[’’نقدو نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
حافظ صاحب نے مجھے غیر سنجیدہ، غیر علمی، گمراہ، ٹھیکیدار، حقیقت چھپانے میں ید طولیٰ رکھنے والا اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہا ، مگر ان سب کے جواب میں اللہ کا قول یاد آ رہا ہے کہ خاموش رہو۔ میں یہ قول دانستہ طور پر نہیں لکھ رہا، کیونکہ حافظ صاحب تو عالم او رمحقق ہیں نا۔ میں حافظ صاحب کو معذور سمجھتا ہوں۔ دلائل سے عاجز انسان کا انداز گفتگو ایسا ہی ہوتا ہے، کیونکہ کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے۔
حافظ صاحب نے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ ۲۰۰۹ء میں چھپنے والے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے، اس کی اصل بات تو حافظ صاحب گول کر گئے ہیں اور اس کی طرف اشارہ بھی مناسب نہ سمجھا۔ امام البانی نے ’’جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ میں جن تیرہ احادیث کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے، ان میں سے پہلی پانچ احادیث پر حافظ صاحب نے جو تنقید پیش کی تھی، وہ سعودی عالم شیخ حمودالتویجری کی کتاب ’’الصارم المشہور‘‘ کا چربہ ہے، مگر حافظ صاحب نے حوالہ کا ذکر کیے بغیر اسے اپنی تحقیق ظاہر کیا۔ کیا یہ علمی دیانت داری ہے؟ انھی پانچ احادیث کو امام البانی نے ’’الرد المفحم‘‘ میں دوبارہ پیش کیا ہے۔ اور شیخ تویجری وغیرہ کا مدلل جواب دیا ہے۔ ان کی تحقیق کا جو پول میں نے مذکورہ مضمون میں کھولا ہے، محقق محترم نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ اپریل ۲۰۰۹ء میں چھپنے والے مضمون میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ان کے اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت کا منہ چھپانے کو واجب قرار دینے والے موقف سے دستبردار ہو کر فقہی موشگافیوں میں اپنا منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے سب مضمون تو ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے صفحات پر شائع ہوئے، مگر اس مضمون کے لیے انھوں نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ کو کیوں استعمال کیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ جیسا سنجیدہ علمی رسالہ اس قسم کے غیر سنجیدہ اور بے وزن مضمون کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا؟
میرے اور حافظ محمد زبیر کے درمیان زیر بحث موضوع یہ تھا کہ کیا عورت کے چہرے کا پردہ واجب ہے یا غیر واجب۔ حافظ صاحب نے میرے پہلے مضمون کے جواب میں جو مضمون لکھا تھا، اس کا عنوان انھوں نے یہ باندھا تھا: ’’چہرے کا پردہ واجب، مستحب یا بدعت‘‘۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا تھا: ’’میرے مضمون کا عنوان تھا: ’’چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب‘‘۔ حافظ محمد زبیر صاحب نے خواہ مخواہ اپنے جواب کو فقہی عنوان سے نوازا ہے، یعنی ’’چہرے کا پردہ واجب ، مستحب یا بدعت‘‘۔ اگر وہ اسی عنوان کے تحت اپنا مستقل مضمون لکھتے تو مجھے اعتراض کا حق نہ ہوتا، مگر انھوں نے اپنے مضمون کے آغاز ہی میں میرے مضمون کا حوالہ دیا ہے، اس لیے میں یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہوں کہ انھوں نے اس جواب کو فقہی عنوان دے کر خلط مبحث سے کام لینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب، ۷۸)۔ حافظ صاحب نے زیرنظر مضمون میں بھی اسی حیلہ کو دہرایا ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں کبھی یہ نہیں لکھا کہ چہرے کا پردہ بدعت ہے اور نہ میں نے اپنے آپ کو اس فقیہانہ بحث میں الجھایا ہے۔ میرے اور حافظ صاحب کے درمیان یہ موضوع زیر بحث نہ تھا کہ امام البانی کا موقف کیا ہے؟ امام البانی چہرے کے پردے کو غیر واجب سمجھتے ہیں اور حافظ صاحب نے اپنے مضامین میں ان کے اس موقف کی شد و مد کے ساتھ تردید کی ہے۔ اب اگر وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے اس موقف کی تائید کر رہے ہیں کہ چہرے کا پردہ واجب تو نہیں مستحب ہے تو اس کے لیے ایک الگ مضمون لکھیں، پھر میں اپنی راے پیش کروں گا۔ امام صاحب نے تین کتابیں یکے بعد دیگرے اس موقف کو بیان کرنے کے لیے تحریر فرمائی ہیں کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں ہے: ’’حجاب المرأۃ المسلمہ‘‘، جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ اور ’’الرد المفحم‘‘۔ ’’جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ ۲۶۰ صفحات پر مشتمل کتاب کے صرف چار صفحات پر امام صاحب نے ایک عنوان باندھا ہے: ’مشروعیۃ ستر الوجہ‘ ( ۱۰۴) ’’چہرے کو ڈھانپنے کا جواز‘‘۔ انھوں نے جن آٹھ احادیث کا حوالہ دیا ہے، سب کا تعلق امہات المومنین سے ہے۔ اس بحث کے آخر میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ ازواج مطہرات چہرہ ڈھانپتی تھیں۔ ان کے بعد (ان کی دیکھا دیکھی) فاضلی عورتیں بھی چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں (۱۱۰)، یعنی عام عورتیں چہرہ نہیں ڈھانپتی تھیں۔ فاضلی عورتیں ازواج مطہرات کے نقش قدم پر چلنے کے لیے ایسا کرتی تھیں۔ کیا ۲۶۰ صفحات پر مشتمل کتاب کے صفحات پر امام البانی کا اصل موقف موجود ہے یا صرف چار صفحات پر پھیلی ہوئی ان کی توجیہ۔
’’الرد المفحم‘‘ تو امام صاحب نے لکھی ہی ان لوگوں کے رد میں ہے جو چہرے کے پردے کو واجب سمجھتے ہیں۔ ’’الرد المفحم‘‘ کی ترکیب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے کس قدر شد و مد کے ساتھ ان لوگوں کی تردید کی ہے جو عورت کے چہرے کو ڈھانپنا واجب سمجھتے ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں ( ۱۴۷ ۔ ۱۴۹) امام موصوف علمی بحث کو سمیٹنے کے بعد فرماتے ہیں کہ عملی لحاظ سے یہ عجیب و غریب موقف معلوم ہوتا ہے اور انھوں نے اس کی مندرجہ ذیل تین مثالیں پیش کی ہیں:
۱۔ مجھے میرے داماد نے بتایا کہ وہ اس موقف کے حامل ایک فاضل شیخ کی ملاقات کو گیا تو شیخ نے نہ ان کی طرف توجہ دی اور نہ ہی ان کو خوش آمدید کہا۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی بیوی (امام صاحب کی بیٹی) کا چہرہ کھلا تھا، حالاں کہ ہر لحاظ سے وہ شرعی حجاب میں تھیں۔ یہ شیخ اپنی خوش خلقی میں معروف تھے۔ کہاں یہ شیخ اور کہاں امام احمد کا یہ قول ’’فقیہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے مسلک کے لیے مجبور کرے‘‘۔
۲۔ میں اور میری بیوی ام الفضل نے ۱۴۱۰ ھ میں عمرہ کیا تو ہم نے دیکھا کہ بعض خواتین چہرہ ڈھانپ کر سعی کر رہی ہیں۔ میں مردوں کو نصیحت کرنے لگا اور میری بیوی عورتوں کو کہ یہ ناجائز ہے اور اگر ناگزیر حالات ہوں تو سدل کرنا چاہیے، لیکن وہ لوگ ہماری باتوں کا کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ چہرے کے بارے میں اس تشدد کا نتیجہ ہے جو مشائخ کا شیوہ ہے... میں نے سعی کے دوران میں ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ سعی کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ایک عورت تھی جس نے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ عورت حالت احرام میں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، میں نے کہا کہ اے بھائی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’احرام والی عورت اپنا چہرہ نہ ڈھانپے‘‘۔ اس نے مجھے حدیث مکمل نہ کرنے دی اور جلدی سے کہا کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں چہرے کے بارے میں بحث نہیں کر رہا، میں تو احرام والی عورت کے چہرہ ڈھانپنے کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ اس نے میری بات کی پروا کیے بغیر سعی جاری رکھی۔
۳۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے کچھ لیکچرز دیے۔ میں نے سوال کرنے والوں کے تحریری اور ٹیلی فون کے ذریعہ سے جواب دیے۔ مجھے خبر ملی کہ بعض عورتوں کو جب حدیث ’لا تنتقب المرأۃ المحرمۃ‘ سنائی گئی تو وہ کہنے لگیں: ہم اپنے چہرے کو ننگا نہیں کریں گی، ہاں فدیہ ادا کر دیں گی۔
امام صاحب فرماتے ہیں: سبحان اللہ! جہالت کیا کیا گل کھلاتی ہے؟ یہ ان ممالک میں بعض شیوخ کی شدت پسندی کا نتیجہ ہے۔
