عرصے میں زمین کو فساد سے بھردیتے ہیں ۔یہی کچھ انسانیت کے ساتھ اس وقت ہوا جب بیسویں صدی کے نصف اول میں موڈرن ازم اپنے عروج پر تھا۔ ایسے وقت میں دو عظیم جنگوں میں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا سانحہ پیش آگیا ۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں جب تیسری جنگ عظیم ہر لمحہ متوقع تھی اورخوفِ فناکے تاریک سایوں نے انسانیت کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، انسانی فکر و فلسفہ نے پوسٹ موڈرن ازم (Post Modernism) میں قدم رکھا ۔ اس دور میں عقل اور عقیدہ کے بجائے جذبات کو حکمران بناکر وجودِ انسانی کی سکوں بخشی کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اس کی ایک مثال وہ مادر پدر جنسی آزد ی ہے جو تہذیب و اخلاق کے ہر بندھن کو توڑچکی ہے۔ اوراب بات یہاں تک جاپہنچی ہے کہ ہم جنسی پرستی کے غیر فطری تعلق کوقانون کے بعد مذہب سے بھی سند جواز دلوانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
دوسری طرف اب جبکہ یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ سائنسی علوم کی روشنی میں حیات و کائنات کے بارے میں انسانی سوالات کا جواب دینا ممکن نہیں ہے، سائنسی علوم کی توجہ انسانی معاشرے اور فرد کی زندگی کو بہتر اور آسان بنانے پر مرکوز ہوچکی ہے۔پوسٹ موڈرن ازم کے اِس دور میں سائنس مادی جذبات و احساسات کی تسکین کے لیے کنزیومر ازم تخلیق کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ یعنی انسان کے مادی وجود کو زیادہ آسانی، زیادہ تفریح اور زیادہ مزہ فراہم کیا جائے۔ مگر ان مادی ذرائع سے انسان نے پہلے کبھی سکون پایا اور نہ اب پاسکتا ہے، بلکہ جیساکہ ہم نے بیان کیا یہ حل غفلت اور شیطنیت کا وہ امتزاج پیدا کرتا ہے جو بحر وبرکو فساد سے بھردیتا ہے۔
انسانی شخصیت کو سکونِ کامل کس طرح مل سکتا ہے، اس سوال کا جواب انسانی شخصیت اور اس کی ساخت کو سمجھنے پر منحصر ہے۔انسان اپنی ساخت کے اعتبار سے بے حد پیچیدہ واقع ہوا ہے۔اس کی شخصیت کو جنم دینے اور اس کے اعمال کو تخلیق کرنے والے اندرونی اور بیرونی عوامل اس قدر متنوع ، متضاد اورپیچیدہ ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔البتہ ہم کوشش کریں گے کہ وحی الٰہی سے حاصل ہونے والے علم کی بنیادپر اور نفسیات، فلسفہ اور سائنس کی اس روشنی میں جو وحی الٰہی کے مطابق ہے، ان عوامل کی تفصیلات بیان کریں۔
انسانی شخصیت انسان کے اپنے وجود کے اندر کارفرما عوامل اور خارج کی اس زمین سے پھوٹتی ہے جس پرو جود کا یہ پودا جنم لیتا ہے۔یہ خارجی زمین تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے جو انسانی شخصیت کی تشکیل میں اس کے ظہور سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم ان کو پہلے بیان کردیتے ہیں۔
ماں باپ کے ذریعے نسل در نسل ملنے والی وہ نسبی اور نسلی خصوصیات جو انسا ن کو اس دنیا میں آنے سے قبل ہی مل جایا کرتی ہیں۔
انسان کے افکار و خیالات، عقائد و نظریات اور عادات و معمولات کا تعین کرنے والے وہ تمام عوامل جو ابتدا ہی سے اس کے ارد گرد موجود رہتے ہیں اور غیر ارادی اور طور پر اس کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
یہ وہ خارجی علم اور اصول ہیں جو معاشرہ کسی فرد کو اپنا ایک کارآمد جز بنانے کے لیے اسے دینا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ان خارجی عوامل کے ساتھ انسان کی اپنی ساخت اس کی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اس کے دو بنیادی اجزا ہیں۔
۱۔مادی وجود
۲۔نفسی وجود
مادی وجود تین چیزوں سے عبارت ہے:
قدو قامت، رنگ وروپ، چہرہ و ناک نقشہ اور اعضا وقویٰ وغیرہ سے۔
جو اس کی زندگی اور بقا کے ضامن ہیں مثلاً بھوک، پیاس، جنس، تحفظ و بقا وغیرہ۔
یہ ایک نوعیت کاحیوانی شعور ہے جو حواس سے حاصل ہونے والی معلومات اور جبلتوں سے پیدا ہونے والے تقاضوں کی نوعیت متعین کرتا اور ان کے مطابق کچھ بنیادی جذبات (جیسے شہوت،خوف، قبولیت وغیرہ) کو تحریک دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے یہ شعور ایک طرح کی سمجھ بھی رکھتا ہے اور جذبات بھی، مگر یہ سرتاسر حواس اور جبلتوں کے تابع ہوتا ہے اور ان سے آزاد ہوکر فیصلہ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حیوانوں میں ان کی جنس کے اعتبار سے یہ شعور کچھ کم زیادہ تو ہوسکتا ہے، مگریہ حواس اور جبلتوں سے بلند ہوکر خودمختارانہ عمل کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تاہم انسان کا حیوانی وجود اس کے وجود کے دوسرے جز سے مل کر روبہ عمل ہوتا ہے اور اسی لیے حواس اور جبلتوں سے بلند ہوکر عمل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دوسرا جز انسان کا نفسی وجود ہے۔
