بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا{۱۰۵} وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۱۰۶} وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَہُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا{۱۰۷} یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لاَ یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ، وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا{۱۰۸}
ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓـؤُلَآئِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً{۱۰۹} وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۱۱۰} وَمَنْ یَّکْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَکْسِبُہٗ عَلٰی نَفْسِہٖ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۱۱۱} وَمَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْٓئَۃً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہٖ بَرِیْٓئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا{۱۱۲}
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْْکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ، وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ، وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْْئٍ، وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ، وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْْکَ عَظِیْمًا{۱۱۳}
لَا خَیْْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰہُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلاَحٍ بَیْْنَ النَّاسِ، وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا{۱۱۴} وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ، وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا{۱۱۵}
ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ اللہ نے جو کچھ تمھیں دکھایا ہے،۱۷۶ اُس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو (کہ اِن میں سے کون مخلص ہے اور کون منافق) اور اِن بدعہدوں کے حمایتی نہ بنو اور اللہ سے معافی کی درخواست کرو۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۱۷۷ اُن لوگوں کی وکالت نہ کرو ۱۷۸ جو اپنے آپ سے خیانت کر رہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بدعہد ہے اور حق تلفی کرنے والا ہے۔ یہ لوگوں سے چھپ سکتے ہیں، مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتے۔ وہ تو اُس وقت بھی اُن کے ساتھ ہوتا ہے، جب وہ اُس کی مرضی کے خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اُن میں سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ۱۰۵-۱۰۸
یہ تم ہو کہ دنیا کی زندگی میں تو اِن (مجرموں) کی طرف سے تم نے جھگڑا کر لیا، لیکن قیامت کے دن کون اِن کی طرف سے اللہ سے جھگڑا کرے گا یا کون اِن کا ذمہ دار بنے گا؟۱۷۹ ہاں، جو کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنی جان پر ظلم ڈھائے، پھر اللہ سے مغفرت چاہے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اور بڑی شفقت کرنے والا پائے گا۔ ۱۸۰ (اپنے گناہ دوسروں کو لگا کر یہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِنھیں بتائو کہ) جو برائی کماتا ہے، اُس کا وبال اُسی پر آتا ہے۔ (یہ اللہ کا قانون ہے) اور اللہ علیم و حکیم ہے۔۱۸۱ (اِنھیں بتائو کہ) جو کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اُس کی تہمت دوسروں پر لگا دیتا ہے، اُس نے تو ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔۱۸۲ ۱۰۹-۱۱۲
تم پر اللہ کی عنایت اور اُس کی رحمت نہ ہوتی، (اے پیغمبر) تو اِن میں سے ایک گروہ نے تو فیصلہ کر لیا تھا کہ تمھیں راہ راست سے ہٹا کر رہے گا، دراں حالیکہ وہ اپنے سوا کسی کو راہ راست سے نہیں ہٹا رہے اور نہ تمھیں کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ (وہ تمھیں کس طرح راہ راست سے ہٹا سکتے ہیں)؟ اللہ نے تم پر اپنا قانون اور اپنی حکمت نازل فرمائی ہے اور (اِس طرح) تمھیں وہ چیز سکھائی ہے جو تم نہیں جانتے تھے اور اُس کی تم پر بڑی عنایت ہے۔۱۱۳
اِن کی سرگوشیوں میں زیادہ تر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں، اُن لوگوں کی سرگوشی میں یقینا بھلائی ہے جو صدقہ و خیرات کی تلقین کریں یا نیکی کی راہ سجھائیں یا لوگوں کے معاملات کی اصلاح کے لیے کہیں۔ اور جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کریں گے، اُنھیں عنقریب ہم اجرعظیم عطا فرمائیں گے۔ (اِس کے برخلاف) جو راہ ہدایت کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کریں گے اور اُن لوگوں کے راستے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کریں گے جو تم پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں،۱۸۳ اُنھیں ہم اُسی راستے پر ڈال دیں گے جس پر وہ خود گئے ہیں۱۸۴ اور دوزخ میں جھونکیں گے۔ وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ ۱۱۴-۱۱۵
۱۷۶؎ یعنی اِس طرح بتایا ہے کہ گویا بچشم سر دکھا دیا ہے۔