اب وہ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ عورت کے بارے میں اس قسم کی شدت پسندی کے نتیجہ میں ایسی عورتوں کی نسل نہیں نکل سکتی جو ان واجبات کو ادا کر سکیں، جو ہر ملک میں ہر حال میں ان کے شوہروں اور ان کے معاشرے کے بارے میں ان کے کندھے پر ڈالے گئے ہیں، جیسا کہ وہ عہد نبوت میں ادا کیا کرتی رہی ہیں، جیسے مہمانوں کی خدمت، ان کو کھانا کھلانا، غزوات میں ان کا خروج، پیاسوں کو پانی پلانا، زخمیوں کی مرہم پٹی، مقتولین کو میدان جنگ سے لے جانا اور اکثر اوقات جنگ میں عملی شرکت۔ کیا یہ کام ایسی عورتوں کے لیے ممکن ہیں جن کی تربیت اس خوف پر ہوتی ہو کہ اگر انھوں نے کھلے چہرے سے نماز پڑھ لی یا حج ادا کیا تو ان سے گناہ سرزد ہو جائے گا؟ کیا وہ ایسے کام چہرہ ڈھانپ کر سر انجام دے سکتی ہیں؟ نہیں، اللہ کی قسم ، وہ یہ کام چہرے اور ہاتھوں کے کھولے بغیر سر انجام نہیں دے سکتیں۔ اور کبھی کبھی تو ان کے وہ اعضا بھی کھل جاتے تھے جن کا عادتاً ظاہر ہونا بھی جائز نہیں جیسا کہ اللہ کا قول ہے: ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘، ’’سوائے ان اعضا کے جو عادتاً کھلے رہتے ہیں‘‘ (النور ۲۴:۳۱) جیسا کہ بعض مثالیں اس بات کی شاہد ہیں کہ عہد نبوت میں یہ عورتوں کا معمول تھا۔ اس کے بعد امام البانی نے فاطمہ بنت قیس، ابو اسید ساعدی کی بیوی ام اسید، اسماء بنت ابی بکر اور ایک انصاری عورت، غزوۂ احد میں حضرت عائشہ اور ام سلیم کی خدمات، ربیع بنت معوذ، ام عطیہ اور غزوۂ حنین میں ام سلیم کی خنجر کے ساتھ شرکت کی نو احادیث پیش کی ہیں۔ عہد نبوت کے بعد جنگ یرموک، معرکۂ تستر اور رومیوں کے خلاف جنگ میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں تین آثار پیش کیے ہیں۔ اور کتاب کے اختتام پر سمراء بنت نہیک کے بارے میں ایک اثر پیش کیا ہے کہ وہ موٹی قمیص پہنے اور موٹا دوپٹا اوڑھے ہاتھ میں کوڑا پکڑے لوگوں کی اصلاح کیا کرتی تھیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتی تھیں۔ یہ ہے امام البانی کا چہرے کے پردے کے بارے میں اصلی موقف۔
’’الرد المفحم‘‘ نامی کتاب امام البانی کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نے شائع کی۔ اس اعتبار سے یہ ان کی آخری کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی صراحت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے۔ جو اس موقف کو چھپاتا ہے، وہ کتمان حق کا مرتکب ہے۔
حافظ محمد زبیر نے جس موقف کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی ہے، وہ ان کا موقف نہیں، بلکہ وہ توجیہ ہے اس بات کی کہ بعض فاضلی عورتیں امہات المومنین کی دیکھا دیکھی اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی تھیں۔ وہ عقیدت کی بنیاد پر ایسا کرتی تھیں، جیسے صحابی عبد اللہ بن عمر محض عقیدت کی بنیاد پر ایسے مقامات پر نماز پڑھتے تھے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہوتی تھی اور جہاں عام مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنا ضروری نہیں تھا۔ اسی طرح عام عورتوں کے لیے ان فاضلی عورتوں کا اتباع ضروری نہیں۔ چند فاضلی عورتوں کے علاوہ عام عورتیں چہرہ ننگا رکھتی تھیں۔ بہرکیف اگر حافظ صاحب اپنے خیال کے مطابق امام البانی کے موقف پر مضمون لکھیں گے تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ اس کو دیکھ کر اپنی راے کا اظہار تفصیل سے کروں گا۔
حافظ محمد زبیر صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ واجب کے مقابلہ میں غیر واجب ہوتا ہے نہ کہ مستحب۔ کسی مکتب فکر کی فقہ کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں واجب کے مقابلہ میں ’غیر واجب‘ یا’لیس بواجب‘ کی اصطلاح موجود ہے۔ نہ جانے حافظ صاحب نے اسے غیر مبہم کیوں کہہ دیا۔ جس بات کی ان کو سمجھ نہ آئے یا جو بات ان کے ذہن میں پہلے سے جمے ہوئے تصورات سے متصادم ہو، وہ ان کے نزدیک مبہم ہے۔ چہرے کا پردہ مستحب ہے یا بدعت، یہ میرا موضوع نہیں۔ اگر حافظ صاحب اس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں توایک نیا مضمون لکھیں، اسے دیکھ کر جواب دوں گا۔ اب آتے ہیں حافظ محمد زبیر صاحب کے مضمون کے آخری پیرا کی طرف۔