انسان کا اصل وجود یہی ہے۔ اسے فلسفۂ یونان میں روح،قرآن میں نفس اور علم نفسیات میں سیلف (Self)کہا جاتا ہے۔یہ اپنی ہستی یا انا کے شعور کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفخِ روح کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔اسی مناسبت سے اسے روحانی وجود بھی کہا جاسکتا ہے۔یہ اپنا ظہور ارادہ واختیار کی شکل میں کرتی ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ حیوانی شعور کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوتی ہے۔اس کے تین بنیادی اجزا ہیں۔
۱۔عقلی وجود
یہ نفس انسانی کا بنیاد ی جزہے جسے عام طور پر مائنڈ (Mind)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوچ، یاد داشت،سمجھ،شعور، تجزیہ و تحلیل ،غور وفکر ،تصور و تخیل سب اسی کے اجزا ہیں۔ہم انہیں ملاکر ایک عقلی وجود سے تعبیر کرسکتے ہیں۔قرآن کریم عام طور پر اس کے لیے سمع ، بصر اور قلب کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ یہ انسا ن کا بنیادی شرف ہے جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے اور اسی کی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوتا ہے۔
۱۔خیر و شر کا شعور
اسے عام طور پر ضمیر (Conscience) کہاجاتا ہے۔اسی کے تحت انسان مادی اور حیوانی تقاضوں سے بلند ہوکر صحیح و غلط کا فیصلہ کرتا ہے۔قرآن کریم اسے نفس لوامہ کے نام سے بیان کرتا ہے۔
۲۔ ذوق انسانی
یہ انسانی وجود کاوہ گوشہ ہے جو اسے جمالیات کا شعوردیتا اور اس کی زندگی میں لطیف جذبات پیدا کرتا ہے۔جمال حیوانیت کی ضروریات کو حسین خواہشات کا روپ دیتا اور لطافت جبلت کے کثیف جذبات کو اعلیٰ انسانی جذبوں میں ڈھالتی ہے۔
انسانی شخصیت ماں کے پیٹ ہی سے ان تمام اندرونی اور بیرونی عوامل کے تحت تشکیل پانا شروع ہوجاتی ہے اور جسمانی بلوغ کے ساتھ ہی انسان کی شخصیت کی بنیادی تشکیل کا عمل مکمل ہوجاتا ہے ۔
انسانی مسائل کی نوعیت
انسانی شخصیت کا یہ تجزیہ اس با ت کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ کیوں دور جدید کی تمام تر ترقیاں ا س کی زندگی کو تسکین فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ارتقا کے نظریے کے پیش نظر جدید ذہن اس بات کوماننے کے لیے تیار نہیں کہ انسان ایک مادی اور حیوانی وجود سے بڑھ کر بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ انسان کے نفسی وجود کے مظاہر یعنی عقل، ضمیر اور ذوق انسانی کو اگر سمجھتا بھی ہے تو سر تا سر حیوانی وجود کی ایک ارتقا یافتہ شکل کی صورت سمجھتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی توجہات کا تمام تر مر کز صرف مادی اور حیوانی وجود رہ جاتا ہے۔ یوں ایک طرف تو نفسی وجود کے اپنے تقاضے آسودگی سے محروم رہ جاتے ہیں دوسری طرف اِس دنیا کی محدودیتیں انسان کے مادی تقاضوں کی تکمیل کی راہ میں بار بار رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانی شخصیت مختلف مسائل اور بحرانوں کا شکارہوجاتی ہے۔ہم تفہیم کی غرض سے ان کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔جذباتی بحران ، روحانی بحران اور عقلی عدم اطمینان۔
۱۔جذباتی بحران
اوپر انسانی وجود کا جو تجزیہ ہم نے پیش کیا ہے، اس میں یہ بات واضح ہے کہ انسان کا اصل وجود اس کا نفسی وجود ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں یہ نفسی وجود انسان کے مادی وجود سے باہر باقی نہیں رہ سکتا۔مزید یہ کہ اس مادی وجود کی زندگی و بقا کے لیے جوتقاضے اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، وہ ایک طرف حیوانی جبلتوں اور جذبات کی شکل میں لمحہ بہ لمحہ اپنا ظہور کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف انہیں ذوق انسانی کی شکل انسان کے نفسی وجود کے اندر اپنا وہ حمایتی بھی میسر ہے جو جمالیات کی آنچ پر ان ضروریا ت کو سلگتی ہوئی خواہشات کا روپ دے دیتا ہے۔چنانچہ ضروریات، خواہشات اور ان کے پس پردہ کام کرنے والے جذبات زندگی بھر انسان کو اپنے دام میں پھنسائے رکھتے ہیں۔نتیجتاً اس کی عقل و شعوراور ارادے کی قوت مادی دنیا کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے کر اس میں لذت کامل اور عیش دوام کی طلبگار ہوجاتی ہے۔ مگر یہ ایک ایسا خواب ہے جو اس دنیا میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اس راہ میں پہلے ہی قدم پر انسان کی محدودیتیں سامنے آجاتی ہیں۔انسان کا ذو قِ جمال خواہشات کی جو ختم نہ ہونے والی پیاس پیدا کرتا ہے، انسان کے خارج کی دنیا اس کی تسکین کا کوئی ذریعہ فراہم نہیں کرتی۔قدم قدم پر رکاوٹیں انسان کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ اس کی انا کا بھرم ،اس کی خواہشات کا گھروندا، اس کے خوابوں کا تاج محل اوراس کی امید کا دیا وقت اور حالات کی بے رحم آندھیوں کی زد میں آکر بار بار برباد ہوتے رہتے ہیں۔
