حافظ محمد زبیر
[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
جیسا کہ سابقہ ابواب میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ غامدی صاحب کے وضع کردہ اصول اہل سنت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے مسائل میں غامدی صاحب نے خود اپنے وضع کردہ اصولوں سے بھی کلی طور پر انحراف کیا ہے۔ اس کی بعض مثالیں ذیل کی بحثوں میں سامنے آئیں گی۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں لفظ ’’کتاب‘‘ سے مراد کلام الٰہی ہے چاہے یہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یا قرآن و زبور کی صورت میں۔ ان کے مآخذ دین میں منسوخ شدہ آسمانی کتابیں تورات و انجیل وغیرہم بھی شامل ہیں۔ غامدی صاحب نے ’’کتاب‘‘ کا یہ مفہوم اپنے استاذ امام امین احسن اصلاحی صاحب سے لیا ہے۔ لفظ ’’کتاب‘‘ کے اس نادر مفہوم کو غامدی صاحب کی تفسیر ’’البیان‘‘ اور ان کے استاذ امام کی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ میں ’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘ کی تشریح میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ میں کسی جگہ کتاب کی تعریف بیان نہیں کی۔ انھوں نے ’’اصول و مبادی‘‘ کے آغاز میں قرآن کی تعریف بیان کی ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کتاب الٰہی کا ایک حصہ ہے، کل کتاب نہیں ہے۔ کتاب کے مفہوم میں ان کے نزدیک تورات، انجیل اور زبور وغیرہ بھی شامل ہیں۔
یہ غامدی صاحب کے تصور کتاب کا ہی نتیجہ ہے کہ خود ان کی طرف سے یا ان کے مریدین کی طرف سے جب بھی کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے، اس میں اکثرو بیش تر کتب سابقہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک سابقہ کتب سماویہ پر عمل کرنے کی علت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں بندوں کے لیے اللہ کی بھیجی گئی شریعت کے احکامات بہت حد تک ایک واضح سنت کی شکل اختیار کر گئے تھے اور حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنی بھی شریعتیں آئیں ان میں نسخ بہت کم ہے، اس لیے امت محمدیہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے ساتھ ساتھ ان تمام شرائع سابقہ کی مخاطب و متعبد ہے بشرطیکہ کتاب مقدس کی تعلیمات محفوظ ثابت ہو جائیں۔ ان کے نزدیک سابقہ شرائع کے اکثروبیش تر احکامات اب بھی دین اسلام میں قانون سازی کا ایک بہت بڑا مآخذ ہیں، اگرچہ سابقہ شرائع کے بعض احکامات میں نسخ کے وہ قائل ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنے اس موقف کو اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے عنوان سے صفحہ ۴۷ سے لے کر صفحہ ۵۲ تک مفصل بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب کی اس طویل عبارت کا خلاصہ ان کے شاگرد خاص جناب منظورالحسن صاحب درج ذیل الفاظ میں نکال رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسا ن کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ (اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیرعنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے)۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۱)
اسی لیے سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات جب ان کے خودمعین کردہ معیار صدق و کذب پر پوری اترتی ہوں تو وہ ان کتابوں کی آیات سے قرآنی آیات کی طرح کثرت سے استدلال کرتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل میں غامدی صاحب نے علت نکالنے میں غلطی کھائی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اور قرآن کے نزول کے بعد امت محمدیہ سابقہ شرائع کی متعبد نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اور شریعت جامع اورکامل و اکمل ہے۔ بالفرض اگر پچھلی شریعتیں محفوظ بھی ثابت ہو جائیں پھر بھی ان پر عمل نہیں ہو گا الاّ یہ کہ کوئی حکم پچھلی شریعتوں میں موجودہونے کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں بھی ثابت رکھا گیا ہو یا اس کی تصدیق مذکور ہو، یعنی اس پر عمل اس وجہ سے کیا جائے گا کہ وہ ہماری شریعت میں ثابت یا مذکو رہے نہ کہ اس پر عمل پچھلی شریعت کی بنا پر ہو گا۔ اس کی تفصیلات ہم آگے چل کر بیان کر یں گے۔ غامدی صاحب کے نزدیک حضرت ابراہیم کے بعد آنے والی تمام شریعتیں تقریباً کامل تھیں اور ہر دور کی تہذیب و تمدن کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتی تھیں، جبکہ ہم صرف اس پہلو سے تمام سابقہ شرائع کو کامل مانتے ہیں کہ وہ خاص ادوار کے لیے کامل ہدایت تھیں جبکہ زمان و مکان کی تخصیص کے بغیر رہتی دنیا تک آپ کی شریعت کے علاوہ باقی تمام شریعتیں ناقص ہیں۔ پچھلی آسمانی کتابیں اپنے مخصوص دور تک کے لیے تھیں اور قرآن کے آنے کے بعد ان کی، تشریعی نقطۂ نظر سے، ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔
سابقہ شرائع سے استدلال کے لیے غامدی صاحب کا اصل اصول ان کے شاگرد خاص جناب منظور الحسن صاحب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
’’بائیبل تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے۔ اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ ہی کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے۔ اس کے مختلف حاملین نے اپنے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزا ضائع کر دیے ہیں اور بعض میں تحریف کر دی ہے، تا ہم اس کے باوجود اس کے اندر پروردگار کی رشد و ہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں۔ اس کے مندرجات کو اگر اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے اس سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے۔ ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۶)
اس اصول کو ہم قارئین کی آسانی کی خاطر مزید تین حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں، کیونکہ غامدی صاحب کے کتاب مقدس سے استدلال کو اگر ہم سامنے رکھیں تو ان کا مذکورہ بالا یہ اصول تین طرح سے ہمارے سامنے آتا ہے:
۱۔ اگر کسی مسئلے کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہوں، یعنی لفظوں میں رہنمائی موجود نہ ہو تو قرآن میں واردشدہ ان اشارات کو بنیاد بنا کر اسی مسئلے کے بارے میں کتب سماویہ کی تفصیلات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے مسئلۂ موسیقی کو ثابت کیا ہے۔
غامدی صاحب کے بقول کتا ب مقدس سے موسیقی اور آلات موسیقی کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ایک جگہ زبور کا حوالہ دیتے ہوئے موسیقی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اے خداوندمیں تیرے لیے نیا گیت گائوں گا۔دس تار والی بربط پر میں تیری مدح سرائی کروں گا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۸)
ایک دوسری جگہ کتاب مقدس کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تو ایسا ہوا کہ جب نرسنگے پھونکنے والے اور گانے والے مل گئے تا کہ خداوند کی حمد اور شکر گزاری میں ان سب کی ایک آواز سنائی دے اور جب نرسنگوں اور جھانجھوں اور موسیقی کے سب سازوں کے ساتھ انھوں نے اپنی آواز بلند کر کے خداوند کی ستایش کی کہ وہ بھلا ہے ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۷)
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یا منسوخ نہیں ہیں؟ تو غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں اور قرآن میں موجود یہ اشارات کتاب مقدس کی مذکورہ آیات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ آیات نہ تو منسوخ ہیں اور نہ ہی غیر محفوظ، بلکہ ہمارے لیے شریعت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قرآن مجید اصلا ًخاموش ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے بارے میں کسی حکم کو بیان کر رہی ہو ۔البتہ، اس میں بعض ایسے اشارات ضرور موجود ہیں جن سے موسیقی کے جواز کی تائید ہوتی ہے۔ ان کی بنا پر قرآن سے موسیقی کے جواز کا یقینی حکم اخذ کرنا تو بلاشبہ کلام کے اصل مدعا سے تجاوز ہو گا۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۲)
گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں، ان کے بقول، موسیقی کے وارد شدہ اشارات اس بات کی دلیل ہیں کہ موسیقی کے حوالے سے کتاب مقدس کی آیات محفوظ ہیں ۔
۲۔ اگر کسی مسئلہ کے بارے میں قرآن میں خبرکے انداز میں لفظوں میں سابقہ شرائع کے حوالے سے کوئی رہنمائی موجود ہو اور یہ الفاظ مجمل ہوں تو ان الفاظ قرآنیہ کی تفصیل کتاب مقدس کی آیات سے کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے قرآن میں موجود لفظ ’تماثیل‘ کی بائیبل کی آیات کی روشنی میںتفصیل کی ہے۔ اور شیر ،بیل اور ملائکہ کی تصاویر کو بھی کتاب مقدس کی روشنی میں صحیح قرار دیا ہے۔ ایک جگہ تورات کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اور ان حاشیوں پر جو پڑوں کے درمیان تھے، شیر اور بیل اور کروبی (فرشتے) بنے ہوئے تھے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۰۰، ۳۴)
ایک اور جگہ ہیکل کی تعمیر کے حوالے سے تورات کی آیات بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اور الہام گاہ میں اس نے زیتون کی لکڑی کے دو کروبی(فرشتے)دس دس ہاتھ اونچے بنائے ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۰۰، ۳۴)
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ تورات کی ان آیات کے محفوظ ہونے کی کیا دلیل ہے؟ تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں حضرت سلیمان کے حوالے سے تماثیل کا ذکر موجود ہے۔ گویا کہ قرآن کے اجمالی الفاظ تورات کی ان تفصیلات کی تائید کر رہے ہیں۔
۳۔ قرآن کے مبہمات کی وضاحت کے لیے بھی غامدی صاحب کتاب مقدس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس اصول کے تحت انھوں نے قرآن میں موجود یاجوج ماجوج سے متعلقہ مبہم الفاظ کی توضیح اقوام مغرب سے کی ہے۔ یاجوج ماجوج سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یاجوج وماجوج کی اولاد ، یہ مغربی اقوام، عظیم فریب پر مبنی فکر و فلسفہ کی علم بردار ہیں اور اسی سبب سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری۱۹۹۶، ۶۱)
گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں یاجوج و ماجوج کا جو ذکر ہے، اس سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ لیکن جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یاجوج ماجوج کا جو ذکر کیا ہے اس سے مراد مغربی اقوام ہیں؟تو جواب میں غامدی صاحب فرماتے ہیںکہ تورات سے اس بات کی تعیین ہوتی ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ یاجوج ماجوج کا تعین کرتے ہوئے ایک جگہ تورات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اور خداوندکا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجو ج کی سرزمین کا ہے اور روش (روس)، مسک (ماسکو) اور توبل (توبالسک)کا فرماں روا ہے، متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، اکتوبر۱۹۹۰ ، ۵)
آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’اپنے اس علاقے سے قدیم زمانوں میں یہی لوگ یورپ میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں سے پھر صدیوں کے بعد تاریخ کی روشنی میں امریکا اور آسٹریلیا پہنچے اور اب دنیا کے سارے پھاٹک انھی کے قبضے میں ہیں۔‘‘(ماہنامہ اشراق، اکتوبر۱۹۹۰، ۵)
جب ہم غامدی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ تورات کی یہ آیات محفوظ ہیں؟ تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں موجود یاجوج ماجوج کا ذکر تورات کی ان آیات کی تصدیق کر رہا ہے ۔
قدیم صحائف سے استدلال کا جو اصول غامدی صاحب نے وضع کیا ہے یہ بوجوہ غلط ہے۔ تفصیلات ذیل میں مذکور ہیں:
۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول اشارات قرآنی سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے، اگر ہم کچھ دیر کے لیے غامدی صاحب کی بات مان بھی لیں تو پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ فلاں مسئلے کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہیں؟ کیونکہ اشارات ایک ایسی غیرواضح اصطلاح ہے کہ جو چاہے، جب چاہے قرآن سے کوئی بھی مسئلہ ’اشارات ‘کی شکل میں نکال سکتا ہے۔ مثال کے طور پرصوفیا کی تفسیر اشاری دیکھی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے ’اشارات ‘ کے نام پر قرآن سے عجیب و غریب قسم کے مسائل نکالے ہیں۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیںجبکہ ہمارے نزدیک غامدی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے۔ قرآن میںمروجہ موسیقی کے جواز کے بارے میں کسی قسم کے اشارات موجود نہیں ہیں۔ جس قسم کے اشارات سے غامدی صاحب نے مسئلۂ موسیقی میں استدلال کیاہے، اس قسم کے اشارات سے توہر مسئلہ قرآن سے نکالا جاسکتا ہے۔ غامدی صاحب کے بقول قرآن مجید کی آیات کا صوتی آہنگ اور قرآن کی آیت مبارکہ ’وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ‘ میں یہ اشارات موجود ہیں کہ موسیقی جائز ہے۔ غامدی صاحب کے اس نادر طرز استدلال پر ہم اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ عقل عام بھی اس بات کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ غامدی صاحب کا یہ طرزاستدلال کس قدر بودا ہے۔ کہاں قرآن کا صوتی آہنگ اور کہاں بینڈ باجے، ڈھول بانسریاں، گٹار اور پیانو وغیرہ جیسے آلات موسیقی! کہاں حضرت داؤد کا خوب صورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے اور کہاں کسی عورت کا رقص وسرود کی محفلوں میں محبوب سے متعلق جذبات کا اظہار کرنا! اگر قرآن کا صوتی آہنگ اور حضرت داؤد کا خوب صورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا موسیقی ہے تو ہم بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی موجود ہے، لیکن قرآن سے جو موسیقی غامدی صاحب ثابت کرنے چلے ہیں یا قرآن کے ان اشارات کی تطبیق میں غامدی صاحب ہمارے معاشروں میں موجود رقص وسرود کی جن محفلوں کی تائید کرنا چاہتے ہیں، ان کی تائید کسی طرح سے بھی ان اشارات قرآنی سے ثابت نہیں ہو رہی۔ ان اشارات قرآنی سے یہ بھی ثابت نہیں ہو رہا کہ حضرت داؤد کے پاس ’دس تاروں والی بربط‘ تھی جس پر وہ اللہ کی حمد و ثنا کیا کرتے تھے۔ قرآن نے تو صرف حمد و ثنا کا تذکرہ کیا ہے، دس تاروں والی بربط کا بیان صرف کتاب مقدس کا ہے جس کے بارے میں ہمارے علم میں نہیں ہے کہ یہ بیان محفوظ ہے یا نہیں۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب نے قرآن میں وارد شدہ لفظ ’تماثیل‘ کو بنیاد بنا کرکتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کی ہے۔ حالانکہ قرآن نے تو صرف اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں اللہ کے حکم سے جنات ان کے لیے ’تماثیل‘ بنایا کرتے تھے۔ اب یہ ’تماثیل‘ کیا تھیں؟ اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ قرآن نے تماثیل کی تصدیق کی ہے نہ کہ شیر، بیلوں اور فرشتوں کی تصاویر کی۔ قرآن کے الفاظ میں اجمال ہے اور قرآن کتاب مقدس کی اس حد تک تو تصدیق کر رہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں تماثیل تھیں، لیکن قرآن قطعاً ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کررہا جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ اس لیے قرآن کے اجمالی بیان سے کتاب مقدس کے اجمال کی تو تصدیق ہوتی ہے، لیکن قرآن کے مجمل الفاظ کتاب مقدس کی تفصیلی آیات کی تصدیق نہیں کر رہے، اس لیے قرآن سے یہ بالکل بھی واضح نہیں ہوتا کہ کتاب مقدس کا یہ تفصیلی بیان محفوظ ہے یا اس میں بھی کمی بیشی ہو چکی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کا اجمال اور قرآن کی تفصیل سے کتاب مقدس کی تفصیل محفوظ ثابت ہوتی ہے، لیکن قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کے تفصیلی بیان کو محفوظ ثابت کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے۔ قرآن میں واردشدہ لفظ ’تماثیل ‘کسی طرح بھی کتاب مقدس کے لفظ ’کروبی‘ کی تصدیق نہیں کر رہا کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں جنات فرشتوں کی بھی تصاویر بناتے تھے۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ قرآن میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، لیکن قرآن نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ یاجوج ماجوج سے کیا مراد ہے یا یہ کون لوگ ہوں گے۔ لیکن کتاب مقدس نے یاجوج ماجوج کا تذکرہ بھی کیا ہے اور ان کا تعین بھی کیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ کتاب مقدس میں جو یاجوج ماجوج کا تذکرہ ہے وہ صحیح ہے، لیکن قرآن ہر گز بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو کہ یاجوج ماجوج کی تعیین کر رہی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یانہیں یا یہ آیات کلام الٰہی ہیںیا نہیں۔ بہرحال قرآن کسی طور بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو کہ یاجوج ماجوج کی تعیین کے بارے میںہیں ۔
۴۔ چوتھی بات یہ کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے استدلال کا اپنا شوق ضرور پورا کریں، لیکن ہم ان سے اتنی گزارش کرتے ہیںکہ پہلے کتاب مقدس کی ان آیات کو محفوظ تو ثابت کریں جن سے آپ استدلال کر رہے ہیں۔ چند موہوم اشارات قرآنیہ کو بنیا دبنا کرکتاب مقدس کی آیات کومحفوظ ثابت کرنا اور ان سے کسی شرعی مسئلے میں استدلال کرنا کسی محقق کے شایان شان نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے بقول:
’’۔۔۔پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ بیش تر مقامات پر اللہ کی حمد و ثنا کے لیے موسیقی کے استعمال کا ذکر آیا ہے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴،۱۶)
لیکن ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اس بات کی دلیل کیا ہے؟ اور وہ جواب میں دلیل کے طور پر کتاب مقدس کی آیات پیش کر دیتے ہیں۔ جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں؟ تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن سے کتاب مقدس کی ان آیات کی تائید ہو رہی ہے۔ حالانکہ ان کا یہ دعویٰ صریحاً باطل ہے۔ قرآن کسی طرح بھی کتاب مقدس میں موجود نرسنگوں، جانجھوں اور موسیقی کے تمام سازوں کی تائید نہیں کر رہا، جیسا کہ ہم اوپر یہ بات ثابت کر چکے ہیں۔ جب قرآن کتاب مقدس کی ان آیات کی تائیدنہیں کر رہا تو کتاب مقدس کی یہ آیات بھی محفوظ ثابت نہیں ہوئیں۔ جب کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ثابت نہیں ہوئیں تو یہ بھی ثابت نہ ہوا کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی جائز رہی ہے، لہٰذا غامدی صاحب کا دعویٰ باطل ہوا۔
اس اصول پر شرعی دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ہم تمہیداً غامدی صاحب کی خدمت میں ان کے امام اور خود ان کی اپنی تحریروں کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کر رہے ہیں۔
سجدۂ تعظیمی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تحریر میں سے چند اقتباسات ہم یہاں نقل کیے دیتے ہیں:
’’۔۔۔ سوال یہ ہے کہ قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں یا بعض جگہ پچھلی شریعتوں کے جو حوالے آ گئے ہیں ، کیا وہ مجرد اتنی بات سے کہ وہ قرآن میں مذکور ہوئے ہیں ’اس امت کے لیے شریعت کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں‘ یا اس امت کے لیے ان کے شریعت بننے کے لیے کچھ اور شرطیں بھی ہیں۔میرا نقطۂ نظر اس طرح کے تمام واقعات اور حوالوں سے متعلق یہ ہے کہ یہ مجرد قرآن میں مذکور ہو جانے کی وجہ سے امت محمدیہ کے لیے شریعت نہیں بن سکتے۔۔۔ قرآن میںحضرت آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب ان کو ان کے بھائی نے قتل کردینے کی دھمکی دی تو انھوں نے کہا کہ میں تو تم پر قتل کے ارادے سے ہاتھ نہیں اٹھائوں گا ، خواہ تم مجھے قتل ہی کر ڈالو، میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محض اس خدمت کے معاوضے میں کر دیا کہ وہ ایک خاص مدت تک ان کی بکریاں چرائیں۔ حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ان کی قوم کے غنڈوں نے جب ان کے مہمانوں کی فضیحت کرنی چاہی تو انھوں نے ان کو مخاطب کر کے کہاکہ اگر تمھیں کچھ کرنا ہی ہے تو میری لڑکیوں کے ساتھ کرو، خدا را میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ فوج کی پریڈ کے موقع پر ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تو انھوں نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر گھوڑوں ہی کو قتل کرنا شروع کر دیا ۔سورۂ کہف میں ایک نیک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اس بنا پرایک بچے کو قتل کر دیا کہ انھیں یہ علم ہو گیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو گا، اور ایک کشتی میں اس بنا پر سوراخ کر دیا کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ اس دیار کا بادشاہ کہیں اس کشتی کو قبضے میں نہ کر لے۔
یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے واقعات ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور بطریق مذمت نہیں بیان ہوئے، بلکہ بطریق مدح بیان ہوئے ہیں۔اب بتائیے کہ کیا مجرد اس بنا پر کہ یہ واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، یہ اس امت کے لیے قانون اور شریعت بن جائیں گے؟ اور ایک شخص کے لیے یہ بات جائز ہو جائے گی کہ اگر وہ اپنے کشفی علم سے کسی بچے کے بارے میں یہ معلوم کرے کہ یہ نافرمان اٹھے گا تو اسے قتل کر ڈالے یا اس کی کوئی چیز اس کے لیے فتنہ کا سبب بن جائے تو اس کو تباہ کر ڈالے یا کوئی شخص اس پر حملہ آور ہو تو اپنے آپ کو بے چون و چرا اس کے حوالے کر دے؟۔۔۔ان ضمنی طور پر بیان شدہ واقعات سے اگر کوئی تعلیم نکلتی ہے تووہ اس امت کے لیے اسی صورت میں ہدایت اور شریعت کا درجہ حاصل کرسکتی ہے، جب کتاب وسنت کی دوسری تصریحات سے بھی اس بات کی تائید ہو جائے کہ اس تعلیم کو اس امت کے اندر بھی باقی رکھنا شارع کو مطلوب ہے ، یا کم ازکم یہ کہ کوئی بات اس کے خلاف نہ پائی جائے ۔لیکن اگر دوسری تصریحات اس کے خلاف ہوں تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ اس امت میں اس تعلیم کوباقی رکھنا شارع کو مطلوب نہیں ہے۔
اگر اس قسم کی کوئی تصریح خود قرآن میں ہو تو وہ تصریح اس اشارہ پر مقدم ہو جائے گی ۔۔۔ اور اگر یہ تصریح قرآن کے بجائے حدیث میں ہو تو بھی اس کو تقدم حاصل ہو گا ۔۔۔ جو کچھ موجود ہے اس کی حیثیت محض ایک واقعہ کی ہے جو پچھلی امتوں میں سے کسی امت میں یا سابق انبیا میں سے کسی نبی کی زندگی میں پیش آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس امت میں یہ بات بعینہٖ اس شکل میں مطلوب ہے یا نہیں تو اس کی وضاحت قرآن بھی کر سکتا ہے اور حدیث بھی کر سکتی ہے۔ قرآن کے کسی واضح حکم کو منسوخ کر دینے کے لیے تو بلاشبہ حدیث ناکافی ہے، لیکن پچھلی امتوں یا سابق انبیا میں سے کسی کی تعلیم کو یا کسی روایت کو منسوخ کر دینے کے لیے تو حدیث بالکل کافی ہے۔ بے شمار معاملات ایسے ہیں جن میں ہم جانتے ہیں کہ سابق انبیا کی تعلیم کچھ او ر تھی اور ہمارے نبی کریم نے ہمیں اس کی جگہ کوئی اورہدایت فرمائی اور ہم بے چون و چرا اس کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ عذر نہیں پیش کرتے کہ کسی سابق نبی کی تعلیم کو حدیث کس طرح منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر۱۹۸۹، ۳۶-۳۸)
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی درج بالا عبارت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
۱۔ کتاب مقدس کی وہ تعلیمات جو قرآن میں اشارتاً، اجمالاً یا تفصیلا ًبیان ہوئی ہیں، اس وقت تک ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتیں جب تک کہ خود قرآن یا حدیث سے ان تعلیمات کا اثبات نہ ہو۔گویا کہ اصل دلیل قرآن و سنت ہے نہ کہ سابقہ شرائع،جبکہ غامدی صاحب سابقہ شرائع کو مستقل طور پر مآخذ دین میں سے شمار کرتے ہیں اور ان سے بھی مسائل کا اثبات کرتے ہیں ۔
۲۔ قرآن کے علاوہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی کتب سابقہ کی تعلیمات کی منسوخی کے لیے کافی ہیں۔ یعنی قرآن کی کسی آیت کی تفسیریا اس کے علاوہ کسی مسئلے میں اگر کتاب مقدس اور احادیث میں اختلاف ہو جائے تو حجت احادیث ہوں گی ۔جبکہ غامدی صاحب قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں احادیث کے بالمقابل کتاب مقدس کی آیات کو ترجیح دیتے ہیں ، جیسا کہ بہت سارے معاملات میں ان کی آرا سے بھی ظاہر ہے ۔
۳۔ بہت سارے احکامات جو پچھلی شریعتوںمیں جائز تھے، ہمارے لیے ان پر عمل کرنایا ان سے اپنے عمل پر دلیل پکڑنا جائز نہیں ۔جبکہ غامدی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں کہ ایک فعل کسی شریعت میں جائز رہا ہو اور بعد میں اسے کسی دوسری شریعت میں شارع کی طرف سے ناجائز قرار دے دیا گیا ہو۔
غامدی صاحب کا اصول ’’میزان‘‘ کی نظر میں غامدی صاحب نے جس طرح سے موسیقی، یاجوج ماجوج اور تصویر وغیرہ کے مسئلے میں کتاب مقدس سے استدلال کیا ہے، و ہ خود ان کے اپنے اس اصول کے خلاف ہے جو انھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب ’’میزان‘‘ میں ایک جگہ تدبر قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہود و نصاریٰ کی تاریخ، انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔‘‘(میزان، جاوید احمد غامدی،۵۲)
اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قدیم صحائف کویہود و نصاریٰ کے اخبار و واقعات اور قصص وتاریخ سے متعلقہ قرآنی آیات کو سمجھنے کے لیے مآخذ بنایا جائے گا نہ کہ احکام و عقائد کے لیے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ غامدی صاحب اس مسئلے پر اصولی بحث کرتے ہوئے اپنی اس عبارت میں احکام اور عقائد کا بھی تذکرہ کر دیتے، لیکن ان کا یہاں پر احکام و عقائد کا تذکرہ نہ کرنااور کہیں اور جا کر احکام اور عقائد سے متعلقہ مسائل کے لیے قدیم صحائف کو بنیاد بنانا ذہن میں کچھ سوالات ضرور پیدا کرتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ موسیقی اور تصویر کا تعلق احکام سے ہے اور یاجوج ماجوج کا تعین عقیدے کا مسئلہ ہے ۔ عقیدے اور احکام کے بارے میں غامدی صاحب کے ہاں ایک انتہاتو یہ ہے کہ خبر واحد سے تو کسی بھی حکم اور عقیدے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسری طرف تحریف شدہ کتاب مقدس سے وہ کس سہولت و آسانی سے احکام و عقائد کا اثبات کر رہے ہیں، یہ بالکل ظاہر و باہر ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث سے کوئی نیا حکم یا عقیدہ توثابت نہیں ہو سکتا، اگرچہ وہ حدیث قرآن میں موجود کسی حکم یا عقیدے کی تفہیم و تبیین میں دلیل بن سکتی ہے جبکہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے ایک نئے حکم (موسیقی کا جواز) کو ثابت کر رہے ہیں، کیونکہ بقول ان کے قرآن کے الفاظ میں اس مسئلہ کی حلت و حرمت کے بارے میں کوئی یقینی حکم نہیں ہے۔ گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب مقدس صرف قرآنی آیات و احکام کی تفہیم و تبیین ہی نہیں کرتی، بلکہ اس سے نئے احکام کا اثبات بھی کیا جا سکتا ہے ۔
غامدی صاحب کا اصول دلائل شرعیہ کی روشنی میں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد امت محمدیہ نہ تو سابقہ شرائع کی متعبد ہے اور نہ ہی سابقہ امم کی کتابیں ہمارے لیے مآخذ دین کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہمارے اس دعوے کے درج ذیل دلائل ہیں:
پہلی دلیل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ کو یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو فرمایا:
کیف تقضی اذا عرض لک قضاء قال: اقضی بکتاب اللّٰہ، قال: فان لم تجد فی کتاب اللّٰہ، قال: فبسنۃ رسول اللّٰہ، قال: فان لم تجد فی سنۃ رسول اللّٰہ ولا فی کتاب اللّٰہ، قال: اجتھد رأیی۔(سنن ابی دائود، کتاب الاقضیہ، باب اجتہاد الرأی فی القضائ)
’’’’اگر تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟‘‘ تو حضرت معاذ نے جواب دیا: میں قرآن سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمھیں قرآن میں نہ ملے؟‘‘ تو حضرت معاذ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ مسئلہ نہ قرآن میں ملے اور نہ سنت رسول میں؟‘‘ تو حضرت معاذ نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔‘‘
اس روایت میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پچھلے انبیا اور ان کی تعلیمات کا بالکل بھی تذکرہ نہیں کیا۔ اگر سابقہ کتب سماویہ بھی مآخذ دین میں سے ہوتیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کتب کی طرف بھی رجوع کا حکم دیتے۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس قول کو صحیح قرار دیتے ہوئے ان کے لیے دعا کی۔ واضح رہے کہ اس روایت کی صحت و ضعف کے بارے میں اگرچہ محدثین کا اختلاف ہے، لیکن اس کی تائید بہت سے شواہد و آثار سے بھی ہوتی ہے جس سے یہ روایت حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔
دوسری دلیل
قاضی شریح نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کو ایک خط لکھا جس میں قضا کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رہنمائی حاصل چاہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو جواباً یہ خط لکھا:
ان اقض بما فی کتاب اللّٰہ، فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ فبسنۃ رسول اللّٰہ، فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ ولا فی سنۃ رسول اللّٰہ فاقض بما قضی بہ الصالحون، فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ ولا فی سنۃ رسول اللّٰہ ولم یقض بہ الصالحون فان شئت فتقدم وان شئت فتاخر ولا اری التاخر الا خیرلک والسلام علیکم۔ (سنن نسائی، کتاب آداب القضاۃ، باب الحکم باتفاق اھل العلم)