کتاب کے سرورق پر میرا نام حافظ صاحب کو کَھلا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ وہی خورشید صاحب ہیں جن کا ذکر خیر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ اس فقرے کا مقصد صرف طنز ہے وگرنہ یہ بے جوڑ سا معلوم ہوتا ہے۔ میرا جواب یہ ہے : ہاں، میں وہی ہوں مومن مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو؛ میں وہی خورشید عالم ہوں جس نے حافظ صاحب کی تحقیق کا پول کھولا ہے؛ میں وہی خورشید عالم ہوں جس نے حافظ صاحب کی علمی دیانت داری اور عربی لغت سے ناشناسی کا پردہ چاک کیا ہے۔ جس نے حدیث کے غلط ترجمے کی نشاندہی کی ہے۔
کتاب ’’چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب‘‘ میں میں نے تقابلی مطالعہ کے لیے حافظ صاحب کے ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں شائع ہونے والے سب مضامین (حافظ صاحب نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کچھ مضامین کہا ہے) ایک شوشہ کے تغیر کے بغیر جوں کے توں شائع کر دیے ہیں۔ حافظ محترم کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ ان کے مضامین تقابلی طور پر کیوں پیش کیے گئے ہیں؟ اس سے ان کی علمی تحقیق کا پردہ چاک ہو گیا ہے، وگرنہ ان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ ان کے مضامین مفت میں شائع ہو گئے۔ محترم احسن تہامی کے نام اپنے خط میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بعض اقوال سے رجوع کر لیا ہے اور اس بارے میں ان کی علیحدہ کتاب زیر طبع ہے (سال بھر سے وہ یہی کہہ رہے ہیں، مگر وہ طبع نہیں ہوئی) اس بارے میں مجھے میراثی کا ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ حافظ صاحب کے احترام میں اسے قلم زد کر رہا ہوں۔ اگر انھوں نے واقعی اپنے مضامین میں بنیادی تبدیلیاں کر لی ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہے۔
اجازت کا حق صرف ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ کی انتظامیہ کو ہے نہ کہ حافظ صاحب کو۔ یہ مضامین ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے حوالے سے چھاپے گئے ہیں۔ حافظ صاحب اسے غیر اخلاقی ، غیر شرعی اور غیر قانونی قرار نہیں دے سکتے۔
حافظ صاحب سے میں نے کوئی معذرت نہیں کی۔ کیسی معذرت، کس بات کی معذرت؟ میں کون ہوں یہ کہنے والا کہ کتاب کی اشاعت نہیں ہو گی۔ اس کتاب کے تمام حقوق ناشر صاحب کے پاس ہیں۔ میں نے اس کتاب کی پھوٹی کوڑی وصول نہیں کی۔ میں لکھاری ہوں نہ کہ تاجر۔ ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ والے مجاز ہیں کہ مجھے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں، میں اس کے لیے تیار ہوں۔ حافظ صاحب نے بات کرتے وقت تو بڑی عمر کا خیال نہیں کیا، عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرتے وقت انھیں میری عمر کا کیوں خیال آئے گا، حالاں کہ قانون کا نفاذ تو ہر بالغ پر ہوتا ہے، خواہ اس کی عمر چھوٹی ہو یا بڑی۔ حافظ صاحب اپنا یہ شوق پورا کر لیں مجھے قطعی کوئی اعتراض نہیں۔
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ بابت مارچ ۲۰۰۹ء میں ڈاکٹر انوار احمد اعجاز نے جو تبصرہ کیا ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میرے خیال میں حافظ صاحب کے اس مضمون کا محرک یہی تبصرہ ہے۔ کاش، وہ اس طرف دھیان دیتے: کہتی ہے خلق خدا غائبانہ کیا۔فاضل تبصرہ نگار ، جن کی شکل سے بھی میں واقف نہیں ، فرماتے ہیں: ’’غلط تراجم، بودے استدلال، معانی میں تحریف اور غیر متعلقہ معاملات اٹھانے کی روایت کے ساتھ ساتھ عربی لغت سے نادانگی کے باعث اگر حافظ محمد زبیر پروفیسر خورشید عالم کی طرف سے دیے گئے مشوروں کو قبول کر لیں اور آیندہ بحثوں میں زیادہ سنجیدگی اور محنت سے کام لیں تو اس مباحثے کا حق ادا ہو جائے گا‘‘۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ حافظ محترم نے اس مضمون میں بھی میرے مشوروں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔
_______________