لوگ دنیوی نعمتوں کے حصول کے لیے مال و دولت کو اپنا نصب العین بناتے ہیں، مگر کتنے ہی لوگ ہیں جو تمام تر محنت و مشقت، صلاحیت و کوشش کے باجود اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انسان امید باندھتا اور خواہش کرتا ہے، مگر اپنی پسند اور خواہش کا گھر، بیوی ، کیرئیر اور معاشرے میں مقام کم ہی لوگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔غالب ترین اکثریت کے حصے میں سوائے محرومی، مایوسی ، دکھ، غم اور الم کے کچھ نہیں آتا۔پھر ا ن محرومیوں کے ساتھ ، غربت، بیماری، اموات، دیگر لوگوں کے پیدا کردہ مسائل وغیرہ وقفے وقفے سے انسان کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہر انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی جذباتی بحران کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ بار ہا ایسا بھی ہوتاہے کہ زندگی کے کسی مرحلے پر ملنے والی محرومیوں اور مایوسیوں سے پیدا ہونی والی جذباتی ہلچل شخصیت کو ایک مستقل عدم توازن کا شکار کردیتی ہے۔ یا کم از کم اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑجاتی ہے جو زندگی کو کبھی نارمل نہیں ہونے دیتے ۔دور حاضر میں جب مادی چکاچوند نے خواہش کے عفریت کو بالکل بے لگام کردیا ہے، انسانوں کا جذباتی بحران بہت بڑھ گیا ہے اور متعدد نفسیاتی بیماریاں بہت عام ہوگئی ہیں۔
۲۔روحانی بحران
دنیا میں بہت سے لوگ مادی دوڑ میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے مسائل کی ایک دوسر ی دنیا جنم لیتی ہے۔ جو لوگ یہ کامیابیاں حاصل کرلیں ان پر یہ بھیانک انکشاف ہوتا ہے کہ اس دنیا کی ہر نعمت ملنے کے ساتھ ہی اپنی کشش کھودیتی ہے۔اس دنیا کا حسن ، ذائقہ، لذت اور سماعت گو ذوقِ جمال کو وقتی طور پر خوشی و مسرت دیتے ہیں لیکن جس طرح کسی تپتے ہوئے صحرا کی پیاس بارش کی کوئی ایک بوچھاڑ نہیں بجھا سکتی اسی طرح خواہشات کا ریگزار مادی نعمت کی ہر بوچھاڑ کے بعدبھی سدا کا پیاسا ہی رہتا ہے۔
لذتیں حواس کی تسکین تو کرسکتی ہیں، مگر نفس انسانی کی تسکین ان کے بس کی بات نہیں۔ہر لذت ملنے کے فوراً بعد اپنی کشش کھودیتی ہیں۔اس کے بعد بوریت، یکسانیت اور اکتاہٹ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان ایک کے بعد دوسری خواہش کے پیچھے بے تحاشہ دوڑ پڑتا ہے۔ مادیت کی صحرانوردی میں ہمہ وقت اڑنے والی غفلت کی ریت آہستہ آہستہ انسان کے روحانی وجود کو مادیت کی قبر میں دفن کردیتی ہے۔
مگر خدا کی پھونکی ہوئی روح (حجر29:15)سے براہ راست پیدا ہونے والا یہ وجود حیوانی شعور سے جنم لینے والے تقاضوں سے کبھی اپنی تسکین پاسکتا اور نہ مادیت کی قبر میں دفن ہونے کے بعد موت کا شکار ہوسکتا ہے۔چنانچہ وہ مادیت کی اس قبر میں بھی زندہ رہتا ہے اور اس وقت کا انتظار کرتا ہے کہ جب انسانی ضمیر حیوانیت کو مغلوب کرکے زندگی کا ایک برتر نصب العین عقل و ارادہ کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوجائے۔
بد قسمتی سے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ بلکہ دوسری طرف خواہشات کی منزل کو پانے کے لیے اکثر حالات میں انسان ضمیر ہی کا گلا گھوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔اس پر حیوانی شعور تو شائد کوئی احتجاج نہ کرے ، مگر انسان کا ضمیر اس پر اپنا خاموش احتجاج مسلسل جاری رکھتا ہے اور انسان کو ختم نہ ہونے والے اضطراب کا شکار کردیتا ہے۔گرچہ ضمیر کا گلا گھونٹناآسان نہیں، مگر کوئی بدبخت ضمیر کو بھی خواہش کے اسی صحرا میں دفن کردے تو پھر وہ شیطان بن جاتا ہے۔ شیطان دوسروں کو جو بھی اذیت دے، مگر اپنے وجود کی آگ میں لمحہ لمحہ جلنا اس کا مقدر ہوتا ہے۔
۳۔ عقلی عدم اطمینان