’’تم اللہ کی کتاب قرآن کے ساتھ (لوگوں کے درمیان) فیصلہ کرو، اگر کتاب اللہ میں وہ مسئلہ موجود نہ ہو تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ فیصلہ کرو، اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں بھی نہ ہو اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو تو نیک لوگوں کے فیصلوں کو سامنے رکھو، پس اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں بھی نہ ہو او رسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہواور نیک لوگوں نے بھی اس کے بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو تو اب اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (یعنی خود اجتہاد کرو) اور اگر تم چاہو تو رکے رہو (یعنی اپنے اجتہاد سے فیصلہ نہ کرو) لیکن میرے خیال میں تمھارا رکا رہنا تمھارے حق میں بہتر ہے اور تمھارے اوپر اللہ کی سلامتی ہو۔‘‘
یہ روایت صحیح ہے۔ علامہ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تیسری دلیل
اگر پچھلی شریعتیں بھی مآخذ دین میں سے ہوتیں تو ان کا سیکھنا فرض کفایہ ہوتا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی تورات و انجیل کی تعلیم حاصل کرتے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی کتاب مقدس کی تعلیم دیتے۔ جبکہ ہمارے علم میں ہے کہ نہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سابقہ کتب کا مطالعہ کیا اور نہ صحابہ نے ان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، حالانکہ آپ اور صحابہ کے پاس عبداللہ بن سلام، کعب الاحبار اور وھب بن منبہ رضی اللہ عنہم کی صورت میں اس کے مواقع بھی موجود تھے۔
چوتھی دلیل
اس بات پر علماے امت کا اجماع ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر پچھلی شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔۱؎ اگر استثنا ہے بھی تو محض عقائد، اخلاقیات اور چند بنیادی مخصوص احکامات کا جن کو ہماری شریعت نے بھی برقرار رکھا ہے۔ اس لیے پچھلی شریعتوں سے عمومی طور پر دلیل پکڑنا صحیح نہیں ہے۔
پانچویں دلیل
حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اعطیت خمسا لم یعطھن احد قبلی: نصرت بالرعب مسیرۃ شھر و جعلت لی الارض مسجدا وطھورا فایما رجل من امتی ادرکتہ الصلاۃ فلیصل واحلت لی الغنائم ولم تحل لاحد قبلی واعطیت الشفاعۃ وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ۔(صحیح البخاری، کتاب التیمم، باب قول اللہ تعالیٰ، فلم تجدوا ماء فتیمموا)
’’مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ مجھ سے پہلے وہ کسی (نبی) کو نہ دی گئیں، پہلی بات یہ ہے کہ ایک مہینے کی مسافت تک دشمنوں پر میرا رعب ڈال دیا گیا۔ دوسری با ت یہ کہ تمام زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک بنا دیا گیا۔ پس اگر میری امت میں کوئی بھی نماز (کا وقت کہیں بھی) پا لے تو وہ (اسی جگہ) نماز ادا کرلے۔ تیسری بات یہ کہ میرے لیے مال غنیمت کو حلال کر دیا گیا۔ چوتھی بات یہ کہ مجھے مقام شفاعت عطا کیا گیا اور پانچویں بات یہ کہ مجھ سے پہلے انبیا کو ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام نوع انسانی کا نبی بنا کر بھیجا گیا۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ’وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ‘اس مسئلے میں قطعی حجت ہیں کہ سابقہ شرائع مخصوص اقوام کے لیے تھیں جبکہ ’وبعثت الی الناس عامۃ‘ کے الفاظ سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ آپ کی ہی شریعت وہ اکیلی شریعت ہے جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کی صلاحیت رکھتی ہے۔
چھٹی دلیل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کان اھل الکتاب یقرء ون التوراۃ بالعبرانیۃ ویفسرونھا بالعربیۃ لاھل الاسلام فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم وقولوا امنا باللّٰہ وما انزل الینا۔۔۔الآیۃ‘۔ (صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا)
’’اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے عربی زبان میں اس کی تفسیر کرتے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’نہ تو اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو اور یہ بات کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا‘ ۔۔۔۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو وحی آتی تھی اور آپ وحی کی روشنی میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بتا سکتے تھے کہ تورات کی یہ آیات محفوظ ہیں یا نہیں اور تورات کی محفوظ آیات سے استدلال بھی کر سکتے تھے، لیکن آپ نے نہ تو بذات خود تورات کی آیات کی تصدیق کی اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی اجازت دی، چہ جائیکہ آپ اس سے کسی مسئلے میں استدلال کرتے ۔
ساتویں دلیل
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلغوا عنی ولو آیۃ وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ومن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (سنن ترمذی، کتاب العلم عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الحدیث عن بنی اسرائیل )
’’میری طرف سے پہنچائو چاہے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور بنی اسرائیل سے روایت کر لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جس نے جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
’ولا حرج‘ کے الفاظ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مباح ہے۔ ایک ایسی چیز کہ جس سے نقل کرنے کی رخصت دی گئی ہو وہ ہمارے لیے شریعت کیسے ہو سکتی ہے؟ جو چیز شریعت ہے، اس سے استدلال واجب ہے جیسے کہ قرآن و سنت ہیں۔ جبکہ سابقہ کتب سے رہنمائی کو واجب قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اس کی رخصت دی گئی ہے اور یہ رخصت بھی راجح قول کے مطابق صرف واقعات کی حد تک ہے۔ اور اس پر مستزادیہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دینے کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی جاری فرما دی کہ اہل کتاب کی باتیں سن لینے میں اور بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ان کی باتوں کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو۔ اس حدیث کے مطابق بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی اخبار و قصص کی تکمیل کے لیے کتاب مقدس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ان واقعات میں بھی بہت کچھ جھوٹ کی آمیزش ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے نقل کرنے کی اجازت تو دے دی، لیکن اس کی تصدیق و تکذیب سے روک دیا۔
آٹھویں دلیل
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:
کیف تسالون اھل الکتاب عن شی ء وکتابکم الذی انزل علی رسول اللّٰہ احدث تقرؤونہ محضا لم یشب وقد حدثکم ان اھل الکتاب بدلوا کتاب اللّٰہ وغیرہ وکتبوا بایدیھم الکتاب وقالوا ھو من عند اللّٰہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا الا ینھاکم ما جاء کم من العلم عن مسألتھم لا واللّٰہ ما راینا منھمرجلا یسألکم عن الذی انزل علیکم۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی لا تسالوا اھل الکتاب عن شیئ)
’’کیسے تم اہل کتاب سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھتے ہو حالانکہ تمھاری کتاب جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، زیادہ نئی ہے؟ تم اس کو خالص حالت میں پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی گئی۔ جبکہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل ڈالا ہے اور اس کو تبدیل کر دیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھی ہے اور اس کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس کے بدلے میں کچھ قیمت حاصل کر سکیں۔ خبردار! جو علم (قرآن و سنت) تمھارے پاس آیا ہے، وہ تمھیںاہل کتاب سے سوال کرنے سے منع کرتا ہے۔ نہیں، اللہ کی قسم ہم نے اہل کتاب میں سے کسی آدمی کو نہیں دیکھا کہ جو تم سے اس (قرآن و سنت) کے بارے میں سوال کرے جو کہ تم پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
اگر کوئی اس حدیث کی تشریح میں یہ بات کہے کہ اہل کتاب سے کوئی مسئلہ دریافت کرنے سے منع کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سابقہ کتب محفوظ نہیں، اگر وہ محفوظ ثابت ہو جائیں تو ان سے رہنمائی لی جا سکتی ہے، تو ہمارے نزدیک یہ استدلال غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سابقہ کتب کی تعلیمات کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ وہ محفوظ ہیں یا نہیں، چنداں مشکل نہ تھا۔ صحابۂ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ سکتے تھے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ تعلیم محفوظ ہے اور اس میں تحریف ہو چکی ہے۔ لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ کا سابقہ کتب کی تعلیمات سے عدم تعرض اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سابقہ کتب سے استدلال نہ کرنے کا جو حکم ہے، اس کی اصل علت شریعت محمدیہ کا کامل و اکمل ہونا ہے جو کہ انتہائی درجے اتمام اور اکمال کی وجہ سے سابقہ شرائع کی کسی طور بھی محتاج نہیں ہے۔
نویں دلیل
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تسألوا اھل الکتاب عن شی ء فانھم لن یھدوکم وقد ضلوا فانکم اما ان تصدقوا بباطل او تکذبوا بحق ولو کان موسیٰ حیا بین اظھرکم ما حل لہ الا ان یتبعنی۔(مسند احمد،رقم۱۴۱۰۴)
’’اہل کتاب سے کچھ بھی نہ پوچھو۔ بے شک وہ تمھاری رہنمائی نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ خود گمراہ ہو چکے ہیں۔ ان سے مسئلہ پوچھ کر یا تو تم کسی باطل چیز کی تصدیق کر بیٹھو گے یا کسی حق بات کو جھٹلائو گے۔ (یاد رکھو) اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی تمھارے درمیان موجود ہوتے تو ان کے لیے بھی سوائے میری اتباع کے کوئی چارۂ کار نہ تھا۔‘‘
اصول فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جب نفی یا نہی کے سیاق میں نکرہ آئے تو نص میں عموم پیدا ہو جاتا ہے، لہٰذا ’عن شیئ‘ میں ہر چیز داخل ہے۔ یعنی سابقہ شرائع کسی مسئلے میں بھی رہنمائی کے قابل نہیں ہیں، چاہے وہ مسئلہ عقائد سے متعلق ہو یا احکام سے یا اخبار و قصص سے۔ کسی حد تک قرآن و سنت کے سیاق و سباق کی تعیین کے لیے اسرائیلی اخبار و قصص کے نقل کرنے کی جو رخصت دی گئی ہے، اس میں بھی اصل مطلوب ان کتب میں بیان شدہ واقعات سے رہنمائی حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ واقعات کے صحیح مفہوم تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