۱۷۷؎ اِن آیتوں میں خطاب اگرچہ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن روے سخن اگر غور کیجیے تو اُنھی منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے۔ آگے ’ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآئِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ‘ کے الفاظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب اصل مخاطبین سے بے پروائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
۱۷۸؎ اصل میں لفظ ’مجادلۃ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی جھگڑنے کے بھی ہیں اور الحاح و اصرار کے ساتھ کسی کی وکالت کرنے اور تدلل کے ساتھ شکوہ اور شکایت کرنے کے بھی۔ یہاں یہ اِسی دوسرے مفہوم میں ہے۔
۱۷۹؎ اصل میں لفظ ’وکیل‘ آیا ہے۔ اِس کے ساتھ ’علٰی‘ کا صلہ ہو تو عربی زبان میں یہ جس طرح نگران اور ضامن کے معنی میں آتا ہے، اِسی طرح ذمہ دار اور مسئول کے معنی میں بھی آتا ہے۔ آیت میں اُن لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر منافقین کی حمایت کرتے اور اُن کی صریح غلطیوں کے باوجود اُن کو بری قرار دینے کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آیت ۱۱۵ تک یہ پورا سلسلۂ بیان اِنھی لوگوں کے جواب میں ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس پر تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں جب یہ آیتیں پڑھتا ہوں تو میرا ذہن باربار اِس طرف جاتا ہے کہ یہ اُن لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو اِن منافقین کی حمایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین مخلصین سے بحثیں اور مناظرے کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اِن منافقین کی اِن خفیہ مجلسوں اور درپردہ سازشوں کی اطلاعات جب حضور کو اور صحابہ کو پہنچتی رہی ہوں گی تو اُن پر کسی نہ کسی نوعیت سے گرفت بھی ہوتی رہی ہو گی۔ اُس وقت اُن کے یہ حمایتی، جن کا اوپر ذکر ہوا، اُن کی صفائی میں کہتے رہے ہوں گے کہ یہ لوگ تو بڑے مخلص ہیں، یہ تو ملت کے بڑے ہوا خواہ ہیں، اِن کی مجلسوں میں جو باتیں ہوتی ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کی بہبود اور خیرخواہی کی ہوتی ہیں۔ اور اگر اِس ذیل میں کوئی ایسی بات گرفت میں آتی رہی ہوگی جس کا جواب نہ بن آتا ہو گا تو اُس کا الزام، جیسا کہ اوپر اشارہ گزرا، کسی ایسے بھلے مانس پر ٹھونک دیتے رہے ہوں گے جس کے حاشیۂ خیال میں بھی وہ بات کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اِن لوگوں کی اس وکالت کے جواب میں قرآن نے نہایت بلیغ طریقے سے اِن اندرون خانہ سرگوشیوں سے پردہ اٹھایا اور دیکھیے کتنی خوب صورتی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ساری بات بھی سامنے آگئی اور مخاطب کے لیے کسی بحث و تردید کی گنجایش بھی باقی نہیں رہی۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۳۸۳)
۱۸۰؎ یعنی خدا کی گرفت سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ مجرموں کی حمایت میں دوسرے لوگ اُن کے پشت پناہ بن کر کھڑے ہو جائیں، بلکہ یہ ہے کہ خود مجرم اللہ کی طرف متوجہ ہو، اپنے گناہ کا اعتراف کرے اور اُس سے مغفرت چاہے۔
۱۸۱؎ اِس لیے وہ اِس بات کو کس طرح روا رکھ سکتا ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے پر ڈال دے۔
۱۸۲؎ یہ منافقین کی ایک اور شرارت سے پردہ اٹھایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ لوگ اپنی کسی غلطی یا کسی حق تلفی پر جب گرفت میں آجاتے ہیں تو اعتراف کے بجائے جھوٹ اور بہتان کی راہ اختیار کرتے ہیںاور اُس کا بوجھ کسی بے گناہ پر لادنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا کہ خدا سے بریت کا یہ راستہ بھی غلط ہے۔ اِس بہتان اور جھوٹ سے دنیا کو دھوکا دیا جا سکتاہے، خدا کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ خدا کے ہاں ایسے مجرم نہ صرف اپنے جرم کا بوجھ اٹھائیں گے، بلکہ اپنے اصل جرم پر بہتان اور جھوٹ کا بھی اضافہ کر لیں گے۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۳۸۰)
۱۸۳؎ اِس سے مراد صحابۂ کرام ہیں۔ اُن کا راستہ یہ تھا کہ اُنھوں نے جب ایک مرتبہ اللہ کے پیغمبر کو مان لیا تو اُس کے بعد پھر کبھی بدعہدی، بے وفائی، مخالفت اور گریز و فرار کا رویہ اختیار نہیں کیا، بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ آپ کی اتباع کی اور جو حکم دیا گیا، اُس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے رہے۔ لہٰذا یہ ایمان و اخلاص، اتباع و اطاعت اور تسلیم و انقیاد کا راستہ ہے جس کی پیروی ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔ دین کی تعبیر یا اُس کو سمجھنے میں کسی اختلاف سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۱۸۴؎ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ اللہ کا قانون ہے جو قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر بیان ہوا ہے کہ ہدایت اُنھیں ملتی ہے جو ہدایت کے سچے طالب ہیں اور گمراہی کے حوالے وہی لوگ کیے جاتے ہیں جو اپنے لیے خود گمراہی کا راستہ اختیار کر لیں۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