جذباتی بحران اور روحانی اضطرا ب سے نمٹنے کے لیے انسان اپنے ماحول اور تربیت کے مطابق مذہب کی پناہ تلاش کرتا ہے۔یہ مذہب شاید ان پہلوؤں سے آنسو پونچھنے کا کچھ نہ کچھ سبب بن بھی جائے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان اصلاًایک عقلی وجود ہے۔ وہ خود اس کائنات کی اور اس میں اپنی ذات کی ایک علمی و عقلی توجیہہ چاہتا ہے۔ جس دین ومذہب اور تہذیب کا وہ حصہ ہوتا ہے، اس کے عقائد، قوانین، روایات اور مراسم وغیرہ کی ایک معقول توجیہہ بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص کر جدید انسان اس توجیہہ کے بغیر نہیں جی سکتا۔ مشرکانہ مذاہب اور متصوفانہ روایات ان عقلی سوالات کے جو جواب دیتے ہیں وہ کسی عام آدمی کو شائدمطمئن کردیں، مگر اہل فکر و دانش کو تو وہ نفس مذہب سے بیزار کردیتی ہیں۔اس کے بعد انسان کے پاس نہ اپنے وجود کی کوئی توجیہ باقی رہتی ہے اور نہ کائنات کی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقل بھی ایک مستقل عدم اطمینان کی حالت میں رہتی ہے۔
انسان کے یہ مسائل آج پیدا نہیں ہوئے بلکہ اتنے ہی قدیم ہیں جتنا خود انسان ۔لیکن توحید خالص اور پیغمبروں کی رہنمائی میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والا انسان وہ زادِ راہ اپنے پاس رکھتا تھاجس میں ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت تھی۔ تاہم خالص الہامی مذاہب میں شرک کی آمیزش نے ہر دور میں فساد برپا کرکے اس سکون کو درہم برہم کیا ۔اس پس منظر میں تصوف (Mysticism)کی عالمی روایت نے جنم لیا۔ تصوف کی یہ روایت جو الہامی مذاہب میں درآنے والے فلسفیانہ رجحانات سے متاثر تھی،شرک سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور مادیت پر مبنی ظاہر پرستانہ رجحانات کا ایک علاج بن کر سامنے آئی۔اس کے ساتھ ساتھ اس میں انسان کے جذباتی اور روحانی بحران کا بڑی حد تک ازالہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔
انہی خصوصیات کی بنا پر تصوف کو بین اقوامی مقبولیت حاصل ہوگئی۔تصوف کی یہ روایت مذہب کے متوازی ہر دور میں موجود رہی اورمختلف مذاہب اور علاقوں میں مختلف ناموں سے سامنے آئی۔ ویدانت(ہندو مت)، زین ازم(بدھ مت)، طاؤ ازم(چین)، کبالہ(یہودیت ) اور صوفی ازم (اسلام) وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔جس طرح اسلام دنیا کی آخری بڑی مذہبی روایت ہے، اسی طرح مسلمان صوفیا نے تصوف کو علمی اور عملی طور پر اس کی معراج پر پہنچادیا۔ انہوں نے ہزار برس تک قائم عظیم مسلم سلطنت میں پیدا ہونے والے روحانی اور اخلاقی خلا کو بھرنے اورمادی دنیا کے جذباتی صدموں سے نڈھال انسان کو سکون دینے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور اپنے فلسفیانہ انحرافات سے قطع نظر ،اس خدمت کو اعلیٰ ترین سطح پر سر انجام دیا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں تصوف کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے وہ ایک معلوم حقیقت ہے ۔ہماری تاریخ میں بڑے بڑے اہل علم سے لے کر عوام الناس تک تصوف کے فکر و فلسفے اور پیغام سے متاثر رہے ہیں۔ایک طرف اہل تصوف کے زہد، اخلاص، خدا ترسی، حسن خلق اور مخلوق کے ساتھ شفقت نے ان کوعام لوگوں کی نگاہوں میں ہمیشہ بہت غیر معمولی مقام عطا کیا تو دوسری طرف تصوف کے فلسفیانہ اور مابعد الطبیعاتی (Metaphysical) پہلوؤں نے صدیوں تک ہمارے ذہین ترین اصحابِ علم کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا ۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چوتھی صدی سے لے کر تیرہویں صدی ہجری تک اس امت کی فکری قیادت،چند مستثنیات کو چھوڑ کر، ان اہل علم کے ہاتھ میں رہی ہے، جو تصوف سے متعلق تھے۔
تصوف کی ایک حیثیت وہ ہے جس میں یہ ایک علمی و فکری روایت اورفلسفیانہ نقطۂ نظر بن کر سامنے آتا ہے۔اس حیثیت میں یہ خدا اور مخلوق کے باہمی تعلق کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرتا،دین کے پیشِ نظر مقاصد کو متعین کرتا اور ان مقاصد کے حصول کے ذرائع کے بارے میں ایک خاص نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔تصوف کی دوسری حیثیت ایک اخلاقی روایت کی ہے۔اس اخلاقی روایت میں یہ انسان کے روحانی وجود کی تسکین کرتا، نفسِ انسانی میں پائی جانے والی آلائشوں کی تطہیر کرتا، انسان میں پائی جانے والی حیوانی جبلتوں کی تعدیل کرتا، باہمی معاملات میں اخلاق او رایثار کے اعلیٰ رویوں کی تلقین کرتا، اور مخلوق خد ا کی خیر خواہی کا سبق دیتا ہے۔
تصوف کی پہلی حیثیت اور اس کی بنا پر پیدا ہونے والی بے عملی اور بے اعتدالی کو قدیم اور جدید اہل علم نے ہر دور میں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کا مابعد الطبیعاتی پہلو اصلاً قبل از اسلام موجود فلسفوں اور متصوفانہ (Mystic) مذاہب ، روایات اور طریقوں سے ماخوذ ہے۔یہ جن چیزوں کو حقائق کے نام پر بیان کرتا ہے وہ دین کی بنیادی دعوت اور قرآن پاک کے بیانات میں نہ صرف اپنی کوئی اساس نہیں رکھتے بلکہ حقیقت کی ایک بالکل مختلف تصویر سامنے لاتے ہیں۔ مغلوب الحال صوفیو ں کے حالات و اقوال اورائمہ تصوف کی کتابوں میں جب ان چیزوں کا کھلا ظہور ہوا،یہ تب بھی اہل علم کی تنقید کا ہدف بنیں اور جب تصوف کی راہ سے ترک دنیا کا فلسفہ اور بے عملی کی تعلیم معاشرے میں رواج پانے لگی، تب بھی تصوف اہل علم و دانش کی تنقید کا نشانہ بنا۔(تصوف کے نظری پہلو پر تنقید کے لیے دیکھیے استاذ گرامی کی کتاب ’برہان ‘میں ان کا مضمون ’اسلام اور تصوف‘)۔