دسویں دلیل
آج یہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے میں صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے نہ کہ اس وقت کی پوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں مصرو فلسطین کے علاوہ بھی دنیا تھی جہاں لوگ آباد تھے۔ ان کے لیے شریعت کون سی تھی؟ ان کی طرف کس نبی کو بھیجا گیا تھا؟ کیا حضرت موسیٰ اپنے وقت میں ساری دنیا کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے؟ یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور تاریخ اس چیز کی نفی کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ساری دنیا کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت اپنے زمانے میں موجود تمام انسانوں کے لیے حجت نہ تھی تو صدیوں بعد آنے والی امت محمدیہ کے لیے کیسے دلیل بن سکتی ہے؟
گیارہویں دلیل
ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
وعن جابر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین اتاہ عمر فقال انا نسمع احادیث من یھود تعجبنا افتری ان نکتب بعضھا؟ فقال امتھوکون انتم کما تھوکت الیھود والنصاری؟ قد جئتکم بھا بیضاء نقیۃ ولو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الا اتباعی۔ (المشکوٰۃ،رقم ۱۹۴)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے تو انھوں نے آپ سے کہا کہ ہم یہود سے بہت ساری ایسی باتیں سنتے ہیں جو کہ ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے، اگر ہم ان میں سے بعض باتوں کو لکھ لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم بھی اہل یہود کی طرح ہلاک ہونا چاہتے ہو! میں تمھارے پاس ایسی واضح اور روشن آیات لے کر آیا ہوں کہ اگر حضرت موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘
علامہ البانی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
ایک اور طویل روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ولو کان حیا وادرک نبوتی لا تبعنی۔(المشکوٰۃ،رقم ۱۷۷)
’’اور اگر حضرت موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پا لیتے تو لازماً میری اتباع کرتے۔‘‘
بعض روایات میں الفاظ ہیں:
لو کان موسیٰ وعیسیٰ حیین لما وسعھما الا اتباعی۔(تفسیر ابن کثیر، علامہ ابن کثیر، آل عمران ۳: ۸۱)
’’اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پچھلی ساری شریعتیں منسوخ ہیں۔ اور اگر وہ محفوظ ثابت ہو بھی جائیں تو پھر بھی ان پر عمل نہ ہو گا،جیسا کہ غامدی صاحب کا اصول ہے کہ کتاب مقدس کی آیات کو پہلے محفوظ ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے استدلال کرتے ہیں، کیونکہ صاحب تورات (حضرت موسیٰ) اور صاحب انجیل(حضرت عیسیٰ) کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ بھی زندہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شریعت کی اتباع کرتے، اور تورات اور انجیل کو حضرات موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے زیادہ کون جانتا ہو گا؟ جب ان انبیا کے بارے میں فرما دیا گیا جن پر یہ کتابیں نازل ہوئیں کہ وہ بھی اگر آپ کے زمانے کو پا لیں تو انھیں بھی اپنی کتابوں کی بجائے آپ کی اتباع کرنی ہو گی، حالانکہ اس صورت حال میں تو تورات و انجیل بعینہٖ اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ حضرات موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اگر زندہ ہوتے تو ان کے لیے تورات و انجیل ایسے ہی محفوظ ہوتیں جیسے ہمارے لیے قرآن، کیونکہ ان سے زیادہ تورات و انجیل کو کون جانتا ہو گا، لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ آپ کے ایک امتی ہی کی حیثیت سے اس امت میں زندگی گزارتے۔ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ جب اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو آپ کے امتی ہی کی حیثیت سے آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی لائی گئی شریعت کے پیروہوں گے نہ کہ تورات و انجیل کے۔ مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وعن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الی یوم القیامۃ، قال فینزل عیسٰی بن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ اللّٰہ ھذہ الامۃ۔(المشکوٰۃ، رقم ۵۵۰۷)
’’اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک حق کے لیے لڑتا رہے گا اور (اپنے دشمنوں پر) قیامت(کے قریب) تک غالب رہے گا، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہو۔ تو ان کا امیر حضرت عیسیٰ سے کہے گا: آئیں ہمارے لیے امامت کرائیں تو حضرت عیسیٰ انکار کریں گے اور فرمائیں گے کہ تم میں بعض، بعض کا امیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عزت بخشی ہے(کہ ان کا امیر انھی میں سے ہو)۔‘‘
علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
بارہویں دلیل
علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں آیۂ مبارکہ ’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۔‘(آل عمران۳: ۸۱) کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان فقہاے صحابہ کے نزدیک اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انبیا سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی ایک کی زندگی میں آپ مبعوث ہو جائیں تو وہ آپ پر لازماً ایمان لے آئیں گے اور آپ کی مدد کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے بھی یہ پختہ وعدہ لیں کہ اگر ان کی موجودگی میں آپ کا ظہور ہو جائے تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
انبیا سے آپ پر ایمان لانے کا جو مطالبہ کیا گیا ہے، اس سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو رہی ہے کہ آپ کی آمد کے بعد کسی نبی کو بھی اپنی شریعت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، چہ جائیکہ کسی امتی کو آپ کی بعثت کے بعد یہ اجازت دی جائے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ آخری نبی کی لائی ہوئی شریعت کو اتنا جامع اور مکمل ہونا تھا کہ وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے رہنمائی بن سکے جبکہ باقی انبیا کو ان کے خاص دور، علاقے اور قوم کی مناسبت سے شریعتیں دی گئی تھیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں واضح کیا تھا کہ ہمارے نزدیک غامدی صاحب کے اصول بھی غلط ہیں او ران سے ان اصولوں کے اطلاق میں بھی غلطی ہوئی ہے۔ یہاں ہم ان کے اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کریں گے اور ان مسائل کا تذکرہ کریں گے جو ہماری شریعت میں بھی ثابت ہیں اور پچھلی شریعتوں میں بھی ان کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن غامدی صاحب یا تو ان کو ماننے میں متامل ہیں یا انکاری ہیں اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ قرآن میں ان کا ذکر واضح طور پر نہیں ملتا۔ ان مثالوں کے بیان کرنے سے یہ مقصود ہے کہ محترم جناب غامدی صاحب کتاب مقدس کو دلیل صرف ان مسائل میں بناتے ہیں جو ان کے متجددانہ نظریات کے موافق ہوں۔
حضرت مسیح کی آمد ثانی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تذکرہ قرآن میں بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ ہمیں بکثرت آپ کی احادیث مبارکہ میں ملتا ہے اور امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں اللہ کے کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کی حیثیت سے واپس آئیں گے۔ دوسری طرف کتاب مقدس بھی اس بات کی تائید کرتی نظر آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے۔ لیکن غامدی صاحب اس عقیدے کو ماننے میں اس لیے متامل ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قرآن مجید بالکل خاموش ہے، بلکہ اس سے جو قرائن سامنے آتے ہیں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے بارے میں کچھ سوالات ضرور ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ قرآن مجید نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کا ذکر کیا ہے، وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کے قیامت تک یہود پر غلبے کی پیشین گوئی بھی کی ہے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ آپ کی آمد ثانی کا ذکر کر دیا جاتا اور اس غلبے کی پیشین گوئی بھی کر دی جاتی جس کا ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے حوالے سے روایات میں ہوا ہے... پھر حدیث کی سب سے پہلے مرتب ہونے والی کتاب، ’’موطا امام مالک‘‘ میں حضرت مسیح کی آمد ثانی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں ۔ یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اتنا اہم مسئلہ ہے کہ امام مالک کا اس سے عدم تعرض سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک روایت میں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب بیان ہوا ہے جس میں آپ نے حضرت مسیح کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہی مضمون بڑھتے بڑھتے حضرت مسیح کی آمد ثانی میں تو نہیں بدل گیا؟
یہ قرائن اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور بطور خاص قرآن کے محولہ بالا مقامات سے سامنے آنے والے عقدے کو حل کیا جائے۔ جب تک ان سوالات کا قابل اطمینان جواب نہیں ملتا، اس باب میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۶،۶۰-۶۱)
آج جس عقیدے کی صرف امت مسلمہ ہی نہیں، بلکہ پوری عیسائی دنیا بھی قائل ہے، غامدی صاحب ابھی تک اس میں سوچ و بچار کر رہے ہیں۔یہ غامدی صاحب کی دس سال پہلے کی تحریر ہے۔ میرے خیال میں اب تک تو ان کی طرف سے ہاں یا نہیں میں کوئی واضح موقف سامنے آ جانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ قرآن میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا تذکرہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْناً۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْدًا.(النساء ۴: ۱۵۷۔ ۱۵۹)
