بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ، قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ، وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ{۱۵} یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ،وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ،وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ{۱۶}
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمََََََ۔قُل:ْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا، وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا،یَخْلُقُ مَا یَشَآئ،ُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۱۷}
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی: نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤُہٗ۔قُل:ْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ، بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَآئ،ُوَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا،وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ{۱۸}
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ،قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرہٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْراٌ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۱۹}
اے اہل کتاب، ہمارا پیغمبر تمھارے پاس آگیا ہے جو کتاب الہٰی کی وہ بہت سی باتیں کھول رہا ہے جنھیں تم چھپاتے رہے ہو ۵۳ اور بہت سی باتیں نظرانداز بھی کر رہا ہے۔۵۴ تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آگئی ہے، یعنی ایک ایسی کتاب جو (دین و شریعت سے متعلق) ہر چیز کو واضح کر دینے والی ہے۔ اِس کے ذریعے سے اللہ اُن لوگوں کو جو اُس کی خوشنودی چاہتے ہیں، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور اپنی توفیق و عنایت۵۵ سے اُنھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور ایک سیدھی راہ کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔ ۱۵-۱۶
اِس میں شبہ نہیں کہ اُن لوگوں نے کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے۔۵۶ اِن سے پوچھو کہ اللہ کے آگے کس کا کچھ چلتا ہے، اگر وہ چاہے کہ مسیح ابن مریم کو، اُس کی ماں کو اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دے۔۵۷ (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ) زمین و آسمان اور اُن کے درمیان میں جو کچھ ہے، اُس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کر دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۵۸ ۱۷
اِن یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ہے کہ ہم خدا کے بیٹے اور اُس کے چہیتے ہیں۔۵۹ اِن سے پوچھو، پھر تمھارے گناہوں پر وہ تمھیں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟۶۰ (ہرگز نہیں)، بلکہ تم بھی اُس کے پیدا کیے ہوئے انسانوں میں سے انسان ہی ہو۔ وہ (تم میں سے) جس کو چاہے گا، بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) سزا دے گا۔۶۱ (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ) زمین و آسمان اور اُن کے درمیان میں جو کچھ ہے، اُس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور (تم میں سے ہر ایک کو) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔۶۲ ۱۸
اے اہل کتاب، ہمارا یہ پیغمبر رسولوں کی بعثت میں ایک وقفے کے بعد تمھارے پاس آیا ہے اور (دین کو ہر پہلو سے) تمھارے لیے واضح کر رہا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا آیا ہی نہیں۔ سو دیکھ لو، وہ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا تمھارے پاس آگیا ہے۔ (اِسے نہیں مانو گے تو اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکو گے۔ وہ تم کو لازماً پکڑے گا) اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۱۹
۵۳؎ یعنی کبھی لفظی اور معنوی تحریفات کے ذریعے سے اور کبھی عام لوگوں کو کتاب الہٰی کی اصل تعلیمات سے اندھیرے میں رکھ کر چھپاتے رہے ہو۔ اِس مفہوم کے لیے ایک ہی لفظ ’تُخْفُوْنَ‘ آیا ہے جس کے تحت یہ تمام صورتیں آ جاتی ہیں۔
۵۴؎ اِس لیے کہ اِن کے کھولنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر دین کی اصل حقیقت اور اُس کے مطالبات واضح کرنا ہوتا ہے۔ وہ بغیر ضرورت کے کسی کی تذلیل و تفضیح نہیں کرتا۔
۵۵؎ اصل میں لفظ ’بِاِذْنِہٖ‘ آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آنے کی سعادت خدا کے اذن سے حاصل ہوتی ہے اور یہ اذن اُنھی کو ملتا ہے جو خدا کی رضا چاہتے ہیں۔ ہم نے اِس کا ترجمہ توفیق و عنایت اِسی رعایت سے کیا ہے۔
۵۶؎ یعنی سینٹ پال کے پیرو جنھوں نے مسیح علیہ السلام کو خدا کا ظہور قرار دے کر اپنے اِس عقیدے کے لیے تثلیث کی وہ تعبیر اختیار کی جو مسیحیت کی بنیاد ہے۔ وحدت الوجودی صوفیوں کی طرح اِس میں بھی فرق مراتب کو قائم رکھنے کے لیے بہت کچھ زور بیان صرف کیا جاتا ہے، مگر قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اِس طرح کی موشگافیوں کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ مسیح کو خدا بنانے کے مجرم ہیں اور اُنھوں نے یقینا کفر کیا ہے۔
۵۷؎ یہ مسیح علیہ السلام کو خدا بنانے والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غضب کا اظہار ہے۔
۵۸؎ مطلب یہ ہے کہ مسیح اگر بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو اِس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ خدا بن گئے ہیں یا خدائی میں شریک ہو گئے ہیں۔ یہ بن باپ کے پیدا ہونا کیا چیز ہے، خدا چاہے تو کسی کو ماں اور باپ کے بغیر بھی پیدا کر سکتا ہے۔
۵۹؎ بیٹے کا لفظ محبوب اور برگزیدہ ہونے کے لیے بائیبل کی خاص تعبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جس منصب کے لیے منتخب کیا تھا، اُس کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے بجاے اُنھوں نے اِس سے یہ غلط نتیجہ نکالا اوراِس زعم باطل میں مبتلا ہو گئے کہ اب وہ جو چاہے کرتے رہیں، اللہ اُن کی کسی بات پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔
۶۰؎ یہ اُن کے زعم باطل کی تردید خود اُن کی تاریخ سے فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خدا کے محبوب اور چہیتے ہونے کے سبب سے تم خدا کے مواخذے اور عذاب سے بری ہو تو تمھاری یہ محبوبیت اور تمھارا یہ چہیتا پن اِس دنیا میں تمھارے کچھ کام کیوں نہ آیا؟ یہاں تو تمھاری پوری تاریخ اِس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جب جب تم نے خدا سے سرکشی کی ہے، اُس نے تمھیں نہایت عبرت انگیز سزائیں بھی دی ہیں، ایسی عبرت انگیز کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں ایسی سزائوں کی مثال نہیں مل سکتی۔ پوری قوم کی غلامی، پوری قوم کی صحرا گردی، پوری قوم کی جلاوطنی، متعدد بار پوری قوم کا قتل عام اور بیت المقدس کی عبرت انگیز تباہی۔ یہ سارے واقعات خود تورات میں موجود ہیں۔ اگر ابراہیم و اسحق کی اولاد ہونے کی وجہ سے تمھیں خدا کی طرف سے کوئی براء ت نامہ حاصل ہے تو اِس براء ت نامے نے تمھیں اِن عذابوں سے کیوں نہ بچایا؟‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۴۸۳)
۶۱؎ یعنی اُس کا کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ وہ ضرور اُس کی مغفرت کرے گا۔ جزاو سزا کا انحصار اُس کی مشیت پر ہے اور اُس کی مشیت اُس کے قانون کی پابند ہے۔ وہ اُس کے مطابق ہی لوگوں کے لیے جزاو سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔
۶۲؎ یعنی قیامت کی پیشی کے لیے کوئی اور بارگاہ نہیں ہے جس سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔ تمھیں ہر حال میں اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