تاہم تصوف کا دوسرا پہلو جسے ہم نے تصوف کی اخلاقی روایت سے تعبیر کیا ہے ، حقیقتاً انسانی معاشرے کی ایک ضرورت ہے اور اس پہلو سے اس کی بڑی خدمات ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر زمانۂ قدیم ہی سے صوفیامعاشرے کے اخلاقی انحطاط کے سامنے بندباندھتے اور جذباتی انتشار ،ذہنی پریشانی اور روحانی پیاس کا شکار افراد کی قلبی طمانیت کا سامان کرتے رہے ہیں۔ البتہ یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ نظری طور پر قرآن کی تعلیمات سے بعض سنگین اختلافات کے باجود تصوف مسلمانوں میں کس طرح سرایت کرگیا ۔ آگے بڑھنے سے قبل اس سوال کا تفصیلی جواب دینا بہت ضروری ہے۔
مسلم معاشرے میں صوفی روایت اور تصوف کے باقاعدہ آثار دوسری صدی ہجری میں نظر آتے ہیں۔ صوف یعنی اون کا وہ کھردرا اور موٹا اونی لباس جس کے پہننے کا مقصد زیب و زینت سے زیادہ ستر پوشی تھا، دوسری صدی ہجری تک صوفیا کی نشانی بن چکا تھا۔ان کو صوفیوں کا یہ نام ہی اس لباس کی بنا پر ملا۔ابوہاشم الکوفی(م 150ھ) وہ پہلا شخص تھا جسے باقاعدہ صوفی کے نام سے یاد کیا گیا۔
تاہم پہلی صدی ہجری تک صورتحال ذرا مختلف تھی۔اُس زمانے میں زہد موجود تھا، مگر ابھی وہ تصوف کے قالب میں نہیں ڈھلا تھا۔اسلامی تعلیمات میں ترکِ دنیاکی کوئی گنجائش نہ تھی۔ چنانچہ متصوفانہ رجحانات مسلمان اہل علم میں ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھے جاتے تھے ۔ صوف کا لباس مسلمانوں میں ’زی الرہبان‘یعنی راہبوں کا لباس کہا جاتا اور مسیحیت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ اُس دور میں محمد ابن سیرین (م 110ھ)، ابوالعالیہ (م 90ھ)، حماد بن سلمہ(م 167ھ) اور سفیان ثوری(م 167ھ) جیسے نمائندہ اہل علم نے اس کی سخت مخالفت کی ۔
ان حالات میں تصوف کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ا پنی اُن نظریاتی اساسات کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں سرایت کرجاتا جو بعد میں اس کی پہچان بنیں اورجنہیں شیخ ابن عربی(م 638ھ)، امام غزالی(م 505ھ)، امام ابوالقاسم قشیری(م 465ھ) اور شیخ ابو طالب مکی(م 386ھ)جیسے ائمہ تصوف نے اپنی کتابو ں میں بیان کیا۔ مسلم معاشرے میں تصوف کے فروغ کی وجہ اس کی وہ اخلاقی روایت تھی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا اور جو پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مسلم معاشرے میں پائے جانے والے سیاسی، سماجی،معاشی اور علمی حالات کی بنا پر سوسائٹی کی ایک اہم ضرورت بن کر سامنے آئی تھی ۔
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول تھے۔تمام نبیو ں کی طرح ایمان واخلاق کی شمع روشن کرکے لوگوں کو سچا خدا پرست انسان بنانا اور ان کی شخصیت کو تمام علمی، عملی اور اخلاقی آلائشوں سے پاک کرناآپ کی تعلیم کا بنیادی نصب العین تھا۔یہی آپ کا عطا کردہ ضابطۂ نجات اورنبوی ماڈل تھااور ساری زندگی آپ نے اسی کی طرف لوگوں کو بلایا۔
تاہم نبی ہونے کے ساتھ آپ ایک رسول بھی تھے اور اس حیثیت میں آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد شرک پر مبنی ا س دور کا خاتمہ تھا جس نے ایک طویل عرصہ سے انسانی زندگی میں فساد پیدا کررکھا تھا۔آپ کا مشن جزیرہ نما عرب سے شرک کو مٹاناتھا۔ آپ کے صحابۂ کرام کا یہ منصب تھا کہ وہ آپ کے لائے ہوئے پیغام کے گواہ بن کر انسانیت تک توحید کا پیغام پہنچادیں۔نیز مشرقِ وسطیٰ کے علاقے سے جو آل ابرہیم کی میراث کا علاقہ تھا ،دینِ شرک کی کمر توڑ کر اس علاقے میں توحید کا پرچم بلند کردیں۔(اس بات کو اس کے پورے پس منظرمیں سمجھنے کے لیے دیکھیے استاذ گرامی کی تصنیف میزان کے باب قانون دعوت میں ’ذریت ابراہیم کی دعوت ‘اورراقم کی کتاب ’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان‘ میں ’آل ابراہیم کا عروج و زوال‘ کی بحث)۔ ہجرت کے بعد جب کفار پر اتمام حجت ہوگیا تو اس مشن کا آغاز ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ مشرکانہ قوتوں کی طرف سے اس توحیدی مشن کی مخالفت اور مزاحمت ہونا ہی تھی۔