’’ اور ان یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا، حالانکہ انھوں نے نہ تو حضرت عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی چڑھایا، لیکن معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔ او رجن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا وہ بھی البتہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے سوائے گمان کی پیروی کے، اور انھوں نے حضرت عیسیٰ کو یقینا قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، حکمت والا ہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے۔‘‘
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس، امام المفسرین علامہ ابن جریر طبری، امام المتکلمین امام رازی ، امام فقہاے مفسرین علامہ قرطبی اور امام اللغہ علامہ زمخشری کے نزدیک اس آیت میں ’بہ‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جبکہ ’موتہ‘ کی ضمیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے یا ’کتابی‘ کی طرف ، بہرحال یہ اختلاف تنوع کا اختلاف ہے۔ ’موتہ ‘کی ضمیر جس طرف بھی لوٹائی جائے، اس آیت سے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ قرآن اللہ کے رسول پر نازل ہوا اور قرآن فعل مضارع میں لام تاکید با نون ثقیلہ کے ساتھ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ہر کتابی حضرت عیسیٰ کی وفات سے پہلے یا اپنی وفات سے پہلے حضرت عیسیٰ پر ایمان لے کر آئے گا۔ اور ہر کتابی کا مستقبل میںحضرت عیسیٰ پر ایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ حضرت عیسیٰ اس دنیا میں دوبارہ تشریف نہ لے آئیں ۔
کتاب مقدس کی درج ذیل آیات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ خود حضرت مسیح نے بھی اپنی آمد ثانی کے بارے میں اپنے اصحاب کو بتلایا۔کتاب مقدس کے الفاظ ہیں :
’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی۲۴: ۳-۵)
ایک اور جگہ کتاب مقدس میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب وہ زیتون کے پہاڑ پر ہیکل کے سامنے بیٹھا تھا تو پطرس اور یعقوب اور یوحنا اور اندریاس نے تنہائی میں اس سے پوچھا۔ ہمیں بتا یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اس وقت کا کیا نشان ہے؟ یسوع نے ان سے کہنا شروع کیا کہ خبردار کوئی تم کو گمراہ نہ کردے۔ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اورکہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘(مرقس۱۳: ۳-۶)
ایک جگہ کتاب مقدس میں ہے :
’’انھوں نے اس سے پوچھاکہ اے استاد، پھر یہ باتیں کب ہوں گی؟اور جب وہ ہونے کو ہوں اس وقت کا کیا نشان ہے ؟اس نے کہا خبردار!گمراہ نہ ہونا، کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور یہ بھی کہ وقت نزدیک آ پہنچا ہے ۔‘‘(لوقا۲۱: ۷-۹)
ایک اور جگہ کتاب مقدس میں ہے :
’’میں تیرے پاس جلد آنے کی امید کرنے پر بھی یہ باتیں تجھے اس لیے لکھتا ہوں کہ اگر مجھے آنے میں دیر ہو تو تجھے معلوم ہو جائے کہ خدا کے گھر یعنی زندہ خدا کی کلیسیا میں جوحق کا ستون اور بنیاد ہے، کیونکر برتائو کرنا چاہیے۔‘‘(تیمتھیس۳: ۱۴-۱۵)
غامدی صاحب نے جس طرح مسئلۂ موسیقی میں قرآن میں موجود موہوم اشارات کو بنیاد بنا کر کتاب مقدس کی آیات کی صحت کی تصدیق کی اور ان سے موسیقی کے جواز پر استدلال کیا کاش کہ وہ قرآن کے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں واضح بیان کو واضح نہ سہی کم از کم اشارات کا درجہ تو دے دیتے اور اس آیت کی تفسیرمیں جلیل القدر مفسرین سے نہ سہی کتاب مقدس سے ہی استفادہ کر لیتے یا صاحب قرآن کی حضرت عیسیٰ سے متعلقہ احادیث کو بنیاد بنا کر کتاب مقدس کی ان آیات کی صحت کی تصدیق کرتے، اور حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی پر اور کہیں سے نہ سہی، انھی آیات کتاب مقدس سے استدلال کر لیتے اور ایک غلط اصول کو ہی سہی، استعمال کرتے ہوئے ایک صحیح عقیدے تک پہنچ جاتے۔
غامدی صاحب سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگرقرآن کے اشارات سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو سکتی ہے تو قرآن میں تو حضرت عیسیٰ کی آمد کے بارے میں ان اشارات سے بہت قوی اشارات موجود ہیں جو کہ غامدی صاحب مسئلۂ موسیقی کے جواز کے حق میں قرآن سے پیش کرتے ہیں؟ غامدی صاحب سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو کیا صاحب قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی؟ اگر صاحب قرآن کے فرامین سے بھی کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے تو غامدی صاحب کو چاہیے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں مروی روایات کو بنیاد بنا کر وہ کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق کریں جو حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں ہیں۔ اور کتاب الہٰی سے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو ثابت کریں۔اگر ان کے نزدیک صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی تو انھیںاپنے اس اصول کے بارے میں کوئی شرعی دلیل پیش کرنی چاہیے کہ قرآن کے بیان سے تو کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ محفوظ ہیں اور کلام الہٰی ہیںاور صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی۔
شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا
اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رجم بھی زنا کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے ۔شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میںبھی شریعت موسوی کی طرح زناکی مختلف صورتوں کے اعتبار سے مختلف سزائیں مقرر کی گئیں ہیں شریعت محمدیہ میں زنا کی تین سزائیں ہیں: سو کوڑے ،تغریب عام (ایک سال کی جلاوطنی) اور رجم کی سزا۔واقعے کی نوعیت اورصورت حال کے اختلاف کی وجہ سے مختلف احوال میں مختلف سزائیں بیان کی گئیں ہیںاور بعض اوقات زناکے کسی واقعے میں جبر و اکراہ،ظلم وزیادتی ،قباحت اور شناعت کے بڑھ جانے کی وجہ سے دو سزاؤں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ بعض احادیث میں زناکی حد کے طور پر دو سزاؤں کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقہ الواقع کا اختلاف ہے ۔ زنا کی سزا کے حوالے سے یہی وہ اختلاف ہے جو کہ ہمیں مختلف روایات میں ملتا ہے اور شریعت موسوی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ زنا کی سزا کے حوالے سے فقہ الواقع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور مختلف احوال میں واقعے کی قباحت اور شناعت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اسی لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت موسوی میں بھی زنا کی مختلف صورتوں کے لیے مختلف سزائیں بیان ہوئی ہیں جیسا کہ تورات کی ذیل میں بیان شدہ آیات سے پتا چلتا ہے۔ شریعت محمدیہ اور شریعت موسوی، دونوں میں زنا کی ایک مخصوص صورت کی سزا رجم بیان ہوئی ہے اور و ہ صورت یہ ہے کہ اگر شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ایسے زانی کی سزا رجم ہے۔ لیکن غامدی صاحب نے شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ حالانکہ شادی شدہ زانی کے لیے یہ سزا قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی ثابت ہے، فطر ت صحیحہ سے بھی ثابت ہے، عقل سلیم سے بھی ثابت ہے اور کتاب مقدس سے بھی شادی شدہ زانی اور اس قسم کے زنا کے لیے رجم کی سزاثابت ہوتی ہے اوریہ حکم اب بھی کتاب مقدس میں موجود ہے ۔
کتاب مقدس میں ایک جگہ ذکر ہے:
’’پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیںپائے گئے تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اس کے شہر کے لوگ اسے سنگ سار کریں کہ وہ مر جائے، کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحشہ پن کیا۔یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔ یوں تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کواس شہر کے پھاٹک پر نکال لانااور ان کو تم سنگ سار کر دینا کہ وہ مر جائیں، لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہم سایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا ۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔۔۔اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مل جائے جس کی نسبت نہ ہوئی ہو اور وہ اسے پکڑ کر اس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں تو وہ مرد جس نے اس سے صحبت کی ہو لڑکی کے باپ کو چاندی کی پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اس کی بیوی بنے، کیونکہ اس نے اسے بے حرمت کیا اور وہ اسے اپنی زندگی بھر طلاق نہ دینے پائے۔‘‘(استثنائ:۲۰، ۲۲-۲۴،۲۸-۲۹)
زنا کی سزائوں میں سے رجم بھی ایک سزا ہے۔ اس پر آسمانی کتابوں کا اجماع ہے، چونکہ فطرت صحیحہ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ زنا کی بعض صورتوں میں بد ترین بے حیائی اور انسانیت سے خروج پایا جاتا ہے، اس لیے تمام مذاہب میں زنا کی سزائوں میں سے ایک سزا شدید ترین رہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
عن البراء بن عازب قال مر علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیھودی محمما مجلودا فدعاہم فقال ھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ قالوا نعم، فدعا رجلا من علمائھم فقال انشدک باللّٰہ الذی انزل التوراۃ علی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ قال لا ولولا انک نشدتنی بھذا لم اخبرک، نجدہ الرجم ولکنہ کثر فی اشرافنا فکنا اذا اخذنا الشریف ترکناہ و اذا اخذنا الضعیف اقمنا علیہ الحد قلنا تعالوا فلنجتمع علی شیء نقیمہ علی الشریف و الوضیع فجعلنا التحمیم و الجلد مکان الرجم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہم انی اول من احیی امرک اذ اماتوہ فامر بہ فرجم فانزل اللّٰہ عز وجل یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر الی قولہ تعالٰی ان اوتیتم ھذا فخذوہ یقول ائتوا محمدا فان امرکم بالتحمیم والجلد فخذوہ وان افتاکم بالرجم فاحذروا فانزل اللّٰہ ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الکفرون ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الظلمون ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الفسقون فی الکفار کلھا۔(صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب حد الزنا)