چنانچہ جہاد و قتال کا آغاز ہوا اور پھر جنگوں کا ایک مستقل سلسلہ ہے، جو سیرتِ طیبہ کے مدنی دور میں غالب نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں مشرقِ وسطیٰ کے بادشاہوں کو خطوط لکھ کر اس دائرہ کار کو طے کردیا جس میں ر ہ کر صحابۂ کرام کو اپنا مشن پورا کرنا تھا۔چنانچہ حضور کے زمانے ہی سے ان قوتوں سے ٹکراؤ شروع ہوگیا جن میں اپنے زمانے کی دو عظیم سپر پاور یعنی فارس اور روم کی سلطنتیں نمایاں ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں سیدنا عثمانؓ کے عہد کے ابتدائی حصے تک مسلمان ان دونوں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔آخر کار مسلمانوں نے سلطنتِ فارس کا خاتمہ کردیا اور روم کے تمام ایشیائی مقبوضات پر قبضہ کرکے اس کی کمر توڑدی۔ اس عمل کے نتیجے میں مشرکانہ تہذیب مغلوب ہوگئی اوران تمام علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ یوں صحابۂ کرام کا مشن مکمل ہوگیا۔ تاہم اس دوران میں مسلم معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ رسول اللہ کے فیض یافتہ صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی اور مال و دولت کی بے پناہ کثرت ہوگئی۔ قیصر و کسریٰ کے خزانے اور شام و عراق کی سونا اگلتی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں، لیکن غیر تربیت یافتہ نومسلموں کے زیر اثر مسلمانوں کی وہ اخلاقی روایت متاثر ہونے لگی جو نورِ نبوت کے فیضان سے مدینہ کے معاشرے میں روشن تھی۔
سیدنا عثمان کے عہد میں مسلمانوں کے باہمی خلفشار کا آغاز ہوا اور پھر ان کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ہی مسلمانوں میں باہمی جنگ و جدال کا آغاز ہوگیا۔سیدنا علیؓ کا پورا دور اسی جنگ وجدال اور انتشارمیں گزرا۔اس کے بعد بنو امیہ کاتقریباً ایک صدی پر محیط عرصہ مستقل بغاوتوں ،جنگوں اورخانہ جنگیوں سے عبارت ہے۔اس عرصہ میں سیدنا حسینؓ اورحضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کی شہادت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کی بے حرمتی جیسے المناک واقعات پیش آئے ۔ اس کے علاوہ بھی باہمی جنگوں کے دیگر ان گنت واقعات میں صالحین کی بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ 132ھ میں بنوامیہ کا خاتمہ علویوں(حضرت علی کی اولاد و وابستگان) اور عباسیو ں کی ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ہوا ۔ تاہم امن ابھی لوگوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پہلے عباسیوں نے بنو امیہ پر ظلم و ستم کے بدترین پہاڑ توڑے۔ اس کے بعد علویوں اور عباسیوں کا باہمی جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ علویوں کی پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں خلیفہ منصور کے زمانے تک یعنی اگلے بیس برس مسلم معاشرہ خانہ جنگی کی ایک مستقل کیفیت میں رہا۔
دوسری صدی ہجری کے نصف اول تک کے یہ وہ حالات ہیں جن میں ایک طرف مسلم معاشرے میں مال و دولت کی بے پناہ کثرت تھی اور دوسری طرف مستقل جنگ و جدال اوربدامنی کا ماحول تھا۔ان حالات میں ایک مسلمان کی ضرورت تھی کہ مادیت کے ماحول میں اس کے روحانی ارتقا اور بدامنی کی فضا میں ذہنی و قلبی سکون کے لیے مذہبی قیادت آگے آتی اور قرآن پاک کی روشنی میں اس کی رہنمائی کرتی۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہوسکا۔ صالحین کی ایک بڑی تعداد مستقل جنگوں میں مصروف رہی ، چاہے وہ خارجی قوتوں کے خلاف تھیں یا بنو امیہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی شکل میں۔باقی اہل علم کی توجہ ایک عظیم مسلم ریاست کے قانونی نظام کی تشکیل کے لیے فقہی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگی۔ فقہا کی آرا کے ردعمل میں لوگوں نے دینی احکام کواحادیث سے جمع کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ائمہ اربعہ کا کام دوسری اور تیسری صدی میں سامنے آیا۔ اسی عرصے میں صحاح ستہ کی تدوین ہوئی۔مسلمان اہل علم فقہ اور حدیث کی تدوین سے فارغ ہوئے تو یونانی فکر و فلسفہ سے مسلم معاشرے میں در آنے والے کلامی مباحث کی طرف متوجہ ہوگئے۔ چوتھی صدی کے نصف اول میں امام ابولحسن اشعری(م324ھ) اورامام ابو منصور ماتریدی (م 332ھ) جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے عقائد کے حوالے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث پر علمی کام کیا۔
اس جائزے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جب مستقل خانہ جنگی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اور مال و دولت کی فراوانی کی بنا پرپیدا ہونے والے روحانی خلا اور اخلاقی بگاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت تھی ، مسلمان اہل علم کی ترجیحات جنگ و سیاست، فقہ و حدیث اور فلسفہ و کلام بنی رہیں۔ابتدائی صدی میں اس صورتحال میں ایک نمایاں استثنا حسن بصری (م110ھ)کا تھا۔آپ ایک جلیل القدر تابعی، مفسر اور محدث تھے۔ام المومنین ام سلمہ کے گھر پرورش پانے والے حسن بصری(پیدائش21ھ) نے صحابۂ کرام کا کافی زمانہ پایا ۔اپنے دور کے انتشار اور صحابۂ کرام کے دور کے بعد آنے والے اخلاقی انحطاط کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے خلاف بھرپور جدو جہد کی۔وہ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ نظر، صاحبِ درد اور قادر الکلام خطیب بھی تھے۔ان کے مواعظ کی اثر آفرینی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں ان کے کلام کو نبیوں کے کلام کی طرح قرار دیا۔
ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک فضا پیدا ہوئی مگر بدقسمتی سے ان کے بعد یہ میدان اہل علم کی دلچسپی کا موضوع نہ بن سکا۔جبکہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنا اورربانی تعلق کی درست جہت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا بہرحال معاشرے کی ضرورت تھی جو اُس دور کے معروضی حالات میں زیادہ شدت اختیار کرگئی تھی۔اس کے نتیجے میں ایک زبردست خلا پیدا ہوا۔انسانی ضروریات کی طلب سے پیدا ہونے والا کوئی خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔یہ خلا تصوف کی تحریک نے بھردیا ۔ مسلم معاشرے کے زہد اور غیر مسلم فلسفوں اور روایات سے متاثر تصوف کی تحریک اس فضا میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ بناتی چلی گئی اور دوسری اور تیسری صدی میں عوام و خواص دونوں میں مقبول ہوگئی۔
تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد جب عباسی خلفا کے زیر حکومت مسلم معاشرہ علمی، تمدنی، معاشی اور معاشرتی پہلو سے اپنے عروج پر تھا ، اسی دور میں تصوف کی روایت بھی وقت کے بہترین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی۔سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی(م 297ھ)،شیخ بایزید بسطامی(م261ھ)،شیخ سری سقطی(م 253ھ)، شیخ ذوالنون مصری(م 245ھ)،شیخ ابو بکر شبلی(م334ھ)اورشیخ ابو القاسم گرگانی(م450 ھ) جیسے اکابرین نے اگر تصوف کی عملی روایت کو منتہائے کمال پر پہنچایا تو سہل بن عبداللہ تستری(م283 ھ)، شیخ ابو طالب مکی(م 386ھ) ، امام ابوالقاسم قشیری(م 465ھ)، شیخ علی ہجویری(م465 ھ)،امام غزالی(م 505ھ)، شیخ عبدالقادرجیلانی(م561 ھ)، شیخ شہاب الدین سہروردی(م632 ھ)، شیخ ابن عربی(م 638ھ) اور جلال الدین رومی(م 672ھ) جیسے صوفیوں نے عملی روایت کے ساتھ علم اور قلم کی طاقت کے ساتھ تصوف کے اسرارو زمور کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کیا۔
تاہم پانچویں صدی ہجری میں تصوف کا افراط و تفریط سامنے آنے لگا تھا۔ اس لیے اس پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔ پانچویں صدی میں اس تنقید کاآغاز ابن حزم (م456ھ) نے کیا۔چھٹی صدی میں ابن جوزی (م597ھ) اورپھر امام ابن تیمیہ(م 728ھ) اور ان کے شاگردابنِ قیم (م 791ھ) نے اس تنقید کو عروج پر پہنچادیا۔ یہ تنقیدآنے والے زمانے میں اگر جاری رہتی تو بہت عرصے قبل ہی تصوف کی روایت ختم ہوجاتی یا کم از کم اس کا اثر بہت محدود ہوجاتا۔تاہم اس عرصے میں مسلم دنیا کو ایک زبردست سانحے کا سامنا کرنا پڑا جس نے نہ صرف مسلمانو ں کی علمی روایت کو شکست و ریخت سے دوچار کردیا بلکہ وہ حالات پیدا کردیے جن میں لوگوں کے لیے سکون وعافیت کی واحد جائے پناہ گوشۂ تصوف تھا۔
یہ سانحہ تاتاریو ں کا مسلم دنیا پر حملہ تھاجس نے ساتویں صدی ہجری میں وسطی ایشیا سے لے کر مشرق وسطی تک تمام عالم اسلام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔مسلم دنیا کے تمام تہذیبی اور علمی مراکز(بجز اسپین کے جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھوں برباد ہوگیا) اس آفت کی نذر ہوگئے۔اس فتنہ کا نقطۂ عروج بغداد کی تباہی کا سانحہ تھا جو 1258 ء (بمطابق656ھ)میں پیش آیا ۔جس کے بعد مسلم دنیا پر تباہی وبربادی کی وہ المناک رات مسلط ہوئی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ مسلم معاشرہ، ریاست، سیاست، علم ، تہذیب غرض ہر شعبۂ زندگی پر اس کے ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے جن سے مسلمان کئی صدیوں تک باہر نہ نکل سکے۔مسلمانوں نے سیاسی اعتبار سے اپنا کھویا ہوا مقام سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کی شکل میں کسی نہ کسی طرح واپس لے لیا ،لیکن علمی طور پر وہ دوبارہ نہ اٹھ سکے۔