’’حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک یہودی کو گزارا گیاجو کوئلے سے کالا کیا گیااور کوڑے کھائے ہوئے تھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلا بھیجااور کہا کہ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میںسے ایک شخص کوبلایااور اس سے کہا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تورات کو حضرت موسیٰ پر نازل کیا،کیا تم اس طرح زانی کی حد اپنی کتاب تورات میں پاتے ہو؟اس یہودی عالم نے جواب دیا: نہیں ،اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو اس کی خبر نہ دیتا، ہماری کتاب میںتو رجم کی سزا ہے، لیکن جب زنا ہمارے عزت دار آدمیوں میں پھیل گیاتو جب ہم کسی امیر آدمی کو اس جرم میںپکڑلیتے توچھوڑ دیتے تھے اور جب کسی کمزور آدمی کو اس جرم میں پکڑ لیتے تو اس پر رجم کی حد جاری کر دیتے ۔تو اس وقت ہم نے کہا کہ ہم سب جمع ہو جائیں اورایک سزا ایسی مقرر کر لیں جو کہ ہم امیر کو بھی دیں اور غریب کو بھی ،تو ہم نے منہ کو کالا کرنا اور کوڑوں کی سزا رجم کے مقابلے میں مقرر کی۔تو اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ، میں سب سے پہلے تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جس کو انھوں نے ختم کر دیا تھا۔ تو آپ نے اس یہودی کے بارے میں حکم دیا اور اس کو رجم کیا گیا۔ اس موقعے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ’یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر‘سے لے کر ’ان اوتیتم ھذا فخذوہ‘ تک آیات نازل فرمائیں۔ یہود یہ کہتے تھے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آؤ اگر وہ تمھیں منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تو ان کی بات مان لینااور اگر وہ تمھیں زانی کے بارے میں رجم کا فتویٰ دیں تو قبول نہ کرنا۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: ’ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الکٰفرون۔۔۔ ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الظلمون۔۔۔، ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الفسقون‘ یہ سب آیات کافروں کے بارے میں اتریں۔ ‘‘
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں :
۱۔ قرآن نے تورات کے حکم رجم کی ’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘ کی آیات نازل کرکے تصدیق فرمائی ہے کہ تورات میں یہ حکم موجود ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
۲۔ حکم رجم کو ’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘ کہہ کرقرآن نے خود بھی حکم رجم کا اثبات کیا۔
ہم غامدی صاحب سے یہی عرض کریں گے کہ ان کے بقول اگرچہ قرآن میں محصن زانی کے لیے رجم کی سزا نہیں ہے، لیکن اس حدیث کو سامنے رکھیں تو علم میں کم از کم اتنا ضرور اضافہ ہوتا ہے کہ موسیقی کے جواز کے اشارات سے زیادہ قوی اور یقینی اشارات قرآن میں رجم کی سزا کے لیے موجود ہیں۔کاش کہ غامدی صاحب اپنے اصول ہی کا اطلاق کرتے ہوئے ان اشارات قرآنی کو سامنے رکھتے اور ان کی روشنی میں تورات میں موجود زنا کی مختلف سزائوں میں سے ایک سزا ’حد رجم‘ کا بھی اثبات کرتے ۔جس کتاب اللہ کے غامدی صاحب قائل ہیں، اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور آج بھی رجم کی سزا کو زنا کی حدودمیں سے ایک حد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تورات کی یہ آیات اس اعتبار سے محفوظ ہیں کہ زنا کی سزائوں میں سے ایک سزا ر جم بھی ہے۔لیکن غامدی صاحب رجم کو زنا کی سزا ماننے سے ہی انکاری ہیں۔
غامدی صاحب کے نزدیک زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ،دونوںصورتوں میں اس کی سزاسو کوڑے ہے،حالانکہ غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن ، کتاب مقدس ، احادیث ، اجماع امت ،فطرت صحیحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ کتنی سادہ سی بات ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت کسی غیر شادی شدہ مرد کے ساتھ زناکی مرتکب ہوتی ہے تو اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی وجہ سے ان کی ایک سزامقرر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ عور ت یا مرد زنا کا مرتکب ہوتا ہے تواب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے اور دوسری طرف اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جائز راستہ ہونے کے باوجود اللہ کی نافرمانی کی۔تیسرایہ کہ خاوند یا بیوی کے حقوق تلف ہوئے اور جذبات مجروح ہوئے۔ چوتھا خاندان کا شیرازہ بکھرنے کی صورتیں جمع ہوئیں۔ ان مفسدات کو پہلی صورت سے کہیں زیادہ بعد حاصل ہے، اسی لیے دوسری صورت کی سزا مختلف رکھی گئی ہے ۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے مغربی ممالک میں بھی ان دونوں قسم کے احوال کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کی سراسر بنیاد ہی عقل و مشاہدہ ہے۔ بہت سارے مغربی ممالک کے قوانین میں بھی زنا کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق کیا گیا ہے۔
شخص دجال کا انکار
تیسرا مسئلہ جو کہ غامدی صاحب کے اصولوں کے مطابق درست ہے، لیکن انھوں نے اس کا انکار کیا ہے ، وہ دجال کی تعیین ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دجال ایک شخص نہیں ہے، بلکہ صفت ہے اور یاجوج ماجوج ہی اصل میں دجال ہے۔ دجال سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے قریب یاجوج وماجوج ہی کے خروج کو دجال کے خروج سے تعبیر کیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج وماجوج کی اولاد، یہ مغربی اقوام،عظیم فریب پر مبنی فکرو فلسفہ کی علم بردار ہیںاور اسی سبب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دجال(عظیم فریب کار ) قرار دیا۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۶، ۶۱)
غامدی صاحب نے دجال کے شخص ہونے کا انکار کیا، حالانکہ دجال کا ایک شخص ہونا اور حضرت عیسیٰ کا اس کوہلاک کرنا واضح طور پر احادیث اور کتاب مقدس میں موجود ہے ۔کتاب مقدس میں ہے :
’’کسی طرح کسی کے فریب میں نہ آنا، کیونکہ وہ دن نہیں آئے گا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہو۔جو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا یا معبود کہلاتا ہے اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے۔یہاں تک کہ وہ خدا کے مقدس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے۔ کیا تمھیں یاد نہیں کہ جب میں تمھارے پاس تھا توتم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا؟اب جو چیزاسے روک رہی ہے تا کہ وہ اپنے خاص وقت پر ظاہر ہو، اس کو تم جانتے ہو ۔کیونکہ بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے، مگر اب ایک روکنے والا ہے اور جب تک کہ وہ دور نہ کیا جائے، روکے رہے گا ۔اس وقت وہ بے دین ظاہر ہو گا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کرے گا اور جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کے ساتھ اور ہلاک ہونے والوں کے لیے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ ہوگی۔‘‘ (تھسلنیکیوں۲: ۳-۱۰)
اگر ہم ذیل میں دی گئی دو احادیث پر غور کریں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دجال کے بارے میں اسی قسم کی تعلیمات دی ہیں جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صحابۂ کرام کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی جیسے کہ وہ اس کے لائق ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا :
انی انذرکموہ و ما من نبی الا انذر قومہ لقد انذرہ نوح قومہ و لکن سا قول لکم فیہ قولا لم یقل نبی لقومہ تعلمون انہ اعور و ان اللّٰہ لیس باعور۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب یعرض السلام علی الصبی)
’’میں تمھیں اس (دجال)سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔یقینا حضرت نوح نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا، لیکن میں تمھیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتا رہا ہوں جو کہ کسی بھی نبی نے اس سے پہلے اپنی قوم کو نہیں بتائی،تم جان لو کہ دجال کانا ہے اور(معاذاللہ) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کانا نہیں ہے ۔‘‘
یہ حدیث دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کر رہی ہے، کیونکہ حدیث میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایااور حضرت عیسیٰ بھی اس میں شامل ہیں ۔ایک دوسری حدیث میں الفاظ ہیں کہ حضرت مجمع بن جاریہ بیان فرماتے ہیں:
سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد۔(سنن ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی قتل عیسٰی ابن مریم الدجال)
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم دجال کو مقام ’لد ‘ پر قتل کریں گے۔‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم دجال کو قتل کریں گے ۔ کتاب مقدس کی مذکورہ بالاآیات اور احادیث مبارکہ سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دجال ایک شخص معین کا نام ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔کتاب مقدس میں ایک اور جگہ ذکر ہے:
’’اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔‘‘ (متی۲۴/ ۲۳-۲۴)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں ایک حدیث بھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ایک دن دجال کے بارے میں ایک لمبی حدیث بیان فرمائی۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ دجال ایک دن مدینہ کا رخ کرے گا، لیکن اس کے لیے شہر مدینہ میں داخلہ ممکن نہ ہوگا اور وہ مدینہ کے باہر قیام کرے گا تو ایک دن اہل مدینہ میں سے ایک انتہائی نیک آدمی اس کے پاس آئے گااور وہ آدمی دجال سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو دجال ہے، تو اس وقت دجال لوگوں سے کہے گا :
ارایتم ان قتلت ھذا ثم احییتہ اتشکون فی الامر فیقولون لا فیقتلہ فیقول حین یحییہ واللّٰہ ما کنت فیک قط اشد بصیرۃ منی الآن قال فیرید الدجال ان یقتلہ فلا یسلط علیہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب فی صفۃ الدجال)
’’بھلاتم دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم پھر بھی میرے بارے میں شک کرو گے تو وہ لوگ کہیں گے نہیں تو اس وقت دجال اس نیک آدمی کو قتل کر دے گا اور جب دجال اس نیک آدمی کودوبارہ زندہ کرے گاتو وہ نیک آدمی اس سے کہے گا: اللہ کی قسم، اب تو مجھے تیرے بارے میں حد درجہ یقین ہو گیا ہے کہ توو ہی مسیح الدجال ہے۔ پس دجال اس آدمی کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا، لیکن کامیاب نہ ہو گا ۔ ‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کی درج بالاآیت کی تصدیق کر رہی ہے کہ دجال ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہو گا۔ بہرحال احادیث دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے علاوہ عیسائی دنیا بھی جس دجال کو اپنی کتابوں کے حوالے سے جانتی ہے وہ ایک معین شخص ہے نہ کہ ایک صفت یا یاجوج ماجوج یا امریکا۔ میرے خیال میں صاحب قرآن کی کتاب مقدس کی آیات کی اس تصدیق کے بعد غامدی صاحب کو شخص دجال کی آمد کا اقرار کر لینا چاہیے۔ احادیث کی بنیاد پر نہ سہی ،کتاب مقدس کی آیات سے ہی سہی۔
اصولیین نے اصول فقہ کی کتابوں میں ’شَرَائع من قبلنا‘ کے عنوان کے تحت یہ بحث کی ہے کہ کیا سابقہ شرائع ادلۂ تشریع میں سے ہیں یا نہیں؟ یعنی کیا ’شرائع من قبلنا‘ امت مسلمہ کے لیے مآخذ شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں یا نہیں؟ اس ساری بحث کا خلاصۂ کلام یہی ہے کہ سابقہ شرائع کے وہ احکامات جو کہ ہماری شریعت میں ثابت یا مذکور ہوں ہمارے حق میں حجت بن سکتے ہیں۔
اول الذکرکے بارے میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ یعنی جو حکم پچھلی شریعتوں میں ثابت ہو اور ہماری شریعت نے بھی اس کا بطور حکم اثبات کیا ہو تو اس پر عمل کرنا ہمارے لیے مشروع ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری شریعت نے اس حکم کا اثبات کیا ہے اور اس کو ہمارے حق میں برقرار رکھا ہے۔
جہاں تک موخرالذکر کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے کہ ایسے احکامات جو پچھلی شریعتوں میں تو بطور حکم موجود تھے، لیکن ہماری شریعت یعنی قرآن و سنت میں ان کا تذکرہ بطور خبر کے ہوا ہے، کیا ایسے احکامات ہمارے حق میں حجت ہیں یا نہیں؟ بعض فقہا کی رائے یہ ہے کہ پچھلی شریعتوں کے ایسے احکامات جو قرآن وسنت میں خبر کے انداز میں بیان ہوئے ہیں، شارع کا ہماری شریعت یعنی قرآن و سنت میں ان احکامات کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمارے حق میں بھی مشروع ہیں جبکہ جمہور فقہا کا موقف یہ ہے کہ ایسے احکامات کا ہماری شریعت میں صرف بیان کر دینا ہی کافی نہیں ہے، جب تک کہ اس بات کی کوئی واضح دلیل نہ مل جائے کہ ان احکامات کو ہمارے حق میں باقی رکھنا شارع کا مقصود ہے، اور یہی مسلک دلائل کی روشنی میں راجح ہے۔ علماے اصول نے اس بحث کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:
پہلی قسم
ایسے احکامات جو پچھلی شریعتوں میں موجود ہیں اور ہماری شریعت نے آکر ان کو منسوخ کر دیا ہے، ان کے بارے میں فقہا کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ان پر عمل کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ مثلاً سجدۂ تعظیمی۔
دوسری قسم
ایسے احکامات جن کا ذکر ہماری شریعت یعنی کتاب و سنت میں نہیں ہے، لیکن پچھلی شریعتوں میں ہمیں ان کا تذکرہ ملتا ہے، احکامات کی اس قسم کے بارے میں بھی فقہا کا اتفاق ہے کہ ایسے احکامات ہمارے لیے کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتے۔
تیسری قسم
ایسے احکامات جن کا تذکرہ پچھلی شریعتوں میں ملتا ہے اور ہماری شریعت میں بھی یہ احکام موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں اس بات کی دلیل بھی ملتی ہے کہ یہ احکامات اسی طرح ہمارے لیے فرض ہیں جیسے کہ پہلی امتوں کے لیے فرض تھے، مثلاً روزہ رکھنا وغیرہ۔ ان احکامات پر عمل کرنا ہمارے حق میں حجت ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے، لیکن ان احکامات پر ہم اس وجہ سے عمل کرتے ہیں کہ ہماری شریعت نے ان کو ہمارے لیے فرض قرار دیا ہے۔ اس قسم کے احکامات کے بارے میں ڈاکٹر عبدالکریم زیدان فرماتے ہیں:
وہذا النوع من الاحکام لا خلاف فی انہ شرع لنا، ومصدر شرعیتہ وحجیتہ بالنسبۃ الینا ہو نفس نصوص شریعتنا۔ (الوجیز، ڈاکٹر عبدالکریم زیدان،۲۶۳)
’’اس قسم کے احکامات بغیر کسی اختلاف کے ہمارے لیے شریعت ہیں، لیکن ان کا ہمارے حق میں شریعت اور حجت ہونا اس وجہ سے ہے کہ یہ ہماری شریعت کی نصوص سے ثابت ہیں۔‘‘
چوتھی قسم
پچھلی شریعتوں کے وہ احکامات جن کا صرف تذکرہ ہماری شریعت میں ملتا ہے، لیکن ہماری شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو کہ اس بات کی طرف رہنمائی کرے کہ یہ احکامات ہمارے حق میں ثابت ہیں یا نہیں، احکامات کی اس قسم کے بارے میں علما کے تین اقوال ہیں:
ا) اکثر علماے احناف اور مالکیہ کے نزدیک یہ احکامات ہمارے لیے حجت ہیں، کیونکہ ان فقہا کے نزدیک ان احکامات کا ہماری شریعت میں مذکور ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان احکامات کو ہمارے حق میں برقرار رکھا ہے۔
ب) شوافع، حنابلہ، اشاعرہ، معتزلہ اور شیعہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ احکامات ہمارے حق میں حجت نہیں ہیں اور اس قول کو امام غزالی، امام رازی، علامہ آمدی، علامہ ابن حزم اور متاخرین علماے اصول نے پسند کیا ہے اور اسی موقف کو جناب غامدی صاحب کے امام امین احسن اصلاحی صاحب نے اختیار کیا۔
ج)بعض اصولیین مثلاً ابن برہان اور ابن قشیری کا کہنا یہ ہے کہ اس بارے میں توقف کیا جائے گا۔
ڈاکٹر عبدالکریم زیدان اصولیین کے اس اختلاف کے بارے میں فرماتے ہیں:
والحق ان ہذا الخلاف غیر مہم، لانہ لا یترتب علیہ اختلاف فی العمل، فما من حکم من احکام الشرائع السابقۃ، قصہ اللّٰہ علینا، او بینہ الرسول لنا، الا وفی شریعتنا ما یدل علی نسخہ او بقائہ فی حقنا سواء جاء دلیل الا بقاء او النسخ فی سیاق النص الذی حکی لنا حکم الشرائع السابقۃ، او جاء ذلک الدلیل فی مکان آخر من نصوص الکتاب والسنۃ۔ (الوجیز، ڈاکٹر عبدالکریم زیدان،۲۶۵)
’’اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اختلاف اتنا اہم نہیں ہے، کیونکہ عملی طور پر اس مسئلے میں کوئی اختلاف مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ پچھلی شریعتوں کا کوئی حکم ایسانہیں ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے قرآن میں بیان کیا ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واضح کیا ہو اور ہماری شریعت میں کوئی نہ کوئی ایسی دلیل مل جاتی ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ حکم ہمارے حق میں منسوخ ہے یا باقی ہے، اور بعض اوقات اس حکم کو باقی رکھنے یا منسوخ کرنے کی دلیل ساتھ ہی مذکور ہوتی ہے اور بعض اوقات کتاب وسنت کی نصوص میں کسی اور جگہ اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔‘‘
اس اعتبار سے حقیقت یہی ہے کہ اصولیین کا یہ اختلاف صرف لفظی ہے، کیونکہ کوئی بھی ایسا حکم نہیں ہے جو کہ سابقہ شرائع کے حوالے سے کتاب وسنت میں بیان ہوا ہو اور اس کے منسوخ ہونے یا باقی رکھنے کی کوئی صراحت نصوص قرآن وسنت میں وارد نہ ہوئی ہو۔ لہٰذا اس مسئلے میں فقہا کی کوئی سی بھی رائے اختیار کر لی جائے ہر صورت میں ہمارے لیے مآخذ و مصدر قرآن و سنت ہی بنتے ہیں نہ کہ کتاب مقدس، جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے۔
پانچویں قسم
’شرائع من قبلنا‘ سے استدلال کے اعتبار سے پانچویں قسم وہ ہے جس کو ہم غامدی صاحب کے حوالے سے سطور بالامیں بیان کر چکے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب مقدس کے احکامات امت مسلمہ کے لیے بھی اسی طرح شریعت کا درجہ رکھتے ہیں جس طرح پچھلی امتوں کے لیے، بشرطیکہ وہ قرآنی مندرجات سے محفوظ ثابت ہو جائیں اور قرآنی مندرجات سے ان کی مراد قرآن کے الفاظ، اشارات ، اور اجمالی بیانات وغیرہ ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک غامدی صاحب اپنے اس بیان میں منفرد ہیں۔ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ قسم بیان نہیں کی جو کہ غامدی صاحب بیان کر رہے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول کے بعد امت مسلمہ کے لیے اصل مآخذ و مصادر قرآن و سنت ہی ہیں۔ سابقہ کتب سماویہ اپنے اپنے ادوار میں اپنی قوموں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ تھیں۔ کتاب مقدس قانون سازی میں ہمارے لیے ماخذ و مصدر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہاں اس حد تک کہنا ٹھیک ہے کہ ’حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج‘ جیسی تعلیمات کے مصداق کے طور پر قوم بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی واقعات اخبارو قصص کی تکمیل کے لیے ہم کتاب مقدس کی عبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن کسی قرآنی واقعے کی تکمیل کے لیے کتاب مقدس سے کیے جانے والے اس استفادے کی بنا پر کوئی حتمی رائے قائم کر لینا ’لا تصدقوا اہل الکتاب ولا تکذبوہم‘ کے منافی ہے۔ جہاں تک احکام میں کتاب مقدس سے استدلال کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی کوئی دلیل نقل و عقل میں نہیں ملتی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