ایسے تباہ حال مسلم معاشرے میں اہل تصوف کا اثر و نفوذ مزید بڑھ گیا۔خاص کر عالمِ عجم میں تصوف کی مختلف شاخوں اور خانوادوں کے سلسلے پھیلتے چلے گئے۔اہلِ شریعت کے بالمقابل اہلِ طریقت ہی اصلاً معاشرے کی فکری قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اس دور میں ہندوستان مسلمانوں کا فکری مرکز بن چکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اقتدار کا یہ واحد خطہ تھا جو فتنہ تاتار سے محفوظ رہا تھا۔ چنانچہ پورے وسطی ایشیا، ایران اور مشرق وسطیٰ سے مسلم شرفا ، علما اور صوفیا ہجرت کر کے یہاں آگئے۔سرزمینِ ہند اپنے سیاسی حالات ، تاریخی پس منظر، مذہبی روایت اور فلسفیانہ افکار کی بنا پر تصوف کے پودے کی زرخیری کے لیے ایک بہترین جگہ تھی۔ چنانچہ شجرِ تصوف یہاں خوب پھلا پھولا اور اس کے بطن سے خواجہ معین الدین چشتی (م627 ھ)، خواجہ قطب ا لدین بختیار کاکی(م 633ھ)،خواجہ فرید گنج شکر(م664 ھ) ،شیخ بہاء الدین زکریاملتانی(م 665ھ)اور شیخ نظام الدین اولیا(م725ھ) جیسے اکابرینِ تصوف نے جنم لیا۔
مغلیہ سلطنت کے زمانے تک ہندوستا ن میں مسلمانو ں کی حیثیت غیر مقامی حکمرانوں کی نہیں رہی تھی بلکہ بحیثیت قوم یا گروہ ان کا اجتماعی تشخص واضح ہونے لگا تھا۔لیکن حکومت کے باجود ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں بہرحال اقلیت میں تھے ۔ دوسری طرف اس معاشرے میں اہل تصوف کی حیثیت صرف صوفیا ہی کی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کے فکری رہنما ؤں کی بھی تھی ۔اس پس منظر میں ہند میں تصوف کی روایت علمی اور سیاسی طور پر بھی فعال ہونے لگی۔ اس میں ایک طرف شیخ احمد سر ہندی (م 1033ھ)جیسے صاحبِ علم وفضل اور صاحبِ عزیمت لوگ پیدا ہوئے تو دوسری طرف شاہ ولی اللہ(م1762ء بمطابق 1176ھ) جیسے بے نظیر عالم اورمدبر پیدا ہوئے جن کی نظیر تاریخ اسلام میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ایسی ہی ایک مثال سید احمد شہید(م1831ء بمطابق 1246ھ) اورشاہ اسماعیل(م1831ء بمطابق 1246ھ) کی ہے جو صاحبِ سیف و قلم تھے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ دونوں بزرگ تصوف کی روایت سے منسلک تھے ، خاص کر شاہ اسماعیل صاحب جن کی تصنیف’ عبقات ‘تصوف کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی کا زمانہ مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کا دور تھا۔ عالمِ اسلام تقلید و جمود کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔علمی و فکری جمود اور سیاسی و معاشرتی انحطاط کی لہرہر جگہ اپنے اثرات مرتب کررہی تھی۔ دوسری طرف اہلِ مغرب تقلید کی بیڑیاں کاٹ کراورعلم و عقل کو امام بناکر موڈرن ازم یعنی جدیدیت کے دور میں داخل ہوچکے تھے۔وہ سائنسی اور سماجی علوم میں ترقی کے ہتھیار سے لیس ہوکر نکلے اور پورے عالم اسلام پر چھاگئے ۔
اس کے ردعمل میں عالم اسلام میں جو احیائی تحریکیں یا افکار وجود میںآئے، ا ن سب نے یہ محسوس کیا کہ تصوف اس جمود و بے عملی کو پیدا کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کررہاہے اور تصوف کی اعلیٰ اخلاقی روایات گدی نشینوں کے مفادات پر قربان ہونے لگی ہیں۔اس صورتحال پر اقبال(م 1938ء) جیسے بڑے لوگوں نے تنقید کی اور اپنی پرجوش شاعری سے لوگوں کو علمی و عملی جمود توڑنے پر آمادہ کیا۔ اِس زمانے میں سیاسی حالات سے متاثر ہوکر جومسلم احیائی تحریکیں وجود میں آئیں ان میں اہل تصوف کا زیادہ کردار نہ تھا۔ مزید یہ کہ ابن تیمیہ کے زیر اثر عرب میں جو احیائی تحریک اٹھی وہ تصوف کے قطعاً خلاف تھی۔ خود برصغیر میں پیدا ہونے والی اسلام کے سیاسی انقلاب کی تعبیر اپنی روح کے اعتبار سے تصوف کے خلاف تھی۔ اس سے وابستہ بڑے اہل علم نے تصوف پر شدید تنقیدیں کیں۔امت کی تاریخ میں ایک طویل عرصہ بعد فکری قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو تصوف کے خلاف تھے یا اس سے زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے تھے۔نیز جدید تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات بھی اس بات میں مانع ہوئے کہ لوگ اپنا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دے کر دنیا سے منہ پھیر لیں۔مسلم معاشرہ مغرب کی جدیدیت کا براہِ راست اثر قبول کررہا ہے جس میں تقلید کے مقابلے میں آزادی اور باطنی تجربات و مشاہدات کے مقابلے میں عقلیت کو بہرحال ترجیح حاصل ہے ۔ ان تمام چیزوں نے مل کر مسلم معاشرے میں اہل تصوف کے کردار کو بہت محدود کردیا ہے اور زمانۂ قدیم کی طرح آج اعلیٰ اذہان تصوف کی تحریک سے کم ہی وابستہ نظر آتے ہیں۔
_________________